’’مورخہ ۲۳؍ دسمبر ۵۶ء
جائزہ کمیٹی کی کار گزاری اور اس کے بعد اس کمیٹی کے اس رویہ پر جو اس نے مجلس شوریٰ میں اختیار کیا، خوب غور کرنے کے بعد میں حسب ذیل نتائج پر پہنچا ہوں:-
۱. یہ کمیٹی جسے غیر مطمئن ارکان کے خیالات معلوم کرنے کے لیے مقرر کیا گیا تھا، در اصل خود غیر مطمئن بلکہ انتہائی غیر مطمئن ارکان پر مشتمل تھی. مجلس شوریٰ میں کمیٹی کے ارکان کی تقریروں سے اب یہ بات قطعی طور سے ظاہر ہو چکی ہے کہ ان کے خیالات اور دلائل اور اخذ کردہ نتائج بالکل وہی ہیں یا قریب قریب وہی ہیں جو اس کمیٹی کے سامنے پیش ہونے والے لوگوں میں سب سے زیادہ غیر مطمئن اصحاب کے ہیں.
۲. در حقیقت یہ کسی طرح مناسب نہ تھا کہ ایک ایسی کمیٹی جس کے سپرد اس قدر اہم کام کیا گیا تھا، ایک ہی عنصر اور وہ بھی انتہائی غیر مطمئن عنصر پر مشتمل ہو. لیکن چونکہ کمیٹی مقرر کرتے وقت اس کے ارکان کے خیالات کی اس انتہا پسندی اور شدت کا نہ صرف مجھے بلکہ اکثر ارکان شوریٰ کو کوئی اندازہ نہ تھا اس لیے کسی کو اس کی ترکیب کے غلط ہونے کا احساس نہ ہوا.
۳. میں اس کی کوئی وجہ نہیں سمجھ سکا کہ خود اس کمیٹی کے ارکان نے کسی مرحلہ پر بھی آخر یہ کیوں محسوس نہ کیا کہ اس نازک کام کا کلیۃً ان ہی کے سپرد کرنا اور رہنا کس قدر نا مناسب ہے. یہ تصور کرنا میرے لیے مشکل ہے کہ اس پورے کام کے دوران میں کسی وقت بھی وہ یہ محسوس نہ کر سکے تھے کہ وہ معاملات کو تقریباً ایک ہی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور وہ اس بات سے بھی نا واقف تھے کہ مجلس شوریٰ میں تمام لوگوں کا نقطۂ نظر وہ نہیں ہے جو ان کا اپنا ہے. میرے نزدیک ان کا یہ اخلاقی فرض تھا کہ مجھے اور مجلس شوریٰ کو معاملہ کی اس نوعیت سے آگاہ کر کے خود اس امر کی ضرورت ظاہر کرتے کہ کمیٹی میں دوسرے نقطۂ نظر کے لوگوں کو بھی شامل ہونا چاہیے. مجھے افسوس ہے کہ انہوں نے اس فرض کا نہ احساس کیا نہ اس کو ادا کیا اور نہ مجلس شوریٰ میں اس امر کا اعتراف کیا کہ کمیٹی کی تشکیل میں یہ بنیادی خامی موجود تھی بلکہ شوریٰ کے اجلاس میں جب کبھی اس خامی کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کی طرف سے بڑی تلخی کے ساتھ اس کی مزاحمت ہوئی.
۴. میں یہ قطعی رائے رکھتا ہوں کہ جائزہ کمیٹی کے ارکان نے مجلس شوریٰ کے تجویز کردہ حدودِ کار سے تجاوز کیا، خود اپنے حدود کار کو وسیع کیا اور ان امور کی تحقیقات اپنے ذمہ لے لی، جن کی وہ خود تحقیقات کرنا چاہتے تھے. حالانکہ اگر مجلس شوریٰ کو فی الواقع ان امور کی تحقیقات کرانے کی ضرورت محسوس ہوتی تو وہ کوئی دوسری کمیٹی دوسرے حدودِ کار کے ساتھ اور دوسری ہدایت کے ساتھ مقرر کرتی اور اس کے لیے وہ طریق کار ہرگز اختیار نہ کرتی جو اس کمیٹی نے اختیار کیا. میں امیر جماعت ہونے کی حیثیت سے یہ بات بالکل غیر مبہم انداز میں کہتا ہوں کہ کمیٹی کے تقرر کے وقت میرے ذہن میں ہرگز یہ تصور نہ تھا کہ اس نوعیت کی تحقیقات اس کمیٹی کے سپرد کی جا رہی ہیں، ورنہ میں یہ کام اس طریقہ سے کرنے کے لیے اس کمیٹی کے تقرر پر راضی نہ ہوتا. لیکن مجلس شوریٰ کے اجلاس میں جب میں نے کمیٹی کے کام کی اس دوسری بنیادی خرابی کو بیان کرنے کی کوشش کی تو نہایت تلخ انداز میں اس کی بھی مزاحمت کی گئی بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں میرا منہ بند کرنے کی کوشش کی گئی. میں نے اس وقت یہ محسوس کیا کہ یہ حضرات اب مجلس شوریٰ میں ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں جن میں کوئی دوسرا رکن شوریٰ تو درکنار خود امیر جماعت بھی اپنی رائے آزادی کے ساتھ ظاہر نہیں کر سکتا.
۵. اس کمیٹی نے ساری تحقیقات بالکل ایک مخصوص نقطۂ نظر سے کی اور اپنی رپورٹ میں جماعت کی صرف ایک رخی تصویر پیش کرنے ہی پر اکتفا نہ کیا بلکہ سارے مواد کو اس طرز پر مرتب کیا کہ جن انتہائی نتائج پر وہ مجلس شوریٰ کو پہنچانا چاہتی تھی ان کی تائید اس پورے مواد سے حاصل ہو.
میں نے اس خامی کی طرف بھی مجلس شوریٰ کی توجہ دلانے کی کوشش کی کیونکہ میں محسوس کر رہا تھا کہ رپورٹ کی اس مخصوص ہیئت سے بحیثیت مجموعی مجلس شوریٰ کے ذہنی توازن پر برا اثر پڑ سکتا ہے. اور وہ اس کے تحت غلط فیصلے کر سکتی ہے. لیکن اس خدمت کی انجام دہی سے بھی جو دیانۃً امیر جماعت ہونے کی حیثیت سے میرا فرض تھا، مجھے اس تلخی کے ساتھ روکا گیا اور میں نے محسوس کیا کہ جتھہ بندی کر کے میرے لیے وہ حالات پیدا کئے گئے ہیں، جن میں‘ میں امیر جماعت کے فرائض انجام دینے کے بجائے بعض مخصوص لوگوں کا آلۂ کار اور ان کے اشاروں پر چلنے والا بن کر رہوں.
۶. اس صورت حال کو دیکھ کر میرے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا کہ یا تو امارت سے مستعفی ہو جاؤں یا جماعت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کا خطرہ مول لے کر اپنے فرائض اس سختی کے ساتھ انجام دوں جو ایسے حالات میں ایک فرض شناس امیر جماعت کو اختیار کرنی چاہیے. میں نے جماعت کی بہتری اسی میں سمجھی تھی کہ پہلی صورت اختیار کروں چنانچہ میں نے استعفاء پیش بھی کر دیا. مگر افسوس ہے کہ اسے قبول نہ کیا گیا اور مجھے مجبور کر دیا گیا کہ یا تو میں دوسری صورت اختیار کروں یا پھر مجلس شوریٰ کو ان غلط نتائج پر پہنچ جانے دوں جن پر یہ حضرات اسے اپنی جتھہ بندی کے ذریعہ پہنچانا چاہتے تھے. اور مزید بر آں ان نتائج کو جماعت میں نافذ کرنے کی ذمہ داری بھی اپنے سر لوں.
۷. مجلس شوریٰ میں ان لوگوں کے غلط رویہ کی وجہ سے جس میں ضد، بے جا اصرار، شدت اور جتھہ بندی کے سارے عناصر پائے جاتے تھے، آپ سے آپ ان ارکان شوریٰ کے اندر بھی ایک مخالف پارٹی کی سی کیفیت پیدا ہو گی جو ان کے ہم خیال نہ تھے. اس طرح جماعت اسلامی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جماعت کے اندر جماعتیں بننے کا عملاً آغاز ہو گیا، جسے اگر اسی وقت نہ روکا گیا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ تحریک اور جماعت بہت برے انجام سے دوچار ہو گی.
۸. یہ بھی جماعت کی تاریخ میں پہلا ہی موقع ہے کہ مجلس شوریٰ کے اندر ایک جتھہ نے اپنی شدت، ہٹ اور مشترک کوشش بلکہ جماعت میں تفریق برپا ہو جانے کے خطرے کا دباؤ ڈال کر امیر جماعت اور بقیہ ارکان شوریٰ سے اپنی بات منوانے اور پھر بالآخر ایک مصالحتی فارمولا طے کرنے کا طریقہ اختیار کیا اور اس طرح ’’مصالحتی فارمولا‘‘ میں کچھ چیزیں اس طرح داخل کرانے کی کوشش کی کہ گویا یہ ان کی طرف سے جماعت کے اندر رہنے یا جماعتی تفریق کی سعی سے باز رہنے کی شرائط ہیں، جن سے ہٹنے کے لیے وہ تیار نہیں ہیں. میں اسے جماعت اسلامی کی بد قسمتی کا آغاز سمجھتا ہوں اور مجھے اندیشہ ہے کہ اس رجحان کی ہمت افزائی کی گئی تو یہ جماعت خراب ہو کر رہے گی.
۹. میں یہ رائے تو قطعاً نہیں رکھتا بلکہ مجھے اس کا شبہ بھی نہیں ہے کہ جائزہ کا یہ پورا کام اور مجلس شوریٰ میں جائزہ کمیٹی کے ارکان کا کردار ایک دانستہ سازش کا نتیجہ تھا. لیکن میرا احساس یہ ہے کہ اس سے عملاً نتائج وہی بر آمد ہوئے ہیں جو ایک دانستہ سازش سے بر آمد ہو سکتے تھے اور اب نہیں تو آئندہ اس سے جماعت اسلامی میں نجویٰ اور سازشی طریق کار اور جتھہ بندی اور جتھوں کی کشمکش کا دروازہ کھل جائے گا. جو طریق کار کمیٹی کے ارکان نے اختیار کیا اس سے عملاً معاملہ کی جو صورت بنی ہے وہ یہ ہے کہ اپنی بات منوانے کے لیے مجلس شوریٰ میں آنے سے پہلے انہوں نے جماعت کے فراہم کئے ہوئے موقع سے فائدہ اٹھا کر پوری جماعت میں اپنے ہم خیال لوگ ڈھونڈے. ان کا ایک جتھہ مجلس شوریٰ کے باہر تیار کیا. ان کے انفرادی خیالات و نظریات کو جمع کر کے ان کا ایک اجتماعی مقدمہ بنا دیا. اس مقدمہ کی پشت پر جماعت کے ان سارے لوگوں کی شکایات و اعتراضات کو جمع کیا جن کے وہم و گمان میں بھی اس خاص مقدمہ کو مضبوط کرنے کا تخیل نہ تھا. پھر اس سر وسامان سے لیس ہو کر یہ حضرات یکایک مجلس شوریٰ کے سامنے ایک پارٹی کی صورت میں نمودار ہوئے اور پوزیشن یہ اختیار کی کہ ان کے نظریات صرف ان ہی کے نظریات نہیں ہیں بلکہ باہر غیر مطمئن لوگوں کی ایک کثیر تعداد ان کی پشت پر موجود ہے لہٰذا یا مجلس شوریٰ اس راستہ پر چلے جس پر وہ اسے چلانا چاہتے ہیں ورنہ جماعت میں ایک بڑی پھوٹ پڑ کر رہے گی. اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ چال چلنے کا ارادہ کیا گیا تھا یا نہیں مگر مجلس شوریٰ کو اور خود مجھے جس صورت واقعی سے دوچار ہونا پڑا وہ یہی تھی اور اس کا اثر ایک دانستہ سازش سے کچھ بھی مختلف نہ تھا.
ان امور پر غور کرنے کے بعد میں اس قطعی رائے پر پہنچ چکا ہوں کہ میرے لیے مجلس شوریٰ میں ان ارکان کے ساتھ کام کرنا بالکل نا ممکن ہے جن پر جائزہ کمیٹی مشتمل تھی. بعض اور حضرات کا رویہ بھی میرے لیے نا قابل برداشت ہو چکا ہے مگر ان کا نوٹس میں بعد میں لوں گا. سر دست جائزہ کمیٹی کے ارکان کے معاملہ میں دو صورتیں تجویز کرتا ہوں.
اول یہ کہ وہ خود مجلس شوریٰ کی رکنیت سے مستعفی ہو جائیں.
دوم یہ کہ میرے اس نوٹ کو ان کے حلقہ انتخاب میں ارکان تک پہنچا دیا جائے اور ان سے کہا جائے کہ اگر وہ مجھ سے امارت کی خدمت لینا چاہتے ہیں تو اپنے ان نمائندوں کو واپس لے کر دوسرے نمائندے منتخب کریں.
قیم جماعت کو میں ہدایت کرتا ہوں کہ اس نوٹ کی نقلیں ان چاروں حضرت کو بھیج دیں اور ان سے درخواست کریں کہ آئندہ حلقہ وار اجتماعات سے پہلے وہ مرکز کو اطلاع دیں کہ وہ ان دونوں صورتوں میں سے کس کو پسند کرتے ہیں. اگرچہ غازی صاحب آخر تک مجلس شوریٰ کی کارروائیوں میں شریک نہیں رہے ہیں اور اس بنا پر وہ ان تمام باتوں کے ذمہ دار قرار نہیں دیئے جا سکتے جن کا ذکر پیراگراف نمبر چھ سے نمبر ۹ تک کیا گیا ہے لیکن باقی امور کی ذمہ داری میں وہ بھی برابر کے شریک ہیں.
میری طرف سے ان چاروں حضرات کو پورا اطمینان دلا دیا جائے کہ آنے والے حلقہ وار اجتماعات میں ان کو ارکان جماعت کے سامنے اپنے خیالات کو پیش کرنے کا کھلا اور آزادانہ موقع دیا جائے گا. اگر وہ ارکان جماعت کو یا ان کی اکثریت کو ہم خیال بنانے میں کامیاب ہو جائیں تو انشاء اللہ جماعت کی قیادت ان کی طرف منتقل ہونے میں ذرہ برابر بھی رکاوٹ پیش نہ آئے گی لیکن اگر وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکیں تو یہ فیصلہ کرنا ان کا اپنا کام ہو گا کہ آیا وہ مطمئن ہو کر اس جماعت کے ساتھ چل سکتے ہیں یا نہیں. مطمئن نہ ہونے کی صورت میں ان کے لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ جماعت سے الگ ہو کر جس طریقہ پر خود کام کرنا صحیح سمجھتے ہوں اس پر عمل کریں. اس جماعت کے اندر نظریات کی کشمکش برپا کرنے کا حاصل اس کے سوا کچھ نہ ہو گا کہ نہ وہ خود دین کی کوئی خدمت کر سکیں گے اور نہ جماعت کے دوسرے لوگ ہی کسی خدمت کے قابل رہ جائیں گے. میں توقع رکھتا ہوں کہ اس جماعت کو خراب کرنا کسی غیر مطمئن رکن جماعت کی نگاہ میں بھی کوئی خدمت دین تو نہ ہو گا‘.
(دستخط) ابو الاعلی
ٰ ۲۳؍ دسمبر ۵۶ء