ارکان جائزہ کمیٹی کے نام مولانا مودودی صاحب کا یہ ’’الزام نامہ‘‘ نہ صرف ’’جمہوریت‘‘ اور ’’شورائیت‘‘ اور عدل و انصاف بلکہ راست معاملگی (FAIR DEALING) تک کی نفی کامل تھا. اس کے بین السطور سے مولانا موصوف کی جو ذہنی کیفیت سامنے آتی ہے اور ان کا جو طرز عمل ظاہر ہوتا ہے وہ شاید اس بدنامِ زمانہ ماہر علم سیاسیات کی روح کے لیے تو موجب مسرت و شادمانی ہوا ہو جسے دنیا میکیا ویلی کے نام سے یاد کرتی ہے. باقی جس کے علم میں بھی یہ ’’حکم نامہ‘‘ آیا وہ حیران و پریشان اور ششدر و مبہوت ہوکر رہ گیا ! ارکان جائزہ کمیٹی کے لیے تو یہ اتنی شدید ذہنی و روحانی کرب و اذیت کا موجب تھا ہی جس سے وہ ایک صدمے کی سی حالت سے دوچار ہو گئے 

خود مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کے علم میں جب یہ آیا تو ان پر سکتہ طاری ہو گیا اور خود ان کی اس زمانے کی بیان کی ہوئی تفصیل کے مطابق، ان کا یہ حال ہو گیا کہ جیسے ایک دم ہاتھ پیر جواب دے گئے ہوں. تقریباً سولہ سترہ سال جس جماعت کے لیے اپنی صلاحیتوں اور اوقاتِ عزیز کا اکثر و بیشتر حصہ صرف کیا تھا اچانک اس کا یہ انجام نگاہوں کے سامنے آیا کہ جیسے یہ اب منتشر ہوا چاہتی ہے اور ایک شخص کی زخم خوردہ انا، طیش میں، اس کے شیرازے کو منتشر کرنے پر تُل گئی ہے. مولانا اُن دنوں فرمایا کرتے تھے کہ بار بار خیال آتا تھا کہ جاؤں اور مولانا مودودی کو سمجھاؤں کہ وہ اس اقدام سے باز آ جائیں، پھر سوچتا تھا کہ ان کی اس تحریر کے بعد اصلاح کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا. مولانا کے اپنے الفاظ میں: 
’’میں وہ ہوں کہ میری آنکھیں انتہائی تاریکی میں بھی روشنی ڈھونڈھ نکالتی ہیں، لیکن اس وقت مجھے بھی روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آتی‘‘. 

بارہا ایسا ہوا کہ مولانا اصلاحی صاحب نے مولانا مودودی سے ملنے کو جانے کے لیے کپڑے تبدیل کر لیے پھر مایوسی کا غلبہ ہوا اور جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا. آخر کار کسی نہ کسی طرح ہمت کر کے مولانا اصلاحی صاحب نے دو ایک ملاقاتوں میں، مولانا مودودی کو اس اقدام کی غلطی اور ہلاکت آفرینی کی جانب متوجہ کیا. مولانا مودودی ہر بار مزید غور کرنے کا وعدہ کر کے ٹالتے رہے. چند دن بعد جب مولانا اصلاحی صاحب کو یہ معلوم ہوا کہ جائزہ کمیٹی کے ایک رکن جن کو کسی وجہ سے اب تک ’’الزام نامہ‘‘ نہیں پہنچایا جا سکا تھا، ان کو بھی پہنچا دیا گیا، تو پھر مجبوراً مولانا اصلاحی صاحب نے اپنا وہی قلم جو ایک طویل عرصے سے مولانا مودودی کی حمایت اور ان کی جانب سے مدافعت میں استعمال ہوتا رہا تھا، اٹھایا اور ایک ماہر دستور و قانون کی حیثیت سے مولانا مودودی کے اس الزام نامے کا ’’محاکمہ‘‘ تحریر کیا یہ طویل تحریر اس قابل ہے کہ تاریخ کے صفحات میں محفوظ رہے اس لیے من و عن درج ہے:

’’محترم امیر جماعت اسلامی، السلام علیکم و رحمۃ اللہ
قیم جماعت اسلامی نے آپ کا جو نوٹس آپ کے دستخط کے ساتھ جائزہ کمیٹی کے ارکان کے نام ۲۵؍ دسمبر ۵۶ء کو بھجوایا ہے اس کے متعلق میں آپ سے ملاقات کر کے اپنے خیالات زبانی آپ کی خدمت میں پیش کر چکا ہوں. آپ نے مجھ سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ آپ غور کر کے اپنے جوابات سے مجھے آگاہ فرمائیں گے. چونکہ آپ کا یہ اقدام نہایت اہم اور دور رس نتائج کا حامل ہے اس وجہ سے میں نے گذارش کی تھی کہ آپ جس قدر جلدی ممکن ہو سکے، مجھے اپنے جواب سے آگاہ فرمائیں گے لیکن ایک ہفتہ سے زیادہ مدت گزر جانے کے بعد بھی نہ تو مجھے آپ کا جواب ہی معلوم ہو سکا نہ بظاہر آپ نے اپنے اٹھائے ہوئے قدم کو واپس ہی لیا اور نہ وہ افسوسناک پروپیگنڈہ ہی بند ہوا جو شوریٰ کے فیصلے کے خلاف آپ کے مرکزی اسٹاف، بعض ارکانِ شوریٰ اور بعض امرائے حلقہ کی طرف سے جماعتی حلقوں میں جاری ہے اور جس سے نہ صرف فیصلہ کے خلاف بلکہ شوریٰ کے بہت سے ایسے ارکان 
کے خلاف ایک مخالفانہ فضا تیار کی جا رہی ہے جن کی ثقاہت، جن کی اصابت رائے اور جن کے اخلاص و تقویٰ پر جماعتی حلقوں میں کبھی کسی کو شبہ نہیں ہوا. میں آپ کی اس خاموشی کو اس بات پر محمول کرتا ہوں کہ میری معروضات آپ کا ذہن تبدیل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں اور آپ نہ صرف یہ کہ اپنا فیصلہ بدلنے پر راضی نہیں ہیں بلکہ مجھے کسی جواب کا مستحق بھی خیال نہیں فرماتے ہیں. 

اگرچہ اپنے اور جماعت کے ایک دیرینہ خادم کے ساتھ آپ کی یہ بے اعتنائی ایک افسوسناک بات ہے اور دل نہیں چاہتا کہ اس بارے میں کچھ مزید عرض کروں لیکن جماعت اور امیر کے ساتھ خیر خواہی کا جو عہد میں نے اپنے رب کے ساتھ کیا ہے وہ مجھے مجبور کر رہا ہے کہ جو کچھ میں جماعت کے لیے اور خود آپ کے لیے حق اور بہتر سمجھتا ہوں اس کو آپ کی خدمت میں پیش کر دوں. اب تک جو کچھ میں عرض کرتا رہا ہوں وہ زبانی عرض کرتا رہا ہوں لیکن اب کے میں نے تحریر کا راستہ اختیار کیا ہے کہ شاید اس طرح میں اپنی بات زیادہ بہتر طریقہ پر پیش کر سکوں.
میں نے آپ کے مذکورہ نوٹس (جس کو اس کے مزاج اور انداز کے لحاظ سے ایک فرمان کہنا شاید بے جا نہ ہو) کو گھر پر آ کر دوبارہ پڑھا اور اس کے تمام پہلوؤں پر بار بار غور کیا. اس بار بار کے غور و فکر کے بعد بھی میری رائے وہی ہے جو میں آپ سے زبانی عرض کر چکا ہوں. میرے نزدیک آپ کا یہ پورا نوٹس استدلال و استنتاج کے لحاظ سے بالکل غلط، مصالح کے اعتبار سے جماعت کے لیے نہایت مہلک، عدل و انصاف کے لحاظ سے یہ ان کے ابتدائی تقاضوں کے احترام سے بھی خالی ہے اور دستوری و آئینی نقطۂ نظر سے تو جب میں اس پر غور کرتا ہوں تو مجھے ایسا نظر آتا ہے کہ ہم جو اسلامی جمہوریت و شورائیت کی ایک مثال قائم کرنے کا حوصلہ لے کر اٹھے تھے، ابھی اس کی پہلی جھلک بھی ہم کو دیکھنی نصیب نہیں ہوئی تھی کہ شاید ہمارے جی اس سے بھر چکے اور ہم اس کی جگہ پر ایک ایسی فسطائیت کا تجربہ کرنے کا شوق رکھتے ہیں جس کی نظیر کم از کم ماضی و حاضر میں تو کوئی اور نہ مل سکے. جب میں آپ کے نوٹس کے اس پہلو پر غور کرتا ہوں تو دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ شاید 
اسلامی جمہوریت اور شورائیت کی شان میں اپنی تحریروں میں ہم اب تک جو قصیدہ خوانیاں کرتے رہے ہیں وہ محض مشق سخن کے طور پر تھیں یا محض اپنے ملک کے ارباب اقتدار کو ہدف ملامت بنانے کے لیے. ورنہ اس اقدام سے پہلے آپ اس سوال پر ضرور غور کرتے کہ آپ کے اس اقدام کے بعد اس شوریٰ اور دستور کا کیا حشر ہو گا جس پر ہم نے جماعت کی عمارت کھڑی کی تھی. 

اب میں آپ کے اس نوٹس کے ایک ایک جزو پر اختصار کے ساتھ وہ باتیں عرض کرتا ہوں جو کم و بیش زبانی آپ کے سامنے عرض کر چکا ہوں اور مقصود اس گذارش سے، جیسا کہ عرض کر چکا ہوں‘ محض یہ ہے کہ ایک شدید ترین غلطی پر جو جماعت کے لیے بالکل تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے، آپ کو متنبہ کروں. 

۱. آپ نے اس نوٹس کے نمبر ۱‘ اور نمبر ۲ کے تحت جو کچھ فرمایاہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جائزہ کمیٹی، جو غیر مطمئن ارکان کے خیالات معلوم کرنے کے لیے مقرر کی گئی تھی در اصل خود غیر مطمئن بلکہ انتہائی غیر مطمئن ارکان پر مشتمل تھی، اس اہم کام کے لیے اس طرح کی کمیٹی کا مقرر کیا جانا کسی طرح مناسب نہ تھا لیکن چونکہ کمیٹی مقرر کرتے وقت ان ارکان کی اس بے اطمینانی اور ان کی انتہا پسندی کا نہ ارکان شوریٰ کو اندازہ تھا اور نہ آپ کو، اس لیے کسی کو اس کی ترکیب کے غلط ہونے کا اندازہ نہیں ہوا.

مجھے جائزہ کمیٹی کے ارکان پر آپ کا یہ تبصرہ مختلف پہلوؤں سے عجیب و غریب معلوم ہوتا ہے.

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ارکان، جماعت میں کوئی نو وارد ارکان نہیں تھے بلکہ ان میں سے تین تو وہ ہیں جو غالباً ابتدا سے یا کم از کم تقسیم کے پہلے سے نہ صرف جماعت کے رکن ہیں بلکہ ہر مرحلہ میں مجلس شوریٰ میں آپ کے ساتھی اور رفیق رہ چکے ہیں. ایک صاحب اگر ابتداء سے نہیں تو کم از کم آٹھ نو سال سے تو جماعت میں ضرور ہیں اور اس دوران میں ان کی زندگی کا بڑا حصہ ایسا گزرا ہے جس میں شوریٰ میں ہم ان کے نظریات و خیالات کا برابر تجربہ کرتے رہے ہیں. پھر ان میں سے دو وہ ہیں جو نہ صرف جماعت کی تمام اہم ذمہ داریوں 
کے اٹھانے میں آپ کے دست و بازو رہے ہیں بلکہ انہوں نے نہایت نازک ادوار میں جماعت کی امارت کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور ایسی خوبی سے نبھائی ہیں کہ پوری جماعت نے ان کے استقلال، ان کی اصابت رائے اور ان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے. ان میں سے مولانا عبد الغفار حسن صاحب ابھی چند ماہ ہوئے ہیں آپ کے سفر حج کے موقع پر، خود آپ ہی کے انتخاب سے، جماعت کے قائم مقام امیر رہ چکے ہیں نیز آپ کے شعبۂ تربیت کے ناظم اور شوریٰ کی مقرر کردہ ایک اہم عدالت کے صدر ہیں. اگر اتنی گونا گوں آزمائشوں سے گزرنے کے بعد بھی آپ اور ارکان شوریٰ اپنے ان دیرینہ رفیقوں کی ’’شدت‘‘ ، ’’انتہا پسندی‘‘ اور ان کی ’’انتہائی بے اطمینانی‘‘ کا کوئی اندازہ نہ کر سکے تو میں نہایت ادب سے عرض کروں گا کہ ہمیں ان ارکان کی بے اطمینانی پر افسوس کرنے کی بجائے خود اپنے کو دن ہونے پر سر پیٹنا چاہیے. 

اطمینان و بے اطمینانی اور شدت و انتہا پسندی ایسے اوصاف نہیں ہیں جو صبح و شام کے اندر پیدا ہوتے اور ختم ہوتے ہوں. بالخصوص ان لوگوں کے اندر جو اپنی زندگی کے تلون کے زمانے گزار چکے ہوں اور جماعت کی خدمت میں جن کے سیاہ بال اب یا تو سفید ہو چکے ہیں یا سفید ہو رہے ہوں ایسے آزمودہ لوگوں کے بارے میں آپ کا یہ کہنا کہ نہ صرف آپ کو بلکہ شوریٰ کے دوسرے ساتھیوں کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ لوگ انتہائی غیر مطمئن اور انتہا پسند ہیں، جب ان لوگوں نے جائزہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کی ہے تب یہ انکشاف ہوا کہ یہ لوگ سخت غیر مطمئن اور انتہا پسند تھے. آخر کس معقول آدمی کے ذہن میں یہ بات اتر سکتی ہے؟

دوسری بات یہ ہے کہ جائزہ کمیٹی کوئی ایسی کمیٹی نہیں تھی جو دفعتاً بنی ہو اور آناً فاناً اس نے اپنا کام ختم کیا ہو اور پھر رپورٹ پیش کر کے فارغ ہو بیٹھی ہو کہ اس کے ارکان کے متعلق روا روی میں کوئی صحیح رائے قائم نہ کی جا سکی ہو اور اس سبب سے اس کی ترکیب بالکل غلط ہو گئی ہو. اس قطرہ کے گہر ہونے پر تو ایک مدت گزری ہے اور اس کے پیچھے ایک پوری تاریخ بن چکی ہے. اس کمیٹی کا تقرر کراچی کے اجتماع سالانہ (۱۹۵۵ء) کے موقع پر ہوا تھا لیکن اس کے کام شروع کرنے سے پہلے ہی راولپنڈی اور لائل پور کے حلقوں کے بعض مخصوص 
لوگوں نے اس کمیٹی کے بعض ارکان کے خلاف اعتراضات اٹھائے کہ وہ چنیں ہیں اور چناں ہیں اور افسوس ہے کہ ان کی اس مہم میں بعض ذمہ دارانِ مرکز بھی شریک ہو گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مارچ ۵۶ء کی شوریٰ میں یہ کمیٹی توڑ دی گئی اور اس کی جگہ پر آپ نے اور پوری شوریٰ نے بسلامتی ہوش و حواس ایک دوسری جائزہ کمیٹی مقرر کی جو تمام غیر مطلوب عناصر سے پاک تھی. اس کے ارکان پورے اتفاق رائے سے منتخب کئے گئے. مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ غازی صاحب اور حکیم عبد الرحیم اشرف صاحب کسی طرح بھی اس کمیٹی میں شریک ہونے پر راضی نہیں تھے لیکن ان کو شوریٰ اور آپ کی طرف سے راضی کیا گیا اور سلطان صاحب تو شوریٰ میں موجود بھی نہیں تھے، ان کا انتخاب ان کی عدم موجودگی ہی میں ہوا. مجھے یہ بات اچھی طرح یاد ہے کہ اس کمیٹی کے حدودِ کار بھی آپ نے خود قلمبند کرائے. لیکن ان تمام ترمیمات و اصلاحات کے بعد بھی جو اصحاب پہلی کمیٹی سے مطمئن نہیں تھے وہ اس دوسری کمیٹی پر بھی مطمئن نہیں ہوئے اور اس کے خلاف مہم چلاتے رہے اور افسوس ہے کہ نہ معلوم کن مصالح کے تحت خود مرکز کے بعض ذمہ دار حضرات اس مرتبہ بھی اس مہم کو تقویت پہنچانے میں شریک ہو گئے جس کا اثر یہ ہوا کہ اس کمیٹی کو مختلف حلقوں میں طرح طرح کی بد گمانیوں کا مقابلہ کرنا پڑا اور اس کے کام میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں. ایک ایسی کمیٹی جو اتنے مراحل سے گزری ہو، جو اتنے پرانے ارکانِ جماعت پر مشتمل ہو، اس کے متعلق یہ کہنا کہ اس کے ارکان کا کوئی صحیح اندازہ نہیں تھا میرے نزدیک کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے. آخر سلطان احمد صاحب، غازی محمد عبد الجبار صاحب، مولانا عبد الغفار حسن صاحب اور حکیم عبد الرحیم اشرف صاحب سے جماعت کا کون شخص بے خبر ہو سکتا ہے. نہ عام ارکان ان سے بے خبر ہیں اور نہ ارکان شوریٰ اس وجہ سے یہ کہنا تو میرے نزدیک بالکل ہی غلط ہے کہ ان کاکوئی اندازہ نہیں تھا البتہ اگر آپ کہہ سکتے ہیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ لوگ ایک متفقہ رپورٹ پیش کریں گے اور یہ رپورٹ اس طرح کا مواد پیش کرے گی جو اس نے پیش کیا ہے. 

تیسری بات یہ ہے کہ کمیٹی کے ارکان کا غیر مطمئن ارکان جماعت کی رائے سے متفق 
ہونا اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ لازماً وہ سب کے سب پہلے ہی سے غیر مطمئن ہوں. ہو سکتا ہے کہ ان میں سے بعض جماعت کے حالات کے بارے میں پوری طرح مطمئن رہے ہوں یا کم از کم یہ کہ کچھ زیادہ غیر مطمئن نہ رہے ہوں لیکن پوری تحقیقات کے بعد ان کے سامنے جو مواد آیا ہو اس نے ان کو غیر مطمئن بنا دیا ہو. کم از کم دو کے بارے میں تو میرا تاثر یہی ہے کہ وہ کچھ زیادہ غیر مطمئن نہ تھے. بلکہ دوسرے بہت سے محتاط ارکان کی طرح وہ صرف یہ سمجھ رہے تھے کہ جماعت کے اندر کچھ غلط رجحان پرورش پا رہے ہیں جو متعین شکل میں ان کے سامنے نہیں تھے، لیکن جائزہ کے بعد جو حالات ان کے سامنے آئے وہ ان کو دیکھ کر واضح طور پر یہ سمجھ سکے کہ در حقیقت صورتحال کیا ہے؟. یہ بے اطمینانی ایک بالکل قدرتی چیز ہے جو اس رپورٹ کے پیش کردہ مواد سے ہر اس رکن شوریٰ کے دل میں پیدا ہوئی جس نے اس کا مطالعہ بغیر کسی بد گمانی کے کیا. 

چوتھی بات یہ ے کہ اپنی رپورٹ کو پیش کرتے وقت جائزہ کمیٹی کے ارکان کا ایک ہی نقطۂ نظر کے ساتھ مجلس شوریٰ کے سامنے نمایاں ہونا کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر ان کو مطعون کیا جائے اور اس بنیاد پر ان کو سازشی قرار دے کر ان کو سزا دی جائے. اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ ہم اس بات کے خواہشمند تھے کہ وہ آپس میں اختلاف کریں لیکن جب انہوں نے اختلاف نہیں کیا تو ہم ان سے بد گمان ہو بیٹھے کہ انہوں نے کوئی سازش کر ڈالی ہے. حالانکہ ان کا اتفاق جس چیز پر ہے وہ صرف اس مواد کے پیش کر دینے پر ہے جو جائزہ کے بعد ان کے سامنے آیا ہے یا اس بات پر ہے کہ جماعت کی موجودہ حالت کسی طرح بھی قابل اطمینان نہیں ہے اور یہ ایک ایسی بات ہے جس پر ایک دو ارکان شوریٰ کے سوا سب ہی ان کی رائے سے متفق ہیں جہاں تک موجودہ خرابیوں کے اسباب کا تعلق ہے اس سے سرے سے انہوں نے کوئی بحث ہی نہیں کی کہ اس بارے میں ان کا اتفاق یا اختلاف ہمارے سامنے آ سکتا. جماعت کی پالیسی سے متعلق انہوں نے جو تقریریں کیں اس سے صاف معلوم ہوا کہ اس بارے میں وہ باہم متفق نہیں ہیں. غازی صاحب کی رائے تو ان کی علالت کے باعث ہمارے سامنے آ ہی نہ سکی، رہے سلطان احمد صاحب، مولانا عبد الغفار 
حسن صاحب اور حکیم عبد الرحیم اشرف صاحب تو انہوں نے جو تقریریں کیں اس سے یہ اندازہ ہوا کہ یہ تینوں الگ الگ نقطہ ہائے نظر رکھتے ہیں. عبد الرحیم اشرف صاحب کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ تقسیم ملک کے بعد ہم اپنے اصلی نصب العین سے منحرف ہو گئے ہیں لیکن بقیہ دونوں ارکان نے کسی انحراف کو تسلیم نہیں کیا، صرف بعض تدابیر کو غلط قرار دیا اور شوریٰ نے اسی نقطۂ نظر سے اتفاق کیا. شوریٰ کے اتفاق کے بعد حکیم صاحب بھی اس سے متفق ہوگئے اس وجہ سے یہ کہنا کہ وہ ایک جتھہ بندی کر کے سامنے آئے میرے نزدیک صحیح نہیں ہے. بالفرض ایک رائے پر وہ متفق بھی ہوتے جب بھی اس کو جتھہ بندی نہیں کہہ سکتے. اس اتفاق کو جتھہ بندی وہی شخص کہہ سکتا ہے جو ان کے اختلاف کا متمنی رہا ہو، لیکن جب اس کی یہ تمنا پوری نہ ہوئی تو اس نے ان پر جتھہ بندی کا الزام جڑ دیا. 

۲. آپ کا یہ کہنا بھی مجھے عجیب معلوم ہوتا ہے کہ خود جائزہ کمیٹی کے ارکان کا یہ فرض تھا کہ وہ آپ کو اس امر سے آگاہ کرتے کہ وہ ایک ہی طرز فکر رکھنے والے لوگ ہیں، اس وجہ سے اس کمیٹی میں دوسرے طرز فکر کی نمائندگی بھی ہونی چاہیے. جب بار بار کے توڑ پھوڑ کے باوجود خود آپ کو اور مجلس شوریٰ کو بھی آپ کے بقول یہ اندازہ نہ ہو سکا کہ یہ ایک ہی طرز فکر کے لوگ ہیں تو خود جائزہ کمیٹی کے ارکان کو بھی اگر یہ اندازہ نہ ہو سکا کہ ہم ایک ہی طرز فکر کے لوگ ہیں تو کیا عجیب بات ہے. ممکن ہے جس طرح آپ کو ان کی رپورٹ ہی سے پہلی بار اندازہ ہوا کہ یہ سب ایک ہی سانچہ کے ڈھلے ہوئے نکلے اسی طرح انہیں بھی اپنی رپورٹ مرتب کرتے ہی وقت یہ علم ہوا ہو کہ الحمد للہ ہم میں اس رپورٹ کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے. ایسی حالت میں وہ پہلے سے آپ کو کس طرح بتا دیتے کہ ہم ایک ہی طرز فکر کے لوگ ہیں، مبادا ہم کوئی سازش یا جتھہ بندی کر ڈالیں، اس وجہ سے ہمارے ساتھ کچھ دوسرے طرز کے لوگوں کو بھی شامل کیجئے. علاوہ ازیں میں اس حقیقت سے بھی آگاہ کر دینا چاہتا ہوں کہ جائزہ کمیٹی کی تشکیل کرتے ہوئے نہ شوریٰ نے پہلی مرتبہ اس حقیقت کو نظر انداز کیا تھا کہ اس کمیٹی میں شوریٰ کے ہر طرز فکر کی نمائندگی ہونی چاہیے اور نہ دوسری مرتبہ اس کو نظر انداز کیا. اس توازن کو قائم رکھنے کی خواہش اور کوشش دونوں مرتبہ ملحوظ 
بلکہ پہلی کمیٹی توڑی ہی اس وجہ سے گئی تھی کہ بعض لوگ اس کو غیر متوازن سمجھتے تھے. اب یہ اور بات ہے کہ جائزہ کمیٹی کے کام کو اپنے منشاء کے خلاف پا کر ہم یہ کہنے لگیں کہ اس کی تشکیل ہی غلط تھی اور اس تشکیل پر اس کے خاموش رہنے کو بھی اس کی ایک سازش قرار دیں کہ آخر اس نے اپنی تعمیر کی اس مضمر خرابی سے آپ کو آگاہ کیوں نہ کیا؟. 

مجھے آپ کی یہ شکایت بھی بالکل بے جا معلوم ہوتی ہے کہ آپ نے جب کمیٹی کی اس خامی کی طرف توجہ دلائی تو کمیٹی کی طرف سے بڑی تلخی کے ساتھ اس کی مزاحمت ہوئی. اول تو مجھے اس بارے میں ان کی طرف سے کسی تلخ جواب کا علم نہیں ہے لیکن اگر انہوں نے آپ کی اس طرح کی کسی نشاندہی پر تلخ جواب دیا تو آپ کو یہ برداشت کرنا چاہیے تھا کیونکہ یہ غلطی اگر تھی تو آپ کی اور مجلس شوریٰ کی تھی، نہ کہ ان کی. آپ نے اور شوریٰ نے ان کو منتخب کیا اور پھر آپ ہی ان پر یہ الزام دھرتے ہیں کہ تم ایک ہی طرز کے لوگ کیوں منتخب ہو گئے؟ اور تم نے ایک ہی طرز پر کیوں سوچا؟ لیکن مجھے تعجب ہوتا ہے کہ آپ نے ان کی اس تلخی کو برداشت کرنے کی بجائے ان کو سزا دینے پر تُل گئے اور اس غصہ میں آپ نے دستور و آئین اور حق و انصاف سب کو لپیٹ کر بالائے طاق رکھ دیا. 

۳. آپ کا یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ جائزہ کمیٹی نے اپنے حدودِ کار سے کوئی تجاوز کیا. میں یہاں مقر کردہ حدودِ کار اور جائزہ کمیٹی کے کام کے موازنہ کی بحث میں پڑے بغیر اس صورتحال کی یاد دہانی کافی سمجھتا ہوں جو جائزہ کمیٹی کی رپورٹ پیش ہونے پر شوریٰ کے بالکل ابتدائی مرحلہ ہی میں پیش آئی. جوں ہی بحث کا آغاز ہوا آپ نے سب سے پہلے اسی سوال کو اٹھایا کہ کمیٹی نے اپنے مقررہ حدودِ کار سے تجاوز کیا ہے اور اپنے خیال کے مطابق اس کے دلائل پیش کئے. آپ اُس وقت اتنے غصہ میں تھے کہ آپ کانپ رہے تھے اور لب و لہجہ نہایت تیز تھا. میرا ماتھا اسی وقت ٹھنکا تھا کہ اب جائزہ کمیٹی کی خیر نہیں ہے، لیکن جب سلطان احمد صاحب اور عبد الرحیم اشرف صاحب نے حدودِ کار اور جائزہ کمیٹی کے کام کا موازنہ کرتے ہوئے آپ کے اعتراضات کا جواب دیا تو مجلس شوریٰ کے ارکان کی اکثریت (شاید ایک دو ارکان کے سوا جو خاموش رہے) ان کے جواب سے پوری طرح مطمئن ہو گئ
ی کہ جائزہ کمیٹی نے مقررہ حدودِ کار سے کوئی تجاوز نہیں کیا ہے. حد یہ ہے کہ قیم جماعت جو آپ کی رائے سے کسی اختلاف کو مشکل ہی سے جائز سمجھتے ہیں، آپ کے بجائے کمیٹی کی رائے سے متفق ہو گئے. آپ نے خود بھی اس کے بعد اپنا اعتراض واپس لیتے ہوئے یہ فرمایا کہ میں نے یہ سوال اس لیے اٹھایا تھا کہ یہ پیدا ہو سکتا تھا، میں نے چاہا کہ اس کی وضاحت ہوجائے کچھ وقفہ کے بعد ایک رکن شوریٰ نے جب پہلے ہی مرحلہ میں آپ کے لب و لہجہ کی اس شدت کی شکایت کی جو آپ نے یہ سوال اٹھاتے وقت ظاہر کی تھی تو آپ نے ان کے جواب میں اپنے سابق جواب ہی کا اعادہ کیا کہ آپ نے وہ سوال محض وضاحت طلبی کے لیے اٹھایا تھا. میں نے اور غالباً دوسرے ارکان شوریٰ نے بھی آپ کے اس جواب کو یہی سمجھا تھا، کہ یہ آزادی رائے کے ساتھ اور بغیر کسی تحفظ کے دیا گیا ہے، لیکن اب آپ کے فرمانے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہ جواب اس وجہ سے دیا تھا کہ آپ کا منہ بند کر دیا گیا تھا. اگر منہ بند کرنے سے آپکا یہ مطلب ہے کہ شوریٰ کی بڑی اکثریت نے آپ کے نقطہ نظر سے اختلاف کیا اور جو آپ کے ہم خیال تھے وہ خاموش رہے تو یہ بات تو ضرور ہوئی لیکن اس چیز کو منہ بند کرنے کی کوشش سے تعبیر کرنا تو کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے. اگر یہ منہ بند کرنا ہے تو یہ حادثہ ہر جمہوری نظام میں ہر صدر اور ہر امیر کو پیش آ سکتا ہے اور پیش آتا ہے. اگر آپ کو بھی پیش آیا تو تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہوئی. اگر منہ بند کرنے سے آپ کا مطلب یہ ہے کہ جوابوں کا انداز تیز تھا تو میں ادب سے یہ گزارش کروں گا کہ اس وقت تھوڑی سی تیزی محض اس وجہ سے پیدا ہوئی تھی کہ خود آپ کا اندازِ گفتگو بھی خاصا تیز تھا. بہر حال شوریٰ کی اکثریت کا آپ کے کسی نقطۂ نظر سے اتفاق نہ کرنا یا اس سے شدت کے ساتھ اختلاف کرنا آپ کا منہ بند کرنا نہیں ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ آپ نے اس اختلاف کو منہ بند کرنے سے کیوں تعبیر فرمایا !

۴. اپنے نوٹس کے نمبر ۵ کے تحت آپ نے جائزہ کمیٹی اور شوریٰ کے بعض دوسرے ارکان کے اوپر اکٹھے کئی ایک الزامات لگائے ہیں جن میں سے کسی ایک کو بھی میں صحیح خیال نہیں کرتا. مثلاً:-

٭ … یہ کہ کمیٹی نے ساری تحقیقات ایک مخصوص نقطۂ نظر سے کی اور اپنی رپورٹ میں جماعت کی ایک رخی تصویر پیش کی. 
٭ … یہ کہ اس نے سارے مواد کو اس طرح پیش کیا کہ جن انتہائی نتائج تک وہ شوریٰ کو پہنچانا چاہتی تھی ان کی تائید اس مواد سے حاصل ہو. 
٭ … یہ کہ آپ محسوس کر رہے تھے کہ رپورٹ کی اس مخصوص ہیئت سے مجلس شوریٰ کے ذہنی توازن پر برا اثر پڑ سکتا ہے اور آپ اس اثر سے شوریٰ کو بچانا چاہتے تھے لیکن آپ کو اس فرض کی انجام دہی سے سختی اور تلخی سے روکا گیا. 
٭… یہ کہ جتھہ بندی کر کے آپ کے لیے وہ حالات پیدا کیے گئے کہ آپ مخصوص لوگوں کے آلۂ کار اور ان کے اشاروں پر چلنے والے بن کر رہیں. 
یہ سارے الزامات میرے نزدیک غلط یں اور میں ان کے بارے میں اصل حقیقت عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں. 

رپورٹ میں جماعت کی یک رخی تصویر سے آپ کا مطلب اگر یہ ہے کہ اس میں جماعت کے اندر پیدا ہو جانے والی خرابیوں ہی کی فہرست پیش کی گئی ہے، اس کی خوبیاں نہیں دکھائی گئی ہیں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جائزہ کمیٹی در حقیقت بنی ہی اس لیے تھی کہ وہ ارکان سے مل کر ان کی بے اطمینانیاں اور ان بے اطمینانیوں کے اسباب معلوم کرے اور اس وقت جو خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں، ان کی تحقیقات کرے. اس کے ذمہ یہ کام سپرد ہی نہیں کیا گیا تھا کہ وہ جماعت کی خوبیاں اور اس کے اچھے پہلو بھی پیش کرے. اپنا یہ کام اس نے دو سو سے زیادہ ارکان کے خیالات معلوم کر کے انجام دیا. ان ارکان سے ملنے میں اس نے کوئی امتیاز نہیں برتا، بلکہ ہر رکن کو اجازت دی کہ جو چاہے اس کے سامنے اپنا بیان دے. ان ملنے والوں میں سے جن لوگوں نے جماعت کے موجودہ حالات پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا، کمیٹی نے ان کے اوسط کو بھی واضح کر دیا. پھر یہ الزام کس طرح صحیح ہے کہ یہ جماعت کی یک رخی تصویر ہے؟ ان کے سامنے آئے ہوئے مواد سے اطمینان اور بے اطمینانی کی جو تصویر بنتی تھی وہ انہوں نے ہمارے سامنے رکھ دی. اب یہ بات الگ ہے کہ 
اس مسالہ سے جو تصویر بنی وہ ہمارے منشا کے خلاف بنی. لیکن میرے نزدیک اس بد گمانی کے لیے کوئی وجہ نہیں ہے کہ اگر اس سے مختلف مواد بھی ان کے سامنے آتا جب بھی وہ جماعت کی تصویر بگاڑنے ہی کی کوشش کرتے. 

مواد کے پیش کرنے کے اسلوب کے بارے میں اختلاف رائے ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اس طرح کیوں پیش کیا، دوسری طرح کیوں پیش نہیں کیا. لیکن جب شوریٰ کی طرف سے اس کے پیش کرنے کی کوئی شکل معین نہیں کی گئی تھی تو جس طرح بھی انہوں نے پیش کیا، اس کے متعلق یہ بد گمانی کرنا کہ انہوں نے یہ اسلوب شوریٰ کو گمراہ کرنے اور اپنے پیش نظر نتائج تک پہنچانے کے لیے کیا، میرے نزدیک ان کے ساتھ بڑی زیادتی ہے. اگر وہ کسی خاص نتیجہ تک شوریٰ کو پہنچانا ہی چاہتے تو آخر انہوں نے صرف ارکان کی رائیں پیش کرنے ہی پر کیوں اکتفا کیا. ان خرابیوں کے اسباب خود اپنی طرف سے کیوں معین نہ کئے اور ان کی اصلاح کی تدابیر کے بارے میں سفارشات کیوں نہ پیش کیں، حالانکہ یہ دونوں چیزیں ان کے حدودِ کار کے اندر داخل تھیں اور ہمیں یہ شکایت رہی کہ انہوں نے اس پہلو سے رپورٹ کو تشنہ چھوڑا. اگر فی الواقع آپ کا یہ گمان صحیح ہے کہ یہ ایک ہی طرح کے ذہن کے لوگ تھے تو ان کے لیے یہ کیا مشکل تھا کہ وہ اسباب کی بھی ایک فہرست پیش کر دیتے اور اپنی اصلاحی سفارشات بھی ہمارے سامنے رکھ دیتے. اس طرح وہ شوریٰ کو اس سے زیادہ خوبی سے گمراہ کر سکتے تھے جتنا گمراہ انہوں نے محض یہ مواد ہمارے سامنے رکھ کر کرنے کی کوشش کی ہے. انہوں نے تو جو کچھ کیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ ارکان نے جو بیانات دیئے ہیں وہ بیشتر انہی کے الفاظ میں مختلف عنوانات کے تحت نقل کر دیئے ہیں. آخر اس میں سازش کا کون سا پہلو ہے؟

جہاں تک تیسرے الزام کا تعلق ہے، وہ بھی میرے نزدیک صحیح نہیں ہے. مشکلات میں شوریٰ کی رہنمائی کرنا آپ کا ایک فریضہ منصبی ہے لیکن ارکان شوریٰ کی رایوں پر اثر انداز ہونا غالباً آپ کے فرائض کا کوئی حصہ نہیں ہے. آپ نے جائزہ کمیٹی کی رپورٹ کے بارے میں جو روش اختیار کی وہ ابتداء ہی سے ارکان شوریٰ کے سامنے اس نوعیت سے آئی کہ یہ جماعت کی بالکل یک رخی تصویر ہے، اس میں حدودِ کار سے تجاوز کیا گیا ہے، اس میں 
جماعت میں پھیلی ہوئی گندگیوں کو اکٹھا کر دیا گیا ہے جس کے سبب سے یہ غلاظت کے ایک ٹوکرے کی شکل میں نظر آتی ہے، وغیرہ وغیرہ. اور مزید برآں یہ کہ آپ نے اس کو اپنے خلاف ایک چارج شیٹ قرار دے کر امارت سے استعفے کی دھمکی بھی دے دی. آپ کے اس نقطۂ نظر سے ان چند لوگوں کے سوا جو آپ کی رایوں ہی سے اپنی رائے بناتے ہیں، شوریٰ کے تمام صاحب فکر ارکان نے اختلاف کیا، انہوں نے آپ کے نقطۂ نظر کے برعکس جائزہ کمیٹی کی خدمات کو سراہا، رپورٹ کی اہمیت کا اظہار کیا اور اس کے ذریعہ سے جماعت کی جو تشویش انگیز تصویر سامنے آئی تھی اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی دعوت دی. سلطان صاحب کو تقریر کرتے وقت میں نے پہلی بار جماعت کی حالت پر پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا اور ان کے رونے نے بہتوں کو رُلایا. غازی صاحب اس قدر روئے کہ اسی حالت میں ان پر دل کا دورہ پڑا اور ان پر تشنج کے ایسے سخت حملے ہوئے کہ ہم ان کی زندگی ہی سے مایوس ہو گئے. شب کے بارہ بجے ڈاکٹر بلانا پڑا. میں نے یہ ماجرا شوریٰ کی پوری تاریخ میں پہلی بار دیکھا. میری اور میری ہی طرح شوریٰ کے اکثر ارکان کی رائے یہی تھی کہ یہ تأثر صورتحال کا پیدا کردہ ہے جو جائزہ کمیٹی کی رپورٹ سے سامنے آئی تھی، لیکن آپ کے فرمانے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ آپ کا منہ بند کرنے کے لیے ایک ڈراما کھیلا گیا تھا. اب اس کا فیصلہ کون کرے کہ یہ سب کچھ ایک ڈراما تھا یا حقیقت ! جتھہ بندی کا الزام بھی میرے نزدیک کسی طرح صحیح نہیں ہے. جائزہ کمیٹی کے ارکان کا جماعت کے حالات سے متعلق ایک متفقہ تأثر دینا کوئی جتھہ بندی نہیں ہے اور نہ اپنے اوپر آپ کے عائدکردہ الزامات کی متفقہ طور پر مدافعت کرنا کوئی جتھہ بندی ہے. یہ بھی کوئی جتھہ بندی نہیں ہے کہ رپورٹ کو پڑھنے کے بعد شوریٰ کے بہت سے دوسرے ارکان بھی جماعت کی حالت کے بارے میں ان کے ہم خیال بن گئے. انہوں نے رپورٹ مرتب کی اور آپ کے حوالہ کی. آپ نے اپنے اہتمام میں اس کو سائیکلو اسٹائل کرایا اور شوریٰ کے اجلاس سے چند گھنٹے پہلے وہ ارکان شوریٰ میں تقسیم ہوئی. ان میں سے کون سی بات ایسی ہے جس کو ان کی طرف سے جتھہ بندی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے؟ اگر شوریٰ کے دوسرے ارکان نے ان کی پیش کردہ رپورٹ کو اہمیت دی اور آپ کے ہم خیال ہو کر اس کو غلاظت کا ایک ٹوکرا قرار دینے پر راضی نہیں ہوئے، تو کیا یہ جتھہ بندی ہے؟ اور جتھہ بندی بھی وہ جتھہ بندی جس کی سزا ان کو شوریٰ سے بیک بینی و دو گوش اخراج کی صورت میں بھگتنی چاہیے. کیا رپورٹ پیش کر دینے کے بعد ان کا ایک فرض یہ بھی تھا کہ وہ شوریٰ کے ارکان سے کہتے کہ آپ رپورٹ کے بارے میں ہمارے نقطۂ نظر سے متفق نہ ہوں ورنہ یہ جتھہ بندی ہو جائے گی اور ہمارے امیر جماعت کی طرف سے اس کی کم سے کم سزا شوریٰ سے اخراج ہے. اچھا میں نے تھوڑی دیر کے لیے یہ مان لیا کہ یہ جتھہ بندی تھی تو کیا یہ جتھہ بندی نہیں تھی کہ آپ نے شروع ہی میں شوریٰ کی رپورٹ سے متعلق ایک مخالفانہ تأثر دے دیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شوریٰ کے کچھ ارکان شروع ہی سے اس بات کے لیے کمر بستہ ہو گئے کہ وہ بہر حال اس کی مخالفت کریں گے اور اس کے لیے انہوں نے دلائل کے بجائے طنز و استہزاء بلکہ ناگوار خاطر نہ ہو تو میں یہ کہوں گا کہ پھکڑی بازی سے کام لیا اور شوریٰ کے ماحول کو بہت خراب کیا. 

اس جتھہ بندی کا مقصد، آپ کا منہ بند کرنے کے سوا آپ نے یہ بھی بتایا کہ آپ کو بعض مخصوص لوگوں کا آلۂ کار بنانا تھا. اگر یہ مخصوص لوگ شوریٰ سے باہر کے ہیں تب تو یہ فی الواقع ایک زیادتی ہے اور اگر آپ اسے ثابت کر سکیں تو بلا شبہ یہ ایک جرم بنتا ہے، لیکن آپ نے زبانی گفتگو کے وقت مجھ سے یہ فرمایا ہے کہ اس سے آپ کی مراد شوریٰ ہی کے اندر کے لوگ ہیں. اگر شوریٰ ہی کے اندر کے لوگ ہیں تو اس دستور کے تحت جس کی وفاداری کا آپ نے حلف اٹھایا ہے، ان کی اکثریت کا آلۂ کار بننے میں آپ کو عار نہیں ہونا چاہیے. ہاں اگر شوریٰ کے اندر کی کوئی اقلیت آپ سے یہ چاہتی تھی کہ آپ اس کے اشاروں پر چلیں تو آپ کا یہ فرض تھا کہ آپ انکار دیتے. یہ بات دستور کے بالکل مطابق ہے اور کوئی شخص اس پر آپ کو ملامت نہیں کر سکتا. معاملہ کی آئینی اور دستوری حیثیت تو یہ ہے لیکن جہاں تک میں جانتا ہوں جماعت اسلامی کی شوریٰ کی یہ ایک مستقل روایت ہے کہ اس میں کسی مؤثر اختلاف کو نظر انداز کرنے کا طریقہ اختیار نہیں کیا جاتا بلکہ ایسی حالت میں بیچ کی کوئی ایسی راہ اختیار کی جاتی رہی ہے جس سے اتفاق کی صورت پیدا ہو جائے. شوریٰ کی تاریخ میں ہمیشہ ایسا ہی ہوا ہے اور اس 
کو کبھی یہ رنگ نہیں دیا گیا کہ یہ کسی کا آلۂ کار بن جانا ہے. بسا اوقات ایک نقطۂ نظر کی تائید میں عددی اکثریت اگرچہ نہیں ہوتی لیکن معنوی اکثریت ہوتی ہے. اس کا اگر لحاظ نہ رکھا جائے تو اگرچہ جماعت میں کوئی تشتت نہ بھی پیدا ہو جب بھی کسی پروگرام پر دلجمعی اور سرگرمی سے عمل نہیں ہو سکتا. اگر اس طرح کی کسی مصلحت کے تحت آپ نے کسی فارمولے سے اتفاق کیا تو یہ بہت اچھا کام کیا. جماعت کو اختلاف یا جمود سے بچانے کے لیے ایک دانشمند امیر کی حیثیت سے آپ کو یہی کرنا چاہیے تھا. لیکن میں حیران ہوں کہ جس مصلحت کو آپ نے شوریٰ کے اندر اہمیت دی وہ مصلحت شوریٰ کے ختم ہو جانے کے بعد آپ کی نگاہوں سے کیوں اوجھل ہو گئی؟ کیا آپ کا اندازہ یہ ہے کہ شوریٰ کے متفقہ فیصلہ کے خلاف آپ کا یہ اقدام اس سے بڑے تشتت کا موجب نہ ہو گا جتنا اس صورت میں متصور تھا جب کہ آپ شوریٰ کے اندر ہی مخصوص لوگوں کے اشاروں کے پابند ہونے سے انکار کر دیتے؟ 

۵. صورتحال کا یہ نقشہ پیش کرنے کے بعد آپ فرماتے ہیں کہ آپ کے لیے دو ہی صورتیں باقی رہ گئی تھیں، یا تو آپ استعفاء پیش کر دیتے یا جماعت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کا خطرہ مول لے کر اس صورتحال کو سختی سے دبا دیتے. آپ نے پہلی صورت اختیار کرنی چاہی لیکن شوریٰ نے آپ کو یہ صورت اختیار کرنے نہیں دی. دوسری صورت آپ نے اختیار نہ کی کہ اس سے جماعت کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کا خطرہ تھا. چار و ناچار آپ نے شوریٰ کو ان غلط نتائج پر پہنچ جانے کے لیے چھوڑ دیا، جن پر آپ کے خیال کے مطابق جائزہ کمیٹی کے ارکان اور ان کے جتھے کے شرکاء شوریٰ کو پہنچانا چاہتے تھے. 

آپ نے اپنے استعفاء کی جو وجہ بیان کی ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس میں آپ سے سہو ہو رہا ہے. میری موجودگی میں آپ کے استعفے کی جو وجہ آپ کی جانب سے پیش کی گئی تھی وہ یہ نہیں تھی کہ کوئی جتھہ بندی ہو گئی ہے یا آپ کا منہ بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے بلکہ یہ بیان کی گئی تھی کہ چونکہ جائزہ کمیٹی کی رپورٹ میں آپ پر بہت سے الزامات ہیں، اس لیے آپ یہ چاہتے ہیں کہ ان امور پر ارکان شوریٰ کسی دوسرے شخص کی رہنمائی میں غور کریں تاکہ ان کی رائے پر آپ کے اثر انداز ہونے کا کوئی سوال پیدا نہ ہو. ارکان شوریٰ میں سے 
طفیل صاحب کے سوا شاید کسی نے بھی آپ کی علیحدگی کی یہ وجہ معقول تسلیم نہیں کی، کیونکہ رپورٹ میں صرف آپ پر ہی الزامات نہیں تھے بلکہ اکثر ارکانِ شوریٰ پر بھی تھے. یہاں تک کہ خود جائزہ کمیٹی کے ارکان پر بھی تھے، اس وجہ سے کوئی بھی اس پوزیشن میں نہ تھا کہ امارت کا عہدہ سنبھال لیتا تو وہ سوال نہ پیدا ہوتا جو آپ کی امارت کی صورت میں پیدا ہوتا. اس وجہ سے شوریٰ کی اکثریت اور بھاری اکثریت نے بہتری اسی میں سمجھی کہ اب صورتحال جیسی کچھ بھی ہے اس کا سب مل کر مواجہہ کریں اور یہ کام آپ کی راہنمائی ہی میں ہو. خوش قسمتی سے آپ نے شوریٰ کا یہ نقطۂ نظر تسلیم کر لیا اور تعطل دور ہو گیا. 

شوریٰ کو ایک غلط نتیجہ پر پہنچ جانے دینے کے لیے آپ نے جو عذر پیش کیا ہے اس کا ایک حصہ تو صحیح ہے کہ جماعت میں تفریق کا اندیشہ تھا اور یہ چیز فی الواقع ایسی تھی جس سے جماعت کو بچانا ضروری تھا، لیکن میں یہ سوال ضرور کروں گا کہ جن نتائج پر شوریٰ پہنچی کیا وہ آپ کے نزدیک اتنے مہلک اور غلط ہیں کہ شوریٰ کے ختم ہوتے ہی آپ نے نہ صرف شوریٰ کے فیصلہ کو الٹ دیا بلکہ ایک سازش کا مفروضہ کھڑا کر کے سارے آئین و قانون کی بساط ہی لپیٹ کر رکھ دی اور جس تفریق کے اندیشہ سے آپ نے اس فیصلہ کو قبول کیا تھا، اسی تفریق کا دروازہ اس سے زیادہ وسیع پیمانے پر کھول دیا؟

ذرا سوچئے تو کہ شوریٰ کی قرار داد میں ایسی کون سی ہلاکت چھپی ہوئی ہے جس کے خطرہ نے آپ کو اتنے بڑے اقدام پر آمادہ کر دیا؟ کیا یہ خطرہ کہ انتخابی سرگرمیوں میں سر دست آپ حصہ نہ لیں گے بلکہ زیادہ زور تعمیری کاموں پر صرف کریں گے؟ اگر اس وقت انتخابی سرگرمیوں سے صرفِ نظر کر کے تعمیری پروگرام پر زور لگائیں گے تو آخر جماعت تباہ کیوں ہو جائے گی؟ کیا انتخابی سرگرمیوں میں حصہ لینا اور وہ بھی اس مرحلہ میں کوئی دین کے واجبات میں سے ہے؟ کیا تعمیری جدو جہد آپ کے نزدیک انتخابات کے لیے میدان ہموار نہیں کرے گی؟ کیا لوگ موجودہ قیادت کو آپ کی قیادت سے بدلنے کے لیے اتنے بے تاب و بے قرار ہیں کہ اگر آپ نے میدان میں اترنے میں دیر لگائی تو کفر بازی لے جائے گا اور اسلام ہار جائے گا؟ موجودہ حالات میں اگر آپ انتخابات لڑیں گے اور اپنے اصولوں 
پر قائم رہ کر لڑیں گے تو میرا خیال ہے اور آپ کے تمام اہل الرائے رفقاء اس خیال سے متفق ہیں کہ شاید اس سے بھی برا حشر ہو جو پنجاب کے انتخاب میں ہو چکا ہے اور اگر آپ دو ایک سیٹوں پر کہیں کامیاب بھی ہوں گے تو شاید اپنے شائع کردہ اصولوں کی اس سے بھی زیادہ قربانی دینی پڑے گی جتنی دو سیٹوں کے لیے بہاولپور میں دینی پڑی. پھر میں نہیں سمجھتا کہ آخر شوریٰ کی اس تجویز میں وہ کیا خطرناکی ہے جس کے اندیشہ سے آپ نے یہ اقدام کر ڈالا؟ اس قرار داد کا بڑا حصہ آپ کا اپنا مرتب کردہ ہے. صرف انتخابی سرگرمیوں سے متعلق حصہ ایسا ہے جس کے الفاظ اس کمیٹی کے تجویز کردہ ہیں، جو غالباً آپ ہی کے ایماء پر شوریٰ کے دونوں نقطۂ ہائے نظر کے وکیلوں پر مشتمل بنی تھی اور رد وقدح کے بعد آپ نے بھی ان الفاظ کو قبول کیا کہ اس میں کوئی حرج نہیں، اور ساتھ ہی اس پورے گروپ نے اس کو قبول کیا جو انتخابی سرگرمیوں ہی کو اب کُل دین بنائے بیٹھا ہے. 

شوریٰ کی اس قرار داد میں لٹریچر کے حجت ہونے اور نہ ہونے سے متعلق جو شق ہے وہ محض آپ کی خواہش پر رکھی گئی اور اس سے آپ کا مقصود در حقیقت ان لوگوں سے جان چھڑانا تھا جو ہمارے ہی لٹریچر کا آئینہ ہمارے سامنے پیش کر رہے تھے اور ہم اس میں اپنے چہرے دیکھنے سے گھبراتے تھے. اس چیز کا مطالبہ نہ جائزہ کمیٹی نے کیا تھا نہ ان کے ہم نواؤں نے لیکن یہ عجیب ستم ہے کہ اب اس شق کو بھی آپ کی مظلومیت کے ایک ثبوت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے کہ دیکھو جائزہ کمیٹی والوں نے مولانا مودودی کے لٹریچر کو بھی مردود قرار دے دیا. 
بہر حال میں بالکل نہیں سمجھ سکا کہ آخر اس تجویز نے وہ کیا خطرہ پیدا کر دیا تھا جس سے بچاؤ کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ جماعت اسلامی کا امیر ایک آمر مطلق کی تلوار سنبھال لے؟ میں انتخابات کے معاملہ میں کبھی یہ نہیں سمجھتا تھا کہ اب آپ کے نزدیک بھی جماعت اسلامی کا مرنا اور جینا اسی کے لیے ہے. رہی نظریات کی کشمکش تو کم از کم اس قرار داد کے اندر تو اس کا کوئی جرثومہ موجود نہیں ہے. یہ تو جماعت کی تمام سابقہ پالیسی کی واضح الفاظ میں تصدیق کرتی ہے. صرف تدابیر کی بعض غلطیوں کو تسلیم کرتی ہے اور وہ بھی تردد کے ساتھ.
۶. شوریٰ کے اس اجلاس میں جن لوگوں نے آپ کی حمایت میں ایک سرکاری پارٹی کا پارٹ ادا کیا، ان کی صفائی میں آپ نے فرمایا ہے کہ یہ جائزہ کمیٹی اور اس کے حامیوں کی جتھہ بندی کا رد عمل تھا. میں اس کو بھی واقعہ کے خلاف سمجھتا ہوں. اصل یہ ہے کہ جائزہ کمیٹی کے خلاف ایک پارٹی شوریٰ کے اندر اور باہر پہلے ہی سے موجود تھی اور اس کی قیادت کی زمام خود مرکز کے ہاتھ میں تھی. میرے لیے یہ کہنا تو مشکل ہے کہ اس کو خود آپ کی آشیر باد حاصل تھی لیکن جائزہ کمیٹی کے ساتھ آپ کا رویہ چونکہ شروع ہی سے غیر ہمدردانہ رہا، اس لیے یہ پارٹی جرأ ت کے ساتھ جائزہ کمیٹی کے خلاف بد گمانیاں پھیلاتی رہی. بد قسمتی سے جب رپورٹ سامنے آئی تو معلوم نہیں کیوں آپ نے اس کو اپنے خلاف ایک چارج شیٹ سمجھ لیا. آپ کے اس تأثر کا سامنے آنا تھا کہ وہ سارے لوگ جو آپ کی خواہش کے خلاف کسی چیز کا تصور بھی نہیں کر سکتے، ایک پارٹی کی شکل میں رپورٹ کی مخالفت کے لیے کمر بستہ ہو گئے. میرے نزدیک اس جماعت اسلامی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جماعت کے اندر جماعتیں بننے کا آغاز ہوا اور اس میں شبہ نہیں کہ اگر اس چیز کو اسی وقت نہ روکا گیا تو جماعت اور تحریک بڑے برے انجام سے دوچار ہو گی لیکن اسی کے ساتھ مجھے اس امر میں بھی اب کوئی شبہ نہیں رہا کہ اس چیز کو روکنے کے لیے آپ نے جو الٹا قدم اٹھایا ہے اس نے جماعت اور تحریک کو اس برے انجام سے دوچار کر دیا ہے اور اب خدا ہی ہے کہ جو جماعت کو اس انجامِ بد سے بچا سکتا ہے. 

۷. اس میں شبہ نہیں کہ شوریٰ کی قرار داد جہاں تک اس کے اس حصہ کا تعلق ہے جو جماعت کی پالیسی کے بارے میں رہنمائی دیتی ہے، ایک مصالحتی فارمولے پر مبنی ہے. اس فارمولے کے متعلق آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ ایک جتھے نے اپنی شدت، ہٹ اور مشترک کوشش بلکہ جماعت میں تفریق پیدا ہو جانے کے خطرہ کا دباؤ ڈال کر آپ کو اور شوریٰ کے بقیہ ارکان کو اس کے ماننے پر مجبور کیا اور اس طرح گویا جماعت کی تاریخ میں مصالحتی فارمولے کی بدعت شروع ہوئی. اس کے متعلق میں یہ عرض کروں گا کہ اگر ضد اور ہٹ اور جتھہ بندی سے آپ کی مراد شوریٰ کے دونوں گروپوں کا اپنے اپنے نقطۂ نظر پر اصرار ہے تو یہ چیز بلا شبہ 
موجود تھی اور اگر یہ چیز کوئی جرم ہے تو میں یہ کہوں گا کہ اس جرم میں دونوں گروپ برابر کے شریک ہیں. اب ایسی صورت میں کیا ہونا اور کیا کرنا ممکن تھا. فرض کر لیجئے کہ اسی گروپ کی بات مان لی جاتی جو یہ کہہ رہا تھا کہ جائزہ کمیٹی کی رپورٹ نے حالات اور خرابیوں کا جو نقشہ پیش کیا ہے وہ قابل اعتناء نہیں ہے، اگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں بھی کوئی جائزہ کمیٹی بیٹھتی تو وہ بھی اسی طرح کی رپورٹ پیش کر دیتی جس طرح کی رپورٹ جائزہ کمیٹی نے پیش کی ہے، اس وجہ سے جو کچھ ہو رہا ہے وہی کرتے رہناچاہیے، اس وقت اصل کام انتخابات کا ہے نہ کہ تعمیر سیرت و تطہیر اخلاق کا، تو اس کا نتیجہ کیا نکلتا؟ باہر اس کا جو نتیجہ نکلتا وہ نکلتا، خود شوریٰ کے اندر اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ آپ کی شوریٰ کی اہل الرائے کی اکثریت یا تو اس نقطہ نظر کو قبول نہ کرتی یا قبول کرتی تو سخت بد دلی کے ساتھ. اس پالیسی کو قبول کرنے کے لیے صرف جائزہ کمیٹی کے ارکان ہی تیار نہیں تھے بلکہ باقر خان صاحب، صادق صاحب، وصی مظہر صاحب، مولانا عبد الحق صاحب اور چودھری عبد الحمید صاحب میں سے کوئی صاحب بھی تیار نہیں تھے. حد یہ ہے کہ چودھری غلام محمد صاحب بھی اپنی تقریر میں انتخابات اور انقلاب قیادت کے بارے میں اپنی بے اطمینانی کا اظہار کر چکے تھے. میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اگر ان لوگوں کی بات نہ مانی جاتی تو یہ سب جماعت کو چھوڑ جاتے، لیکن جس پالیسی پر شوریٰ کے ایسے ارکان غیر مطمئن تھے، آخر یہ پالیسی کن لوگوں کے بل پر چلتی اور اگر چلتی تو بتائیے کہ وہ کس انجام تک پہنچتی؟ ایسی صورت میں جن لوگوں نے مصالحتی فارمولے کی سوچی، میرے نزدیک تو وہ جماعت کے بڑے ہی خیر خواہ تھے اور انہوں نے ایک مصالحتی فارمولا تلاش کر کے جماعت کو ایک بڑے خطرے سے نکال لیا، اور آپ نے بھی بڑی ہی دانشمندی کا کام کیا تھا کہ ان کو مان لیا تھا، لیکن افسوس ہے کہ اس کو مان لینے اور منوا لینے اور شوریٰ کے اختتام پر اس کی کامیابی کی دعا کر چکنے کے بعد اب آپ اس کو جماعت اسلامی کی بد قسمتی کا آغاز سمجھتے ہیں اور جماعت کو اس کی ہلاکتوں سے بچانے کے لیے آپ نے اور بعض اُن حضرات نے جہاد کا اعلان کر دیا ہے جو نہ صرف اس فارمولے کو ماننے والے رہے ہیں بلکہ اس کی تصنیف میں بھی انہوں نے بسلامتی ہوش و حواس حصہ لیا تھا. مصالحتی فارمولے کا ذکر آپ نے کچھ ایسے انداز سے فرمایا ہے گویا جماعت کی تاریخ میں یہ کوئی بہت بڑی بدعت ہوئی ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ہے، حالانکہ مصالحتی فارمولا خصوصاً تدابیر کے معاملہ میں، نہ کوئی کفر و بدعت ہے نہ ہماری شوریٰ کی تاریخ میں کوئی نئی بات ہے. ہم ہمیشہ سے جس طریق پر گامزن رہے ہیں وہ یہی ہے کہ شوریٰ میں متفقہ فیصلہ کر کے اٹھتے رہے ہیں. اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی تھی کہ ہمارے یہاں کوئی اختلاف رائے نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کی وجہ یہ ہوتی تھی کہ جب کبھی شوریٰ میں کسی مسئلہ پر مؤثر اختلاف رائے محسوس کیا جاتا تھا تو کسر و انکسار کے اصول پر اس اختلاف کو تجاویز میں سمونے کی کوشش کی جاتی رہی ہے. مصالحتی فارمولے کی اصل روح یہی ہوتی ہے اور یہی اس مرتبہ بھی ہوا. اگر اس چیز سے جماعت اس سے پہلے نہیں تباہ ہوئی تو اب کیوں اس پر قیامت ٹوٹ پڑے گی؟

یہ بات بھی میری سمجھ میں نہیں آئی کہ شوریٰ کا یہ اجلاس کوئی دن دو دن نہیں رہا بلکہ پورے پندرہ روز اس کے اجلاس ہوتے رہے. اس فارمولے کے تمام امکانات و مضمرات آپ کے سامنے تھے. میں اس دوران میں بار بار آپ سے یہ عرض کرتا رہا کہ اگر انتخابات کے بارے میں اس وقت صرفِ نظر کی پالیسی اختیار کر لی جائے تو اختلاف رفع ہو جائے گا اور آپ نے مجھ سے ہر بار یہی فرمایا کہ انتخابات کا معاملہ ایسا کیا معاملہ ہے کہ جس سے صرفِ نظر نہ کیا جا سکے. اس فارمولے کے بنانے والے چودھری غلام محمد صاحب، نعیم صدیقی صاحب، سلطان احمد صاحب، باقر خان صاحب اور غالباً وصی مظہر صاحب ہیں. جب اس کمیٹی نے شوریٰ کے سامنے یہ فارمولا پیش کیا تو تھوڑی سی بحث کے بعد آپ نے اور دوسرے سب لوگوں نے اس کو مان لیا اگر یہ فارمولا جماعت اسلامی کی بد قسمتی کا آغاز تھا تو اسی وقت آپ نے فرما دیا ہوتا کہ میں ایک فرض شناس امیر کی حیثیت سے اس بد قسمتی کا آغاز کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں. لیکن اس وقت تو آپ نے اس کا آغاز فرمانا منظور کر لیا اور اپنی فرض شناسی آپ کو یاد نہ آئی، لیکن جب ارکان کو اتحاد و اتفاق کی تلقین، اور دعا و درود کے بعد مجلس برخاست ہو گئی اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو سدھار چکے تو آپ کو اپنی فرض شناسی یاد آئی. جماعت کی تاریخ میں مصالحتی فارمولوں کی مثالیں تو مجھے ملتی ہیں، لیکن امیر کی 
فرض شناسی کی کوئی ایسی مثال نہیں ملتی، اور میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کی فرض شناسی کی مثال شاید ہی کوئی امیر یا وزیر پیش کر سکے. آپ کے اصحاب میں سے جو لوگ جماعتی زندگی کی نزاکتوں کو نہیں سمجھتے، جن کے نزدیک جماعت اسلامی نام ہی آپ کی ذات کا ہے ان کو تو میں کچھ کہنا بے فائدہ سمجھتا ہوں. لیکن آپ کی اس قلا بازی نے معاف کیجئے میرے اس حسن ظن کو بڑا ہی نقصان پہنچایا ہے جو میں آپ سے رکھتا تھا. 

۸. یہ ساری تمہید استوار کرنے کے بعد آپ جائزہ کمیٹی پر وہ فرد جرم عائد کرتے ہیں جس کے تحت آپ کو امیر جماعت ہونے کی حیثیت سے، اس کے ارکان کو، سخت سے سخت سزا دینے کا حق حاصل ہو سکے. آپ فرماتے ہیں کہ میں یہ رائے قطعاً نہیں رکھتا بلکہ مجھے اس کا شبہ بھی نہیں ہے کہ جائزہ کا یہ پورا کام اور مجلس شوریٰ میں جائزہ کمیٹی کے ارکان کا کردار ایک دانستہ سازش کا نتیجہ تھا. لیکن میرا احساس یہ ہے کہ اس سے عملاً وہی نتائج بر آمد ہوئے ہیں جو ایک دانستہ سازش سے برآمد ہو سکتے تھے. میں جب آپ کی لکھی ہوئی ان سطروں کو پڑھتا ہوں تو سب سے پہلا اثر اس کا جو مجھ پر پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کے ان جباروں اور ڈکٹیٹروں کے خلاف میرا غصہ بہت کم ہو جاتا ہے جنہوں نے اپنے نہایت وفادار ساتھیوں پر سازشوں کے الزام لگائے اور ان کو دار پر کھینچا. اگر آپ محض اختلاف رائے کی بناء پر سلطان احمد صاحب، مولانا عبد الغفار حسن صاحب، غازی عبد الجبار صاحب اور عبد الرحیم اشرف صاحب جیسے لوگو ں پر سازش کا الزام لگا سکتے ہیں تو دنیا کے دوسرے ڈکٹیٹروں نے اگر اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے اخلاق اور سیرت کے لحاظ سے ہمارے مذکورہ رفیقوں سے کہیں کم تر درجے کے لوگوں پر سازشوں کے الزام لگائے تو میرے نزدیک کوئی بڑا گناہ نہیں کیا. 

آپ کہیں گے کہ میں نے ان پر دانستہ سازش کا الزام تو نہیں لگایا بلکہ یہ کہا ہے کہ انہوں نے جو کام کیا ہے اس سے نتائج وہ بر آمد ہوئے ہیں جو ایک دانستہ سازش کے ہوتے ہیں لیکن یہ کہنے سے نہ صرف یہ کہ ان پر لگائے ہوئے الزام میں کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ اس سے سازشوں کا ایک نیا فلسفہ ہمارے سامنے آتا ہے جو اس سے پہلے کسی کو نہیں سوجھا تھا اب 
تک تو ہم یہی سمجھتے رہے ہیں کہ سازش وہی ہوتی ہے جو سازش کے ارادے سے کی جاتی ہے لیکن اب معلوم ہوا کہ نہیں سازش صرف وہی نہیں ہے جو سازش کے ارادے کے ساتھ کی جائے بلکہ ہر وہ کام سازش ہے جو خواہ کتنے ہی نیک ارادہ کے ساتھ کیا جائے لیکن اس کا نتیجہ ہماری خواہش کے خلاف نکلے. اگر ایسا ہو تو ہم اس کو سازش قرار دے کر اس کے مرتکب کو وہی سزا دے سکتے ہیں جو ایک سازشی کو دی جا سکتی ہے اگر یہ فلسفہ آپ سے پہلے دوسروں کو بھی معلوم ہوتا تو اپنے سے مختلف نقطہ نظر رکھنے والوں کو سزا دینے کے معاملہ میں وہ بہت سی قانونی موشگافیوں سے بچ جاتے. وہ بھی آسانی سے یہ کہہ سکتے کہ فلاں نے اگرچہ فلاں کام سازش کے ارادے سے نہیں کیا ہے، لیکن چونکہ اس کے فعل کا نتیجہ وہی نکلا ہے جو ایک سازش سے بھی نکل سکتا ہے، اس لیے یہ سازش ہے اور اس لیے یہ سازش کی سزا کا مستحق ہے. معلوم نہیں سازش کے اس فلسفہ کا ماخذ اسلام میں کیا ہے؟ 
لیکن محض آپ کے اتنے کرم سے ان بے چاروں کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے کہ آپ ان کو دانستہ سازش کرنے والا نہیں قرار دیتے. جبکہ بہت سے ایسے کام انہوں نے آپ کے خیال میں دانستہ کئے ہیں جو بالآخر اس سازش پر منتج ہوئے ہیں مثلاً آپ کے ارشاد کے مطابق انہوں نے مندرجہ ذیل جرائم دانستہ کئے ہیں:

٭ … ایک یہ کہ انہیں اچھی طرح علم تھا کہ وہ ایک ہی طرح کے غیر مطمئن لوگ ہیں، لیکن انہوں نے اس کو راز رکھا، نہ آپ کو اس سے آگاہ کیا اور نہ شوریٰ کے ارکان کو. 
٭… دوسرا یہ کہ انہوں نے مجلس شوریٰ کے تجویز کردہ حدود کار سے تجاوز کیا. خود اپنے حدودِ کار کو وسیع کر لیا اور ان امور کی تحقیقات اپنے ذمہ لے لی جن کی وہ خود تحقیقات کرنا چاہتے تھے. 
٭… تیسرا یہ کہ انہوں نے مجلس شوریٰ میں ایسے حالات پیدا کئے جن میں دوسرا رکن شوریٰ تو درکنار، امیر جماعت بھی خود اپنی رائے آزادی کے ساتھ ظاہر نہیں کر سکتا تھا. 
٭… چوتھا یہ کہ انہوں نے ساری تحقیقات ایک مخصوص نقطۂ نظر سے کی اور اپنی رپورٹ میں جماعت کی صرف یک رخی تصویر پیش کرنے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ سارے مواد کو اس 
طرز پر مرتب کیا کہ جن انتہائی نتائج تک ہو مجلس شوریٰ کو پہنچانا چاہتے تھے ان کی تائید اس پورے مواد سے حاصل ہو. 
٭… پانچواں یہ کہ انہوں نے جتھہ بندی کر کے آپ کے لیے ایسے حالات پیدا کئے کہ امیر جماعت کے فرائض انجام دینے کے بجائے آپ بعض مخصوص لوگوں کے آلۂ کار اور ان کے اشاروں پر چلنے والے بن کر رہیں. 
٭… چھٹا یہ کہ ان لوگوں نے آپ کو مجبور کر دیا کہ آپ مجلس شوریٰ کو ان غلط نتائج پر پہنچ جانے دیں جن پر یہ حضرات اپنی جتھہ بندی کے ذریعے سے مجلس شوریٰ کو پہنچانا چاہتے تھے. 
٭… ساتواں یہ کہ ان لوگوں نے اپنی ضد،بے جا اصرار، شدت اور جتھہ بندی کے زور سے مجلس شوریٰ کے اندر آپ کے حامیوں کو بھی مجبور کر دیا کہ وہ ایک مخالف پارٹی کی حیثیت سے نمایاں ہوں.
٭… آٹھواں یہ کہ اپنی بات منوانے کے لیے مجلس شوریٰ میں آنے سے پہلے انہوں نے جماعت کے فراہم کئے ہوئے موقع سے فائدہ اٹھا کر پوری جماعت میں اپنے ہم خیال لوگ ڈھونڈے، ان کا ایک جتھہ بھی شوریٰ کے باہر تیار کیا، ان کے انفرادی خیالات و نظریات کو جمع کر کے ان کا ایک مقدمہ بنایا، اس مقدمہ کی پشت پر جماعت کے ان سارے لوگوں کی شکایات و اعتراضات کو جمع کیا جن کے وہم و گمان میں بھی اس خاص مقدمہ کو مضبوط کرنے کا تخیل نہ تھا. پھر اس سارے سر و سامان سے لیس ہو کر یہ حضرات یکایک مجلس شوریٰ کے سامنے ایک پارٹی کی صورت میں نمودار ہوئے اور پوزیشن یہ اختیار کی کہ ان کے نظریات صرف انہی کے نظریات نہیں ہیں بلکہ باہر ’’غیر مطمئن لوگوں کی ایک کثیر تعداد‘‘ ان کی پشت پر ہے، لہٰذا یہ مجلس شوریٰ اسی راستہ پر چلے جس پر وہ اسے چلانا چاہتے ہیں ورنہ جماعت میں ایک بڑی پھوٹ پڑ کر رہے گی. 

یہ آٹھ جرائم تو انہوں نے آپ کے ارشاد کے مطابق دیدہ و دانستہ اور بسلامتی ہوش و حواس کئے ہیں. پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ اس کے بعد یہ فیصلہ دینے میں کیوں ہچکچائے کہ جائزہ کمیٹی کا یہ سارا کام اور مجلس شوریٰ میں جائزہ کمیٹی کے ارکان کا کردار ایک دانستہ سازش 
کا نتیجہ تھا. غالباً آپ نے یہ خیال فرمایا ہو گا کہ یہ آپ کے ان واضح مقدمات کے بعد جب ایک غبی سے غبی آدمی بھی اس نتیجہ تک خود بخود پہنچ جائے گا تو آخر اس نتیجہ کو ظاہر کرنے کی کیا ضرورت ہے. صاف صاف بات کہنے کے بجائے کیوں نہ لگے ہاتھوں احتیاط اور تقویٰ کا بھی کچھ مظاہرہ کر دیا جائے.

بہر حال میرے نزدیک یہ ایک غیر مبہم حقیقت ہے کہ آپ نے جائزہ کمیٹی کے ارکان پر ایک منظم سازش کا الزام لگایا ہے اور یہ سازش ایسی منظم تھی کہ اس کے جال میں نہ صرف شوریٰ کے بعض ارکان پھنس گئے بلکہ پوری شوریٰ امیر سمیت ایک ایسے فیصلہ پر اپنے انگوٹھے ثبت کرنے پر مجبور ہو گئی جو آپ کے نزدیک جماعت کو تباہ کرنے والا ہے. 

میں جب آپ کی دی ہوئی روشنی میں اس سارے معاملے پر غور کرتا ہوں تو آپ کا کیس یہ بنتا ہے کہ در حقیقت اس گمراہی کے فیصلہ کے لیے کچھ لوگوں نے تو سازش اور جتھہ بندی کی اور کچھ اس سازش اور جتھہ بندی سے مجبور ہو گئے. خود آپ اپنے آپ کو اس دوسرے گروہ میں شامل سمجھتے ہیں. ایسی صورت میں آپ کے لیے میرے نزدیک صحیح صورت، دستور کے بموجب یہ تھی کہ آپ پھر شوریٰ کا اجلاس بلاتے اور اس کے سامنے اپنا یہ نقطۂ نظر رکھتے اور اس ساری سازش کا پردہ چاک کرتے، تاکہ ارکان شوریٰ صحیح روشنی میں سارے معاملہ پر نظر ثانی کرتے اور ان لوگوں کو سزا دیتے جو ان کو گمراہ کرنے کے لیے اس سازش کے مرتکب ہوئے تھے.

اگر خدا نخواستہ شوریٰ اسی طرح پھر گمراہ ہو جاتی جس طرح پہلی مرتبہ ہو گئی تھی تو پھر آپ کے لیے دوسرا راستہ ’’دستور کی روسے‘‘ یہ تھا کہ آپ ارکان کا اجتماع عام بلاتے اور وہاں شوریٰ کے خلاف اپنا مقدمہ پیش کرتے اور شوریٰ کو اس کا موقع دیتے کہ وہ اپنی صفائی پیش کرے. اس کے بعد اگر ارکان جماعت شوریٰ کے حق میں فیصلہ دیتے تو آپ مستعفی ہو جاتے اور اگر آپ کے حق میں فیصلہ دیتے تو شوریٰ مستعفی ہو جاتی اور آپ دوسری شوریٰ کا انتخاب کرا لیتے. میرے نزدیک معاملہ کے طے کرنے کا آئینی اور با عزت طریقہ یہ تھا. شوریٰ کے جس فیصلہ کے خلاف آپ نے یہ اقدام کیا ہے، وہ جن حالات میں بھی ہوا ہے 
بہر حال بالاتفاق ہوا ہے. اس کے متعلق یہ معلوم کرناابھی باقی ہے کہ اپنی مجبوری اور بے بسی کا جو شکوہ اس فیصلہ کو مان چکنے کے بعد آپ کر رہے ہیں اور اس کا جو پس منظر آپ بنا رہے ہیں اس سے دوسرے ارکانِ شوریٰ بھی متفق ہیں یا نہیں؟

لیکن یہ معقول اور آئینی طریقہ اختیار کرنے کے بجائے آپ نے یہ راستہ اختیار کیا کہ جائزہ کمیٹی کے چار ارکان کو یہ حکم دے دیا کہ وہ اپنے استعفے لکھ کر بھیج دیں ورنہ آپ ان کے متعلق حلقوں کو یہ لکھ دیں گے کہ اگر وہ آپ سے امارت کی خدمت لینا چاہتے ہیں تو وہ اپنے ان نمائندوں کو واپس لے کر دوسرے نمائندے منتخب کریں اور ان کے بقیہ ہم خیالوں کو یہ دھمکی دے دی کہ آپ ان سے بعد میں نمٹیں گے.

میں حیران ہوں کہ آپ کسی رکن شوریٰ سے کس حق کی بناء پر یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ وہ شوریٰ کی رکنیت سے استعفاء دے دے. اگر آپ یہ فرماتے ہیں کہ اس نے کوئی سازش کی ہے یا کسی سازش کا شکار ہوا ہے تو یہ ایک الزام ہوا جو آپ کی طرف سے اس پر لگایا جا رہا ہے. یہ الزام کسی موزوں جماعتی عدالت میں ثابت کئے بغیر کس طرح آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ آپ اس کو نہ صرف یہ کہ مجرم بنا ڈالیں بلکہ اس کو سزا بھی دے دیں اور پھر اس سے یہ مطالبہ بھی کریں کہ وہ آپ کے حکم سے خود پھانسی کا پھندا اپنی گردن میں ڈال لے. 

آپ کسی حلقہ کے لوگوں کے سامنے ان کے نمائندے کا معاملہ اگر پیش کر سکتے ہیں تو یا تو اس حیثیت سے پیش کر سکتے ہیں کہ اس کے خلاف کوئی الزام ثابت ہو چکا ہے اس لیے وہ اس کو واپس بلا لیں یا اس حیثیت سے پیش کر سکتے ہیں کہ اس کے خلاف آپ کو کوئی شکایت ہے جس کی حلقہ والوں کو تحقیق کرنی ہے اور پھر اس پر فیصلہ دینا ہے. پہلی صورت یہاں موجود نہیں تھی اور دوسری صورت میں یہ ضروری تھا کہ آپ تحقیق اور فیصلہ دونوں ان پر چھوڑتے، لیکن آپ نے یہ کیا ہے کہ ایک فیصلہ بھی پہلے ہی سے کر کے ان پر لاد دیا ہے جس کو اگر وہ نافذ نہ کریں تو آپ استعفاء دے دیں گے. آخر کس حلقہ کے لوگوں کی شامت آئی ہوئی ہے کہ وہ ایک رکن شوریٰ کی خاطر امیر جماعت کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنے کا خطرہ مول لیں. آپ کا یہ کہنا بھی ایک بالکل ہی بے معنی بات ہے کہ لوگوں کو اپنے حلقہ والوں 
کے سامنے صفائی پیش کرنے کا پورا حق ہو گا. جب حلقہ والے اپنے فیصلہ میں آزاد نہیں ہیں تو ان کے سامنے صفائی پیش کرنے سے کیا حاصل؟ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ کسی حلقہ والوں کو اپنا منتخب کردہ نمائندہ اس کی کسی کوتاہی یا نا اہلی کی بناء پر واپس بلا لینے کا حق ایک معقول حق ہے، لیکن یہ ایک بالکل مختلف بات ہے اس بات سے کہ آپ کسی حلقہ کے نمائندے کو واپس کر دیں کہ یہ سازشی ہے، در آنحالیکہ آپ نے اس کی سازش کسی جماعتی عدالت میں ثابت نہیں کی ہے. 

آپ کے قیم جماعت نے اپنی معروف سادگی کے ساتھ فرمایا تھا کہ اگر کسی شخص سے یہ کہا جائے کہ بھئی آپ کو شوریٰ کی رکنیت سے استعفاء دے دینا چاہیے تو جماعتی مزاج کا تقاضا تو یہی ہے کہ وہ استعفاء دے دیں.میں نے ان سے کہا کہ عام حالات میں تو یہ ہو سکتا ہے لیکن اگر آپ کسی رکن سے یہ کہیں کہ تم سازشی ہو اس لیے شوریٰ کی رکنیت سے استعفاء دے دو ورنہ ہم تمہارے حلقہ والوں سے مطالبہ کریں گے کہ تم کو واپس بلا لیا جائے، تو وہ آپ سے ضرور پوچھے گا کہ حضرت میرے سازشی ہونے کا ثبوت کیا ہے؟

پھر جائزہ کمیٹی کے ارکان کا معاملہ الگ الگ چار انفرادی ارکان کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ایک کمیٹی کا معاملہ ہے جس نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو ایک کمیٹی کی حیثیت میں کیا ہے. ایک جرم جو مشترک نوعیت سے کیا گیا ہے اس کے مجرموں کو الگ الگ عدالتوں میں بھیج کر ان کے مقدمہ کی سماعت کرانے کا طریقہ ایک نرالا طریقہ ہے اور غالباً سب سے پہلے اس کا تجربہ جماعت اسلامی ہی کرے گی.

جائزہ کمیٹی کے ارکان میں سے دو غیر علاقائی ارکان ہیں. آخر ان غیر علاقائی ارکان کے معاملہ کو حلقہ وار اجتماعات میں رکھنے کا کیا تُک ہے؟ اگر ان کا معاملہ پیش ہو سکتا ہے تو ارکان کے اجتماع عام میں، اور پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے سامنے جائزہ کمیٹی کی رپورٹ بھی پیش ہو. 
بہر حال میں اس معاملے پر جس پہلو سے بھی غور کرتا ہوں، کم از کم میری سمجھ میں تو آتا نہیں. اب تو صورت گویا یہ بنی کہ جو شخص شوریٰ کا رکن بنے وہ اگر چاہے تو ادب سے 
آپ کی خدمت میں کوئی گذارش کر دیا کرے، لیکن اگر اس نے اپنی رائے پر اصرار کیا یا آپ پر کوئی اعتراض اٹھایا یا اپنے زورِ استدلال سے کچھ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے میں کامیاب ہو گیا تو آپ اس سے خود استعفاء وصول کر لیں گے ورنہ اس کے حلقہ والوں کو لکھ دیں گے کہ اگر میری امارت چاہتے ہو تو اس سازشی کو واپس بلا لو اگر یہی جمہوریت و شورائیت ہے تو اس کا درس بہت اچھی طرح مسولینی، ہٹلر اور اسٹالین دے گئے ہیں اور مذہبی روپ میں مرزا بشیر الدین محمود دے رہے ہیں. اس کے لیے قوم ہماری خدمات کی محتاج نہیں ہے. 

آپ نے ازراہ عنایت ملزم ارکان کو یہ موقع عنایت فرمایا ہے کہ آپ ان کو حلقہ وار اجتماعات میں اظہار خیال کی آزادی دیں گے اور اگر وہ ارکان جماعت کی اکثریت کو ہم خیال بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے تو آپ قیادت ان کی طرف منتقل کر دیں گے. مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ حلقہ وار اجتماعات میں آپ استعفے کی دھمکی کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے تو جماعت کی اکثریت آپ ہی کا ساتھ دے گی. بد قسمتی سے جماعت کا مزاج شروع ہی سے کچھ ایسا بنایا گیا ہے کہ ہمارے بہت سے ارکان دلائل کے بجائے اشخاص کی روشنی میں مسائل کو دیکھتے ہیں. یہ صورتحال ایک افسوس ناک صورتحال رہی ہے اور اس کی اصلاح ہونی چاہیے تھی، لیکن میں صفائی کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جن لوگوں نے اس صورتحال کی اصلاح کی جرأت کی ان کا منہ برابر بند کرنے کی کوشش کی گئی اور اب تو کچھ عرصے سے یہ حال ہے کہ مرکز میں باقاعدہ یہ نظریہ بنا لیا گیا ہے کہ تحریکیں اپنے اصولوں کے بل پر نہیں چلا کرتی ہیں بلکہ شخصیت کے بل پر چلا کرتی ہیں. چنانچہ اب جماعت کے سارے نظم و نسق کو اسی نظریہ کے تحت چلایا جا رہا ہے اور جو چیز بھی اس کے خلاف نظر آتی ہے، شدت کے ساتھ اس کو روکا جاتا ہے. میں غیر مبہم الفاظ میں یہ بات بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جائزہ کمیٹی اور شوریٰ کا فیصلہ نیز جائزہ کمیٹی کے ہم خیال ارکانِ شوریٰ کے خلاف آپ کا یہ تازہ اقدام بھی اسی نظریہ کا ایک مظہر ہے. جائزہ کمیٹی کی رپورٹ سے غالباً پہلی مرتبہ آپ کو یہ احساس ہوا کہ جماعت میں اب بہت سے لوگ ان خرابیوں کو محسوس کرنے لگے 
ہیں جو مرکز کے غلط رجحان کے سبب سے پیدا ہو چکی ہیں اور شوریٰ میں غالباً پہلی مرتبہ آپ کو یہ تجربہ ہوا کہ شوریٰ کے اہل الرائے ان خرابیوں کی اصلاح کی ضرورت کو اس شدت کے ساتھ محسوس کرنے لگے ہیں کہ آپ کے استعفے کی دھمکی کے باوجود بھی وہ اصلاح کی ضرورت کے قائل ہیں. اس چیز نے آپ کو گھبرا دیا، لیکن شوریٰ میں آپ نے دیکھ لیا کہ استعفے کی دھمکی سے بھی لوگوں کو دبایا نہیں جا سکتا. اس وجہ سے اس وقت تو آپ شوریٰ کا فیصلہ ماننے پر مجبور ہو گئے لیکن شوریٰ کے ختم ہو جانے کے بعد آپ نے یہ محسوس کیا کہ گربہ کشتن روزِ اول باید، اگر یہ رجحان ترقی کر گیا تو پھر اس کا روکنا نا ممکن ہو گا. چنانچہ اس کو روکنے کے لیے ایک قدم تو خاص مرکز کی قیادت میں یہ اٹھایا گیا کہ جماعتوں کے مقامی اجتماعات میں ایک مفروضہ سازش کا فسانہ اور آپ کی مظلومی اور بے کسی کا دکھڑا سنا سنا کر ارکانِ جماعت کو شوریٰ کی قرار داد کے خلاف خوب اکسایا گیا تاکہ حلقہ وار اجتماعات سے پہلے جائزہ کمیٹی، شوریٰ کی قرار داد اور جائزہ کمیٹی کی رپوٹ کی تائید کرنے والے ارکان شوریٰ کے خلاف فضا خوب گرم ہو جائے، اور دوسرا قدم آپ نے اپنے فرمان کی صورت میں اٹھایا تاکہ ان تمام ارکانِ شوریٰ کی سرکوبی کی جائے، جنہوں نے آپ کے حضور میں جرأت کے ساتھ اظہار رائے کی گستاخی اور شدت کے ساتھ اصلاح حال کا مطالبہ کیا. میرے نزدیک آپ کے اقدام کا اصلی محرک یہ ہے کہ جائزہ کمیٹی کی رپورٹ نے ایک طرف تو ہماری تصویر ہمارے سامنے رکھی ہے اور دوسری طرف اس کے ارکان نے ہمارے ہاتھ میں ہمارے ہی لکھے ہوئے لٹریچر کا آئینہ بھی پکڑا دیا ہے. اب جب اس آئینہ میں ہم اپنی صوت دیکھتے ہیں تو وہ بڑی ہی بھیانک نظر آتی ہے. ہم یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ فی الواقع ہماری صورت ہی مسخ ہو چکی ہے. اس وجہ سے اس کے سوا چارہ نہیں کہ یہ آئینہ ہی توڑ کر پھینک دیا جائے اور ساتھ ہی ان لوگوں کے سر بھی توڑے جائیں جو یہ تصویر اور یہ آئینہ ہمارے سامنے لائے ہیں. 

(دستخط) امین احسن اصلاحی