مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کی رفاقت کا تاریخی پس منظر اور جماعت اسلامی کا تنظیمی ڈھانچہ

ارکانِ جائزہ کمیٹی پر الزام نامے کے جواب میں مولانا مودودی کے نام مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کا یہ خط جسے بعد میں ایک موقع پر پاکستان میں شام کے سابق سفیر جناب عمر بہاء الامیری نے اس شکوے کے باوجود کہ ’’فیہ بعض الخشونۃ‘‘ (اس میں قدرے درشتی پائی جاتی ہے) ایک قاضی کا فیصلہ قرار دیا اور مولانا اصلاحی کو مخاطب کر کے اعتراف کیا کہ ’’قد کتبت ھذا الکتاب کما یکتب القاضی قضائہ‘‘ (آپ نے یہ خط بالکل ایسے لکھا ہے جیسے ایک قاضی اپنا فیصلہ لکھتا ہے)! جماعت اسلامی کے ان دو چوٹی کے قائدین کے آپس کے تعلقات اور سترہ سالہ رفاقت کے اختتام کی تمہید بن گیا، اور اس خط کے ذریعے مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے گویا مولانا مودودی پر عدم اعتماد کا تحریری اظہار کر دیا!
یہ چونکہ جماعت کی تاریخ کا ایک انتہائی اہم واقعہ ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اسے اچھی طرح سمجھ لیا جائے اور اس کے لیے ان دونوں حضرات کے تعلقات کے تاریخی پس منظر پر ایک سرسری نظر ڈالنا بہت مفید ہے. 

اصحاب ثلاثہ

۴۰ء میں جب جماعت اسلامی قائم ہوئی تو اس وقت جو لوگ مولانا مودودی کی دعوت پر جمع ہوئے ان میں اخلاص، تقویٰ اور للہیت کے اعتبار سے تو ہو سکتا ہے کہ کچھ دوسرے لوگ بہت آگے ہوں لیکن مشہور عالم دین اور معروف اہل قلم ہونے کے اعتبار سے متحدہ ہندوستان کی جانی پہچانی شخصیتوں میں سے مولانا محمد منظور نعمانی مدیر ’’الفرقان‘‘ لکھنؤ اور مولانا امین احسن اصلاحی مدیر ’’الاصلاح‘‘ سرائے میر اعظم گڑھ کے نام صف اول میں شمار کئے جا سکتے ہیں. اور مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم کے دو مشہور معروف تلامذہ یعنی مولانا ابو الحسن علی ندوی اور مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم صف ثانی میں سے قابل ذکر ہیں. مولانا مودودی، مولانا نعمانی اور مولانا اصلاحی نہ صرف یہ کہ عمر کے اعتبار سے تقریباً برابر تھے بلکہ علمی و صحافتی زندگی کے اعتبار سے بھی تقریباً ہم سن تھے. مولانا مودودی کا ’’ترجمان القرآن‘‘ مولانا نعمانی کا ’’الفرقان‘‘ اور مولانا اصلاحی کا ’’الاصلاح‘‘ ان تینوں پرچوں کی اشاعت تقریباً ایک ہی وقت شروع ہوئی ان ’’اصحاب ثلاثہ‘‘ میں سے مولانا محمد منظور نعمانی پر دینی تعلیم کے قدیم سلسلے سے گہرے تعلق اور اصحاب تقویٰ و احسان سے قریبی روابط کی بنا پر علم دین کے ساتھ تقویٰ کا رنگ غالب تھا. مولانا امین احسن اصلاحی صاحب مولانا حمید الدین فراہیرحمہ اللہ کے تلمیذ رشید ہوے کی بنا پر فہم قرآن میں ایک ممتاز حیثیت کے مالک تھے اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی جدید نظریات و افکار کے وسیع مطالعے اور نظام دین پر ایک مکمل ضابطہ حیات ہونے کے اعتبار سے خصوصی نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک عام فہم، دل نشین اور شگفتہ طرزِ تحریر کے مالک ہونے کی وجہ سے جدید علم کلام میں ایک خاص مقام رکھتے تھے.

جس زمانے میں مولانا مودودی متحدہ قومیت کے نظریئے اور نیشنلسٹ مسلمانوں کے موقف پر شدید تنقید کے ضمن میں مسلمانوں کی جداگانہ قومیت کے حق میں دلائل دیتے ہوئے ’’مسلم قوم پرستی‘‘ کے انتہائی مقام تک پہنچ گئے تھے، ایک بار ’’الاصلاح‘‘ اور ’’ترجمان القرآن‘‘ میں شدید ٹکراؤ بھی پیدا ہوا اور مولانا مودودی کے موقف پر مولانا اصلاحی نے اس اعتبار سے شدید تنقید کی کہ مسلم قوم پرستی فی نفسہٖ اسلام کے موقف کی صحیح ترجمانی نہیں ہے. لیکن جب مولانا مودودی نے اپنے نقطہ نظر کو تبدیل کر لیا اور خالص 
اسلامی نقطۂ نظر کے تحت وہ مضامین لکھے جو ان کی کتاب ’’سیاسی کشمکش‘‘ کے حصہ سوم میں شامل ہیں تو مولانا اصلاحی نے ان کے نقطۂ نظر کی صحت کو تسلیم کر لیا اور اس طرح ان حضرات کے مابین تعاون اور اتحاد کی راہ ہموار ہوئی. (۱علمی و صحافتی تعارف سے قطع نظر مولانا مودودی سے ملاقات اور براہ راست ربط و تعلق کا موقع مولانا نعمانی کو مولانا اصلاحی سے پہلے ملا اور جب مولانا مودودی نے خالص اسلامی نصب العین پیش کر کے ’’جماعت اسلامی‘‘ کے قیام کی دعوت دی تو مولانا نعمانی ہی نے مولانا اصلاح کو مولانا مودودی کے بارے میں یہ اطمینان دلایا کہ اگرچہ ان کی شخصیت اس معیار پر تو پوری نہیں اترتی جو اقامت دین اور اعلاء کلمۃ اللہ کا جھنڈا اٹھانے والوں کے لیے لازمی ہے تاہم مولانا مودودی ایک ’’کام چلاؤ‘‘ آدی بہر حال ہیں اور ان کے ساتھ تعاون و اشتراک کیا جانا چاہیے. مولانا نعمانی کی اس رائے کے پس منظر میں جو جذبہ کار فرما تھا اس کی نشاندہی خود انہوں نے اپنے ایک حالیہ مکتوب میں ان الفاظ میں کی ہے: 

’’اسلامی کی سر بلندی کا نصب العین زیادہ چھان پھٹک اور کھود کرید کرنے نہیں دیتا تھا … ‘‘
مولانا اصلاحی صاحب کی مودودی صاحب سے پہلی ملاقات جماعت میں شمولیت 

(۱): اس موقع پر ’’تحریک جماعت اسلامی‘‘ کے حصہ اول کے دیباچے کے یہ الفاظ ذہن میں تازہ کر لیے جائیں: ’’لیکن یہ بہر حال ایک نا قابل تردید حقیقت ہے کہ جماعت اسلای کا قیام ان نظریات کی اساس پر نہیں ہوا جو مولانا مودودی نے ’’سیاسی کشمکش‘‘ کے پہلے اور دوسرے حصوں میں بیان فرمائے ہیں بلکہ ان پر ہوا ہے کہ جو اس کے تیسرے حصے میں مفصل و مدلل بیان ہوئے …! ان نظریات کو اساس بنا کر مولانا نے ۱۹۴۰ء میں ایک اسلامی جماعت کی تشکیل کی دعوت دی جس کو قبول کرنے والوں میں وہ بھی تھے جو مولانا مودودی کے پہلے سیاسی موقف سے سخت اختلاف رکھتے تھے اور اس پر شدید تنقیدیں کر چکے تھے. 

لہٰذا ’تحریک جماعت اسلامی‘‘ کی ابتداء زیادہ سے زیادہ ۳۹۱۹۳۸ء سے شمار کی جا سکتی ہے. اس تحریک کے داعی یقینا مولانا مودودی ہی ہیں لیکن ان کی جس دعوت پر جماعت اسلامی قائم ہوئی وہ سیاسی کشمکش حصص اول و دوم کی نہیں بلکہ صرف حصہ سوم کی ہے‘‘. (صفحہ ۱۳)

کے اعلان کے بعد ہوئی اور مولانا نعمانی صاحب کی رائے کے برعکس مولانا اصلاحی صاحب کی جو رائے مولانا مودودی کے بارے میں قائم ہوئی اس کا اظہار انہوں نے انہی دنوں مولانا نعمانی سے ایک گفتگو میں بایں الفاظ کیا کہ :- ’’لا فرق بینہٗ و بین پرویز‘‘ (ان کے اور پرویز صاحب کے مابین کوئی فرق نہیں ہے)!

اس کے باوجود مولانا اصلاحی صاحب کا جماعت میں شامل رہنا اس بنا پر تھا کہ ان کے نزدیک وہ مقصد اور نصب العین جس کے لیے کام کرنے ی دعوت مولانا مودودی صاحب نے دی تھی بہر حال بالکل صحیح تھا، اور دین کے اصل تقاضے اسی طریقے پر کام کرنے سے ادا ہو سکتے تھے جس طریقے پر کام کرنے کی دعوت مولانا مودودی نے دی تھی!

متذکرہ بالا پس منظر میں جو اجتماعیت قائم ہوئی، اس کا ایک پہلو تو یہ ظاہر ہے کہ اس میں داعی کی قوت جذب و کشش سے زیادہ نہیں تو کم از کم اس کے برابر دخل جمع ہونے والوں کے ذوقِ انجداب کو حاصل تھا اور دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ دوسری قدیم یا ہم عصر دینی جماعتوں اور تحریکوں کے برعکس ’’جماعت اسلامی‘‘ کی اجتماعیت کی اساس و بنیاد کوئی ’’شخصیت‘‘ نہ تھی‘ بلکہ نصب العین اور مقاصد تھے یہی وجہ ہے کہ اول روز ہی سے اس میں دستور اور قواعد و ضوابط کو بنیادی اہمیت حاصل رہی! 
(۱

(۱) یہاں مذکور الصدر دیباچے کے یہ الفاظ لائق ہیں.""مولانامودودی صاحب کویقینا اس کاحق ہے کہ اپنے ذہنی ارتقاء کے مختلف منازل اور اس سفر کے دوران لیے گئے موڑوں (Turns) کی تاریخ بیان فرماتے ہوئے ابتداء جہاں سے چاہیں کریں لیکن جماعت اسلامی کی تحریک کی تاریخ بیان کرتے ہوئے اس کی ابتداء اس طرز پرکرنا ہو.اس صورت میں درست ہوسکتا تھا کہ جماعت اسلامی کچھ لوگوں کے مولانا مودودی صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے معرض وجود میں آئی ہوتی ،اس صورت میں کسی دستور کامرتب ہونا اور امیر جماعت کامنتخب کیاجانا بے معنی ہوتا.صفحہ12

"چنانچہ جیساکہ اس سے قبل اشارہ کیاجاچکا ہے یہ جماعت اس طرح وجود میں نہیں آئی کہ کچھ لوگوں نے مولانا مودودی صاحب کے ہاتھ پربیعت کی ہوبلکہ اسکی تشکیل اس طرح ہوئی کہ کچھ لوگوں نے ایک نصب العین کے بعد اس کی ایک مخصوص تشریح اورایک مکمل دستور کے ساتھ وفاداری کارشتہ استوار کیا اورپھرانہوں نے اپنے میں سے ایک امیر اوراس کی مجلس شوری منتخب کی اور ان کے مابین اختیارات کی حدود کومتعین کردیا.صفحہ14).

کا پہلا تنظیمی بحران

جماعت کے قیام کے بعد جب ’’دار الاسلام‘‘ میں قرب میسر آیا اور ایک دوسرے کو قریب سے دیکھنے کے مواقع ملے تو جلد ہی مولانا محمد منظور نعمانی صاحب اور دوسرے بہت سے حضرات نے یہ محسوس کیا کہ مولانا مودودی کی شخصیت کے بارے میں ان کے پہلے اندازے بھی بہت مبالغے پر مبنی تھے اور یہ کہ ان کی شخصیت کو اس کام سے سرے سے کوئی مناسبت ہی نہیں ہے جسے لے کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، چنانچہ اپنے قیام کے ایک ڈیڑھ سال کے اندر جماعت اسلامی اپنے پہلے بحران سے دوچار ہو گئی اور مولانا محمد منظور نعمانی، مولانا ابو الحسن علی ندوی، مولانا جعفر پھلواروی اور دیگر بہت سی اہم اور معروف شخصیتوں سمیت جماعت اسلامی کے کل ارکان کی تقریباً ایک تہائی تعداد جماعت سے علیحدہ ہو گئی. 

مولانا اصلاحی کا موقف

اس موقع پر جو دو باتیں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے ان حضرات سے کہیں وہ بعد کے پیش آمدہ واقعات کے اعتبار سے انتہائی اہم ہیں:-

ایک یہ کہ آپ حضرات چونکہ خود تدین و تقویٰ کے اعتبار سے بلند مقامات پر فائز ہیں لہٰذا آپ کے لیے جائز ہے کہ آپ مودودی صاحب کی شخصیت کے ان پہلوؤں پر تنقید کریں، جو تقویٰ کے منافی ہیں لیکن میں چونکہ اس اعتبار سے خود تقریباً مولانا مودودی ہی کی سطح کا آدمی ہوں لہٰذا اس معاملے میں زبانِ طعن نہیں کھول سکتا !

دوسرے یہ کہ اگر جماعت میں شامل نہ ہوا ہوتا تو دوسری بات تھی، لیکن اب جبکہ میں جماعت اسلامی میں شامل ہو چکا ہوں تو اس سے علیحدگی کو معمولی بات نہیں سمجھتا. میرے نزدیک اب صحیح صورت یہ ہے کہ اصلاحِ احوال کی مقدور بھر کوشش کی جائے لہٰذامیں 
جماعت میں شامل رہ کر اس بات کی سعی کرتا رہوں گا کہ ہم لوگ ایک دوسرے کی اصلاح کرتے اور ایک دوسرے کی خامیوں کی تلافی کرتے ہوئے آگے بڑھتے جائیں اور دین کی خدمت کی کوشش کریں. 

متذکرہ بالا بحران اور علیحدگیوں کے بعد مولانا امین احسن اصلاحی جماعت کی صف اول میں مولانا مودودی کے ساتھ تنہا رہ جانے کی بنا پر جماعت کی تنظیم میں واضح طور پر شخص نمبر دو بن گئے اول تو یہی بات کہ ایک شخص کسی جماعت میں واضح طور پر شخص دوم بن جائے اس کی پوزیشن کو نازک بنا دینے کے لیے کافی ہے پھر جب صورت حال یہ ہو کہ مزاج اور نقطۂ نظر کے اعتبار سے اس کے اور امیر کے مابین نمایاں فرق موجود ہو اور وہ اپنے ذمے یہ کٹھن خدمت بھی لے لے کہ اسے مقاصد اور نصب العین سے تعلق خاطر کی بنا پر نہ صرف اس کے ساتھ نباہ کرنا ہے بلکہ اس کی خامیوں اور کمیوں کی تلافی بھی کرنی ہے تو صورت حال اور بھی نازل ہو جاتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے اور اس سے شاید ہی کوئی شخص انکار کی جرأت کر سکے کہ مولانا اصلاحی صاحب نے اس نازک اور کٹھن ذمہ داری کو کمالِ ہمت و تحمل کے ساتھ مسلسل سولہ سترہ سال نبھایا. 

مولانا اصلاحی کی خدمات

اس پورے عرصے میں مولانا امین احسن اصلاحی مولانا مودودی کے دست راست رہے، اور پوری تن دہی اور انہماک کے ساتھ نہ صرف اس نصب العین کی خدمت میں لگے رہے جس کی خاطر جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی تھی، بلکہ جماعت کے اندر یا اس کے باہر کے حلقوں سے جب بھی کوئی حملہ مولانا مودودی کی ذات پر ہوا تو اس کی مدافعت میں بھی ہمیشہ مولانا امین احسن اصلاحی ہی سینہ سپر ہوئے حتیٰ کہ اس سلسلے میں انہیں اپنے دیرینہ دوستوں اور رفیقوں ہی کی نہیں بلکہ اپنے بزرگوں اور ممدوحوں و مخدوموں تک کی کبیدگی ٔ خاطر برداشت کرنی پڑی.

تقسیم ہند سے قبل یعنی جماعت اسلامی کے دورِ اول میں مولانا امین احسن اصلاحی 
صاحب نے تحریک اسلامی کی جو سب سے بڑی خدمت سر انجام دی وہ یہ تھی کہ اس تحریک کے اصول و مبادی اور اس کے طریق کار کے بعض انتہائی اہم پہلوؤں اور اس کی جدو جہد کے نمایاں مراحل کو براہِ راست قرآن حکیم کی روشنی میں واضح اور مستحکم اساس پر مرتب و مدوّن کیا جس کے نتیجے میں ’’دعوتِ دین اور اس کا طریق کار‘‘ جیسی بلند پایہ اور مایۂ ناز کتاب منصہ شہود پر آئی. یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اسی کتاب کے اثر سے جماعت اسلامی کے لٹریچر میں مولانا مودودی صاحب کی بعض اہم اور بنیادی مگر سطحی اصطلاحات جیسے حکومت الٰہیہ کا قیام وغیرہ کا استعمال متروک ہوا، اور ان کی جگہ شہادتِ حق اور اقامت دین کی قرآنی اصطلاحات رائج ہوئیں اور فی الجملہ جماعت کی تحریک پر دینی رنگ زیادہ گہرا ہوا جماعت کی تقسیم ہند سے پہلے تک کی ’’رودادوں‘‘ کے مطالعے سے دوسری حقیقت جو واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جماعتی زندگی کے مقتضیات اور اسلامی نظم جماعت کے اصول و فروع اور خدوخال کی وضاحت کے معاملے میں بھی مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے اہم کردار ادا کیا. (۱)

تنظیم جماعت کے ضمن میں ایک اصولی اختلاف

اس تعاضد و تناصر کے ساتھ ساتھ اندر ہی اندر ایک معاملے میں مولانا اصلاحی اور مولانا مودودی کے مابین اختلاف بھی رہا یہ معاملہ اسلامی نظامِ جماعت میں امیر کے اختیارات سے متعلق تھا. مولانا مودودی بحیثیت امیر جماعت اسلامی اپنے لیے غیر (۱): یہی بات ہے جو ’’تحریک جماعت اسلامی‘‘ کے دیباچے میں اس طرح بیان ہوئی کہ:-

’’رہے ان کے (مولانا مودودی کے) مخصوص ’’کلامی نظریات‘‘ اور ان کا خاص تصورِ دین و تحریک اسلامی تو جہاں یہ واقعہ ہے کہ وہ اولاً بھی جماعت کی اساس میں موجود تھے اور بعد میں بھی پیہم اس کی رگ و پے میں سرایت کرتے رہے وہاں یہ بھی ایک نا قابل تردید حقیقت ہے کہ کچھ اور اہل قلم کی تحریروں نے بھی جماعت اسلامی کے تصور دین اور تحریک اسلامی کے خطوط اور نقوش مرتب کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی تصانیف تو اس معاملے میں انتہائی مؤثر ثابت ہوئی. حتیٰ کہ یہ حقیقت ہے کہ جماعت کی تشکیل کے بعد اس کے تحریکی لٹریچر میں مولانا اصلاحی صاحب کی تحریروں کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے.‘‘

محدود اختیارات کے طلب گار تھے. ان کے نزدیک شوریٰ کا مقام صرف یہ تھا کہ امیر کو اپنے مشورے سے مطلع کر دے. اس کے مشورے کو قبول یا ردّ کر دینے کا مکمل اختیار امیر کو حاصل تھا گویا جدید اصطلاح میں مولانا مودودی کے نزدیک جماعت اسلامی کے امیر کو شوریٰ پر ’’ویٹو‘‘ کا حق حاصل تھا اس کے برعکس مولانا اصلاحی شدت کے ساتھ اس رائے کے حامل تھے کہ اسلامی نظم جماعت میں امیر کو شوریٰ کے فیصلوں کا پابند ہونا چاہیے. یہ ہو سکتا ہے کہ اس معاملے میں مولانا اصلاحی صاحب کے پیش نظر اس مسئلے کے خالص علمی (ACADEMIC) پہلوؤں کے علاوہ خاص طور پر جماعت اسلامی کے مخصوص حالات بھی ہوں، بہر حال مولانا اصلاحی صاحب ابتداء ہی سے اس معاملے میں اپنے نقطۂ نظر کو پوری قوت کے ساتھ پیش کرتے رہے حتیٰ کہ تقسیم ہند سے متصلاً قبل الٰہ آباد کے کل ہند اجتماع کے موقع پر منعقدہ مجلس شوریٰ کے اجلاس میں اس مسئلے پر خاصی تلخی بھی ہوئی تاہم تقسیم ہند سے قبل تک چونکہ جماعت کا فعال دَور شروع ہی نہیں ہوا تھا لہٰذا اس معاملے کی اہمیت بھی زیادہ تر علمی (ACADEMIC) ہی رہی! 

یک جان دو قالب

تقسیم ہند کے بعد بھی مسلسل نو دس برس تک مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی مزاج کے شدید اختلاف کے باوجود یک جان دو قالب ہو کر ساتھ کام کرتے رہے اور پاکستان کے عوام اور جماعت اسلامی کے ارکان تو کجا خود مرکزی مجلس شوریٰ کے زیادہ سے زیادہ ایک دو آدمیوں کے سوا کسی کو بھی اس کا احساس تک نہیں ہوا کہ ان دونوں حضرات کے مابین کسی معاملے میں کوئی قابل ذکر اختلاف موجود ہے. واقعہ یہ ہے کہ یہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کا انتہائی ایثار تھا کہ انہوں نے اپنی شخصیت کو بالکلیہ مولانا مودودی کی شخصیت میں ضم ہی نہیں‘ گم کر دیا اور اس معاملے میں انہوں نے صرف اپنے دیرینہ رفقاء اور بزرگوں کے طعنے ہی برداشت نہیں کئے بلکہ اغیار کی پھبتیاں تک سہیں. کسی نے انہیں مولانا مودودی کا انجلز قرار دیا اور کسی نے حکیم نور الدین! بہر صورت انہوں نے کبھی مولانا مودودی کے ’رجل ثانی‘ (SECOND MAN) قرار دیئے جانے میں عار محسوس نہ کیا. 

ایک اہم دستوری نکتہ

اوپر امیر اور شوریٰ کے مابین اختیارات کی تقسیم کے سلسلے میں مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کے نقطۂ نظر کے جس اختلاف کا ذکر کیا گیا ہے وہ بالآخر اس طرح طے ہوا کہ جماعت اسلامی پاکستان کے دستور میں امیر اور شوریٰ کے اختلاف کی صورت میں جماعت کے عام ارکان سے استصواب کی راہ حتمی طور پر متعین کر دی گی اور طے کر دیا گیا کہ اگر جماعت کے ارکان کی اکثریت امیر کی رائے پر صاد کر دے تو شوریٰ خود بخود معزول ہو جائے گی اور نئی شوریٰ منتخب ہو گی. بصورتِ دیگر امیر معزول ہو جائے گا اور نئے امیر کا انتخاب ہو گا! 

عملی صورتِ حال

اس سے یہ تو ضرور ہو گیا کہ نظری اعتبار سے جماعت اسلامی کے دستور میں امیر کے ساتھ شوریٰ کو بھی اہم اور مستقل بالذات حیثیت حاصل ہو گئی اور ان کے مابین نزاع کی صورت میں تصفیے کی ایک راہ متعین ہو گئی لیکن عملاً جماعت اسلامی پاکستان میں شورائیت بطور ایک نظام(INSTITUTION) کبھی رائج نہ ہو سکی. 

آزادی کے فوراً بعد جماعت اپنے فعال دَور میں داخل ہو گئی اور اس میں کچھ تو حالات اور واقعات کی رفتار اس قدر تیز رہی کہ ایک قسم کی ہنگامی صورت حال ہر وقت طاری رہی جس میں مشاورت کے امکانات خود بخود ہی کم ہو جاتے ہیں اور کچھ مولانا مودودی نے مسلسل یہ طرز عمل اختیار کئے رکھا کہ ہر اہم فیصلہ خود کر لیتے اور اس کے تحت آئندہ کے لیے عملی اقدام کی ابتدا بھی کسی جلسۂ عام کی تقریر یا اخباری بیان میں کر ڈالتے اس کے بعد جب شوریٰ کا اجلاس ہوتا تو وہ غریب اس صورت حال سے دوچار ہو جاتی کہ ایک اقدام کیا جا چکا ہے اور اب جماعت کا وقار اور اس کے امیر کی عزت
(PRESTIGE) صرف اس طرح قائم رہ سکتی ہے کہ جماعت اس لائحہ عمل (LINE OF ACTION) کو اختیار کر لے! 

جماعت کی سول سروس

پاکستان میں جماعت اسلامی نے جو طریق کار اختیار کیا اور اس کے جو نتائج بر آمد ہوئے ان سب پر ایک سیر حاصل بحث ’’تحریک جماعت اسلامی‘‘ کے حصہ اول میں کی جا چکی ہے لیکن موضوع زیر بحث کا تقاضا ہے کہ اس کے چند مزید گوشوں کو روشنی میں لایا جائے !
پاکستان میں جماعت کے کام کی تیز رفتاری اور اس کے تیزی کے ساتھ وسعت پذیر ہونے کے یہ نتائج تو ظاہری ہیں کہ نہ نئی بھرتی کے لیے سابقہ معیار قائم رکھا جا سکا اور نہ نئے آنے والوں کے لیے تربیت کا خاطر خواہ اہتمام ہو سکا لیکن عواقب کے اعتبار سے اس کا سب سے زیادہ خطرناک نتیجہ جو بر آمد ہوا وہ یہ تھا کہ نو وارد اور ہر اعتبار سے خام مگر ’’تیز‘‘ کارکنوں کی ’تیزی‘ کے ساتھ جماعت میں آگے بڑھنے کے مواقع مل گئے. اول تو جو لوگ جماعت کے اس ’سیاسی دَور‘ میں جماعت میں شامل ہوئے ان کے ذہن کی ساخت اور مزاج کی افتاد میں فطری طور پر شروع ہی سے ’سیاست‘ کا رنگ غالب تھا پھر تیزی سے بڑھتی ہوئی ضروریات کے تحت جب جماعت کی 
CIVIL SERVICE توسیع پذیر ہوئی تو اس میں ایک فطری ضرورت کے تحت وہ لوگ کھپائے گئے جو جماعت سے تعلق کی بنا پر سرکاری ملازمتوں سے علیحدہ کئے گئے. ظاہر ہے کہ یہ سب لوگ بلا استثناء علم دین سے بالکل کورے تھے اور بقول شخصے صرف تفہیمات اور تنقیحات کے ’فارغ التحصیل‘ تھے. حد یہ ہے کہ ان میں سے ایک اچھی بھلی تعداد نے جماعت کے تمام لٹریچر کو بھی بالاستیعاب نہ پڑھا تھا اور ان کے بڑے بڑوں کے لیے بھی مولانا اصلاحی صاحب کی تحریریں تو بہت ’مشکل‘ اور ’روکھی‘ تھیں ہی ! جماعت کے حالیہ طریق کار کے پیش نظر جو سب سے بڑا وصف ان لوگوں میں تلاش کیا جاتا تھا وہ یہ تھا کہ وہ تقریر کر سکیں، اچھے منتظم ہوں اور دفتری و تنظیمی ذمہ داریوں کو باقاعدگی اور نفاست کے ساتھ ادا کر سکیں یعنی یہ کہ فی الجملہ ’’تیز کارکن‘‘ ہوں. چنانچہ ان میں سے جو جتنا ’تیز‘ ثابت ہوا، اسی قدر تیزی کے ساتھ مقامی اور ضلعی جماعتوں کی قیمیت سے ہوتا ہوا قیم حلقہ کے مقام تک جا پہنچا اور دیکھتے ہی دیکھتے جماعت کی پوری مشینری پر ان حضرات کا مکمل تسلط ہو گیا. 

اہل علم‘ جماعت میں اول تو پہلے ہی کم تھے. پھر ان کی بھی ایک بڑی تعداد ہندوستان میں رہ گئی اور پاکستان کی جماعت کے حصے میں جو آئے وہ رفتہ رفتہ آٹے میں نمک کے برابر ہوتے چلے گئے. رہے دینی مزاج رکھنے والے متدین اور سنجیدہ و متین لوگ تو ان کا کچھ عرصے تک تو احترام کیا جاتا رہا اور بعض ذیلی امارتوں پر ایسے حضرات فائز رہے، لیکن رفتہ رفتہ یہ منصب بھی ان ’نکمے اور سست‘ لوگوں سے چھین کر ’مستعد کارکنوں‘ کے حوالے کر دیئے گئے حتیٰ کہ حلقوں کی امارت پر بھی یہی ’کارکن‘ لوگ قابض ہو گئے! اور رفتہ رفتہ صورت یہ ہو گئی کہ یہی لوگ مولانا مودودی کے اصل دست و بازو اور جماعت اسلامی کی اصل قوت و طاقت بن گئے. اور اہل علم اور متدین مزاج لوگ پیچھے ہٹتے اور گوشوں میں سمٹتے چلے گئے. لے دے کے صرف ایک خیریت رہی اور وہ یہ کہ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ میں خصوصاً غیر علاقائی نشستوں پر بالعموم اہل علم اور متدین لوگ ہی منتخب ہوتے رہے اور اس میں آخر وقت تک ایسے حضرات کو ایک مؤثر حیثیت حاصل رہی اور اگرچہ ان وجوہات کی بنا پر جو اوپر بیان ہو چکی ہیں، یہ لوگ جماعت کی مجموعی پالیسی پر کبھی اثر انداز نہ ہو سکے تاہم اتنا ضرور ہوا کہ مرکزی مجلس شوریٰ میں ’کارکن‘ حضرات کو زیادہ سر اٹھانے کا موقع نہ مل سکا اور علم اور اہل علم کا ایک وقار اور دبدبہ اس طرح قائم رہا کہ نئے نئے فلسفے اور نظریات اور تازہ رجحانات جو جماعت کے اس فعال عنصر میں پیدا ہوئے وہ اگرچہ عملاً جماعت کی رگ و پے میں سرایت کرتے رہے تاہم شوریٰ میں کبھی بار نہ پا سکے بلکہ شوریٰ میں بالعموم ان پر نکیر ہی ہوتی رہی. 

شخصیت گری

ان نئے نظریات میں سب سے زیادہ خطرناک نظریہ یہ تھا کہ تحریکیں مجرد اصولوں کے بل پر نہیں چلا کرتیں بلکہ شخصیتوں کے بل پر چلا کرتی ہیں لہٰذا جماعت اسلامی کی کامیابی کے لیے لازمی ہے کہ مولانا مودودی کی شخصیت کو ابھار کر سامنے لایا جائے. اس خیال نے خاص طور پر اس وقت بہت زور پکڑا جب ۵۱ء میں سابق صوبہ پنجاب میں جماعت کو انتخابات میں بری طری شکست ہوئی اور ’کارکن‘ حضرات کے حوصلوں اور امنگوں کو زبردست دھچکا لگا. اس وقت جہاں ایک طرف یہ سوچا گیا کہ ٹھیٹھ اصول پرستی کو ترک کر کے عوام میں مقبولیت کے لیے کچھ نعرے (SLOGANS) اختیار کئے جائیں،وہاں ایک دوسری راہ یہ تجویز ہوئی کہ مولانا مودودی کو جلد از جلد پاکستان کا ’’قائد اعظم‘‘ بنا دیا جائے بد قسمتی سے پاکستان کے ابتدائی چند سالوں میں جماعت اسلامی کی ’’مطالبے‘‘ کی مہموں اور ان کی خصوصی تکنیک نے ملک کی فضا میں ایک وقتی اور عارضی سا تہلکہ واقعتا مچا دیا تھا اور اسی ضمن میں خاص طور پر کراچی کے چند جلسوں میں مولانا مودودی کو بڑی بھاری تعداد میں سامعین نے سنا تھا. اس بنا پر اس کا امکان محسوس کیا گیا کہ ’پیراں نمی پرند مریداں می پرانند‘ کے اصول پر کام کیا جائے تو بہت جلد مولانا مودودی کو پاکستان کا قومی رہنما اور ہیرو بنایا جا سکتا ہے چنانچہ ایک طرف جماعت کے ادیبوں اور انشا پردازوں نے مولانا مودودی کی ذات کے مختلف پہلوؤں کو عظمت اور تقدس کے خوش نما فریموں میں سجا کر عوام کے سامنے پیش کرنا شروع کیا اور دوسری طرف استقبالوں، جلوسوں، استقبالیہ دعوتوں، سپاسناموں اور نذرانے کی تھیلیوں کے ذریعے کم سے کم ایک بار تو انہیں ایک مکمل قومی لیڈر کے روپ میں پیش کر ہی دیا گیا. 

جماعت میں اس نئے رجحان نے پرانے سنجیدہ اور متدین لوگوں کو سخت پریشان کر دیا اور ان کی جانب سے اس قسم کی سرگرمیوں پر نا پسندیدگی کا اظہار ہونا شروع ہوا، لیکن اول تو 
اس مہم کی سرکردگی مرکز کے فعال عناصر کر رہے تھے اور دوسرے یہ بھی محسوس ہو رہا تھا کہ اس معاملے میں ان حضرات کو مولانا مودودی کی مکمل تائید نہیں تو کم از کم اشیرواد ضرور حاصل تھی. مولانا مسعود عالم مرحوم نے خود مولانا مودودی کی ذات میں اس رجحان کو بہت پہلے محسوس کر لیا تھا اور یہ بات انہیں جس قدر نا پسند تھی اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے شعبے (دار العروبہ) کو جماعت کے مرکز سے دُور ہی رکھا. مولانا عبد الغفار حسن صاحب نے ایک بار ان سے اس معاملے میں استفسار کیا کہ اس کا کیا سبب ہے کہ آپ مرکز سے دُور ہی رہتے ہیں تو انہوں نے نے فرمایا: -

’’مولانا مودودی چاہتے ہیں کہ میں دار العروبہ کے ذریعے عرب ممالک میں ان کی ذات کا پروپیگنڈہ کروں لیکن جب تک میں دار العروبہ میں موجود ہوں انشاء اللہ ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہو گی!‘‘

اس سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس رجحان کی مزاحمت ہر کسی کے بس کی بات نہ تھی اور مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کے سوا جماعت میں اور کسی شخص کو یہ مقام حاصل نہیں تھا کہ وہ اس فتنے کی سرکوبی کر سکے. چنانچہ یہ نا خوشگوار فرض انہی کو انجام دینا پڑا اور وقتاً فوقتاً جب بھی اس نظریئے نے جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ میں سر اٹھایا انہوں نے اس کی سختی سے مذمت کی اور بارہا ایسا ہوا کہ انہیں اس نظریئے کے علمبرداروں کو درشتی سے ڈانٹ دینا پڑا ! اور یہ بات مولانا مودودی کے مقتدین کے نزدیک اس امر کا کافی ثبوت بن گئی کہ مولانا اصلاحی مولانا مودودی کی بڑھتی ہوئی شہرت اور روز افزوں مقبولیت کی بنا پر ان سے حسد کرنے لگے ہیں! 

دوسرا بحران اور مولانا اصلاحی

ان حقائق کو پس منظر میں رکھ کر ان واقعات پر غور کیا جائے جو جائزہ کمیٹی اور اس کی رپورٹ کے بعد پیش آئے تب صورتِ حال کی صحیح تصویر سامنے آتی ہے. ۱۹۵۵ء میں جبکہ جماعت کو پاکستان میں ایک خاص نہج پر کام کرتے ہوئے آٹھ سال ہو چکے تھے، جماعت کے عام ارکان کی جانب سے جماعت کی پالیسی اور طریق کار اور خصوصاً اس کے دینی و اخلاقی انحطاط کے بارے میں تشویش کا ایک عام اور پُر زور اظہار ہوا‘ اس وقت تو مولانا مودودی نے غالباً بر بنائے ’حکمت‘ اس عام بے چینی اور بے اطمینانی کا مواجہہ کرنے کی بجائے جائزہ کمیٹی کے تقرر کو غنیمت سمجھا لیکن بعد میں یہی جائزہ کمیٹی ان کے گلے کا ہار بن کر رہ گئی!

جماعت کے مرکز کے ’فعال‘ اور ’کارکن‘ عنصر نے جائزہ کمیٹی کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں بھی ڈالیں لیکن مرکزی مجلس شوریٰ میں ان کی پیش نہ گئی اور پہلی جائزہ کمیٹی پر اعتراض کئے گئے تو شوریٰ نے اسے توڑ کر ایک دوسری جائزہ کمیٹی مقرر کر دی ایک سال کے بعد جب یہ جائزہ کمیٹی اپنی رپورٹ لے کر شوریٰ کے سامنے پیش ہوئی تو اس کے جمع کردہ مواد نے شوریٰ کی ایک فیصلہ کن اکثریت کو اس قطعی نتیجے پر پہنچا دیا کہ جماعت ایک بالکل غلط رُخ پر بڑھ آئی ہے. اور اب خیریت اسی میں ہے کہ اس کے رُخ کو تبدیل کر دیا جائے ! مولانا مودودی اور ان کے ہم خیال لوگوں نے پہلے خود جائزہ کمیٹی پر جرح کرنے کی کوشش کی لیکن جائزہ کمیٹی کے اراکین کی وضاحتوں نے اس حملے کو پسپا کر دیا. بدرجۂ مجبوری مولانا مودودی نے اپنے استعفے کے ذریعے اظہارِ ناراضگی کیا لیکن شوریٰ کا تأثر اس قدر گہرا تھا کہ ان کی یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی اور جماعت اسلامی کی تاریخ میں غالباً پہلی اور آخری مرتبہ مجلس شوریٰ نے مولانا مودودی کے مقابلے میں اپنے موقف پر اصرار کیا اب جماعت کے دستور کی روسے مولانا مودودی کے سامنے دو ہی راستے کھلے رہ گئے تھے. یا یہ کہ شوریٰ سے مفاہمت کر لیں اور یا پھر اپنے اور شوریٰ کے نزاع کو لے کر عام ارکان کے سامنے پیش ہوں. اس صورت میں مولانا مودودی بحیثیت امیر جماعت ایک فریق ہوتے اور پوری مرکزی شوریٰ فریق ثانی بنتی! مولانا مودودی نے پہلی راہ اختیار کی اور ایک مصالحتی فارمولے پر دستخط ثبت کر کے‘ بقول مولانا اصلاحی‘ دعا و درود کے بعد شوریٰ برخاست ہو گئی. 

یہ تو سوائے عالم الغیب و الشہادۃ کے کوئی نہیں جانتا کہ مولانا واقعتا مصالحت پر آمادہ ہو گئے تھے یا ان کا یہ اقدام خالص ’’حکمت عملی‘‘ پر مبنی تھا لیکن جو کچھ عالم واقعہ میں 
ظہور پذیر ہوا وہ یہ تھا کہ ایک طرف ان کے فعال اور کارکن نائبین نے ہنگامہ کھڑا کر دیا اور لاہور‘ لائل پور اور راولپنڈی کے مقامات پر شوریٰ اور خاص طور پر اس کے ’’قدامت پسند‘‘ ارکان کے خلاف شورش برپا کر دی‘ اور دوسری طرف دس دن کے اندر اندر مولانا مودودی کا وہ ’’الزام نامہ‘‘ ارکانِ جائزہ کمیٹی کے ہاتھوں میں پہنچ گیا !! جو ہر اعتبار سے صریح نا انصافی اور زیادتی اور سراسر ظلم اور دھاندلی تھا. 

ظاہر ہے کہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کے علاوہ جماعت میں کسی اور شخص کو یہ مقام حاصل نہ تھا کہ وہ اس موقع پر مولانا مودودی کے ہاتھ پکڑ سکتا اور انہیں اس ظلم اور زیادتی سے باز رکھ سکتا. چنانچہ نبی کے اس فرمان مبارک کہ: 
’’اَنْصُر اَخَاکَ ظَالِمًا اَوْ مَظْلُوْمًا‘‘ پر عمل کرتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے مولانا مودودی کو سمجھانے اور اس ظلم سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن جب انہیں اس میں ناکامی ہوئی تو ان پر سخت مایوسی طاری ہوئی اور مولانا مودودی پر ان کا اعتماد متزلزل ہو کر رہ گیا … اسی مایوسی اور دل شکستگی کے عالم میں مولانا اصلاحی صاحب نے مولانا مودودی کے نام وہ مفصل خط لکھا، جس نے مولانا مودودی کے ’’الزام نامے‘‘ کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں اور ان کی نا انصافی اور دھاندلی کو بالکل عریاں کر کے ان کے سامنے رکھ دیا.

مولانا اصلاحی نے اپنے اس خط میں اگرچہ جائزہ کمیٹی کے تقرر سے لے کر شوریٰ کے اختتام تک کے تمام واقعات پر مفصل تبصرہ کیا اور مولانا مودودی کے الزام نامے کے ایک ایک لفظ کا پوسٹ مارٹم کیا لیکن ان کا اصل زور دستور اور ضابطے کی پابندی اور جمہوریت اور شورائیت کے نظام کو برقرار رکھنے پر تھا! اور ان کے خط کے اسی مرکزی نقطے کی وضاحت کے لیے اس کے پس منظر کو اس قدر تفصیلاً بیان کرنا ضروری تھا.