لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بالفرض اجلاسِ شوریٰ کے دوران مولانا مودودی کسی ذہنی کشمکش اور تذبذب میں مبتلا رہے بھی تھے تو اب بہر حال وہ ایک واضح اور متعین لائحہ عمل اختیار کر چکے تھے اور جائزہ کمیٹی کے نام ’’الزام نامہ‘‘ انہوں نے کسی غلطی یا چوک کی بنا پر نہیں بلکہ ایک مستقل فیصلہ کر کے تحریر کیا تھا چنانچہ مولانا اصلاحی صاحب کا خط ملنے پر انہوں نے فوری طور پر یہ فیصلہ کر لیا کہ منطق اور دلیل اور قاعدے اور قانون کو بالائے طاق رکھ کر سیدھی طرح اپنی ’شخصیت‘ کا زور آزما لیا جائے اور دلائل و براہین کے چھوٹے چھوٹے باٹ چھوڑ کر ایک بار اپنی ’شخصیت‘ کا پورا وزن ایک پلڑے میں ڈال کر فیصلہ کر لیا جائے. اور یہ کوئی انوکھی بات بھی نہ تھی! تحریکوں اور جماعتوں کی تاریخ میں بارہا ایسا ہوا ہے کہ رفیقوں کے ایثار اور کارکنوں کی محنت و مشقت سے بنی ہوئی ’شخصیتیں‘ بالآخر اپنی ’شخصیت‘ ہی کو اپنے قریب ترین رفیقوں کے مقابلے میں ’’برہانِ قاطع‘‘ کے طور پر استعمال کرتی رہی ہیں.
چنانچہ مولانا مودودی نے مولانا اصلاحی صاحب کو ان کے خط کا جواب تو کوئی نہ دیا البتہ یہ کہلوا دیا کہ میں امارت سے مستعفی ہو رہا ہوں اور دوسرے ہی روز اخبارات میں مولانا مودودی کا استعفاء از امارتِ جماعت اسلامی ان الفاظ میں شائع ہو گیا: (۱)
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی جماعت اسلامی پاکستان کی امارت سے مستعفی ہو گئےمولانا کے استعفاء پر غور کرنے کیلئے مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس طلب کر لیا گیا
لاہور.۱۰/جنوری، جماعت اسلامی پاکستان کے امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے جماعت کے جنرل سیکرٹری کے نام ایک خط لکھا ہے جس میں وہ جماعت کی امارت سے مستعفی ہو گئے ہیں. جماعت کے جنرل سیکرٹری نے ۱۲/جنوری کو مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں مولانا کے استعفاء پر غور کیا جائے گا.
مولانا کے استعفاء کا متن حسب ذیل ہے:
’’میں جماعت اسلامی پاکستان کی امارت سے استعفاء پیش کر رہا ہوں. براہِ کرم اس کے متعلق ضابطے کے مطابق کاروائی کریں.
۱۹۵۵ء رہائی کے بعد جب مجلس شوریٰ نے مجھے جماعت اسلامی کا امیر منتخب کرنا چاہا تھا میں نے یہ گزارش کی تھی کہ میں اب صرف ایک معمولی رکن (۱): اس کی اشاعت کے سلسلہ میں مولانا امین احسن اصلاح صاحب کا بیان ملاحظہ ہو:-
’’امیر جماعت کے استعفے کے متعلق جماعت کی مجلس مشاورت نے بالاتفاق یہ طے کیا کہ اس کو راز میں رکھاجائے اور شوریٰ کا ہنگامی اجلاس بلا کر صرف اس کے سامنے اس کو پیش کیا جائے لیکن مرکزی سٹاف نے مجلس مشاورت کے فیصلے کے خلاف اس کو بڑی دھوم دھام سے اخبارات میں شائع کرایا.‘‘
جماعت کی حیثیت سے خدمت کرنا چاہتا ہوں. مجھ میں ذمہ داری کا منصب سنبھالنے کی اب طاقت نہیں ہے لیکن اُس وقت میری معذرت قبول نہ کی گئی اور مجھے امیر منتخب کر لیا گیا. پھر نومبر ۱۹۵۶ء میں جب مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوا تو میں نے استعفاء پیش کیا اور یہ بھی گزارش کی کہ وجوہ کو زیربحث لائے بغیر مجھے سبکدوش کر دیا جائے لیکن افسوس ہے کہ میری یہ درخواست بھی رد کر دی گئی. اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ میرا امیر جماعت رہنا جماعت کے لیے مفید ہونے کی بہ نسبت نقصان دہ زیادہ ہے، اس لیے میں اس منصب کو چھوڑنے میں ایک لمحہ کی دیر لگانا بھی گناہ سمجھتا ہوں اور یہ بات واضح کئے دیتا ہوں کہ یہ استعفاء واپس لینے کے لیے پیش نہیں کیا جا رہا ہے میں فیصلہ کر چکا ہوں کہ اب جماعت میں کوئی منصب بھی حتیٰ کہ مجلس شوریٰ کی رکنیت بھی قبول نہ کروں گا. میں جماعت کے نصب العین اور نظام کی جو کچھ بھی خدمت کر سکتا ہوں ب صرف ایک رکن جماعت کی حیثیت سے کر سکتا ہوں.
الحمد للہ کہ جماعت اسلامی کے ساتھ میرا تعلق نہ محض ضابطہ کا ہے اور نہ کسی منصب پر موقوف ہے. یہ ایک گہرا تعلق و روحانی رشتہ ہے جو کسی حال میں ٹوٹ نہیں سکتا اور جماعت کا مقصد میرا اپنا مقصد زندگی ہے‘ جس کی خاطر ہی میرا مرنا اور جینا ہے. اس لیے میری خدمات جماعت کے لیے جس طرح آج تک وقف رہی ہیں اسی طرح انشاء اللہ ہمیشہ وقف رہیں گی اور جو بھی امیر جماعت ہو گا اس کا خیر خواہ اور اس کی اطاعت فی المعروف کا پابند رہوں گا. میں اس بات سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ جس چیز کی تعمیر کے لیے میں نے آج تک جان کھپائی ہے اب میں ہی اس میں کسی خرابی کے پیدا ہونے کا ذریعہ بنوں.
امارت کا منصب چھوڑتے ہوئے میں جماعت کو دو باتوں کی نصیحت کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ میرے رفقاء میرے ان مشوروں کو جو خالص خیر خواہی کی بنا پر میں عرض کر رہا ہوں قبول فرمائیں گے. میری پہلی نصیحت یہ ے کہ ہر وہ شخص جو اس جماعت کی بھلائی چاہتا ہے میرے استعفاء کے وجوہ کو زیر بحث لانے سے کلی اجتناب کرے اور اخبارات میں یا محفلوں اور مجلسوں میں اس کے متعلق چاہے کیسی ہی قیاس آرئیاں اور رائے زنیاں ہوں ان کو صبر و سکوت کے ساتھ ٹال دے. اس بحث میں بھلائی اگر کچھ ہو بھی تو وہ برائی کی بہ نسبت بہت کم ہے. دوسری نصیحت میں یہ کرتا ہوں کہ امارت کا نیا انتظام بالکل اسی طرح کیا جائے جس طرح ایک امیر جماعت کے اچانک مر جانے پر کیا جانا چاہیے. کوئی بحث جو اس سے پہلے پیدا ہوئی ہو‘ نہ تازہ کی جائے اور نہ اس کا پس منظر ہی پیش نظر رکھا جائے بالکل نئے سے کام کا آغاز کرنے ہی میں جماعت کی بھلائی ہے.
میں تمام رفقائے جماعت کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے میرے ہر دورِ امارت میں نہایت اخلاص و محبت اور پورے اعتماد کے ساتھ میرا ہاتھ بٹایا ہے. اللہ تعالیٰ اس پر انہیں جزائے خیر دے. اس کے ساتھ میں ان تمام رفقاء سے معافی بھی چاہتا ہوں جنہیں پچھلے پندرہ سال میں کبھی مجھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہو. خصوصیت کے ساتھ حال میں مجلس شوریٰ کے جن ارکان کے بارے میں ‘ میں نے کارروائی کی تھی‘ مجھے احساس ہے کہ انہیں اس سے ضرور اذیت پہنچی ہو گی. ایک شخص جو کسی ذمہ داری کے منصب پر ہو اسے کبھی نہ کبھی اپنے ذاتی تعلقات کو نظر انداز کر کے اپنے فرائض کی انجام دہی میں ایسے کام کرنے پڑ جاتے ہیں جن سے اس کے دوستوں کو تکلیف ہوتی ہے. میں چاہتا ہوں کہ میری امارت کے ساتھ اس معاملہ کو بھی ختم کر دیا جائے اور اس کی یاد بھی ذہن میں نہ رکھی جائے. میں اپنے ان رفقاء سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس کے متعلق ہر شکایت دل سے نکال دیں اور مجھے معاف کر دیں‘‘. (ماخوذ از روزنامہ کوہستان مورخہ ۱۱؍ جنوری ۱۹۵۷ء)
ہنگامے ……… اس استعفاء کی اشاعت سے ایک طرف تو یہ فطری ردّ عمل ظاہر ہوا کہ جماعت اسلامی کے ارکان‘ متفقین‘ ہمدردوں اور متأثرین کے حلقے میں ایک انتہائی جذباتی اور ہنگامی صورت حال پیدا ہو گئی. قریب کے شہروں سے جماعت کے لوگوں کے وفود مرکز جماعت میں آنے شروع ہو گئے اور دُور دراز کے علاقوں سے تاروں کا تانتا بندھ گیا. اور پوری جماعت میں پریشانی اور فکر مندی کی ایک لہر دوڑ گئی. اور اس طرح ایک ایسی فضا تیار ہو گئی جس میں صحیح کیا ہے اور غلط کیا کے فیصلے سے زیادہ توجہ اس امر پر مرکوز ہو گئی کہ کسی طرح مولانا مودودی کو استعفاء واپس لینے پر آمادہ کیا جائے !!
اور دوسری طرف مولانا کے فعال نائبین نے ارکانِ جائزہ کمیٹی اور ان کے ہم خیال اراکین شوریٰ کے خلاف ایک باقاعدہ مہم شروع کر دی. لاہور‘ لائل پور اور راولپنڈی اس مہم کے اہم مورچے تھے. لاہور میں اس مہم کے کمان دار جناب نعیم صدیقی تھے. لائل پور میں جناب اسعد گیلانی اور راولپنڈی میں جناب صدیق الحسن گیلانی. یہ مہم جس طور سے چلائی گئی اس کا اندازہ اس ایک واقعے سے ہو سکتا ہے کہ لاہور میں ارکانِ جماعت کے ایک اجتماع میں جب نعیم صدیق صاحب نے جائزہ کمیٹی اور شوریٰ کے ’’رجعت پسند‘‘ ارکان کے خلاف دھواں دھار تقریر کی اور ان پر شدید قسم کے ذاتی حملے کئے اور جماعت کے کچھ ارکان نے انہیں ٹوکا کہ ان لوگوں کی عدم موجودگی میں اس طرح کے الزامات لگانا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے تو ملک نصر اللہ خاں عزیز صاحب نے طنز اور تمسخر کے ملے جلے جذبات کے ساتھ فرمایا کہ ’’جی ہاں! آپ جس تقوی کی تعلیم دینا چاہتے ہیں اس کی مثال ایسی ہے کہ کچھ غنڈے کسی شریف اور پردہ دار گھرانے میں گھس کر عورتوں کی عزت و ناموس پر حملہ کر رہے ہوں اور باہر کچھ متقی حضرات داخلے کے اِذن کے انتظار میں کھڑے رہ جائیں!‘‘ یعنی عام ارکانِ جماعت کے سامنے ان حضرات نے صورت حال کا جو نقشہ پیش کیا وہ یہ تھا کہ مولانا مودودی جو اس تحریک کے مؤسس اور داعی اول بھی ہیں اور از یوم تأسیس تا امروز اس کی قیادت بھی کرتے رہے ہیں‘ آج ایک انتہائی مظلومانہ صورت حال سے دوچار ہیں اور جائزہ کمیٹی کے ارکان اور شوریٰ کے کچھ لوگوں نے مل کر ان پر ایسا ستم توڑا ہے کہ وہ انتہائی بے چارگی کے عالم میں امارتِ جماعت کے منصب سے مستعفی ہونے پر مجبور ہو گئے!
پروپیگنڈے کی اس انتہائی افسوسناک مہم کے ساتھ ساتھ بعض ’’امرائے حلقہ‘‘ نے اپنے اختیارات کا ’بھر پور‘ استعمال بھی شروع کر دیا. چنانچہ جناب امیر حلقہ لائلپور نے مرکزی مجلس شوریٰ کے دو اراکین یعنی حکیم عبد الرحیم اشرف صاحب اور چودھری عبد الحمید صاحب کی رکنیت جماعت ہی کو معطل کر دیا اسی قسم کی کارروائی جناب سعید ملک صاحب کے ساتھ بھی ہونے والی تھی کہ انہیں خبر ہو گئی. چنانچہ انہوں نے پیشگی وار کر دیا اور ایک باقاعدہ پریس کانفرنس بلا کر اس میں جماعت سے اپنے استعفے کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی جماعت کی قیادت پر بہت سنگین قسم کے الزامات عائد کئے مولانا عبد الجبار غازی صاحب نے اس موقع پر بھی اپنی روایتی شرافت کا ثبوت دیا اور وہ کچھ کہے سنے بغیر خاموشی کے ساتھ جماعت کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے!
جناب قیم جماعت‘ میاں طفیل محمد صاحب نے مولانا کے استعفاء پر غور کرنے کے لیے مرکزی مجلس شوریٰ کا ہنگامی اجلاس طلب فرمایا تو اس میں ایک ’خصوصی احتیاط‘ یہ برتی کہ چونکہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب اُس وقت اتفاقاً کسی ٹیکنیکل رکاوٹ کی بنا پر شوریٰ کے باقاعدہ رکن نہ تھے‘ لہٰذا انہیں شوریٰ میں شرکت کی دعوت نہ دی. (حالانکہ اس سے قبل شوریٰ کے پندرہ روزہ اجلاس میں مولانا شریک رہے تھے) . ادھر لائل پور سے حکیم عبد الرحیم اشرف صاحب نے فون پر دریافت کیا کہ ’’میرے پاس بیک وقت دو ’حکم نامے‘ پہنچے ہیں. ایک آپ کا جس میں آپ نے شوریٰ میں شرکت کے لیے طلب فرمایا ہے اور دوسرا جناب امیر حلقہ کا جس میں میری رکنیت جماعت ہی معطل کر دی گئی ہے! تو فرمائیں کہ میرے لیے کیا حکم ہے؟ تو جواباً ارشاد فرمایا کہ ’’آپ لاہور چلے آیئے‘ شوریٰ کے پہلے اجلاس میں یہ مسئلہ طے کر لیا جائے گا کہ آپ شریک ہو سکتے ہیں یا نہیں!‘‘ اور جب حکیم صاحب نے مزید اصرار کیا کہ انہیں لاہور پہنچنے اور پھر شوریٰ میں شریک ہوئے بغیر لوٹنے کی ذلت سے بچا لیا جائے تو ارشاد ہوا کہ ’گھبرایئے نہیں! آپ کو آمد و رفت کا کرایہ دے دیا جائے گا ! اِنَّا لِلّٰہ وَ اِنَّا الَیْہِ رَاجِعُوْن!!
شوریٰ کی قرار دادِ اعتماد ……… ان حالات میں مرکزی مجلس شوریٰ کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا تو ظاہر ہے کہ اس کے معزز اراکین اس کے سوا اور کیا سوچ سکتے تھے کہ جیسے بھی ہو پہلے روٹھے ہوئے امیر کو منایا جائے. باقی باتیں بعد میں دیکھی جائیں گی. چنانچہ شوریٰ نے مولانا مودودی صاحب پر اعتماد کی قرار داد پاس کی اور ان سے استعفاء واپس لینے کی درخواست کی. روزنامہ ’’کوہستان‘‘ لاہور کی ۱۳؍ جنوری کی اشاعت کی خبر ملاحظہ ہو.