ماچھی گوٹھ


؏ آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے!
۵۳ء میں لاہور کے ایک مشہور صحافی 
(۱نے جماعت اسلامی کے بارے میں لکھا تھا. 
’’کیا عجب کہ یہ تحریک بھی جو پٹھان کوٹ سے شروع ہوئی ہے، بالا کوٹ پر ختم ہو جائے‘‘. 

راقم الحروف کو جو اُس وقت اسلامی جمعیت طلبہ کا رکن اور اس کے ایک پندرہ روزہ پرچے ’’عزم‘‘ کا مدیر تھا‘ اتفاق سے انہی دنوں بالا کوٹ کے سفر کا موقع ملا. شہدا کی قبروں پر فاتحہ خوانہ کے وقت ذہن اچانک مندرجہ بالا خیال کے جانب منتقل ہو گیا. اس کے جواب میں جو جذبات دل میں پیدا ہوئے وہ الفاظ کا جامہ پہن کر صفحۂ قرطاس پر منتقل ہو گئے. 

’’اگر واقعی ایسا ہو جائے تو کیا یہ ناکامی ہو گی؟
کون کہہ سکتا ہے کہ ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک ناکام ہوئی؟

بالا کوٹ کا ذرہ ذرہ شہادت دے رہا ہے کہ جنہوں نے یہاں نقد حیات ہاری ہے ان سے زیادہ نفع میں کوئی نہیں جنہوں نے یہاں جانیں دی ہیں وہی ہیں کہ جو حیاتِ جادواں پا گئے. بالا کوٹ کی پشت پر کھڑا ایک مہیب پہاڑ شہادت دے رہا ہے کہ اس نے جو معرکہ آج سے سوا سو سال قبل اپنے دامن میں ہوتا دیکھا تھا اس سے زیادہ کامیاب معرکہ ہندوستان میں اسلام نے کبھی نہ لڑا. کنہار کی اچھلتی کودتی موجیں گواہی دیتی ہیں کہ جس خون نے آج سے سوا سو سال قبل انہیں سرخی عطا کی 
حاشیہ (۱): شورش کاشمیری مرحوم تھی وہی ہے کہ جس نے ہند میں اسلام کے پودے کو سینچا ہے. بالاکوٹ کی فضا کانوں میں سرگوشیاں کرتی ہے کہ اس کے سہمے سہمے سکوت میں درختوں کے جھنڈ تلے جو چند نفوس آرام کر رہے ہیں وہی ہیں جو ’’ہند میں سرمایہ ملت کے نگہبان‘‘ بنے. وہی ہیں جو ہار کھا کر جیتے‘ جن کی شکست میں کامرانی پوشیدہ تھی‘ جن کی شہادت میں حیات جاوداں مسکرا رہی تھی … فَرِحِیۡنَ بِمَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ۙ وَ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ بِالَّذِیۡنَ لَمۡ یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ مِّنۡ خَلۡفِہِمۡ ۙ اَلَّا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۱۷۰﴾ۘیَسۡتَبۡشِرُوۡنَ بِنِعۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَضۡلٍ ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۷۱﴾ۚ٪ۛ 
ماخوذ از ’عزم‘‘ ۱۰؍ اگست ۵۳ء) 

کاش واقعتا جماعت اسلامی پاکستان کی تاریخ کسی بالاکوٹ کے مقامِ بلند تک پہنچ کر ختم ہوئی ہوتی … تاکہ اس کی یاد سے آنے والی نسلوں کے دلوں میں ایمان تازہ ہوتا اور جذبۂ اعلاء کلمۃ اللہ کے چشمے ابلتے رہتے . لیکن افسوس کہ اس کے برعکس یہ تحریک ریگ زارِ بہاولپور کے ایک دُور افتادہ قریے ماچھی گوٹھ میں ایک ریگستانی ندی کی طرح جذب ہو کر رہ گئی. جہاں اس کے قائد نے اپنی بہترین صلاحیتیں اپنے ان دیرینہ ساتھیوں سے خیالی نبرد آزمائی میں صرف کیں جو کچھ اپنے خلوص کے باعث اور کچھ انتشار کے خوف کی بنا پر شکست کھانے کے لیے از خود تیار تھے اور اس نبرد آزمائی میں ’حکمت عملی‘ کی مہارتِ تامہ کے ساتھ پس پردہ مصالحت اور برسر عام دعوتِ مبارزت کا وہ کھیل کھیلا جس کی یاد بھی سخت نفرت انگیز اور کراہت آمیز ہے! 

قائم مقام امیر جماعت کی ہدایات …… ’مصالحت کنندگان‘ اجتماعِ ماچھی گوٹھ کو جس جذبے کے تحت منعقد کرنا چاہتے تھے اس کا اندازہ اس سرکلر سے کیا جا سکتا ہے جو قائمقام امیر جماعت کے دستخط سے ۱۶؍ جنوری ۱۹۵۷ء کو جاری ہوا. 

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

رفقاء محترم ! شوریٰ منعقدہ ماہ نومبر ۵۶ء کے بعد ہماری جماعتی زندگی میں 
بعض ایسے واقعات نمودار ہوئے ہیں جن کے واقع ہونے کی توقع نہ ہم کو تھی اور نہ جماعت کے باہر کے لوگوں کو تھی. ان واقعات سے بعض جگہ جماعت کا داخلی استحکام بھی متأثر ہوا ہے اور باہر کے لوگوں کی نگاہوں میں بھی ان سے جماعت کا وقار مجروح ہوا ہے. جو لوگ ہم سے حسن ظن رکھتے تھے اور اس ملک کی اصلاح سے متعلق ہم سے امیدیں قائم کئے ہوئے تھے اُن پر دل شکستگی اور مایوسی طاری ہوئی ہے اور جن کو ہم سے مخالفت تھی ان کو خوش ہونے اور ہمارے خلاف بد گمانیاں پھیلانے کا کافی مواد ان چند ہفتوں میں ہاتھ آیا ہے. 

میں سارے حالات کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ جو کچھ پیش آیا ہے اس کا بہت تھوڑا حصہ ہے جس کے پیش آنے کے لیے فی الواقع کوئی وجہ موجود تھی. اس کا بڑا حصہ ایسا ہے جس کے پیش آنے کی کوئی ادنیٰ وجہ بھی موجود نہیں تھی بلکہ چند لوگوں کی محض نا سمجھی‘ بے احتیاطی اور بد گمانی نے اس کے اسباب فراہم کر دیئے ہیں. بعض لوگوں نے شوریٰ کی کارروائیوں سے متعلق بالکل غلط اور بے بنیاد تأثرات دیئے. بعض لوگوں نے قرار داد کے متن کی ایسی تاویل کرنے کی کوشش کی جو اس کے منشاء کے خلاف تھی. بعضوں نے شوریٰ کے ارکان کی طرف غلط باتیں منسوب کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا. ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ بعض مقامات پر ذمہ داروں نے اپنے حقوق و اختیارات کے استعمال میں جلد بازی اور بے احتیاطی سے کام لیا. اسی طرح بعض نے شدتِ تأثر میں اپنے جذبات پبلک پر ظاہر کر دیئے. ان ساری باتوں نے مل کر چند دنوں کے لیے جماعت کے مزاج کو اس طرح بگاڑ دیا کہ لوگوں کے ذہن ہر طرح کی باتیں قبول کرنے اور ہر طرح کی باتیں پھیلانے کے لیے بالکل بے قید ہو گئے اور شریعت اور اخلاق کے حدود کی بھی پرواہ بہت کم ہو گئی. یہ اللہ کا احسان ہے کہ یہ صورت ایک خاص رقبہ ہی کے اندر محدود رہی اور زیادہ متعدی نہ ہونے پائی تاہم ان چند ہفتوں کے اندر جو باتیں ہوئی ہیں وہ ہماری شفاف جماعتی زندگی کو داغدار کرنے والی ہیں اور اب ہم سب کا یہ فرض ہے کہ ہم ان داغوں کو مٹانے کی کوشش کریں اور آئندہ کے لیے اس طرح کی باتوں سے محفوظ رہنے کا عہد کریں.
میں اس موقع پر ارکانِ جماعت کو چند ہدایات کرتا ہوں اور متوقع ہوں کہ وہ بلا تاخیر 
ان کا اہتمام کریں گے.

۱. ہر شخص جس سے اس موقع پر کوئی دانستہ یا نا دانستہ بے احتیاطی صادر ہوئی ہے وہ اپنے آپ کو کوئی الاؤنس دیئے بغیر توبہ و استغفار کرے اور اپنے رویہ کی اصلاح کا عہد کرے.

۲. جس نے اپنے کسی دوسرے رفیق کے خلاف کوئی بات زبان سے نکالی ہو وہ از خود کھلے دل سے اس سے معافی مانگ لے اور دوسرا کھلے دل سے اس کو معاف کر دے. 

۳. اس سلسلہ کی ساری باتوں کو نسیاً منسیاً کر دیا جائے. نہ نجی مجلسوں میں ان کا کوئی چرچا کیا جائے نہ جماعتی اجتماعات میں ان کا کوئی ذکر ہو.

۴. جہاں جہاں دلوں میں کدورتیں پیدا ہوئی ہوں‘ وہاں اجتماعی تقریبات کے مواقع پیدا کر کے دلوں کے ملانے اور خوشگوار تعلقات بڑھانے کی صورتیں نکالی جائیں اور اس کام میں وہ ارکان رہنمائی کا فرض انجام دیں جو خوش قسمتی سے اس موقع پر ان آلائشوں سے پاک رہے ہیں.
۵. جماعت کی پالیسی سے متعلق بحث و مباحثہ بند کر کے ساری توجہ تعمیری و اصلاحی کاموں پر مرکوز کی جائے اور پالیسی و طریق کار کی بحث کو ہونے والے اجتماعِ ارکان پر چھوڑ دیا جائے.

۶. مقامی طور پر کارکنوں کی تربیت کے لیے انتظام کیا جائے. 

میں تمام رفقاء سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ ان ہدایات پر خلوص کے ساتھ عمل اور جماعت کو اس کی صحیح سمت میں موڑنے میں میرے ساتھ تعاون کریں گے. میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں شیطان کے فتنوں سے امان میں رکھے اور ہم اپنے دماغ‘ زبان اور قلم کی ساری طاقتیں اس کے دین کی خدمت میں صَرف کرنے کی توفیق پائیں. 

جن مقامات پر ضرورت محسوس ہو‘ وہاں ان باتوں کو متفقین تک بھی پہنچا دیا جائے.
(دستخط) غلام محمد 
قائمقام امیر جماعت اسلامی پاکستان

’حزبِ اقتدار‘ کی تیاریاں …… اس کے برعکس مولانا مودودی اور ان کے سیکرٹریٹ نے اس ’معرکے‘ کو سر کرنے کے لیے جو تیاریاں کیں ان کا اندازہ مولانا امین احسن اصلاحی کے حسب ذیل بیان سے کیا جا سکتا ہے. 

’’پالیسی کے معاملہ میں ساری جماعت کو تو کوئی گفتگو کرنے سے روک دیا گیا‘ لیکن خود امیر جماعت پوری دھوم دھام کے ساتھ ’ترجمان‘ اور ’تسنیم‘ میں پالیسی سے متعلق اپنا نقطہ ٔ نظر پیش کرتے رہے. اس مقصد کے لیے شوریٰ کی وہ کارروائیاں بھی شائع کی گئیں‘ جن کی اشاعت شوریٰ کی اجازت کے بغیر جائز نہیں تھی اور بعض اشخاص کے خلاف غلط تأثر دینے کے لیے ان کے دوران بحث کی نجی باتوں کی بھی تشہیر کی گئی. اس دوران میں امیر جماعت نے ’ترجمان‘ میں یہ اصول بھی پیش فرمایا کہ نظریاتی حکمت اور ہوتی ہے اور عملی حکمت اور ہوتی ہے‘ جو لوگ ان کے قول و عمل کے تضاد پر اعتراض کرتے ہیں وہ اس رمز کو نہیں جانتے کہ نظریہ جب عمل کا جامہ پہنتا ہے تو اس کی شکل کیا بنتی ہے. اس فلسفہ کو مدلل کرنے کے لیے ایک مثال بھی پیش کی گئی کہ دیکھو نبی  زندگی بھر مساوات کا درس دیتے رہے لیکن وفات کے وقت ’الائمۃ من قریش‘ کہہ کر خلافت اپنے خاندان والوں کے سپرد کر گئے‘‘. 

حقیقی عزائم …… ان تیاریوں کے پیچھے جو عزائم کارفرما تھے ان کا کسی قدر اندازہ اس گفتگو سے کیا جا سکتا ہے جو ماچھی گوٹھ کے لیے روانگی کے موقع پر مولانا مودودی اور چودھری غلام محمد صاحب کے مابین ہوئی. یہ گفتگو راقم الحروف کو حکیم عبد الرحیم اشرف صاحب نے سنائی اور ان سے اس کا تذکرہ خود چودھری صاحب نے ماچھی گوٹھ میں اس وقت کیا جب حکیم صاحب نے کسی بات پر مشتعل ہو کر اپنے اس ارادے کا اظہار کیا کہ وہ اجتماع ارکان میں اپنا اختلاف کھلم کھلا بیان کریں گے. حکیم صاحب راوی ہیں کہ چودھری صاحب نے مولانا مودودی سے سوال کیا کہ ’’مولانا! ماچھی گوٹھ میں کرنا کیا ہے؟‘‘ اس پر مودودی صاحب نے بے ساختہ فرمایا: ’’میں ان لوگوں سے تنگ آ چکا ہوں اور اب مزید ان کے ساتھ نہیں چل سکتا. اب اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ انہیں انہیں ذلیل کر کے جماعت سے نکال دیا جائے!‘‘ چودھری صاحب کے لیے یہ بات بہت غیر متوقع تھی. چنانچہ پہلے تو وہ سکتے میں آ گئے اور پھر انہوں نے ریل کے ٹکٹ مولانا کے سامنے پھینک دیئے اور کہا: ’’مولانا! یہ رہے ٹکٹ‘ آپ لوگ ماچھی گوٹھ جائیں اور جو چاہیں کریں. میں سیدھا کراچی جا رہا ہوں!‘‘ اپنے اس غالی معتقد اور انتہائی معتمد علیہ رفیق کو آمادۂ بغاوت دیکھ کر جس کے ہاتھ میں اُس وقت اتفاقاً بہت سے اختیارات بھی تھے مولانا مودودی نے کچھ توقف کیا اور پھر کہا: ’’اچھا تو پھر ان لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کریں گے!‘‘

یہ واضح رہے کہ کچھ ہی دنوں پہلے مولانا مودودی ’حکمت عملی‘ پر ایک مبسوط تحریر لکھ کر شائع کر چکے تھے !! 

اجلاس مرکزی شوریٰ …… اجتماع ارکان سے متصلاً قبل ماچھی گوٹھ ہی میں مرکزی مجلس شوریٰ جماعت اسلامی پاکستان کا ایک اجلاس منعقد ہوا‘ جس میں مولانا امین احسن اصلاحی بھی بطور خاص مدعو تھے. 

اس اجلاس میں کارروائی کی پہلی ہی شق پر ہنگامہ برپا ہو گیا اور میاں محمد طفیل صاحب نے بحیثیت معتمد مجلس شوریٰ کے گزشتہ دو اجتماعات کی روداد پڑھ کر سنائی تو شوریٰ کی واضح اکثریت نے ان پر الزام لگایا کہ انہوں نے شوریٰ کی کارروائی کو غلط طور پر پیش کیا ہے اور وہ جماعت کے سب سے زیادہ بااختیار ادارے کے ریکارڈ میں تحریف کر کے جماعت کے ساتھ بدترین خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں اس پر میاں صاحب نے بقول شخصے ’’اپنے روایتی انداز میں‘‘ زار و قطار رونا شروع کر دیا اور شوریٰ کی کارروائی میں تعطل پیدا ہو گیا. اس تعطل نے طول کھینچا اور اجتماع ارکان بالکل سر پر آ پہنچا تو ’مخلص مصالحت کنندگان‘ پھر برسر کار ہوئے اور ان کی کوششوں کے زیر اثر دوسری باتوں کو چھوڑ کر اس قرار داد پر غور شروع ہوا جو اجتماع ارکان میں پیش کرنے کے لیے مولانا مودودی نے 
مرتب فرمائی تھی! اس پر جو کچھ ہوا وہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کے الفاظ میں سنئے:-

’’اس اجلاس میں پہلی 
(۱مرتبہ وہ قرار داد میرے سامنے آئی جو امیر جماعت اجتماع عام میں جماعت کے سامنے لانے والے تھے. اس قرار داد پر میں نے نہایت سخت الفاظ میں تنقید کی. میں نے شوریٰ کو بتایا کہ اگر آپ لوگ اس قرار داد کو اجتماع عام میں لائیں گے تو میں دسمبر والی شوریٰ کی قرار داد جماعت کے سامنے پیش کروں گا اور امیر جماعت اور ان کے اصحاب نے اس قرار داد کو دفن کرنے کے لیے جو مہمیں چلائی ہیں اور جو اقدامات کئے ہیں وہ سب اجتماع عام میں بیان کروں گا. میرے یہ مؤقف اختیار کر لینے کے بعد شوریٰ میں تعطل پیدا ہو گیا. اس کے بعد اکثر ارکان شوریٰ مجھ سے ملے اور اس صورت حال کے پیدا ہو جانے پر اپنی پریشانی کا اظہار کیا. میں نے ان کو یہ (۱): اس ’’پہلی مرتبہ‘‘ کے اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اجتماع ماچھی گوٹھ سے قبل لاہور ’مصالحت‘ کے سلسلے میں جو گفت و شنید ہوتی رہی تھی اس میں اولاً مولانا اصلاحی اس پر مصر رہے تھے کہ ماچھی گوٹھ کے اجتماعِ ارکان میں دسمبر ۵۶ء والی شوریٰ کی متفقہ قرار داد ہی استصواب کے لیے پیش کی جائے. لیکن جب مصالحت کنندگان، خصوصاً مولانا ظفر احمد انصاری صاحب نے مولانا سے استدعا کی کہ وہ اس پر اصرار نہ کریں. اس قرار داد کے ساتھ بہت سی تلخ یادیں وابستہ ہو گئی ہیں اور یہ اب مولانا مودودی کے ذاتی وقار (Prestige) کا مسئلہ بن گیا ہے. آخر بعینہٖ اسی قرار داد پر کیا منحصر ہے. اگر وہی مفہوم دوسرے الفاظ میں ادا ہو جائے تو کیا حرج ہے! تو مولانا اصلاحی اس پر آمادہ ہو گئے کہ اسی مفہوم پر مشتمل کوئی دوسری قرار داد ماچھی گوٹھ کے اجتماع ارکان میں پیش کر دی جائے. مولانا ظفر احمد انصاری صاحب نے مولانا کو یہ یقین دلایا کہ مولانا مودودی ماچی گوٹھ میں پیش ہونے والی قرار داد پہلے ہی انہیں دکھا دیں گے اور ان دونوں کے اتفاق کے بعد ہی کوئی قرار داد اجتماع ارکان میں پیش ہو گی ان پختہ یقین دہانیوں کے بعد مولانا انصاری تو اچانک غائب ہو گئے (اور پھر ان کی صورت ماچھی گوٹھ ہی میں نظر آئی) اور مولانا اصلاحی اس انتظار میں رہے کہ ماچھی گوٹھ میں پیش ہونے والی قرارداد انہیں دکھائی جائے گی ..یہاں تک کہ اجتماع کا وقت آن پہنچا اور مولانا اصلاحی قرار داد کی زیارت کا اشتیاق ہی لیے ہوئے ماچھی گوٹھ پہنچ گئے. اور وہاں شوریٰ کے اجلاس میں ’’پہلی مرتبہ‘‘ انہیں اس کی زیارت نصیب ہوئی! 

بھی بتایا کہ میری تقریر کے وقت میرے ہاتھ میں قرآن ہو گا اور میں اپنے داہنے امیر جماعت کو بٹھاؤں گا اور بائیں قائمقام امیر جماعت چودھری غلام محمد صاحب کو‘ یہ دونوں حضرات میری جس بات کو کہہ دیں گے کہ یہ جھوٹ ہے، میں بغیر کسی حجت کے اس کو واپس لے لوں گا. مگر جماعت کے بزرگوں نے مجھے باصرار ایسا کرنے سے روکا کہ اس سے جماعت میں انتشار پیدا ہو جائے گا. 

بالآخر چوبیس گھنٹوں کے بعد باقر خان صاحب میرے پاس قرار داد لے کر آئے اور یہ کہا کہ امیر جماعت فرماتے ہیں کہ اگر تم اس میں کوئی لفظی ترمیم کرنا چاہتے ہو تو وہ تجویز کرو‘ اس پر غور کر لیا جائے گا لیکن کسی بنیادی ترمیم کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ میری تقریر تیار ہو چکی ہے. کسی لفظی ترمیم سے میرا مدعا حاصل نہیں ہو سکتا تھا. اس وجہ سے اس پیشکش کو قبول کرنا میرے لیے نا ممکن تھا‘ لیکن محض اس خیال سے میں نے ناممکن کو ممکن بنایا کہ امیر جماعت کی ضد کے باوجود میں کوئی ایسی بات کرنا پسند نہیں کرتا تھا جس سے جماعت میں انتشار پیدا ہو. چنانچہ میں نے قرار داد میں بعض لفظی ترمیمات کر کے اس کو جماعت کے اصل نصب العین کے قریب بنانے کی کوشش کی. امیر جماعت اور شوریٰ نے کچھ ردّ و قدح کے بعد میری یہ ترمیم قبول کر لی‘‘. 
(۱طرح خدا خدا کر کے تعطل دُور ہوا اور کچھ بھلے لوگوں کی سرتوڑ محنت سے بظاہر ایسی صورت بن گئی کہ اجتماع ارکان میں جماعت کی سابقہ اور آئندہ پالیسی کے بارے میں مرکزی مجلس شوریٰ کی جانب سے ایک متفقہ قرار داد مولانا مودودی پیش کریں گے ساتھ ہی یہ بھی طے کر لیا گیا کہ اجتماع ارکان میں مولانا مودودی پر اظہار اعتماد کی 
____________________________ حاشیہ (۱): لیکن جیسا کہ بعد میں ثابت ہوا مولانا نے یہ ترمیم دل سے قبول نہ کی تھی بلکہ اسے صرف مصلحت وقت کا تقاضا سمجھ کر مجبوراً قبول کیا تھا. اس لیے کہ اس موقع پر ان کے فعال نائبین میں سے ایک دوسری انتہائی اہم شخصیت یعنی محمد باقر خان مرحوم آمادۂ بغاوت ہو گئے تھے! ضرورت کے وقت خم کھا جانا اور پھر موقع دیکھ کر خم ٹھونک کر میدان میں آ جانا مروّجہ دنیوی سیاست کے اعتبار سے کامیابی کے ناگزیر لوازم میں سے ہے یہ دوسری بات ہے کہ ؏ 

ایں حال نیست صوفی عالی مقام را !! 

قرار داد پیش کی جائے گی جس کی سب تائید کریں گے. چنانچہ مولانا اپنا استعفیٰ واپس لے لیں گے. اللہ اللہ خیر سلا. رہے عام ارکانِ جماعت تو ان کے بارے میں غالباً یہ کافی خیال کیا گیا کہ انہیں کچھ رپورٹیں اور کچھ تقریریں سنوا کر رخصت کر دیا جائے‘ پالیسی سے متعلق اختلافی بحثوں میں انہیں الجھانے سے سوائے انتشار کے اور کچھ حاصل نہ ہو گا .

اس طرح ایک مرتبہ پھر جماعت کے اربابِ حل و عقد میں جماعت کی پالیسی کے بارے میں ’’اتفاق و اتحاد‘ پیدا ہو گیا. رہی یہ بات کہ یہ اتحاد سطحی تھا یا گہرا اور حقیقی تھا یا مصنوعی‘ تو ظاہر ہے کہ اس کا علم سوائے ارکانِ شورٰی (یا جماعت سے بالکل باہر کے ایک شخص یعنی مولانا انصاری) کے اور کسی کو نہ تھا. جماعت کے عام ارکان تو دُور رہے ان لوگوں کے سامنے بھی جو ان مسائل میں پوری طرح الجھے ہوئے تھے لیکن رکن شوریٰ نہ تھے معاملے کی جو صورت آئی اس کا اندازہ ان الفاظ سے کیا جا سکتا ہے جو راقم الحروف نے بعد میں اپنے استعفیٰ میں تحریر کئے: -
’’ماچھی گوٹھ حاضر ہوا تو جس چیز کا خدشہ تھا وہی ہوا. 
(۱

کلہیا میں گُڑ پھوڑا جا چکا تھا. ایک متفقہ قرار داد شوریٰ کی طرف سے اجتماعِ ارکان میں پیش ہوئی تھی‘ اجتماع کا سارا پروگرام ایک سوچی سمجھی سکیم کے ساتھ اس طرح بنایا جا چکا تھا کہ اول تو کوئی اختلافی آواز اُٹھائی ہی نہ جا سکے. اور اُٹھے بھی تو پوری طرح محبوس ہو کر! میں یہاں منتظمین اجتماع کی نیتوں پر حملہ نہیں کرنا چاہتا. انہوں نے جو کچھ کیا انتہائی خلوص کے ساتھ 
’’اھون البلیّتین‘‘ کے مشہور و معروف فلسفے کے تحت ایک بہت بڑے شَر یعنی جماعت کے انتشار سے بچنے کے لیے کیا. لیکن یہ بھی بہر حال اپنی جگہ ایک واقعہ ہے کہ اجتماع کو جس طرح CONDUCT (۲کیا گیا اس میں کسی اختلافی آواز کا اٹھنا خصوصاً ایسی حالت میں کہ’ ’اکابرین‘‘ میں سے تو کوئی میدان میں رہا ہی نہیں تھا چند بے وقعت ’’اصاغرین‘‘ باقی تھے ممکن نہ تھا … ‘‘ 

حاشیہ (۱): ملاحظہ ہو راقم الحروف کا وہ خط جو اس نے قائم مقام امیر جماعت کے توسط سے مرکزی مجلس شوریٰ کو لکھا.
حاشیہ (۲): اس کی تفصیلات آئندہ بیان ہوں گی. 

اجتماعِ ارکان

ڈاکٹر عثمانی صاحب کا نعرۂ حق …… اجتماعِ ارکان کی پہلی نشست کا آغاز ہوا ہی تھا کہ کراچی کے درویش منش رکن ڈاکٹر سید مسعود الدین حسن عثمانی دہائی دیتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ سب سے پہلے انہیں اس کا موقع دیا جائے کہ وہ اپنی اس تحریر کو پڑھ کر سنا دیں جو انہوں نے قائم مقام امیر جماعت کے توسط سے مرکزی مجلس شوریٰ کو ارسال کی تھی. ڈاکٹر صاحب کی جرأتِ ایمانی کا مظاہرہ کچھ ایسے طریقے سے ہوا کہ منتظمین اجتماع نے بے چوں و چرا ان کو اپنی تحریر پڑھ کر سنانے کی اجازت دے دی. ڈاکٹر صاحب نے اپنی اس تحریر میں مرکزی مجلس شوریٰ کے وسط جنوری کے اجلاس کے بعض فیصلوں سے شدید اختلاف کیا اور زیر انعقاد اجتماعِ ارکان کے سلسلے میں کچھ تجاویز پیش کیں‘ ساتھ ہی قیم جماعت کے اس بیان پر شدید تنقید کی جو انہوں نے سعید ملک صاحب کے بیان کے جواب میں دیا تھا اور مولانا مودودی کے اس اقدام کے سلسلے میں وضاحت طلب کی جو انہوں نے ارکانِ جائزہ کمیٹی کے خلاف کیا تھا. 

ڈاکٹر صاحب کا موقف یہ تھا کہ یہ طریقہ کہ امیر جماعت‘ جماعت کے آج تک کے اختیار کردہ طریق کار کی پوری تاریخ بیان کریں اور آئندہ کی پالیسی کے بارے میں ایک قرار داد پیش کریں جماعت کی سابقہ روایات کے بالکل خلاف ہے اور موجود حالات میں اس سے بد گمانی اور سوء ظن کا پیدا ہونا لازمی ہے. اس کے برعکس ہونا یہ چاہیے کہ شوریٰ نومبر دسمبر ۵۶ء کی متفقہ قرار داد ہی کو اس اجتماع ارکان میں استصواب کے لیے پیش کیا جائے. ڈاکٹر صاحب کے اپنے الفاظ میں:

’’اس زمانے میں جب کہ شیطان نے ہمارے داخلی استحکام کو منہدم کرنے کے لئے بھر پور حملہ کیا تھا اور جب کہ شیطان کو یہ موقع پوری طرح مل گیا تھا کہ وہ جماعت میں اعتماد اور حسن ظن کی فضا کو مسموم کر دے، اس امر کی سخت ضرورت تھی کہ جماعت کے ہونے والے کُل پاکستان اجتماع میں مسائل اور معاملات پیش کرنے کے لیے 
ایسا طریق کار تجویز کیا جاتا جو ہر شک و شبہ سے بالاتر ہوتا … لیکن مجلس شوریٰ کے تجویز کردہ طریق کار پر غور کرنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں غور و فکر کا پورا حق ادا ہونے سے رہ گیا ہے… ہم بہر حال اپنے اکابر کے سلسلے میں حسن ظن سے کام لینے کے عادی رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ غیر معمولی حالات میں حسن ظن کی انتہائی حد کو کام میں لانے کے باوجود دل کو اطمینان حاصل نہیں ہوتا … ‘‘

’’یہ امر بھی انتہائی تشویش کا باعث ہے کہ مجلس شوریٰ نے اس قرار داد کو جو شوریٰ کے اجلاس منعقدہ نومبر دسمبر میں پندرہ یوم کے غور و خوض کے بعد متفقہ طور پر منظور کی گئی تھی ارکان کے اجتماع کے آغاز سے کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کر لیا. اس سلسلے میں جو وجوہ بیان کئے گئے ہیں وہ کسی طرح دل کو مطمئن نہیں کرتے … میری ناقص رائے میں اگر اب بھی اسی قرار داد کو ارکان کے اجتماع میں فیصلے کے لیے پیش کیا جائے تو یہ بہت ہی مناسب ہو گا … ‘‘. 

اپنی تحریر کو پڑھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب جذبات سے بہت زیادہ مغلوب ہو گئے اور شدتِ تأثر میں ان کی آواز بھی گلو گیر سی رہی. نتیجتاً ان کی بات عام ارکانِ جماعت میں سے تو شاذ ہی کسی کی سمجھ میں آئی. رہے وہ لوگ جن کا سمجھنا مفید ہو سکتا تھا تو وہ سب کچھ سمجھ کر بھی نہ سمجھنے کا تہیہ کیے ہوئے ہی تھے! بہر حال اپنی طرف سے ڈاکٹر صاحب نے اپنے اس فرض کو ادا کرنے کی بھر پور کوشش کی جس کے بارے میں خود ان کے الفاظ یہ ہیں: 

’حالات کی نزاکت کے پیش نظر میں اپنے آپ کو اس بات پر مجبور پاتا ہوں کہ اس فرض کی ادائیگی کے لیے اُٹھ کھڑا ہوں جس کا اقرار میں نے جماعت کے ساتھ خدا کو حاضر ناظر جان کر کیا تھا… ایک دن ضرور آئے گا کہ ظاہر و باطن سے سارے پردے اُٹھ جائیں گے اور اس روز میں اپنی اس کوشش کو اپنے پروردگار کے سامنے رسوائی سے بچنے کا ذریعہ بناؤں گا‘‘. 

آخرت میں ڈاکٹر صاحب اپنی اس حق گوئی کا جو اجر چاہیں پائیں‘ جماعت اسلامی پاکستان کے کل پاکستان اجتماعِ ارکان میں بہر حال ان کی کوئی شنوائی نہ ہوئی اور اجتماع کی کارروائی طے شدہ پروگرام کے مطابق جاری رہی. چنانچہ اس کے بعد قیم جماعت نے 
ایک مفصل رپورٹ پڑھ کر سنائی اور اجتماع کی ایک پوری نشست اس کے نذر ہو گئی. 

امیر جماعت پر اظہار اعتماد …… قیم جماعت کی رپورٹ کے بعد سب سے پہلے مولانا مودودی پر اظہار اعتماد اور ان سے استعفیٰ واپس لینے کی درخواست پر مشتمل قرار داد پیش ہوئی اور اس پر دھواں دھار تقریروں کا سلسلہ شروع ہوا‘ جو اکثر و بیشتر ان ہی مضامین پر مشتمل تھیں جو کسی بھی اظہار اعتماد کی قرار داد میں ہوتے ہیں یعنی مولانا مودودی کی تعریف و توصیف اور اقامت دین کے لیے ان کی سعی و جہد کو خراج تحسین اور ان کے تدبر اور فہم و فراست پر کامل اعتماد کا اظہار. اس خیال سے کہ جماعت کے ارباب حل وعقد کے مابین اختلاف و انتشار کی خبروں سے جو تشویش عام ارکانِ جماعت کے قلوب و اذہان میں پیدا ہو گئی ہے اس کو کم کیا جائے، اس قرار داد پر ان لوگوں سے بطور خاص تقریریں کرائی گئیں جن کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کو مولانا مودودی سے اختلاف ہے ان حضرات نے اگرچہ اپنی حد تک اپنی تقریروں میں محتاط الفاظ استعمال کئے اور بعض مواقع پر ذو معنی باتیں بھی کہیں جن کا اصل مفہوم یا وہ خود جانتے تھے یا مولانا مودودی اور یا وہ چند لوگ جو پورے پس منظر سے باخبر تھے. لیکن عام ارکان جماعت نے ان کو بہر حال ان کے ظاہری مفہوم ہی پر محمول کیا. اور یہی اس وقت سب کا مطلوب و مقصود بھی تھا. 

مولانا اصلاحی نے اس قرار داد پر جو تقریر کی وہ فن خطابت کا ایک حسین مرقع تھی اور اس میں ان کا تخاطب بظاہر تمام شرکائے اجتماع سے لیکن در اصل صرف مولانا مودودی سے تھا. اپنی اس تقریر میں مولانا نے در اصل مولانا مودودی کو اس امر پر سرزنش کی تھی کہ اقامت دین کے لیے لوگوں کو بلانے اور انہیں اپنے اپنے ماحول و مشاغل سے منقطع کرنے کے بعد اب ان کا یہ رویہ بالکل غلط ہے کہ ساتھیوں اور رفیقوں کے مشوروں کو بالکل نظر انداز کر کے صرف اپنی من مانی کرنے پر اصرار کریں اور ان کی جانب سے معمولی سے اظہارِ اختلاف اور ذرا سی تنقید پر استعفاء کی دھمکیاں دینی شروع کر دیں. اسی سلسلۂ کلام میں جب انہوں نے عام ارکانِ جماعت سے خطاب کرتے ہوئے کچھ اس طرح کے الفاظ کہے کہ:

’’آپ لوگ چاہیں تو مولانا مودودی کے پاؤں پڑیں اور چاہیں تو ان کا دامن پکڑنے کی کوشش کریں لیکن میں ان کا گریبان پکڑ کر ان سے سوال کرتا ہوں کہ سب کو جمع کر کے اب وہ خود کہاں جانا چاہتے ہیں‘‘.

تو ظاہر ہے کہ اس کا اصل مفہوم صرف مولانا مودودی ہی سمجھ سکتے تھے!

یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ راقم الحروف سٹیج پر حاضر ہوا اور اس نے اولاً ان لوگوں کے طرزِ عمل پر اظہارِ حیرت کیا جن کے بارے میں اسے یہ معلوم تھا کہ وہ مولانا مودودی کے نقطہ ٔ نظر سے شدید اختلاف رکھتے ہیں اور ان کے دلوں میں اب واقعتا مولانا مودودی کے لیے کوئی احترام باقی نہیں رہ گیا ہے کہ وہ کس طرح اس قرار داد کی تائید میں تقریریں کر رہے ہیں. اس پر منتظمین اجتماع اور دوسرے لوگوں میں سے خصوصاً نعیم صدیقی صاحب نے شور مچایا کہ اس قسم کی باتیں اس موقع پر نہیں کہی جا سکتیں‘ جس کو بھی ایسی کوئی بات کہنی ہے وہ اس نشست میں کہے جو احتساب کے لیے مخصوص کی گئی ہے 
(۱مجبوراً میں نے اس بات کو یہیں چھوڑ کر ضابطے اور قاعدے کی بات پیش کی کہ:’’یہ اجتماع ارکان اس غرض سے بلایا گیا تھا کہ ارکان جماعت پالیسی اور طریق کار کے بارے میں مختلف نقطہ ہائے نظر کا جائزہ لے کر آئندہ کے لیے اپنا لائحہ عمل طے کریں گے. اس اجتماع کی ابتداء کسی بھی شخص پر اظہار اعتماد کے ساتھ کرنا صحیح نہیں ہے. کجا ان امیر جماعت پر جو از یوم تاسیس تا امروز جماعت کی امارت کے منصب پر فائز رہے ہیں اور جماعت کے موجودہ طریق کار سمیت اس کی آج تک کی تمام پالیسی ان ہی کے ذہن کی تخلیق ہے. ان پر اظہار اعتماد کی قرار داد منظور ہو جانے کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ اجتماع ارکان ان کی جملہ پالیسی کی بھی توثیق کر رہا ہے

حاشیہ (۱): ظاہر بات ہے کہ اگرچہ میری اس تنقید کا براہ راست ہدف وہ بزرگ ارکان جماعت تھے جو پالیسی اور طریق کار کے بارے میں وہی نقطہ ٔ نظر رکھتے تھے جو میرا تھا لیکن اگر میری یہ بات بڑھنے دی جاتی تو اس سے اجتماع کا رخ بالکل تبدیل ہو جاتا اور اتحاد و اتفاق کا سارا طمع اسی موقع پر اتر کر رہ جاتا. اور کیا عجب کہ پورے ڈرامے کا ڈراپ سین اسی وقت ہو جاتا. لہٰذا لطف کی بات یہ ہے کہ اس موقع پر بزرگ اصحاب اختلاف کی جانب سے مدافعت ان صاحب (نعیم صدیقی) نے کی جنہوں نے بعد میں خود اپنی تقریر میں انہیں امراضِ دماغی میں مبتلا قرار دیا. 
پھر کسی مزید بحث و تمحیص کا جواز باقی رہ جائے گا؟‘‘.

میری یہ بات اس وقت تو نقارخانے میں طوطی کی صدا ہو کر رہ گئی اور میرے بعد پھر اظہار اعتماد سے بھر پور تقاریر کا سلسلہ شروع ہو گیا لیکن کچھ دیر بعد خود مولانا مودودی سٹیج پر آئے اور انہوں نے راقم الحروف کا نقطہ ٔ نظر قبول کر کے قرار داد پر غور اور بحث کو ملتوی کر دیا.

یہاں ’نقض غزل‘ کا وہ حصہ ختم ہو گیا جو اب سے تٔیس (۲۳) سال قبل ۶۷۱۹۶۶ء میں شائع ہوا تھا. جب اُن تلخ حوادث و واقعات پر صرف دس (۱۰) برس گزرے تھے جن پر جماعت اسلامی کی تاریخ کا یہ تاریک باب مشتمل ہے. لہٰذا ’محافظ خانۂ ذہن‘ کی فائلیں بھی ابھی ’بند‘ (Close) نہیں ہوئی تھیں اور ’’نہاں خانۂ قلب‘‘ کے داغ بھی تازہ تھے. مزید برآں اس وقت تک ان حوادث و واقعات کے ذمہ دار اور متأثرین سب بقید حیات تھے‘ چنانچہ جب اُن کی جانب سے کسی بات کی تردید یا تصحیح نہیں ہوئی تو گویا بالواسطہ توثیق و تصدیق ہو گئی ویسے بھی ’’نقض غزل‘‘ کی شائع شدہ اقساط کا اکثر و بیشتر حصہ بعض ’’دستاویزات‘‘ پر مشتمل تھا جن کی تردید یا تکذیب کا امکان خارج از بحث ہوتا ہے!

البتہ ماچھی گوٹھ کے اجتماعِ ارکان کے بقیہ اور اصل حصے کی روداد اور اس کے بعد کے حوادث و واقعات کا معاملہ مختلف ہے. اس لیے کہ کُل دو (۲) دستاویزات کے سوا جن کا ذکر بعد میں آئے گا‘ اُن کا کوئی تحریری ریکارڈ نہ راقم الحروف کے پاس موجود ہے نہ اُس کے علم کی حد تک کسی اور کے پاس!. لہٰذا ان کے ضمن میں کُل انحصار یادداشت پر کرنا ہو گا جس میں کم از کم واقعات کی زمانی ترتیب میں تقدیم و تاخیر کی حد تک خطا کا امکان یقینا موجود ہے!

اس امکان کو ’’تا حد امکان‘‘ کم کرنے کے لیے راقم نے اپنی شدید علالت کے باوجود ماہ جنوری ۹۰ء کے دوران متعدد ’’بقیۃ السلف‘‘ حضرات سے ملاقات کی. اور اس کے لیے بعض سفر بھی بطور خاص اختیار کیے. چنانچہ فیصل آباد جا کر مولانا عبد الغفار حسن اور حکیم عبد 
الرحیم اشرف سے ملاقات کا شرف حاصل کیا‘ قصور جا کر جناب ارشاد احمد حقانی سے گفتگو کی. جناب مصطفی صادق نے کرم فرمایا کہ جیسے ہی میری خواہش اُن کے علم میں آئی وہ خود تشریف لے آئے (اور واقعہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ معلومات بھی ان ہی سے حاصل ہوئیں). اواخر جنوری میں کراچی کا ایک سفر انجمن خدام القرآن سندھ کے پروگرام کے سلسلے میں پہلے سے طے تھا‘ لیکن اگر ’نقض غزل‘ کے سلسلے میں شیخ سلطان احمد صاحب سے ملاقات کی شدید خواہش نہ ہوتی تو شاید میں اپنی علالت کی بنا پر اس سفر کو ملتوی کر دیتا. لیکن شدید تکلیف کے باوجود میں نے یہ سفر اختیار کیا اور شیخ صاحب موصوف کا کرم کہ انہوں نے نہایت خندہ پیشانی سے مفصل ملاقات اور سیر حاصل گفتگو کا موقع عنایت فرمایا. فجزاھم اللّٰہ عنی خیر الجزاء!

ان ملاقاتوں کا یہ فائدہ تو یقینا بسا غنیمت ہے کہ بعض ایسے بزرگوں اور سابق ہم سفروں سے تجدید ملاقات ہو گئی جن سے ملاقاتوں کا سلسلہ عرصہ سے منقطع تھا … مزید برآں ’نقض غزل‘ کے شائع شدہ مواد کی بحیثیت مجموعی تصویب مزید اور تصدیق مکرر بھی ہو گئی … صرف اس عمومی ’شکایت‘ کے ساتھ کہ حوادث و واقعات کے بیان میں اختصار بہت زیادہ ہے اور بعض ’تلخ تر‘ حقائق و واقعات بیان ہونے سے رہ گئے ہیں … تاہم اجتماع ماچھی گوٹھ کے ضمن میں اس کے سوا کہ بعض یادیں تازہ ہو گئیں‘ اور انگریزی محاورے کے مطابق Notes ایک دوسرے سے Tally کر گئے‘ کوئی خاص اضافی مواد حاصل نہیں ہو سکا. 
٭٭٭
ادھر خود جماعت اسلامی نے تو اپنی تاریخ کے اس ’تاریک باب‘ کے اخفاء کا اتنا اہتمام کیا کہ جماعت کی ایک مستقل روایت کو ختم کر دیا. اور ’’رودادوں‘‘ کی اشاعت کا سلسلہ ہی بند کر دیا. اس لیے کہ اگر اس اجتماع کی روداد شائع کی جاتی تو لا محالہ اختلاف کرنے والے ارکان کی تقریریں بھی شائع کرنی پڑتیں. لہٰذا مناسب خیال کیا گیاکہ صرف مولانا مودودی کی تقریر شائع کر دی جائے‘ باقی رہی مفصل روداد تو اس سے خود بھی ’’غض بصر‘‘ کر لیا جائے‘ اور نہ صرف موجود الوقت لوگوں بلکہ آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی بے خبر رکھا جائے. رہا 
جماعت کا اپنا دفتری ریکارڈ تو اس کے ضمن میں بھی، ع’’اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی!‘‘ کہ اُس کا بھی بہت سا حصہ اچھرہ سے منصورہ منتقلی کے دوران ضائع ہو گیا ہے‘ اور اب وہاں بھی متعلقہ تفاصیل موجود نہیں ہیں. گویا معاملہ صرف یہی نہیں کہ ؎

وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں
اچھا کیا جو مجھ کو فراموش کر دیا!

بلکہ صورتِ واقعہ کچھ ایسی بن گئی ہے کہ ؏ ’’جلا کے خاک کیا‘ خاک کو غبار کیا!‘‘ یہ دوسری بات ہے کہ ؏ ’’جو چُپ رہے گی زبان خنجر‘ لہو پکارے گا آستیں کا!‘‘ کے مصداق اجتماع ماچھی گوٹھ اور اس کے بعد کے حوادث و واقعات کے ضمن میں دو دستاویزات محفوظ رہ گئیں جن کے بین السطور حالات و واقعات کی پوری تصویر موجود ہے … ایک راقم کا استعفاء از رکنیت جماعت جو اجتماع ماچھی گوٹھ کے لگ بھگ دو ماہ بعد لکھا گیا تھا (اور اب اندازہ ہوتا ہے کہ اُس کا اس قدر تفصیل سے تحریر ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی خصوصی مشیت کے تحت تھا‘ اس لیے کہ وہ بجائے خود ’نقض غزل‘ کا مکمل خلاصہ ہے!) … اور دوسرا مولانا امین احسن اصلاحی کا ایک وضاحتی خط جو اجتماع ماچھی گوٹھ کے لگ بھگ ایک سال بعد اس وقت لکھا گیا جب مولانا نے رکنیت جماعت سے استعفاء دیا اور انہیں بے شمار خطوط موصول ہوئے جن میں اُن سے استعفے کے وجوہ و اسباب دریافت کئے گئے تھے! مولانا کی یہ مفصل تحریر بھی اُن کے مقام اور مرتبہ کے اعتبار سے ’نقض غزل‘ کی ایک خود مکتفی تصویر ہے‘ چنانچہ اُن دنوں کی سائیکلو سٹائل شدہ نقول کثیر تعداد میں ایک ’گشتی مراسلہ‘ کی صورت میں تقسیم ہوئی تھیں!

بنا بریں … ’نقض غزل‘ کی تکمیل کے سلسلے میں ہم اولاً ماچھی گوٹھ کے اجتماع ارکان کی بقیہ کارروائی کے اہم حصے ’یادداشت‘ کی بنا پر درج کر رہے ہیں اور اس ضمن میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے اس کے حرف حرف کی صداقت پر حلف لینے کو تیار ہیں سوائے صرف اس ایک بات کے کہ جیسے پہلے عرض کیا جا چکا ہے‘ واقعات کی زمانی ترتیب میں تقدیم و تاخیر کا امکان موجود ہے! ثانیاً متذکرہ بالا دونوں دستاویزات شائع کی جا رہی ہیں جن کے بین السطور میں وہ ’’آئینہ ٔ گفتار‘‘ موجود ہے جس میں ہر جویائے حق علامہ اقبال کے ان الفاظ کے مصداق 
کہ ؏ ’’آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ!‘‘ جماعت اسلامی کی تاریخ کے ۵۶ء اور ۵۷ء کے دو سالوں پر مشتمل بحرانی دور کے اصل حقائق اور واقعات کی ’’دھندلی سی اک تصویر‘‘ دیکھ سکتا ہے.