مؤلف کی متبادل قرار داد اور اس کا حشر

اگر یہ بات کسی درجے میں بھی درست ہے کہ ؎

ایک ہنگامے پر موقوف ہے گھر کی رونق 
نوحۂ غم ہی سہی‘ نغمۂ شادی نہ سہی!

تو واقعہ یہ ہے کہ اجتماعِ ماچھی گوٹھ میں اصل رونق اس خاکسار کی قرار داد اور تقریر سے پیدا شدہ ’’ہنگامے‘‘ کے باعث ہوئی‘ اور ؎گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے قصۂ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو!کے مصداق اس اجتماع کو اصل رنگ راقم کے لہو ہی نے فراہم کیا. اس لیے کہ راقم اگرچہ تا حال فیض‘ کے ان دو اشعار کا ’’مصداق کامل‘‘ تو نہیں بن سکا کہ ؎

اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے سو گزری
تنہا پس زنداں‘ کبھی رسوا سرِ بازار
گرجے ہیں بہت شیخ سرِ گو شہ ٔ منبر ..
کڑکے ہیں بہت اہل حکم برسرِ دربار!

تاہم اجتماع ماچھی گوٹھ کے دوران وہ ان کا نصف مصداق ضرور بن گیا. چنانچہ سرِبازار رسوائی بھی پوری شدت سے ہوئی‘ اور ایک داعی اسلام اور قائد تحریک اسلامی کی سرِ عام مخالفت کا ہدف بھی بننا پڑا. بلکہ میں آج بھی سوچتا ہوں تو قسمت کی اس ستم ظریفی پر حیران ہو کر رہ جاتا ہوں کہ اُس وقت حالات ایسے پیدا ہو گئے تھے کہ مجھے پچیس سال سے بھی کم عمر میں چار وناچار ایک ایسے شخص کے مد مقابل کی حیثیت سے کھڑا ہونا پڑا‘ جسے میں اُس وقت تو اپنا مرشد و ہادی سمجھتا تھا‘ آج بھی کم از کم محسن ضرور سمجھتا ہوں. اور جو علم و فضل‘ اور 
شہرت و وجاہت سے قطع نظر عمر میں بھی میرے والد کے برابر تھا (مولانا مودودی مرحوم اور میرے والد شیخ مختار احمد مرحوم‘ دونوں کا سن پیدائش ۱۹۰۳ ہے) تاہم اس شدید احساس کے باوجود کہ ؏ ’’یہ آج تری دنیا میں ہمیں تقدیر کہاں لے آئی ہے؟‘‘ راقم اُس وقت بھی مطمئن تھا اور اب بھی مطمئن ہے کہ یہ صورت اس کے لیے نہ پسندیدہ تھی نہ اختیاری‘ بلکہ حالات کے اس جبر پر مبنی تھی کہ مولانا امین احسن اصلاحی اور دوسرے معزز اراکین مجلس شوریٰ تو جن مصلحتوں یا اندیشوں کی بنا پر ’دبک‘ گئے تھے وہ ان ہی کو معلوم تھیں‘ میرے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا کہ ’’اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ‘‘ پر عمل کرتے ہوئے جماعت اور اس کی قیادت کا حق نصح ادا کرنے کی امکان بھر کوشش کروں.
چنانچہ راقم نے مولانا مودودی کی قرار داد کے مقابلے میں ایک متبادل قرار داد پیش کی جس کا متن درج ذیل ہے:

’’جماعت اسلامی پاکستان کا یہ اجتماعِ ارکان بہت سوچ و بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اگرچہ جماعت نے پچھلے پندرہ سالوں میں اپنے نصب العین سے اصولاً انحراف نہیں کیا ہے لیکن ۴۷ء میں پاکستان میں نظام اسلامی کے قیام کے لیے جو طریق کار جماعت نے اختیار کیا تھا اور جس پر جماعت تا امروز عمل پیرا ہے وہ مجموعی طور پر اس طریق کار سے بالکل مختلف ہے کہ جس پر جماعت کی اساس رکھی گئی تھی. یہ طریق کار اپنے سابقہ طرز عمل سے مختلف بلکہ متضاد ہونے کے علاوہ پاکستان کے عوام اور اس کے برسر اقتدار طبقے کے بارے میں کچھ ایسی خوش فہمیوں اور خود جماعت کی طاقت و وسائل و ذرائع کے بارے میں ایسے اندازوں پر مبنی تھا جو بعد میں کلیۃً درست ثابت نہ ہو سکے. اس طریق کار کے تحت ساڑھے نو سالہ جدو جہد کا منفی طور پر یہ نتیجہ تو ضرور برآمد ہوا ہے کہ کوئی اور نظام بھی اس ملک میں اپنی جڑیں گہری نہیں جما سکا لیکن مثبت طو پر نظامِ اسلامی کے قیام کے لیے جو کچھ کیا جا سکا ہے وہ اس طویل اور انتھک جدو جہد کے مقابلے میں بے حد کم ہے کہ جو ان نو سالوں میں جماعت کو کرنی پڑی ہے. اس جدو جہد کا ماحصل دستور میں شامل شدہ چند کمزور اور متزلزل اسلامی دفعات اور صرف مسئلہ ٔ دستور پر اس ملک کے سوچنے سمجھنے والے 
لوگوں کی اسلامی نقطہ ٔ نظر سے علمی راہنمائی کے سوا کچھ نہیں. اس عرصے میں نہ تو عوام کی اسلامی نقطہ ٔ نظر سے ٹھوس فکری و ذہنی تربیت کی جا سکی ہے نہ اخلاقی و عملی‘ اور اس معاملے کا دردناک ترین پہلو یہ کہ اس طریق پر جدو جہد کے دوران جماعت کو نہ صرف اپنے کارکنوں کے سرمایۂ دین و اخلاق اور متاع خلوص و للہیت کے ایک حصے کا ضیاع برداشت کرنا پڑا ہے بلکہ اسے خود اپنی بین الاقوامی‘ اصولی‘ اسلامی جماعت ہونے کی حیثیت سے ہاتھ دھو کر ایک اسلام پسند قومی سیاسی جماعت کی حیثیت اختیار کر لینی پڑی ہے. 

موجودہ طریق کار کے غلط ہونے کے علاوہ جماعت کا یہ اجتماع ارکان یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ اس کے مطابق جدو جہد کو آئندہ جاری رکھنے کی صورت میں جماعت کو جو خطرات پیش آسکتے ہیں وہ ان تمام نتائج و خدشات کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں جو اس طریق کار کو چھوڑ کر سابق طریق کو اختیار کرنے میں پیش آ سکتے ہیں. 

بنا بریں جماعت کا یہ اجتماع محسوس کرتا ہے کہ موجودہ طریق کار کو اسی لمحہ ترک کر کے اسی طریق کار کو اصولاً دوبارہ اختیار کرنے ہی پر جماعت کی اخروی و دنیوی فوز و فلاح کا دار و مدار ہے کہ جس پر جماعت کی اساس رکھی گئی تھی. چنانچہ یہ اجتماع فیصلہ کرتا ہے کہ ماضی کے بارے میں اس نقطہ ٔ نظر اور مستقبل کے بارے میں اس فیصلے کو اصولاً تسلیم کرنے کے بعد اس کے مطابق آئندہ کا لائحہ عمل تجویز کرنے کے لیے جماعت کے ارباب حلق و عقد جمع ہو کر سوچ بچار کریں اور ایک تفصیلی لائحہ عمل مرتب کر کے اس اجتماع کے سامنے پیش کریں‘‘.
اسرار احمد عفی عنہ رکن منٹگمری 

ظاہر ہے کہ یہ قرار داد میرے اس مفصل بیان کے حاصل بحث اور لب لباب کی حیثیت رکھتی تھی‘ جو میں نے ’’جائزہ کمیٹی کی خدمت میں 
(۱‘‘ پیش کیا تھا. اور جس نے نہ حاشیہ (۱): یہ بیان اب ’’تحریک جماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ نامی کتاب کی صورت میں مطبوعہ موجود ہے جو بڑے سائز کے ۲۳۶ صفحات پر مشتمل ہے. راقم کے پاس اس کا اصل مسودہ تا حال محفوظ ہے اور ان سطور کی تحریر کے وقت ایک ضرورت سے اسے نکال کر دیکھا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ اس کا عنوان اُس وقت میں نے’’جائزہ کمیٹی کی خدمت میں!‘‘ ہی تحریر کیا تھا. 

صرف ارکانِ جائزہ کمیٹی بلکہ بہت سے دوسرے اراکین مجلس شوریٰ کو اس نتیجے تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا تھا جس کے دباؤ کے تحت نومبر دسمبر ۵۶ء کی قرار داد شوریٰ میں ہزار احتیاطوں اور اندیشہ ہائے دور دراز‘ کے باوجود حسب ذیل الفاظ بطور شق نمبر ۱ شامل ہو گئے تھے:
’’جماعت نے تقسیم ملک سے پہلے اور بعد اب تک جو کام کیا ہے اس کے متعلق مجلس شوریٰ اس بات پر مطمئن ہے کہ جماعت اپنے اصول‘ مسلک اور بنیادی پالیسی سے منحرف نہیں ہوئی ہے‘ البتہ تدابیر کے صحیح اور غلط ہونے کے بارے میں دو آراء ہو سکتی ہیں اور صحیح قرار دینے کی صورت میں بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ مفید نتائج کے ساتھ بعض مضر نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں. جنہیں رفع کرنے کی ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے‘‘.

یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنے اُس خط میں‘ جو اجتماعِ ماچھی گوٹھ کے لیے روانہ ہونے سے قبل منٹگمری ہی سے قائم مقام امیر جماعت چودھری غلام محمد (مرحوم) کے نام پانچ دیگر ارکانِ جماعت کی معیت میں ارسال کیا تھا صراحت کے ساتھ لکھ دیا تھا کہ: ’’ہمیں اس بات کا پورا موقع دیا جائے کہ ہم اجتماع ارکان میں اپنے نقطہ ٔ نظر کو وضاحت سے رکھ دیں مزید تشریح مناسب ہے کہ ہمیں کم از کم اتنا وقت درکار ہو گا کہ ہم اپنے اُس متفقہ بیان 
(۱کو جو ہم نے جائزہ کمیٹی کے سامنے پیش کیا تھا پڑھ کر اجتماع ارکان میں سنا دیں اور آئندہ کے بارے میں ایک قرار داد مرتب کر کے اُسے وضاحت کے ساتھ پیش کر سکیں‘‘ اور اس کے ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کر دی تھی کہ: ’’اگر یہ قابل قبول نہ ہو تو ہمیں اجتماع سے قبل ہی مطلع کر دیا جائے. ہم اس کے لیے پورے انشراحِ صدر کے ساتھ تیار ہیں کہ خاموشی کے ساتھ جماعت سے علیحدہ ہو جائیں. اور نہ اپنی منزل کھوٹی کریں اور نہ جماعت کی راہ میں رکاوٹ حاشیہ (۱): واضح رہے کہ جماعت اسلامی منٹگمری کے ان ارکان نے جائزہ کمیٹی سے ملاقات پر بھی یہی کہا تھا کہ ہمارے نظریات تقریباً وہی ہیں جو ڈاکٹر اسرار احمد کے ہیں‘ اور پھر جب راقم اپنا بیان ضبط تحریر میں لے آیا تب بھی انہوں نے اس سے اپنے کامل اتفاق کا اظہار کر دیا تھا!

بن کر کھڑے ہوں!‘‘. اور جیسے کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے‘ اس تحریر کے جواب میں ہمیں بذریعہ تار مطلع کیا گیا تھا کہ اجتماع ارکان میں سب کو اظہارِ خیال کا پورا موقع دیا جائے گا. 

لیکن جب ماچھی گوٹھ پہنچنا ہوا تو فوراً ہی اندازہ ہو گیا کہ اجتماع کو جس طور سے 
Conduct کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے اس میں ہمارے مطالبے کا بہ تمام و کمال پورا ہونا تو قطعاً نا ممکن ہے‘ صرف یہ کوشش کی جا سکتی ہے کہ اپنے نقطہ ٔ نظر کو ایک مختصر تقریر میں واضح کیا جائے‘ اور اس کے لیے اگرچہ میرے پاس اپنے بیان کی صورت میں وسیع مواد اور مفصل دلائل و شواہد موجود تھے لیکن یہ بہر حال لازم تھا کہ اس طویل بیان میں سے موقع کی مناسبت سے اہم تر مواد کا انتخاب کیا جاتا اور اسے از سر نو مرتب کر کے تقریر تیار کی جاتی. اور اس کے لیے ظاہر ہے کہ یہ لازم تھا کہ یہ معلوم ہوتا کہ مجھے تقریر کے لیے کتنا وقت دیا جا سکے گا لہٰذا میں دوران اجتماع قائم مقام امیر جماعت سے اس سلسلے میں مسلسل استفسار کرتا رہا جس کا یہی مستقل جواب ملتا رہا کہ ’’ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا‘‘. 

بنا بریں میں اپنی تقریر قطعاً تیار نہ کر سکا‘ اور جب ؏ ’’مری بار کیوں دیر اتنی کری‘‘ کے مصداق اجتماع کے تیسرے دن کے تقریباً خاتمے کے لگ بھگ ’متبادل قرار دادوں‘‘ کی باری آئی. اور میرا نام پکارا گیا تو میں تقریباً خالی الذہن کیفیت کے ساتھ اُٹھا اور اس نہایت ہی مختصر تمہید کے بعد اپنا بیان پڑھنا شروع کر دیا کہ: 

’’میں اگرچہ اس وقت شدید مشکل سے دوچار ہوں‘ اور مجھے مختلف نوع کی بے شمار داخلی اور خارجی رکاوٹوں کا سامنا ہے‘ تاہم جماعت کی پالیسی اور طریق کار کے ضمن میں اختلافی ذہن رکھنے والے اکابرین کے مقابلے میں ایک نہایت اہم سہولت بھی مجھے حاصل ہے اور وہ یہ کہ جہاں اس بات کا قوی امکان اور شدید اندیشہ ہے کہ اگر اکابرین جماعت میں سے کوئی شخص امیر جماعت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی قرار داد کے بالمقابل متبادل قرار داد لے کر کھڑا ہو تو یہ گمان کیا جائے کہ وہ خود منصب امارتِ جماعت کا طالب اور خواہاں ہے‘ وہاں بحمد اللہ‘ میری نو عمری‘ کم مائیگی اور بے بضاعتی کے پیش نظر‘ میرے بارے میں ایسے کسی گمان کا کوئی امکان موجود نہیں اور اپنی پرسوں کی افتتاحی تقریر میں امیر جماعت 
نے یہ بات دو ٹوک انداز میں کہہ کر کہ: ’’پالیسی اور طریق کار پر بحث و تمحیص کے بعد جس شخص کی بات ارکانِ جماعت مان لیں‘ پھر اُسی کو جماعت کی رہنمائی کرنی چاہیے!‘‘ اکابرین کے قدموں میں جو بھاری بیڑیاں ڈال دی ہیں‘ الحمد للہ کہ مشہور فارسی مقولے ’’عصمت بی بی است از بے چادری!‘‘ کے مصداق میں اُن سے آزاد ہوں!!‘‘

ان تمہیدی الفاظ کے بعد جب میں نے اپنا بیان پڑھنا شروع کیا تو چند ہی منٹ کے بعد اجتماع میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا 
(۱) . 

میرے بیان کے آغاز میں چونکہ میرا کچھ ذاتی تعارف بھی شامل ہے تو ابھی میں اسی کو پڑھ رہا تھا کہ ایک ترکستانی قاری صاحب جنہوں نے انقلاب روس کے بعد ہجرت کی تھی اور پہلے افغانستان اور پھر ہندوستان تشریف لائے تھے‘ اور اُن دنوں اجمل باغ‘ رحیم آباد‘ میں قراء ت کے استاد کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے تھے‘ اُٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے فرمایا: ’’میری عمر مقرر کی عمر سے بہت زیادہ ہے‘ اور میں نے بہت سے ملکوں کا سفر کیا ہے‘ اگر میں اپنی داستانِ حیات بیان کرنے لگوں تو وہ مہینوں جاری رہے گی‘ لہٰذا اس سلسلے کو بند کیا جائے!‘‘ 
(۲اس
کے تھوڑے سے وقفے کے بعد پروفیسر عبد الغفور احمد بڑے غصے میں اُٹھے اور انہوں نے نہایت جلالی شان میں چیخ کر کہا: ’’ہمارے پاس اس بکواس کو سننے کے لیے کوئی وقت نہیں ہے!‘‘.. یہ گویا ایک اشارہ تھا جس پر پنڈال میں 
حاشیہ (۱): اس طوفان کا آغاز تو میرے سٹیج پر آتے ہی ہو گیا تھا. چنانچہ سٹیج کے پیچھے ایک میز پر جماعت کے شعبۂ نشر و اشاعت کے جو کارکن بیٹھے ہوئے تھے اُن میں سے مصباح الاسلام فاروقی مرحوم نے فرمایا: ’’اچھا ہوا کہ گورمانی کے ایجنٹ بھی سامنے آ گئے!‘‘ (لیکن ظاہر ہے کہ یہ بات اس وقت میرے علم میں نہیں آئی تھی بلکہ بعد میں بھائی اللہ بخش سیال صاحب کے ذریعے معلوم ہوئی جو پنڈال کے اُس حصے میں بطور کارکن مامور تھے. انہوں نے نہایت درشتی سے فاروقی صاحب کا محاسبہ بھی کیا جس پر مرحوم نے معذرت کر لی! (اللہ ان کی خطا سے درگزر فرمائے اور ان کی مغفرت کرے!)

حاشیہ (۲): قاری صاحب موصوف کا نام تو مجھے یاد نہیں‘ لیکن اُن کی صورت ابھی تک نگاہوں کے سامنے موجود ہے‘ وہ بہت نیک اور مخلص انسان تھے‘ اور اُن کی جانب سے میرے دل میں ہرگز کوئی شکایت یا کدورت نہیں ہے. ان کا انتقال اجتماع کے بعد جلد ہی ہو گیا تھا. 
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَہٗ وَ ارْحَمْہُ! 

ہنگامہ پوری شدت کے ساتھ برپا ہو گیا. اور بہت سے ارکان نے اپنی اپنی جگہ کھڑے ہو کر بلند آواز میں میرے خلاف گل افشانی شروع کر دی. اور ایک زور دار مطالبہ سامنے آ گیا کہ ڈاکٹر اسرار کو قطعاً وقت نہ دیا جائے!

دوسری طرف ...بعض نے اسی شد و مد کے ساتھ میری حمایت اور مجھے غیر محدود وقت دینے کے حق میں آواز اٹھائی‘... ان میں سے تین حضرات کی باتیں مجھے لفظ بہ لفظ یاد ہیں: (۱) مولانا سید وصی مظہر ندوی نے تو صرف اس پر اکتفا کی کہ ’’میں اپنے حصے کا وقت بھی ڈاکٹر اسرار کو دیتا ہوں‘‘. (۲) سردار محمد اجمل خان لغاری مرحوم نے فرمایا: ’’ڈاکٹر اسرار جیسے لوگ تحریکوں کو روز روز نہیں ملا کرتے‘ انہیں پورا وقت دیا جائے اور اگر اس وجہ سے اجتماع کی کارروائی میں ایک دن کا اضافہ ناگزیر ہو تو اُس کا کُل خرچ میں اپنی ذاتی جیب سے ادا کروں گا‘‘. 

(۳) سب سے زیادہ تیکھی بات راؤ خورشید علی خاں مرحوم نے کہی کہ: ’’یہاں استبداد (راؤ صاحب نے 
Repression کا لفظ استعمال کیا تھا) کی بد ترین مثال قائم کی جا رہی ہے‘ ڈاکٹر اسرار اپوزیشن کا لیڈر ہے (۱‘ اسے بھی اتنا ہی وقت ملنا چاہیے جتنا لیڈر آف دی ہاؤس (یعنی مولانا مودودی مرحوم) نے لیا ہے (گویا چھ گھنٹے!)‘‘ اس پر خود مولانا مودودی سٹیج پر تشریف لائے اور انہوں نے پہلے تو اس پر شدید احتجاج کیا کہ یہاں وہ اصطلاح استعمال کی جا رہی ہیں جن کا جماعت اسلامی کے ساتھ سرے سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے‘ چنانچہ انہوں نے فرمایا: ’’یہاں نہ کوئی حزب اقتدار ہے‘ نہ حزب اختلاف!‘‘ اور اس کے بعد کسی قدر غیظ اور غضب کے عالم میں میری وہ نوٹ بک مجھ سے لے کر جس میں میرا بیان درج تھا (اور وہی اصل مسودہ تھا) اسے ہاتھ بلند کر کے ہوا میں لہرایا اور فرمایا کہ ’’اس قدر ضخیم کتاب کو اِس اجتماعِ عام میں کیسے پڑھا جا حاشیہ (۱): راؤ صاحب کے اس ایک جملے سے پورا اندازہ ہوتا ہے کہ اکابر کے خاموش ہونے اور دبک جانے نے کس طرح ’’ کَبَّرَنِیْ مَوْتُ الْکُبَرَاء‘‘ کے مصداق راقم کو کسی مشکل ہی نہیں نہایت مضحکہ خیز پوزیشن میں ڈال دیا تھا!
سکتا ہے؟‘‘

اس پر میدانِ کارزار پھر گرم ہو گیا اور دونوں جانب سے تیز و تند جملوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا. اور پورا نصف گھنٹہ اس ہنگامے کی نذر ہو گیا. جس کے دوران میں سٹیج پر مائک کے سامنے چپ چاپ کھڑا دونوں قسم کی باتیں سنتا رہا‘ اگرچہ ظاہر ہے کہ اُن میں طنز‘ تمسخر‘ اور استہزاء ہی نہیں‘ نفرت‘ حقارت اور طیش پر مبنی جملوں کا پلڑا بہت بھاری تھا! تاہم راقم کے لیے تو یہ اندازِ مخالفت‘ اور یہ طرزِ حمایت دونوں ہی ؎

عجب دو گونہ عذاب است جانِ مجنوں را
عذاب فرقتِ لیلیٰ و صحبتِ لیلیٰ،

کے مصداق یکساں پریشان کن 
(Embarrasing) تھے.
بالآخر میں نے مہر سکوت کو توڑا اور عرض کیا ’’مجھے آپ حضرات کی دِقت کا بخوبی اندازہ ہے‘ لیکن تھوڑی دیر کے لیے آپ حضرات میری مشکل پر بھی غور فرمائیں میری مشکل یہ ہے کہ اگر میں اس وقت آپ لوگوں کے سامنے اپنا اختلافِ رائے بیان نہیں کرتا اور جماعت سے علیحدہ ہو کر بات کرتا ہوں تو آپ کا یہ الزام مجھ پر واقع ہو گا کہ: تم نے جماعت کے اندر بات کیوں نہ کی؟ ورنہ مجھے نہ تقریر کا ڈھنگ آتا ہے‘ نہ ہی اس کا شوق ہے! اب اگر آپ لوگ مجھے وقت نہیں دے سکتے تو غور فرما لیجئے کہ پھر میری حجت آپ پر قائم ہو جائے گی کہ آپ نے مجھے جماعت کے اندر رہتے ہوئے اظہارِ اختلاف کا موقع نہ دیا!‘‘. 
(۱حاشیہ (۱): میں نے اپنی اس وقت کی جس داخلی کیفیت کی تر جمانی ان الفاظ سے کی تھی اجتماع ماچھی گوٹھ کے کچھ ہی عرصہ بعد فیض احمد فیضؔ کی ایک نظم میں مجھے اُس کی نہایت بھرپور اور حد درجہ فصیح و بلیغ ترجمانی نظر آئی. جناب فیضؔ کے الفاظ حسب ذیل ہیں:

دُشنام‘ نالہ‘ ہاؤ ہو‘ فریاد‘ کچھ تو ہو!
چیخے ہے درد ! اے دل برباد کچھ تو ہو!

مرنے چلے تو سطوتِ قاتل کا خوف کیا؟
اتنا تو ہو کہ باندھنے پائے نہ دست و پا!
مقتل میں کچھ تو رنگ جمے جشن رقص کا!

آلودہ خوں سے پنجۂ صیاد کچھ تو ہو!
خوں پر گواہ دامن جلاد کچھ تو ہو!
جب خوں بہا طلب کریں بنیاد کچھ تو ہو! 

بہر حال میں تو اپنے مندرجہ بالا الفاظ کہہ کر سٹیج سے اتر آیا‘ لیکن اب مولانا مودودی مرحوم سمیت سٹیج کے آس پاس بیٹھے ہوئے اکابرین میں کھسر پھسر اور صلاح و مشورہ شروع ہوا‘ جس کے نتیجے میں اعلان کیا گیا کہ مجھے تین گھنٹے دیئے جائیں گے. اگرچہ اُن میں وہ نصف گھنٹہ بھی محسوب ہو گا جو پہلے ہی صَرف ہو چکا ہے. 

اس پر میں نے اپنا بیان دوبارہ پڑھنا شروع کر دیا. لیکن اس حال میں کہ ایک جانب مسلسل ہوٹنگ ہوتی رہی اور دل آزار اور اشتعال انگیز فقرے چست کئے جاتے رہے‘ دوسری جانب میں خالی الذہن تو پہلے ہی سے تھا‘ اب نصف کھنٹے کے شدید ہنگامے 
(Pandemonium) اور مسلسل ہوٹنگ سے میرے اعصاب بھی متاثر ہو چکے تھے اور تیسری جانب وقت کی پابندی کے باعث مجھے اپنے بیان کے بعض حصے چھوڑنے پڑ رہے تھے جس سے عبارت کا ربط اور تسلسل ٹوٹ رہا تھا‘ اور بالآخر وقت معینہ میں پورا بیان ختم بھی نہ ہو سکا اور مجھے بات ادھوری ہی چھوڑ کر سٹیج سے اتر آنا پڑا بنا بریں مجھے اپنے اور اپنی قرار داد کے اس حشر پر تو ہرگز تعجب نہیں ہوا کہ اس کے حق میں صرف چار ووٹ آئے‘ البتہ اس پر ضرور تعجب ہوا کہ بڑے ہی باہمت تھے وہ لوگ جنہوں نے مجھے ووٹ دیئے!! 

تاہم اس سرگزشت میں ایک اہم لمحہ ٔ فکر یہ ہے مولانا امین احسن اصلاحی اور ان کے ہم خیال دوسرے اکابرین اور اراکین مجلس شوریٰ کے لیے کہ اگر مجھ ایسے نو عمر‘ حقیر اور بے بضاعت شخص کو اس اجتماع میں اتنا وقت مل سکتا تھا‘ اور وہ بھی مولانا مودودی ایسی عظیم شخصیت کی مخالفت کے علی الرغم‘ تو اگر وہ بھی کمر ہمت کس لیتے تو ؎

اٹھ باندھ کمر‘ کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے!

کے مصداق نصرتِ خداوندی ضرور دست گیری کرتی اور کیا عجب کہ جماعت کا رخ تبدیل ہو جاتا. تاہم یہ صرف ایک دکھے ہوئے دل کی صدا ہے‘ ورنہ ؏ ’’مجھے ہے حکم اذاں‘ لا الٰہ الاّ اللہ!!‘‘کے مصداق ہمیں تو اسی کا حکم ہے کہ اس پر ایمان پختہ رکھیں کہ ’’مَا شَاء اللّٰہُ کَانَ وَ مَا لَمْ یَشَأْ لَمْ یَکُنْ‘‘ اور’’اِنَّ کَلِمَۃَ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطَانِ‘‘ … واللّٰہ اعلم!!