میری متبادل قرار داد کے علاوہ مولانا مودودی کی قرار داد میں جو ترامیم تجویز کی گئیں‘ یا دیگر متبادل قرار دادیں پیش کی گئیں ان کی راقم کے ذہن میں بھی صرف ایک دھندلی سی یاد باقی ہے‘ اور خود متعلقہ حضرات کو بھی زیادہ تفاصیل یاد نہیں‘ لہٰذا اُن کا صرف اجمالی تذکرہ کافی ہے. 
۱. جناب ارشاد احمد حقانی نے ایک متبادل قرار داد پیش کی تھی اور اس پر تقریر بھی کی تھی‘ لیکن اب اِن دونوں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے‘ تاہم انہیں ووٹ مجھ سے زیادہ ملے تھے. یعنی اغلباً ۱۸

اس سے بھی اہم تر معاملہ اُن کا اس وقت سامنے آیا جب آئندہ جماعت میں پالیسی اور طریق کار کے ضمن میں اختلافی ذہن رکھنے والے لوگوں کے لیے ’گنجائش‘ پیدا کرنے کا مسئلہ زیر بحث تھا‘ اور اس سلسلے میں بھی ایک قرار داد پر غور ہو رہا تھا جس میں تجویز کیا گیا تھا کہ ’’جماعت کی پالیسی سے اختلاف رکھنے والے لوگ بھی اگر جماعت کے مقصد اور نصب العین سے پورا اتفاق رکھتے ہوں تو جماعت میں شامل رہ سکتے ہیں‘ تاہم وہ اپنا اختلافِ رائے سوائے آل پاکستان اجتماعِ ارکان کے نہ پبلک میں بیان کر سکیں گے نہ خود ارکانِ جماعت کے مقامی‘ ضلعی‘ حتیٰ کہ حلقہ وار اجتماعات میں! اور یہ پابندی قلم پر بھی ہو گی اور زبان پر بھی‘ یہاں تک کہ خالص نجی گفتگوؤں میں بھی اپنے اختلافی خیالات کا اظہار ممنوع ہو گا‘‘ (واضح رہے کہ یہ سب یادداشت کی بنا پر تحریر کیا جا رہا ہے اور اس میں لفظی غلطی کا 
امکان موجود ہے‘ تاہم حاصل کلام یقینا یہی تھا!) تو اس پر حقانی صاحب نے کہا کہ ’’ایسے اہم مسئلے کو اس طرح رَوا رَوی میں طے کرنا غلط ہے‘ ہمیں اس قرار داد کی نقول مہیا کی جائیں اور اس پر غور و خوض کا موقع بھی دیا جائے اور بحث و تمحیص کا بھی!‘‘ اور جب انہیں قیم جماعت میاں طفیل محمد صاحب نے جواب دیا کہ آپ کا یہ مطالبہ منظور کرنا ممکن نہیں تو اس پر انہوں نے اجلاس سے احتجاجا! واک آؤٹ کیا جس پر مولانا مودودی یہ کہتے ہوئے سنے گئے: ’’یا اللہ یہ میں جماعت میں کیسی باتیں دیکھ رہا ہوں!‘‘ حقانی صاحب کے اس احتجاجی واک آؤٹ میں مولوی محی الدین سلفی مرحوم نے بھی ساتھ دیا اور وہ بھی تھوڑی دیر کے لیے پنڈال سے باہر چلے گئے! بہر نوع وہ قرار داد بھی پاس ہو گئی‘ اور اس طرح پالیسی اور طریق کار کے ضمن میں اختلافی ذہن رکھنے والوں پر متذکرہ بالا جملہ قدغنیں اور پابندیاں عائد ہو گئیں. 

۲. جناب مصطفی صادق صاحب نے سرکاری قرار داد سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ ’’ہم کارکنوں کی اصل مشکل یہ ہے کہ ہمارے سامنے جو پالیسی مقالات‘ مضامین‘ تقاریر‘ اور مرکزی شوریٰ کے فیصلوں کی صورت میں آئی ہے‘ ہم اسے حرزِ جان بنا لیتے ہیں اور اس پر خود بھی دھواں دھار تقریریں اور گرما گرم بحثیں کر دیتے ہیں لیکن پھر اچانک ہمارے سامنے عمل بالکل مختلف بلکہ متضاد صورت میں آتا ہے‘‘ (روایت بالمعنٰی) اس ضمن میں انہوں نے جماعت کی انتخابی پالیسی کا بطورِ خاص ذکر کیا اور پھر وہ واقعات گنوائے جن سے ظاہر ہوا کہ عملا! اس پالیسی کی دھجیاں مرکز اور حلقہ جات کے اہم ترین اور ذمہ دار ترین لوگوں نے خود اپنے ہاتھوں بکھیری ہیں. مثلاً (۱) خود مولانا مودودی نے انہیں حکم دیا کہ مولانا محی الدین لکھوی کو ان کے گاؤں سے لے کر آئیں اور ان کا ووٹ میاں عبد الباری مرحوم کے حق میں ڈلوائیں. جبکہ میاں صاحب موصوف مروّجہ نظام انتخابات کے تحت ہی الیکشن میں حصہ لے رہے تھے اور بطور خود امیدوار تھے‘ اور امیدواری کو ہم نے حرامِ مطلق قرار دیا ہے. انہوں نے کہا کہ میں نے اس حکم کی تعمیل ’’زیر احتجاج‘‘ (یعنی 
(Under Protest) کی کہ یا تو آپ اپنا موقف علی الاعلان بدلیں اور اگر کوئی غلط رائے سہواً قائم ہو گئی تھی تو اس سے علانیہ رجوع کریں‘ ورنہ اس پر سختی سے عمل کریں. (۲) اسی طرح بہاولپور کے الیکشن میں جماعت نے ووٹروں کو خوب کھانے بھی کھلائے اور ان کے لیے ٹرانسپورٹ بھی فراہم کی. اور پھر حسابات بالکل جعلی اور جھوٹے پیش کر دیئے! اس پر بعض حضرات نے تو دبے الفاظ میں تردید کی کوشش کی لیکن (جناب مصطفی صادق کے بیان کے مطابق) ملتان کے سید نصیر الدین مرحوم اور صادق آباد کے بھائی (وہ میرے بہنوئی ہیں) اللہ بخش سیال صاحب نے سٹیج پر آ کر بیان دیا کہ ’’یہ الزام غلط ہے‘ حسابات ہم نے پیش کئے تھے‘ اور وہ بالکل صحیح اور مطابق واقعہ تھے‘‘ تب سردار محمد اجمل خان لغاری مرحوم خود کھڑے ہوئے اور انہوں نے فرمایا کہ: ’’اس الیکشن میں جماعت کے پنچائتی نظام کے تحت نمائندہ میں تھا اور میں اپنی ذاتی معلومات کی بنا پر کہتا ہوں کہ سید نصیر الدین اور اللہ بخش سیال کے بیان سے بڑا جھوٹ ہو ہی نہیں سکتا!‘‘

اس ناگوار بحث کو تو اگرچہ مولانا مودودی مرحوم نے خالص پارلیمنٹری لطائف کے انداز میں یہ کہہ کر ختم کر دیا کہ ’’سردار صاحب‘ تب تو اصل مجرم آپ ہیں‘ اور اس سارے معاملے کی جواب دہی آپ کو کرنی چاہیے!‘‘ لیکن مصطفی صادق صاحب کی اس پوری گفتگو کا گہرا اثر ارکانِ جماعت کی بہت بڑی تعداد نے قبول کیا چنانچہ انہیں اہل اختلاف میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے یعنی ان کی یادداشت کے مطابق ۱۳۸ تا ۱۴۸. جن میں ایک ووٹ (بقول خود ان کے) شیخ سلطان احمد صاحب (کراچی) کا بھی تھا جو پورے اجتماع کے دوران قطعاً خاموش تماشائی بنے رہے تھے بلکہ کراچی سے روانہ ہی یہ کہہ کر ہوئے تھے کہ: ’’میں تو ایک ڈرامہ دیکھنے جا رہا ہوں!‘‘. 

۳. سب سے زیادہ مضحکہ خیر معاملہ حکیم عبد الرحیم اشرف صاحب کا ہوا کہ انہوں نے ایک باقاعدہ متبادل قرار داد پیش کی اور اس کے حق میں ایک مفصل اور مدلل تقریر بھی کی‘ لیکن تقریر کے اختتام پر‘ رائے شماری کی ذلت سے بچنے کی خاطر‘ اپنی قرار داد واپس لے کر سٹیج سے اتر آئے! 
فیا للعجب!!