اور امارتِ جماعت سے استعفے کی واپسی کے لیے مولانا مودودی کی شرائط

پالیسی کی بحث اس طرح اختتام پذیر ہو جانے کے بعد مولانا مودودی پر اظہارِ اعتماد کی وہ قرار داد دوبارہ پیش ہوئی جس سے اجتماع کی کارروائی کا آغاز ہوا تھا لیکن جس پر گفتگو کو مولانا مودودی نے میرے نکتۂ اعتراض سے اتفاق کرتے ہوئے ملتوی کر دیا تھا. اور اجتماع کی جو روداد اوپر درج ہو چکی ہے اس کے پیش نظر ظاہر ہے کہ اب اس قرار دادِ اعتماد کا بھاری اکثریت سے منظور ہونا ہر اعتبار سے فطری بھی تھا اور منطقی بھی! بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اب اُس کا رسمی (Formal) طور پر پیش ہونا بی نرا تکلف تھا!

تاہم پالیسی کے ضمن میں اُن سے اختلاف رکھنے والے جملہ اکابر و اصاغر پر ’’فتحہ مبین‘‘ حاصل کر لینے کے باوجود مولانا مودودی نے امارت جماعت سے اپنا استعفاء واپس لینے اور دوبارہ امارت کی ذمہ داری سنبھالنے میں پس و پیش سے کام لیا. اس سلسلے میں اُن کا موقف یہ تھا کہ:

’’جماعت کی امارت کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے معاملے میں میری راہ میں کچھ مشکلات اور موانع حائل ہیں. جب تک وہ دور نہ ہوں میں امارت کی ذمہ داری نہیں سنبھال سکتا. مزید برآں وہ موانع و مشکلات ایسی ہیں کہ انہیں ارکان جماعت کے اجتماع عام میں بیان کرنا بھی میرے نزدیک قرین مصلحت نہیں ہے‘ لہٰذا میں تجویز کرتا ہوں کہ جماعت کے جملہ تنظیمی حلقوں سے فی حلقہ دو دو افراد منتخب کر لیے جائیں جن کے سامنے میں اپنی مشکلات بیان کر دوں پھر اگر وہ میری راہ کے ان موانع کو دور کرنے کی کوئی راہ نکالنے میں کامیاب ہو جائیں تو میں اپنا استعفاء واپس لے لوں گا اور امارتِ جماعت کی ذمہ داری دوبارہ سنبھال لوں گا‘‘. (روایت بالمعنٰی)

اب ظاہر ہے کہ اس وقت تک ارکانِ جماعت کی ایک عظیم اکثریت ’’کشتگانِ خنجر تسلیم‘‘ کی 
صورت اختیار کر ہی چکی تھی لہٰذا مولانا کی یہ تجویز فی الفور منظور ہو گئی. اور جھٹ پٹ ارکانِ جماعت کی ایک نہایت محدود تعداد (جو کسی طرح بھی بیس سے زائد نہیں ہو سکتی) پر مشتمل وہ ’’مجلس نمائندگان‘‘ وجود میں آ گئی جسے بعد میں مولانا اصلای نے ’’خلوتیانِ راز کی محفل‘‘ سے تعبیر کیا. 

اس مجلس میں یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کسی بھی اختلاف کرنے والے شخص کا منتخب ہونا خارج از امکان تھا‘ لہٰذا اس میں ہما شما کا تو ذکر ہی کیا‘ مولانا اصلاحی سمیت اختلافی ذہن رکھنے والا کوئی رکن شوریٰ بھی منتخب نہیں ہوا. 

خلوتیانِ راز کے اس دیوانِ خاص میں ع ’’بلبل چہ گفت و گل چہ شنید و صبا چہ کرد؟ کے مصداق مولانا نے کیا فرمایا‘ نمائندگان میں سے کس نے کیا کہا‘ اور کیا فیصلے ہوئے اس کی اس مجلس کے شرکاء کے سوا کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی. چنانچہ وہاں ناز و نیاز کے کون کون سے مراحل طے ہوئے‘ اور بالآخر کیا قول و قرار ہوئے یہ سب باتیں سربستہ راز رہیں اور مولانا امین احسن اصلاحی ایسی اہم شخصیت کے علم میں بھی یہ باتیں کئی ماہ بعد اس وقت آئیں جب کوٹ شیر سنگھ کے اجتماع شوریٰ میں یہ پٹاری کھلی اور اس میں سے بقول مولانا اصلاحی وہ ’’بلی‘‘ برآمد ہو گئی جسے انہوں نے لگ بھگ دس سال قبل‘ کئی سال کی مسلسل کوششوں سے بزعم خویش ہلاک کر دیا تھا!

بہر حال یہ ہے وہ ’’مجلس نمائندگان‘‘‘ کا اجلاس جس میں مولانا مودودی نے اپنی وہ تقریر جو اب پہلی بار ہفت روزہ ’’آئین‘‘ کے ماہانہ ایڈیشن بابت ربیع الاول ۱۴۱۰ھ میں شائع ہوئی ہے (اور جسے ہم بھی ’’میثاق‘‘ بابت دسمبر ۱۹۸۹ء میں من و عن نقل کر چکے ہیں) یا تو پوری کی پوری کی‘ یا اُس کا خلاصہ پیش کر دیا. اور قرائن یہی کہتے ہیں کہ مجلس نمائندگان نے مولانا مودودی کے نقطہ ٔ نظر کو من و عن قبول کرتے ہوئے ایسے پختہ قول و قرار اور مؤثق وعدہ و وعید کر لیے جن کے نتیجے میں جماعت اسلامی کا وہ نیا دستور عالم وجود میں آیا جس کے بارے میں مولانا اصلاحی نے اپنے گشتی مراسلے میں یہ الفاظ تحریر کئے کہ: ’’اس نئے دستور کو کوئی سمجھتا ہو یا نہ سمجھتا ہو مگر میں سمجھتا ہوں. اس کا خلاصہ دو لفظوں میں یہ ہے کہ سارے 
مجلس عاملہ کو حاصل ہیں اور مجلس عاملہ امیر جماعت کی جیب میں ہے!‘‘ بہر حال اس مسئلے کے بارے میں راقم کو اس وقت کچھ عرض نہیں کرنا‘ اس پر اپنا محاکمہ ہم علیحدہ تحریر کریں گے. 

البتہ ایک واقعے کا تذکرہ مناسب ہے اور وہ یہ کہ غالباً اسی بحث کے دوران جائزہ کمیٹی کے ارکان کے خلاف مولانا مودودی کا الزام نامہ یا فرد قرار داد جرم بھی زیر بحث آئی. اور اب اگرچہ یہ بالکل یاد نہیں آتا کہ یہ بحث کب‘ کس کی جانب سے‘ اور کس انداز میں شروع ہوئی. تاہم یہ اچھی طرح یاد ہے کہ اس پر بھی ایوان میں پھر اک بار خوب گرمی سردی پیدا ہوئی‘ اور یہ منظر بھی راقم کی نگاہوں کے سامنے پوری وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ اس بحث کی گرما گرمی میں ایک موقع پر مولانا مودودی اس درجہ غضبناک ہو گئے تھے کہ وہ روسٹرم جس کا مولانا نے سہارا لیا ہوا تھا بُری طرح آگے پیچھے جھول رہا تھا. یہاں تک کہ ایک مرحلے پر سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کو اندیشہ ہوا کہیں مولانا روسٹرم سمیت سٹیج سے نیچے نہ گر جائیں. چنانچہ بعض لوگوں نے فوری طور پر اُٹھ کر روسٹرم کو سہارا دیا. اگرچہ خود مولانا نے اس پر کسی قدر کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے فرمایا: ’’اچھا تو آپ لوگ ڈر رہے تھے کہ میں گر جاؤں گا!‘‘

بہر حال اصل مسئلے کے ضمن میں مولانا نے فرمایا کہ: ’’میں اُن تمام حضرات کو جن کی رائے یہ ہے کہ میں نے ارکانِ جائزہ کمیٹی کے خلاف جو اقدام کیا وہ دستورِ جماعت اسلامی کی حدود سے تجاوز کے مترادف ہے‘ چیلنج کرتا ہوں کہ وہ ملک میں وہ دستوری قوانین کے جس ماہر کو چاہیں اُس کے سامنے یہ مسئلہ پیش کر کے فیصلہ حاصل کر لیں. اُس ماہر قانون کی پوری فیس میں اپنی ذاتی جیب سے ادا کر دوں گا‘‘ مولانا کے اس چیلنج کا بھی غالباً کوئی فوری جواب نہ ارکانِ جائزہ کمیٹی میں سے کسی کی جانب سے آیا‘ نہ ہی مولانا اصلاحی یا کسی دوسرے رکن جماعت یا رکن شوریٰ کی جانب سے! 
واللہ اعلم!! 
٭ ٭ ٭ 
یہاں ماچھی گوٹھ کے اجتماعِ ارکان جماعت اسلامی کی روداد‘ جتنی اور جیسی کچھ 
یادداشتوں کی مدد سے مرتب کی جا سکی‘ ختم ہوتی ہے البتہ صرف دو باتیں مزید تذکرہ کے لائق ہیں‘ اگرچہ اُن کی اہمیت عمومی نہیں‘ راقم الحروف کے لیے ذاتی ہے. 

ایک یہ کہ جب راقم اپنا بیان ختم کر کے سٹیج سے نیچے اُترا‘ اور از خود یا مولانا مودودی کے طلب فرمانے پر اُن کے پاس گیا‘ تو مولانا نے فرمایا: ’’آپ کو معلوم ہے کہ مجھے آپ سے کتنی محبت ہے؟‘‘. جس کا جواب میں نے یہ دیا کہ: ’’مولانا مجھے اس کا پورا اندازہ ہے‘ اور میں نے اپنی دانست میں اسی کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے‘‘. اس پر یہ قطعاً یاد نہیں کہ مولانا مرحوم کا ردّ عمل کیا تھا!

دوسرے یہ کہ جب اجتماع کے خاتمے کے بالکل قریب ارکان کے حلقہ وار اجلاس ہو رہے تھے تو میں نے محسوس کیا کہ امیر حلقہ اوکاڑہ چودھری عبد الرحمن مرحوم مجھے ایسی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں جن میں حد درجہ محبت اور شفقت بھی شامل اور کسی قدر خوف اور اندیشہ بھی! اس پر جب میں نے اُن سے عرض کیا کہ :’’چودھری صاحب آپ پریشان نہ ہوں‘ میں جماعت سے علیحدہ نہیں ہوں گا‘‘ تو وہ منظر بھی میری نگاہوں کے سامنے پوری وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی‘ چنانچہ ان کا چہرہ بھی گلنار ہو گیا‘ اور وہ فوراً اُٹھ کر سٹیج کے پاس گئے اور وہاں بات طے کر کے آئے اور مجھے حکم دیا کہ یہی بات سٹیج سے بھی کہہ دو. چنانچہ میں سٹیج پر گیا اور میں نے وہاں یہ الفاظ کہے کہ: 

’’اگرچہ پالیسی کے بارے میں میری رائے اب بھی وہی ہے جو میں نے اپنے بیان میں ظاہر کی‘ اور ادب کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ اس ضمن میں مجھے امیر جماعت کی طویل تقریر میں قطعاً کوئی روشنی نہیں ملی. تاہم میں جماعت میں شامل رہوں گا‘ اس لیے کہ میں جماعت کے بغیر اپنے وجود کا تصور تک نہیں کر سکتا!‘‘

چنانچہ اس پر پورے پنڈال میں خوشی کی ویسی ہی لہر دوڑ گئی جیسی مجھے چودھری عبد الرحمن خاں مرحوم کے چہرے پر نظر آئی تھی!
۳. اس کے ساتھ ہی ایک تیسرا واقعہ بھی جو دفعۃً یاد آ گیا ہے بیان کر دینا مناسب ہے. اور وہ یہ کہ دورانِ اجتماع ایک مرحلے پر جماعت اسلامی منٹگمری کے دو ارکان نے جو میرے 
میرے پوری طرح ہم خیال تھے مجھ پر دباؤ ڈالا اور شدید اصرار کیا کہ ہمیں فوری طور پر یہیں با جماعت رکنیت سے استعفاء دے دینا چاہیے تو میں انہیں اجتماع گاہ سے باہر ریلوے لائن پر لے گیا اور وہاں چہل قدمی کرتے ہوئے انہیں سمجھایا کہ: ’’اس اجتماع میں‘ میں شدید ذہنی و قلبی اذیت سے دوچار رہا ہوں‘ اس کیفیت میں کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانا میرے نزدیک اصولی طور پر غلط ہے میں یہاں سے واپس جا کر پُر سکون ماحول میں ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ پورے معاملے پر از سر نو غور کروں گا‘ اور رمضان المبارک قریب ہے‘ اس میں جتنے دن بھی میسر آ سکے اُن میں اعتکاف کروں گا اور اُسی میں اپنے مستقبل کے بارے میں آخری فیصلہ کروں گا!‘‘ (یہ دو ارکانِ جماعت جن کا تعلق اصلاً تو پاک پتن سے تھا لیکن کچھ حالات کی نامساعدت کے باعث وہ ایک عرصے سے منٹگمری میں اقامت پذیر تھے سید شیر محمد شاہ‘ اور نور محمد قریشی صاحب تھے!)