اجتماع ماچھی گوٹھ کے بعد لگ بھگ ایک سال کے عرصے کے دوران جن ارکانِ جماعت نے رکنیت سے استعفاء دیا‘ اُن میں سے جو کُل پاکستان سطح پر معروف تھے‘ ان کی فہرست میں اوپر سے پہلے نمبر پر مولانا امین احسن اصلاحی تھے. اور نیچے والوں میں آخری نام اس خاکسار کا تھا! یہی وجہ ہے کہ جہاں بعض دوسرے حضرات کی طرح میرے استعفے کا تو گویا بے چینی سے ’انتظار‘ کیا جا رہا تھا (؏ ’’ما سراپا انتظار‘ اُو منتظر!!) . وہاں مولانا اصلاحی کو استعفے سے باز رکھنے اور رکنیت جماعت برقرار رکھنے پر آمادہ کرنے کے لیے سرتوڑ کوششیں ہوئیں. (۱) چنانچہ ایک جانب ایک جانب ’’مصالحت کنندگان‘‘ نے ایک عرصے تک سلسلۂ جنبانی جاری رکھا‘ تو دوسری جانب انہیں یہ پیشکش کی گئی کہ آپ جماعت کی عام تنظیمی اور عوامی سرگرمیوں سے منقطع ہو کر خالص علمی و فکری اور تحقیقی و تصنیفی کام میں لگ جائیں. چنانچہ جماعت کے مرکزی دفتر کے قریب ایک کوٹھی کرایہ پر لی گئی‘ اسے نہایت شاندار انداز میں مرصع و مفرش (Furnish) کیا گیا اور اُن کے ظاہری اعزاز و اکرام اور خاطر مدارت (Pampering) کا خصوصی اہتمام ہوا. اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان باتوں کا ایک حد تک خاطر خواہ اثر بھی مولانا کی طبیعت نے قبول کیا. چنانچہ سکھر کے جناب نجیب صدیقی صاحب کی روایت ہے کہ اجتماع ماچھی گوٹھ کے کچھ عرصے بعد مولانا اصلاحی سکھر تشریف لے گئے اور وہاں انہوں نے اُن ارکانِ جماعت کو جو اجتماعِ ماچھی گوٹھ سے پہلے غیر مطمئن اور اب بالکل مایوس تھے جماعت کی رکنیت سے مستعفی ہونے سے باز رکھنے کی بھرپور کوشش کی‘ اور ہر ممکن طریقے پر ترغیب دی کہ وہ جماعت کے اندر رہتے ہوئے اصلاح حال کی کوشش کریں. اگرچہ اُن کے اعتراضات کا اُن کے پاس کوئی معقول جواب موجود نہ تھا!
حاشیہ (۱): یہی وجہ ہے کہ مستعفی ہونے میں ترتیب بالکل برعکس رہی‘ چنانچہ ان میں سب سے پہلا نمبر میرا تھا اور سب سے آخری مولانا اصلاحی کا!
ویسے بھی مولانا اصلاحی نے اس پورے عرصے کے دوران اس موقف سے اتفاق کا کم از کم ’اظہار‘ نہیں کیا تھا کہ جماعت اپنے سابقہ طریق کار سے کلی طور پر منحرف ہو چکی ہے‘ بلکہ اُن کا علانیہ موقف صرف یہ تھا کہ ہم ’’عدم توازن‘‘ کا شکار ہو گئے ہیں‘ باقی مولانا مودودی کے ساتھ اُن کی اصل ’جنگ‘ دستورِ جماعت اور اس کے ضمن میں جمہوریت اور شورائیت کی اہمیت کے مسئلے پر تھی! اور اس کے سلسلے میں جو کچھ ماچھی گوٹھ میں ’’خلوتیانِ راز‘‘ کی محفل میں طے پا چکا تھا اُس سے وہ بالکل بے خبر تھے. (۱) ؏ ’’کب کھلا تجھ پر یہ راز‘ انکار سے پہلے کہ بعد؟‘‘ کے مصداق مولانا اصلاحی پر یہ راز اس وقت بم کے دھماکے کے مانند کھلا‘ جب ۱۹۵۷ء کے اواخر میں کوٹ شیر سنگھ (ضلع لاہور) میں مجلس شوریٰ (جو اب جماعت کے لیے ایک نئے دستور کی تدوین کے اختیار کی حامل ’’مجلس دستور ساز‘‘ کی حیثیت بھی اختیار کر چکی تھی) کا اجلاس منعقد ہوا. اور اس میں مولانا مودودی نے تنظیم اور تحریک کے فرق اور تحریک اسلامی کے قائد و امیر کے حقوق و اختیارات کے ضمن میں اپنا وہ فلسفہ شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا جو ہفت روزہ ’’آئین‘‘ کے حوالے سے ’’میثاق‘‘ دسمبر ۸۹ء میں شائع شدہ تقریر میں وارد ہوا ہے. تب مولانا اصلاحی کو محسوس ہوا کہ جمہوریت اور شورائیت کا کم از کم وہ تصور جس کے وہ شدت سے قائل تھے ؏ ’’آں قدح بشکست و آں ساقی نماند‘‘ کے مانند نسیاً منسیاً ہوا چاہتا ہے‘ اور اب جو فضا جماعت میں پیدا ہو چکی ہے اس میں اس کے حق میں آواز اُٹھانا بھی ممکن نہیں رہا. چنانچہ وہ خاموشی کے ساتھ اجلاس سے اٹھے اور لاہور واپس آگئے. اس کے بعد بھی بعض مخلصین نے ’’مصالحت‘‘ کے لیے کسی قدر تگ و دَو کی‘ جو بری طرح ناکام ہو گئی. اور بالآخر ایک جانب ۱۳ جنوری ۱۹۵۸ء کو مولانا نے قطعی اور حتمی انداز میں جماعت کی رکنیت سے مختصر خط کے ذریعے استعفاء دے دیا. اور دوسری جانب چند دنوں بعد جب وجوہِ استعفاء کے استفسار حاشیہ (۱): گویا اس کیفیت کے بالکل برعکس کہ ؎
مصلحت نیست کہ از پردہ بروں آید راز...ورنہ در محفل رنداں خبرے نیست کہ نیست!
اور یہ غالباً مولانا کی تصوف سے دشمنی ہی کا مظہر تھا!! کے لیے آنے والے اشخاص اور خطوط کا تانتا بندھ گیا تو کسی قدر تفصیلی تحریر لکھ دی جس نے بعد میں ایک ’’گشتی مراسلے‘‘ کی صورت اختیار کر لی جس کا تذکرہ اس سے قبل ہو چکا ہے اور اگرچہ ۱۳ جنوری ۵۸ء کے بعد مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کے مابین جن تیز و تند‘ اور تلخ و ناخوشگوار خطوط کا تبادلہ (۱) ہوا وہ اِس داستان کا الم ناک ترین‘ اور عبرت ناک ترین باب ہے. تاہم ان سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ہم اس ’’نقض غزل‘‘ کے ضمیمے کے طور پر خود اپنے استعفے کے ساتھ مولانا اصلاحی کا بھی صرف استعفے کا خط اور مذکورہ گشتی مراسہ شائع کر رہے ہیں. چنانچہ اس طرح ’’نقض غزل‘‘ کے دو خلاصے قارئین کے سامنے آ جائیں گے یعنی پہلا جماعت کی ایک چوٹی کی شخصیت کے تجربہ و تجزیہ پر مشتمل‘ اور دوسرا ایک عام کارکن کے مشاہدات اور آراء پر مبنی جو نہ ارکانِ شوریٰ میں سے تھا‘ نہ ارباب حل و عقد میں‘ لہٰذا راز ہائے درونِ پردہ سے ناواقف تھا.
راقم الحروف اور مولانا اصلاحی کے استعفوں کے درمیانی نو ماہ کے دوران جو نمایاں اور معروف لوگ جماعت سے علیحدہ ہوئے اُن کا معاملہ دوسرے اعتبارات سے بھی راقم اور مولانا کے بین بین رہا. چنانچہ ان میں سے بعض حضرات کے استعفوں کا تو شدت سے انتظار ہو رہا تھا‘ یہاں تک کہ بعض (جیسے مثلاً مولانا عبد الغفار حسن) کے ساتھ تو یہ معاملہ بھی پیش آیا کہ اِدھر انہوں نے استعفاء مرکز ارسال کیا‘ اُدھر مرکز سے اظہارِ وجوہ کا طلبی نامہ روانہ ہو گیا کہ ’وجوہات بیان کیجیے کہ کیوں نہ آپ کو جماعت سے خارج کر دیا جائے‘ اور دونوں کا ڈاک میں کراس ہوا‘ جبکہ بعض دوسرے حضرات (جیسے مثلاً سردار محمد اجمل خان لغاری مرحوم) کو جماعت میں روکے رکھنے کی شدید اور پیہم کوششیں ہوئی. (۲) (حاشیہ (۱): یہ خط و کتابت ہفت روزہ ’’ندا‘ کے ۷ اور ۱۴ مارچ ۱۹۸۸ء کے دو شماروں میں شائع ہو چکی ہے.)
حاشیہ (۲): اور یہ اس لیے کہ سردار صاحب مرحوم و مغفور سابق ریاست بہاولپور میں مولانا مودودی کی دعوت پر لبیک کہنے والے پہلے شخص تھے‘ اور نہ صرف یہ کہ اس علاقے میں جماعت کی دعوت کے فروغ کا سہرا سب سے بڑھ کر انہی کے سر ہے‘ بلکہ علاقے کے ایک بڑے جاگیردار خاندان سے متعلق ہونے کے ناطے اس علاقے کے جملہ وابستگان بلا واسطہ یا بالواسطہ کسی نہ کسی درجہ میں اُن کے حسن سلوک کے ممنون احسان رہے تھے‘ یادش بخیر اسی نوع کی ایک شخصیت صوبہ سرحد میں خان سردار علی خاں مرحوم کی تھی. ان کا یہ قول بھی ریکارڈ پر آ جائے تو مناسب ہے جو انہوں نے مولانا اصلاحی سے مخاطب ہو کر کہا تھا: ’’مولانا ہمیں آپ سے کلی اتفاق ہے اور ہم آپ کی ایک ایک بات کو درست سمجھتے ہیں لیکن ہم سید ابو الاعلیٰ مودودی کا ساتھ اس لیے نہیں چھوڑ سکتے کہ ہم ’’خوانین سرحد‘‘ پر گزشتہ صدی کے بھی ایک سید (سید احمد شہیدرحمہ اللہ) سے بے وفائی کا الزام تاحال قائم ہے!‘‘
مزید برآں اِن میں سے ہر ایک کے پاس ع ’’جو میں بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری!‘‘ کے مصداق ایک دل خراش داستان ہے جس کو سن کر انسان دم بخود رہ جاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ ان دنوں جن ’’بقیۃ السلف‘‘ حضرات سے ملاقات ہوئی (بقیۃ السیف‘ اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ ’’کشتۂ شمشیر‘‘ تو وہ تھے) انہوں نے جب اپنے زخم دکھانے شروع کئے تو راقم کو اپنی داستان ہیچ نظر آنے لگی. چنانچہ یہ عام تأثر سامنے آیا کہ ’’تم نے نقض غزل‘‘ کے ضمن میں بڑی لمبی لمبی چھلانگیں لگائی ہیں‘ جس کے نتیجے میں بہت سے تلخ تر حقائق و واقعات بیان ہونے سے رہ گئے ہیں‘‘ تاہم اس پر تقریباً اجماع نظر آیا کہ کسی ایک شخص کے لیے اِن تمام سرگذشتوں کا بیان کرنا ناممکن ہے‘ اس کی تو صرف ایک ہی صورت ممکن ہے اور وہ یہ کہ ہر شخص اپنا اپنا ماجرا خود تحریر کرے (چنانچہ بعض حضرات نے اس کا ارادہ بھی ظاہر کیا).
اس سلسلے میں محترم شیخ سلطان احمد صاحب کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ ’’آئین‘‘ کے مضمون نگار نے ان کے بارے میں تحریر کیا ہے:
’’مولانا سلطان احمد صاحب (سابق قائم مقام امیر جماعت اسلامی پاکستان) کے بارے میں ایک مرتبہ میری چودھری غلام محمد مرحوم سے گفتگو ہوئی. انہوں نے بتایا کہ مولانا سلطان احمد صاحب کو جماعت کی پالیسی سے کوئی ایسا اختلاف نہ تھا جو دور نہ ہو سکتا ہو. لیکن بعض دیگر حضرات کی طرح وہ اس وقت کی صورتِ حال سے دل گرفتہ ہو گئے تھے اور ان کا ذہنی سکون بری طرح متأثر ہو گیا تھا. (۱) حاشیہ (۱): گویا وہی نعیم صدیقی صاحب کا ماچھی گوٹھ کی تقریر والا حربہ‘ جو انہوں نے مولانا اصلاحی کے خلاف استعمال کیا تھا!
جبکہ واقعہ یہ ہے کہ راقم نے اپنی حالیہ ملاقاتوں میں متذکرہ بالا تاثر بھی سب سے زیادہ شدید ان ہی میں پایا. اور اس انتہائی رائے میں بھی سب سے بڑھ کر جازم اُن ہی کو پایا کہ مولانا مودودی کے جماعت کی امارت سے استعفے کے بعد سے لے کر اجتماعِ ماچھی گوٹھ کے اختتام تک کے تمام واقعات ایک سوچے سمجھے منصوبے‘ اور پوری مہارت کے ساتھ ’’پلاٹ‘‘ کئے گئے ’’ڈرامے‘‘ کے مظہر ہیں!