مؤلف کا استعفاء از رکنیت جماعت

(نومبر ۱۹۵۴ء)
٭ 

’’یہی انجام کا مارا ہوا دل
ہلاک عشرت آغاز بھی ہے!‘‘ 

مولف کا جماعت اسلامی کی رکنیت سے استعفاء


(اپریل ۱۹۵۷ء)
ذیل کی سطور ۲۹؍ رمضان المبارک کو مسجد میں اعتکاف کی حالت میں لکھ رہا ہوں اور ان کے ذریعے اُس فیصلے کا اظہار مقصود ہے جس پر میں حالت اعتکاف میں مسلسل تین روز کے سوچ و بچار کے بعد پہنچا ہوں‘ یعنی یہ کہ میں جماعت اسلامی کی رکنیت سے مستعفی ہو جاؤں.
۱۵؍ نومبر ۵۴ء کو جب میں نے جماعت کی رکنیت کے لیے درخواست تحریر کی تو جماعت کے بارے میں میرا نقطہ ٔ نظر یہ تھا: 

’’میں یہ محسوس کرتا ہوں اور آج 
سے نہیں بلکہ آج سے چار سال قبل سے محسوس کر رہا ہوں کہ اقامت دین میرا فرض ہے. اور خدا کا شکر ہے کہ میں اس دَور میں پیدا ہوا جبکہ خالصتاً اقامت دین کے کام کے لیے جماعت اسلامی قائم ہو چکی ہے اور میں آسانی کے ساتھ اس میں شریک ہو کر اپنے فرض سے عہدہ بر آہ ہونے کے لیے سعی کر سکتا ہوں. اس لحاظ سے میں جماعت اسلامی کے وجود کو اپنے لیے ایک نعمت متصور کرتا ہوں. اس لیے کہ اگر یہ نہ ہوتی تو خود کام کرنا بہر حال بس میں نہ ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں باز پُرس کڑی ہو جاتی … ‘‘ اور
’’… میں یہ سمجھتا ہوں کہ پوری دنیا میں خالص تحریک اسلامی محض جماعت اسلامی ہے (پاکستان کی بھی اور ہندوستان کی بھی) البتہ دینی مقاصد کے لیے اور اچھے کام کرنے والے اور ادارے بھی ہیں اور جماعتیں بھی ہیں. پاکستان میں بھی اور باقی 
دنیا میں بھی. ان اداروں یا جماعتوں نے مجھے اس حد تک تو متاثر کیا ہے لیکن جماعت اسلامی کے سوا کسی اور ادارے یا جماعت کے مقصد اور طریق کار کو میں خالصتاً اسلامی اور ٹھیٹھ دینی نہیں سمجھتا! …‘‘

بد قسمتی سے جماعت کے بارے میں میرا یہ نقطہ ٔ نظر زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا. فروری ۵۵ء میں میری درخواست رکنیت منظور ہوئی اور اس کے چند ہی ماہ بعد سے جماعت کے بارے میں میرے شکوک و شبہات بڑھنے شروع ہو گئے تا آنکہ اجتماع سالانہ تک میں جماعت اسلامی پاکستان کے بارے میں کم از کم اپنے فہم کی حد تک ایک جچھی تلی رائے قائم کر چکا تھا. اس اجتماع کے موقع پر جماعت کے اندر بے اطمینانی اور پالیسی کے بارے میں اختلاف کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی مقرر کر دی گئی اور میں مطمئن ہو گیا کہ ایک پُر سکون ماحول اور افہام و تفہیم کے انداز میں کمیٹی کے سامنے اپنی بات رکھ سکوں گا. اجتماع سے واپسی کے بعد میں جائزہ کمیٹی کی آمد کے انتظار میں رہا. بالآخر ۳۰؍ ستمبر ۵۶ء کو بمقام اوکاڑہ ترمیم شدہ جائزہ کمیٹی سے گفتگو کا شرف حاصل ہوا اور اواخر اکتوبر تک میں نے اپنے خیالات کو ایک مفصل بیان کی شکل میں قلم بند کر کے مولانا عبد الرحیم اشرف صاحب کو کنوینر جائزہ کمیٹی کی خدمت میں پیش کر دیا.
اپنے اس بیان میں‘ میں نے قبل از تقسیم ہند کی جماعت اسلامی اور بعد از تقسیم کی جماعت اسلامی پاکستان کا تفصیل کے ساتھ موازنہ اور مقابلہ کیا اور اپنی ناقص قوتِ تحریر کی حد تک پوری طرح محنت اور کوشش کر کے اپنی یہ رائے واضح کی کہ پالیسی اور طریق کار کے اعتبار سے تقسیم سے ما قبل اور اس کے ما بعد کی جماعت میں واضح تفاوت و اختلاف بلکہ تضاد پایا جاتا ہے. اور جبکہ قبل از تقسیم کی جماعت ایک خالص اور ٹھیٹھ اسلامی تحریک کا نقشہ پیش کرتی ہے وہاں بعد از تقسیم کی جماعت ایک اسی قومی‘ سیاسی جماعت بن گئی ہے جس میں دین کا داعیہ چاہے کم یا زیادہ موجودہوخالص اسلامی تحریک کی خصوصیات موجود نہیں ہیں. پھر اپنی محدود بصیرت کے مطابق میں نے اس بنیادی غلطی کی نشاندہی بھی کی کہ جس کے 
باعث اس تحریک کی نوعیت میں اس قدر عظیم الشان فرق آ گیا تھا. آخر میں‘ میں نے لکھا تھا:
’’میں نے نہ یہ کہا ہے اور نہ میں ایسا سمجھتا ہوں کہ ۴۷ء میں جب طریق کار تبدیل کیا گیا تو دانستہ طور پر ان لازمی نتائج کو جاننے کے باوجود اور اس تبدیلی کا ادراک کرنے کے باوجود کیا گیا جو اس طرح اس پوری تحریک کی بنیادی نوعیت میں برپا ہو رہی تھی. لیکن یہ بہر حال میں سمجھتا ہوں اور اسی کو وضاحت کے ساتھ میں نے اس قدر طویل تحریر میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ طریق کار کی اس تبدیلی نے جماعت کو سطحی طور پر متاثر نہیں کیا بلکہ اس کو جڑوں سے لے کر شاخوں تک اور سَر سے لے کر پیَر تک بدل کر رکھ دیا ہے …

میری رائے میں اصل تحریک اسلامی ۴۷ء میں حقیقتاً اور اصولاً ختم ہو گئی تھی. اس کے بعد جماعت اسلامی کی قومی جدو جہد کے ساتھ ساتھ اس اصل تحریک اسلامی کے کچھ اثرات ایک عرصہ تک برسر کار رہے ہیں لیکن اب وہ بھی دم توڑ چکے ہیں اور اب اس تحریک میں سے کچھ باقی ہے تو وہ ان چند پاک نفوس کے سوا اور کچھ نہیں ہے جنہیں اس اصل تحریک اسلامی کی دعوت نے کھینچا تھا اور جو ابھی تک جماعت اسلامی کی قومی تحریک کا دامن اسی اصل تحریک اسلامی کے مغالطے میں تھامے چلے آ رہے ہیں!‘‘

اس میں صرف اس بات کا اضافہ اور کر لیجئے کہ اس قدر شدید رائے رکھنے کے باوجود اس وقت تک میں مایوس نہیں تھا بلکہ ایک طرف مجھے قوی امید تھی کہ:

’’… مجھے اب مستقبل کے بارے میں کوئی امید ہے تو وہ بھی ان پاک نفوس کے خلوص سے ہے کہ اگر آج بھی ان پر واضح ہو جائے کہ فلاں جگہ سے ہم غلط موڑ مڑ آئے ہیں اور اب غلط راستے پر چل رہے ہیں تو وہ آگے ہی بڑھنے کی دُھن میں غلط راستے ہی پر چلتے رہنے کو گوارا کرنے کی بجائے واپس مڑ کر صحیح راستہ اختیار کرنے میں پس و پیش سے کام نہ لیں گے چاہے اس طرح انہیں ایک طویل مسافت کو دوبارہ قطع کر کے سفر کو تقریباً از سر نو ہی شروع کرنا پڑے …‘‘

اور دوسری طرف اپنے ہی برسر غلط ہونے کے امکان کے پیش نظر میں نے یہ گزارش بھی کی تھی: - 

’’… پھر اللہ گواہ ہے کہ اس بات کے کہنے میں کوئی بری نیت محرک نہیں بنی ہے. 
اس غرض سے یہ گزارشات پیش کر رہا ہوں کہ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ ہماری غلطی کو (اگر وہ ہے!) واضح کر دے تو فبہا‘ ورنہ کم از کم مجھ پر تو اپنی غلطی واضح ہو جائے گی اور میں زیادہ اطمینانِ قلب کے ساتھ تحریک اسلامی کے ساتھ وابستہ ہو کر عملاً کام کر سکوں گا!‘
یہی وجہ ہے کہ اس بیان کے تحریر کرنے تک مجھ پر نہ بد دلی چھائی اور نہ ہی قویٰ میں جمود پیدا ہوا بلکہ میں حسب سابق تندہی کے ساتھ جماعت کا کام کرتا رہا. اپنے بیان میں‘ میں نے لکھا تھا کہ اب تک:

’’جماعت اور اس کے کام کے لیے سرگرمی اور محویت میں میرے اندر کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے … !‘‘

جائزہ کمیٹی کی رپورٹ پیش ہونے سے لے کر اجتماع ماچھی گوٹھ تک جماعت اسلامی پاکستان کے حلقوں میں جن ناخوشگوار اور کریہہ واقعات کا چکر چلا ہے ان کو محض یاد کرنے ہی سے انسان کو سخت ذہنی اذیت اور روحانی کرب کا سامنا کرنا پڑتا ہے. اس پندرہ روزہ شوریٰ کے دوران جس میں رپورٹ پر غور ہوا شوریٰ کے فعال عناصر کا دو متقابل اور متحارب گروہوں میں تقسیم ہو جانا‘ بہت ردّ و قدح کے بعد اور بالآخر ’’خوفِ انتشار‘‘ کی بنا پر بالاکراہ کسر و انکسار کے ذریعے ایک لا یعنی اور مہمل قرار داد کا پاس ہونا، پھر اس کی مختلف توجیہیں اور جماعت کے مختلف حلقوں کی طرف سے مختلف ردّ عمل‘ اس کے نتیجے کے طور پر سازشوں کی برملا تہمتیں‘ اکابرین جماعت کا ایک دوسرے کے بارے میں اتہائی گری ہوئی رایوں کا اظہار‘ سعید ملک کا سنسنی خیز استعفاء اور اس کا اسی انداز میں قیم جماعت کی طرف سے تعاقب‘ امیر جماعت کا جائزہ کمیٹی کے چاروں ارکان پر نجویٰ‘ گروہ بندی اور ’’غیر شعوری سازش‘‘ کا الزام‘ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کا استعفاء از رکنیت جماعت‘ امیر جماعت کا جذباتی انداز میں استعفاء از امارتِ جماعت‘ ایسے الفاظ کے ساتھ کہ جس سے کچھ لوگوں نے سمجھا کہ اب مولانا تا دمِ حیات کبھی 
امارت کا منصب دوبارہ قبول نہ کریں گے جبکہ کچھ دوسرے لوگوں نے سمجھا کہ یہ محض ایک اظہار اعتماد (Vote Of Confidence) کا مطالبہ ہے اور پھر جماعت کے اندر ایک مہم کے انداز میں امیر جماعت پر قرار دیاہائے اعتماد‘ دو اراکین مرکزی شوریٰ کی رکنیت جماعت کا تعطل‘ مولانا عبد الجبار غازی صاحب کا استعفاء از رکنیت‘ مولانا عبد الغفار حسن صاحب کا استعفاء از مناصب جماعت‘ سلطان احمد صاحب کا استعفاء از رکنیت شوریٰ ، اور اختلاف کرنے والے لوگوں کا یہ حال کہ انتہائی سخت باتیں کہہ رہے ہے ہیں‘ گھناؤنے سے گھناؤنے الزامات لگائے جا رہے ہیں‘ صرف یہی نہیں بلکہ نیتوں پر شدید حملے ہو رہے ہیں اور حال ہی کے نہیں ماضی کے واقعات سے استشہاد ہو رہا ہے. لیکن جب کہا جاتا کہ شرافت کے ساتھ اس گند سے نکلیے اور جو کام ان سے بن پڑتا ہے انہیں کرنے دیجئے اور جو کام آپ کر سکتے ہوں آپ باہر جا کر کیجئے تو اس بات سے باصرار انکار یہ سارے معاملات میرے لیے اس اعتبار سے تو غیر متوقع نہ تھے کہ میری تو رائے ہی یہ تھی اب جماعت ایک قومی سیاسی جماعت بن گئی ہے اور یہ اس کے ناگزیر ثمرات ہیں لیکن اس لحاظ سے کمر توڑ دینے والے تھے کہ جماعت میں اخلاقی تنزل اور گراوٹ کے بارے میں ابھی اتنی پست رائے میں نے بھی قائم نہیں کی تھی! اس عرصہ میں‘ میں اولاً تو جماعت میں ایک عضو معطل بن کر رہ گیا اور بالآخر جنوری57ء میں میں نے شدت تاثر میں جماعت کی رکنیت سے زبانی استعفاء مقامی امیر جماعت کے سامنے پیش کر دیا.لیکن جب مقامی اراکین و امیر اور حلقہ کے ذمہ دار حضرات نے سمجھایا کہ اجتماع ماچھی گوٹھ تک صبر کر لو تو میں نے بھی اس بات کو معقول پا کر اپنا استعفاء واپس لے لیا. 

اجتماع سے کچھ دن قبل اطلاعات ملنی شروع ہوئیں کہ لاہور میں مطلع صاف ہو رہا ہے‘ اور ایک بار پھر سمجھوتے کی کوشش ہو رہی ہے تاکہ اجتماع ارکان سے قبل ہی شوریٰ کی طرف سے ایک متفقہ قرار داد منظور ہو جائے اور ارکان کے سامنے اکابرین جماعت کا اختلاف رائے پیش نہ ہو. اس پر میں نے دیگر پانچ ارکانِ جماعت اسلامی منٹگمری کی شرکت میں 
ایک مفصل خط قائم مقام امیر جماعت کے توسط سے جماعت کی شوریٰ کو لکھا (وہ جماعت کے ریکارڈ میں محفوظ ہو گا اسے دیکھ لیا جائے!) جس میں شوریٰ سے یہ گزارش کی گئی تھی کہ بار بار ایسی کمزور مصالحت کی کوششیں نقصان دہ ثابت ہوں گی جس کی بنیاد کسی مثبت اور واقعی اساس کی بجائے جماعت کے اندر انتشار کے خوف کی منفی اساس پر ہو. اکابرین جماعت میں جو دو نقطہ ہائے نظر پالیسی اور طریق کار کے بارے میں پائے جاتے ہیں انہیں صاف صاف ارکان میں آ جانا چاہیے اور پھر ارکان کو شعوری طور پر یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ کدھر جانا چاہتے ہیں. اس کے بعد دوسرے گروہ کے لیے صحیح یہ ہو گا کہ اگر وہ ارکان کے رجحان کے ساتھ RECONCILE کر سکیں تو فبہا‘ ورنہ جماعت کے اندر مزید فساد کرنے اور کش مکش برپا کرنے کی نسبت خود ان کے لیے بھی اور جماعت کے حق میں بھی بہتر یہی ہے کہ وہ جماعت سے نکل جائیں. خط کے آخر میں خط لکھنے والوں نے اپنے بارے میں دو صورتیں تجویز کی تھیں:

’’اولاً یہ کہ کم از کم ہمیں اس بات کا پورا موقع دیا جائے کہ ہم اجتماع ارکان میں اپنے نقطہ ٔ نظر کو وضاحت سے رکھ دیں اس کام کے لیے جتنا وقت ہمیں درکار ہو ہمیں دیا جائے اور ہم پر کوئی روک ٹوک نہ کی جائے کہ یہ کہا جا سکتا ہے اور یہ نہیں‘ تاکہ ہم پورے طور پر مطمئن ہو جائیں کہ ہم نے اپنی بات کہہ دی ہے. یہ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ’’منافقت‘‘ کے ساتھ چلنے کو اپنے اوپر بھی ظلم سمجھتے ہیں‘ اس لیے کہ اس طرح آخرت میں اجر تو دُور رہا عذاب کا خطرہ نظر آتا ہے‘ اور جماعت پر بھی ظلم سمجھتے ہیں کہ ہم اس کے مجموعی ذہن سے علیحدہ ایک ذہن رکھتے ہیں اور پھر بھی ساتھ چلیں اور عملاً اس کا حاصل یہ ہو کہ نہ خود چلیں اور نہ دوسروں کو چلنے دیں. 

اور اگر یہ بھی قابل قبول نہ ہو تو ہمیں اجتماع سے قبل ہی مطلع کر دیا جائے. ہم اس کے لیے پورے انشراحِ صدر کے ساتھ تیار ہیں کہ خاموشی کے ساتھ جماعت سے علیحدہ ہو جائیں اور نہ اپنی منزل کھوٹی کریں اور نہ جماعت کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوں. ہماری اس طرح کی علیحدگی ان شاء اللہ جماعت کے لیے نقصان کا موجب نہ ہو گی بلکہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ اس طرح ہم شاید جماعت کی 
کوئی نہ کوئی خدمت ہی سرانجام دے سکیں گے‘‘. 

ماچھی گوٹھ حاضر ہوا تو جس چیز کا خدشہ تھا وہی ہوا. کلھیا میں گُڑ پھوڑا جا چکا تھا. ایک متفقہ قرار داد شوریٰ کی طرف سے اجتماعِ ارکان میں پیش ہونی تھی. اجتماع کا سارا پروگرام ایک سوچی سمجھی سکیم کے ساتھ اس طرح بنایا جا چکا تھا کہ اول تو کوئی اختلافی آواز اٹھائی ہی نہ جا سکے اور اٹھے بھی تو پوری طرح محبوس ہو کر. میں یہاں منتظمین اجتماع کی نیتوں پر حملہ نہیں کرنا چاہتا انہوں نے جو کچھ کیا انتہائی خلوص کے ساتھ 
’’اھوَنُ البلیّتین‘‘ کے مشہور و معروف فلسفہ کے تحت ایک بہت بڑے شَر یعنی جماعت کے انتشار سے بچنے کے لیے کیا. لیکن یہ بھی بہر حال اپنی جگہ ایک واقعہ ہے کہ اجتماع کو جس طرح CONDUCT کیا گیا اس میں کسی اختلافی آواز کا اُٹھنا خصوصاً ایسی حالت میں کہ ’’اکابرین‘‘ میں سے کوئی میدان میں رہا ہی نہیں تھا، چند بے وقعت ’’اصاغرین‘‘ باقی تھے، ممکن نہ تھا! مولانا مودودی کے لیے درآں حالیکہ وہ اُس وقت امیر نہیں تھے غیر محدود وقت کی کھلی چھٹی اور اختلاف کرنے والوں کے لیے سختی سے جھگڑا کر کر کے محدود وقت دینا اور پھر اس پر سختی سے عمل کرانا. اور باوجود اس کے کہ یہ ایک غیر معمولی اور ہنگامی اجتماع تھا ابتداء سے اس کا پروگرام معمولی اجتماعات کی طرح بنا کر بہت سا وقت قیم جماعت کی رپورٹ پر صَرف کر دینا خواہ خلوص کے ساتھ ہی ہوا ہو‘ بہر حال اختلاف کرنے والوں کے ساتھ انصاف نہ تھا.
’’ 
تَ تَحْسَبُھُمْ جَمِیْعًا وَ قُلُوْبُھُمْ شَتّٰی‘‘ کا جو منظر اس اجتماع میں پیش کیا اس میں جماعت کے لیے بڑی عبرت ہے. بالکل مختلف الخیال اور متضاد آراء کے حامل لوگوں کو جوڑ کر ساتھ لے کر چلنے کی کوشش یہی نتائج برپا کر سکتی ہے. قرار داد شوریٰ کی متفق علیہ تھی اور مبینہ طور پر مولانا مودودی صاحب کو شوریٰ ہی نے SPOKESMAN بنا کراس قرار داد کی تشریح پر مامور کیا تھا لیکن مولانا کی چھ گھنٹے سے زائد تقریر کے بعد بھی مولانا امین احسن اصلاحی نے محسوس کیا کہ اس قرار داد کے کچھ ’’مضمرات اور مقدرات‘‘ بیان ہونے سے رہ گئے ہیں اور پھر ان کو بیان کرنے جو کھڑے ہوئے تو ایک ایسی تقریر کر ڈالی کہ مولانا مودودی صاحب کی پوری تقریر کی تردید ہو گئی اور مجبوراً نعیم صدیقی صاحب کو اصلاحی صاحب کی تقریر کے اثرات دھونے کے لیے تقریر کرنی پڑی اور یہاں تک کہنا پڑا کہ اصلاحی صاحب امراضِ دماغی میں مبتلا ہیں. متعدد معزز اراکین شوریٰ کا یہ حال رہا کہ ’’مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ‘‘ نہ اِدھر ہوتے ہیں نہ اُدھر‘ ابھی قرار داد سے اتفاق ہے تو ابھی اتفاق ختم ہو گیا ہے اور اختلاف پیدا ہو گیا ہے‘ تا آنکہ ایک صاحب اپنا اتفاق واپس لے کر ایک متبادل قرار داد لاتے ہیں اور اس کے حق میں ایک طویل‘ مدلل اور مفصل تقریر کرتے ہیں‘ لیکن آخر میں اچانک خود اپنی ہی پیش کردہ قرار داد واپس لے کر سٹیج سے اُتر آتے ہیں. اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ! 
میرے لیے اس میں بھی کوئی عجیب بات نہ تھی‘ اس لیے کہ میں پہلے ہی اپنے خط میں لکھ چکا تھا:

’’اس طرح ’حب علیرضی اللہ عنہ‘ کی بجائے ’بغض معاویہرضی اللہ عنہ ‘ پر جو اتحاد قائم ہو‘ ظاہر ہے کہ اس کی بنیاد بے حد کمزور ہو گی … ‘‘
ذاتی طور پر میں اس اجتماع میں ایک بڑے مخمصہ میں پھنس گیا تھا. مولانا مودودی صاحب نے پالیسی کی جو تشریح بیان کی اس سے میرا اضطراب کم ہونے کی بجائے کچھ مزید ہی ہو گیا تھا. اب میرے سامنے دو راستے تھے ایک یہ کہ اپنی بات بیان کرنے کی کوشش کروں‘ اس صورت میں اپنی بے بضاعتی اور عدم قدرتِ کلام مانع آتے تھے. میں سوچتا تھا کہ اس نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنے گا! لہٰذا بولنے کا حشر معلوم. دوسرے یہ کہ خاموش رہوں. اس شکل میں بھی دو صورتیں تھیں. ایک یہ کہ جماعت کے اندر ہوں. لیکن اس صورت میں اگر اب نہیں بولتا تو آئندہ کسی موقع پر بولنا غلط ہو گا. ہر شخص یہ معقول بات کہہ سکے گا کہ جہاں بولنے کا موقع تھا وہاں بولے نہیں‘ اب کیوں فساد مچاتے ہو‘ دوسری یہ کہ جماعت کو خاموشی سے چھوڑ جاؤں. اس صورت میں بھی جماعت کا یہ الزام اور یہ حجت مجھ پر قائم ہو جاتی تھی کہ بغیر اختلاف کا اظہار کیے نکل جانا صحیح نہیں ہے! چنانچہ میں نے طے کیا کہ جو ہو سو ہو بہر حال اپنی بات ارکان کے سامنے رکھنے کی کوشش کروں گا!

اس خیال سے کہ اگر پہلے سے معلوم ہو جائے کہ مجھے کتنا وقت مل سکے گا تو اسی کے 
مطابق اپنی تقریر تیار کر سکوں‘ میں نے متعدد بار چودھری غلام محمد صاحب (۱سے جو اجتماع CONDUCT کہ رہے تھے پوچھا کہ مجھے آپ کس قدر وقت دے سکیں گے. جواب ہر بار یہی ملا کہ ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ چنانچہ میں اپنی کوئی تقریر تیار نہ کر سکا. جو قرار داد میں نے مرتب کر کے دی اس کے لیے 
ایک طویل تقریر ہونی چاہیے تھی لیکن کچھ معلوم نہیں تھا کہ وقت بھی مل سکے گا یا نہیں حتیٰ کہ عین وقت پر بھی تکرار ہی ہو کر رہی. آدھ گھنٹے کے بحث مباحثے کے بعد مجھے غالباً ڈھائی گھنٹے دیئے گئے لیکن اب میں تھا اور میرا بیان تقریر کوئی تیار نہ تھی ! دوسری طرف اس آدھ گھنٹے کے بحث مباحثے نے مجھے پہلے ہی بدحواس کر دیا تھا. میں نے اپنا بیان پڑھنا شروع کیا تو پے در پے 
INTERRUPTIONS کی گئیں‘ درشت حتیٰ کہ ناشائستہ کلمات تک کہے گئے اور میں صبر کے گھونٹ پی پی کر اپنا بیان پڑھتا رہا. وقت معینہ کے اندر بیان ختم بھی نہ ہو پایا اور مجھے لاچار بیان کو ادھورا ہی چھوڑ دینا پڑا. 

میرے لیے اپنا یہ انجام تو قطعاً غیر متوقع نہ تھا‘ لیکن جماعت کے اراکین کی ایک بہت بڑی تعداد نے اس اجتماع کے موقع پر اور خصوصاً میری تقریر کے دوران جس اخلاق کا مظاہرہ کیا اس پر ضرور دُکھ ہوا. اکابرین جماعت اس پر بھی ہر چیز کے بہتر پہلو ہی پر نظر رکھنے کے اصول کے تحت یہ کہہ کر مطمئن ہو جائیں کہ یہ سب کچھ در اصل اس لیے ہوا کہ اراکین جماعت کو اپنا مسلک کس قدر عزیز ہے کہ وہ کسی دوسری بات کو سن نہیں سکتے (جیسا کہ فی الواقع مولانا مودودی نے کہا بھی!) تو وہ ایسا کرنے کا اختیار رکھتے ہیں لیکن اگرعبرت حاصل کرنی ہو تو محض اس اجتماع کے موقع پر ارکان نے جس ’’اخلاق، ضبط اور نظم‘‘ کا ثبوت دیا ہے وہی جماعت کے تیزی سے روبہ انحطاط ہونے کی سب سے بڑی اور سب سے روشن دلیل ہے.

یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن اس اجتماع کا ایک پہلو میرے لیے بہت تسکین اور تسلی کا موجب بھی ہوا اور وہ یہ کہ مولانا مودودی نے اس اجتماع میں ایک بہت پختہ اور 
حاشیہ (۱): اللہ تعالیٰ ان کی خطاؤں سے درگزر فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے. مضبوط موقف (FIRMSTAND) اختیار کیا اور پوری جرأت کے ساتھ اپنی بات کہی اور کھلم کھلا اپنے آئندہ کے عزائم کا اظہار کیا. اس طرح اس مرتبہ قرار داد اور اس کے مفہوم میں وہ گنجلک پن اور ابہام باقی نہ رہا جو دسمبر ۵۶ء کی شوریٰ کی قرار داد میں پایا جاتا ہے. مولانا نے جس مضبوطی اور ہمت کے ساتھ اپنی بات صاف صاف رکھ دی اس کے لیے میں ذاتی طور پر ان کا مشکور ہوں‘ اس لیے کہ اس طرح میرے لیے معاملہ زیادہ صاف ہو گیا. میں سمجھتا ہوں کہ اس اجتماع سے قبل جماعت کو ایک خالص قومی و سیاسی جماعت کا رول ادا کرنے کے لیے ابھی بہت سی منزلیں طے کرنی تھیں جنہیں وہ بصورتِ دیگر آہستہ آہستہ کچھ شرماتی کچھ کتراتی طے کرتی لیکن اس اجتماع میں اس نے ایک ہی زقند میں ان سب کو عبور کر لیا ہے. 

اسے میری کور چشمی اور نا فہمی پر مبنی قرار دیا جائے تو بھی مجھے اعتراض نہیں ہے لیکن واقعہ بہر حال یہی ہے کہ مجھے مولانا مودودی کی طویل تقریروں میں کوئی ایسی وزنی دلیل نہ ملی جس کی بنا پر میں اپنے موقف کو تبدیل کر سکتا. یہاں مجھے یہ کہنے میں بھی باک نہیں ہے کہ اس کے برعکس میں نے یہ محسوس کیا کہ خود مولانا موصوف بھی اپنے موقف پر پورے طور سے مطمئن نہیں ہیں بلکہ اس غلط احساس کی بنا پر کہ ’’اب واپس لوٹ کر جانے کا امکان نہیں ہے لہٰذا آگے ہی بڑھنا چاہیے‘‘ اپنے موقف کے لیے دلائل لا رہے ہیں. یہی وجہ ہے کہ میں نے اجتماع میں صاف صاف اعلان کیا کہ ’’مولانا کی تقریر اور اس میں بیان شدہ دلائل سے میرا قطعاً اطمینان نہیں ہوا‘...... البتہ میں جماعت کا رکن رہوں گا!‘‘

جماعت کی رکنیت جاری رکھنے کا فیصلہ میں نے مندرجہ ذیل تین وجوہ سے کیا تھا:

۱. یہ کہ میں اس ’’گرم گرم‘‘ ماحول میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتا تھا جس میں‘ میں خاص طور پر ایک بہت سخت 
MENTAL TORTURE کی سی کیفیت میں گرفتار رہا تھا. میں چاہتا تھا کہ ایک مرتبہ پھر ٹھنڈے ماحول میں از سر نو اپنے موقف کا بھی جائزہ لوں اور مولانا مودودی کے دلائل کا بھی مطالعہ کروں، شاید مجھے کوئی روشنی مل جائے!

۲. یہ کہ میں ذرا ’’اپنے شیطان‘‘ کا بھی جائزہ لے لینا چاہتا تھا جیسا کہ خود مولانا مودودی نے فرمایا تھا (اور صحیح فرمایا تھا) کہ ہر شخص کو اپنے شیطان سے باخبر رہنا چاہیے. 

۳. تیسرے یہ کہ ایک مجبوری بھی میرے سامنے تھی کہ جماعت کو چھوڑ کر کوئی اور ’’جائے پناہ‘‘ بھی اپنے دین اور ایمان کو بچانے کی نظر نہ آتی تھی اس وجہ سے میں چاہتا تھا کہ حتی الامکان اس جائے پناہ کو ہاتھ سے نہ کھوؤں! 

اجتماع ماچھی گوٹھ کے بعد سے آج تک

میں مسلسل ان مسائل پر غور کرتا رہا ہوں. میں نے ہر معاملہ میں دونوں پہلوؤں کو نگاہ میں رکھنے کی کوشش کی ہے. خود اپنے آپ سے بے حد بد ظن ہو کر بھی معاملات پر غور کیا ہے. کتنی ہی بار میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ مجھے جماعت سے مستعفی ہو جانا چاہیے لیکن میں پھر رُک جاتا رہا. بالآخر میں نے فیصلہ کیا کہ رمضان کے آخری عشرہ میں سے جتنے دن بھی مجھے مل سکے ان میں اعتکاف کروں گا اور یکسوئی کے ساتھ اور اللہ سے رہنمائی کی دعا کرتے ہوئے کوئی فیصلہ کروں گا. 

جہاں تک میرے اصولی موقف کا تعلق ہے جتنا بھی میں نے سوچا اسی قدر اسے صحیح پایا اور جتنا غور کیا اسی قدر اس کی صحت پر میرا یقین بڑھتا چلا گیا. میں نے اجتماع سے قبل ’’ترجمان‘‘ کے ’’اشارات‘‘ اور ایک خاص مضمون ’’دو خطوط اور ان کا جواب‘‘ بھی دیکھے مولانا کی تقریروں کے 
NOTES بھی دوبارہ دیکھے. چودھری محمد اکبر صاحب نے جو دلائل میرے سامنے رکھے ان پر بھی غور کیا. مجھے ان میں کہیں روشنی نہ ملی اور جو رائے میں نے اپنے مفصل بیان میں تحریر کی ہے‘ میں اس میں کوئی تبدیلی نہ کر سکا. 

جہاں تک ’’اپنے شیطان‘‘ کا تعلق ہے‘ واقعہ یہ ہے کہ مجھے پہلے بھی اس کا احساس تھا لیکن ماچھی گوٹھ میں مولانا مودودی کے اس طرف توجہ دلانے اور پھر ایک نجی ملاقات 
میں جناب نعیم صدیقی صاحب کے بھی اس طرف متوجہ کرنے پر میں نے اس معاملہ میں اپنی حد تک پوری باریکی سے جائزہ لیا اور خدا گواہ ہے کہ اپنے آپ سے بد ظن ہو کر سوچ بچار کیا. 

۱. میں نے سوچا کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ خیالات میرے دل میں کسی اور نے ڈال دیئے ہوں اور میں کسی اور کا آلہ کار بن گیا ہوں. تو مجھے اطمینان ہوا کہ ایسا ہرگز نہیں ہے. یہ سب کچھ میری ذاتی سوچ بچار کا نتیجہ تھا. اپنے بیان کے تحریر کرنے تک اس معاملہ میں میری گفتگو نہ کبھی سعید ملک صاحب سے ہوئی اور نہ ہی کسی اور ایسے نمایاں شخص سے جو اختلافی ذہن رکھتا ہو. صرف لغاری 
(۱صاحب سے گفتگو ہوئی‘ وہ بھی اس وقت جبکہ میں اپنی آراء بنا چکا تھا. ان سے مل کرمجھے اپنی بات پر انشراح صدر تو ضرور ہوا لیکن کسی نئی بات کا اضافہ نہیں ہوا. رہا مقامی طور پر تو یہاں یہ تو ضرور ہوا ہو گا کہ میں نے دوسروں کو تھوڑا بہت متاثر کیا ہو لیکن کسی اور سے ایسا کوئی تاثر لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. 

۲. پھر میں نے سوچا کہ میں کہیں کسی آزمائش سے جی چرا کر تو نہیں بھاگ رہا ہوں‘ تو اس سلسلے میں بھی مجھے اطمینان ہی ہوا کہ اول تو اس وقت جبکہ میں استعفاء دے رہا ہوں ایسی کوئی بڑی آزمائش درپیش ہی نہیں ہے. پھر جو چھوٹے موٹے امتحانات اس راہ میں پیش آئے ہیں ان کے مواقع پر اللہ کا فضل ہی شامل حال رہا ہے اور کبھی بد دلی نزدیک نہیں آ سکی ہے. زمانہ طالب علمی کا اختتام اور عملی زندگی کی ابتداء ایک نوجوان شخص کے لیے کئی ایک چھوٹی بڑی آزمائشیں لے کر آتی ہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس موقع پر میں نے اپے قدموں میں کوئی کمزوری محسوس نہ کی اور پورے ثبات کے ساتھ جمعیت کی رکنیت سے جماعت کی رکنیت کی طرف منتقل ہو گیا. اجتماع ماچھی گوٹھ کا 
MENTAL TORTUER بھی میرے لیے ایک امتحان تھا لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس موقع پر بھی محض جذبات میں‘ میں نے کوئی اقدام نہیں کیا اور اس کے بعد بھی سوا دو ماہ تک مسلسل سوچ بچار کرتا رہا ہوں. 

حاشیہ (۱): سردار محمد اجمل خان لغاری مرحو م، رحیم آباد، ضلع رحیم یار خان. ۳. پھر میں نے اس اعتبار سے اپنا جائزہ لیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ (مولانا مودودی کے الفاظ میں) پہلے ضعف ارادہ پیدا ہوا ہو اور پھر اُس نے یہ مرکب شکل اختیار کر لی ہو تو مجھے اطمینان ہوا کہ کم از کم میرے معاملہ میں تو یہ صورتِ حال بھی ہرگز موجود نہیں ہے. میں اپنے بیان کی تحریر کے وقت تک جماعت کا تمام کام پوری تندہی اور سرگرمی سے کرتا رہا ہوں اور یہ صورت ہرگز نہیں ہوئی کہ پہلے اعضا اور جوڑ بند ڈھیلے پڑے ہوں اور بعد میں‘ میں نے اپنے تعطل کی وجہ جواز کے طور پر یہ سارا فلسفہ گھڑا ہو‘ بلکہ مجھے کم از کم اپنے آس پاس کی حد تک تو معاملہ اس کے بالکل برعکس نظر آتا ہے. جو لوگ سست پڑ گئے ہیں اور جن میں مقصد اور تحریک کے ساتھ عملی دلچسپی کم ہو گئی ہے وہ تو ایک نفسیاتی سے سہارے کے طور پر جماعت کی رکنیت کو چمٹا چمٹا کر سینے سے لگاتے ہیں اور اپنا حال دیکھ کر پھر کسی عام رکن پر بھی تنقید کی جرأت نہیں کرتے‘ کجا کہ پوری جماعت اور اس کی قیادت پر!
۴. ایک یہ خدشہ بھی میرے سامنے پیش کیا گیا کہ شاید جماعت کی صفوں میں ’’ترقی درجات‘‘ نہ ملنے کے باعث تیرے نفس نے ایک چوٹ کھائی ہوئی خودی کی مانند یہ سارا زہر اُگلا ہے !! میں نے اس پر بھی غور کیا تو مجھے اپنے بارے میں اس کا بھی کوئی امکان نظر نہ آیا. اس لیے کہ جماعت صفوںمیں جلد ترقی کرنی ہوتی تو مجھے اس کا موقع ملا تھا جبکہ اُس وقت کے امیر جماعت (مولانا امین احسن اصلاحی) نے مجھے اپنی تعلیم سے فراغت کے بعد یہ مشورہ دیا تھا کہ میں لاہور ہی میں رہوں اور ’’اپنی ساری امنگیں سیاست کے میدان میں پوری کروں‘‘. لیکن میں نے اس مشورہ کو ردّ کر کے منٹگمری میں سکونت اختیار کی! پھر سیدھی بات یہ بھی ہے کہ جماعت میں ’’ترقی درجات‘‘ ہاں میں ہاں ملانے اور مکھی پر مکھی مارنے سے ملتی ہے‘ نہ کہ اُلٹی تنقیدیں کرنے سے !!

شیطان کے ان تمام ممکنہ واروں کا میں نے جائزہ لیا تو مجھے معلوم ہوا کہ ان میں سے کوئی مجھ پر کارگر نہیں ہوا. میں نے اپنے ذہن کے ایک ایک کونے کو ٹٹولا ہے لیکن شیطان کی کوئی کمین گاہ تلاش نہ کر سکا. اب ایک آخری امکان ہے اور وہ یہ ہے کہ شیطان میرے 
ذہن کے ریشے ریشے میں اور میرے خون کے ایک ایک خلیے میں اس طرح سرایت کر چکا ہو کہ اس نے مجھے اس قابل ہی نہ چھوڑا ہو کہ میں اپے دل و دماغ میں اس کا سراغ لگا سکوں. تو اگر ایسی کیفیت ہے تو بھی جماعت کی رکنیت کے جاری رکھنے کا تو بہر حال کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا. اگر ایسا ہی ہو چکا ہے تو ظاہر ہے کہ مجھ سے کوئی خیر تو بن ہی نہیں آ سکتا اگر جماعت میں رہوں گا تو فتنہ انگیزی کروں گا اور فساد پھیلاؤں گا. 

اجتماع کے بعد کے ان سوا دو ماہ میں‘ میں نے یہ محسوس کیا کہ نہ میں جماعت کے کسی کام کا رہ گیا ہوں اور نہ جماعت سے مجھے اب کوئی دینی فائدہ پہنچ سکتا ہے‘ بلکہ اب میرا جماعت کے اندر رہنا خود میرے لیے بھی نقصان دہ ہے اور جماعت کے لیے بھی. جماعت کے اجتماعی ذہن کے خلاف ایک ذہن لے کر جماعت کے اندر رہنا اپنی حیثیت کے مطابق چھوٹے یا بڑے پیمانے پر جماعت میں کش مکش کو باقی رکھنا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ جماعت کے لیے کسی طرح مفید نہیں ہے. کوئی سیاسی جماعت جبکہ ابھی وہ خارجی کش مکش کے دَور میں ہو اگر اندرونی طور پر بھی کش مکش میں مبتلا ہو جائے تو یہ اس کے حق میں بُرا ہی ہے‘ اچھا کسی طرح نہیں ہے. لہٰذا میرا وجود جماعت کے لیے کسی حیثیت سے مفید نہیں ہے بلکہ مضر ہے. دوسری طرف اب جماعت کی رکنیت سے میرے اندر ’’نفاق‘‘ کی سی کیفیت پیدا ہو رہی ہے! ایک چیز کو غلط اور ناحق سمجھتے ہوئے بھی میں مجبور ہوں کہ پبلک میں جماعت کے رکن کی حیثیت سے اس کی حمایت کروں اور یہ چیز اب میرے لیے ناممکن بنتی چلی جا رہی ہے !!

مندرجہ بالا امور پر غور و فکر کے بعد میں اسی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جماعت سے مستعفی ہو جاؤں‘ لہٰذا میرا استعفاء حاضر ہے !!
جماعت کے ساتھ میرا جذباتی اور غیر شعوری تعلق ۴۷ء سے‘ شعوری ہمدردی کا تعلق ۵۱ء سے )جبکہ میں نے جمعیت کی رکنیت اختیار کی) اور باقاعدہ رکنیت کا تعلق گزشتہ سوا دو سال سے ہے. اس دس سال کے عرصہ میں میری پوری دنیا جماعت ہی کے چھوٹے سے 
حلقہ میں محدود رہی ہے. تعلقات اور دوستیاں‘ محبتیں اور الفتیں حتیٰ کہ رشتے داریاں تک اسی حلقہ میں محدود رہیں. بیٹھنا اُٹھنا بھی اسی میں رہا اور ہنسنا بولنا بھی اسی میں رہا. اب دفعتاً اس حلقہ سے نکلتے ہوئے دل و دماغ سخت صدمہ محسوس کر رہے ہیں. کتنے ہی بزرگوں سے مجھے والہانہ عقیدت ہے اور کتنے ہی ساتھیوں سے بے پناہ محبت ہے. جب میں سوچتا ہوں کہ آج کے بعد شاید میرے بزرگ میری عقیدت کی قدر نہ کریں اور میرے دوست میری محبت پر اعتماد نہ کریں تو دل اندر سے پکڑا سا جاتا ہے. پھر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جماعت کے بہت سے بزرگ مجھ سے بزرگانہ شفقت کا اور کتنے ہی ارکان و متفق مجھ سے حقیقی محبت کا تعلق رکھتے ہیں. جب سوچتا ہوں کہ آج اپنے اس اقدام سے میں نہ معلوم کتنوں کے جذبات کو مجروح کروں گا تو اپنے ہی آپ میں ایک ندامت کا احساس بھی ہوتا ہے. لیکن اس سب کے باوجود اس اقدام پر مجبوراً اس لیے آمادہ ہو گیا ہوں کہ اب اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نظر نہیں آتا ! 

میں نے جب جماعت کی رکنیت اختیار کی تھی تو اس وقت بھی اسے کوئی بچوں کا کھیل نہ سمجھا تھا اور آج جبکہ اسے ترک کر رہا ہوں تو یہ اقدام بھی بغیر سوچ بچار کے کسی جذباتی کیفیت میں نہیں کر رہا.... میں جائزہ کمیٹی سے ملاقات اور اس کے لیے اپنے مفصل بیان کی تحریر سے بھی ایک سال قبل سے شدید ذہنی کش مکش میں مبتلا ہوں‘ اور اس واقعہ کو بھی آج چھ ماہ سے اوپر کا عرصہ ہو چکا ہے جس میں‘ میں نے جذبات سے خالی ذہن کے ساتھ‘ اور جذبات کی رفاقت کے ساتھ، دونوں ہی طرح مسلسل غور و فکر کیا ہے اور آخر میں اللہ تعالیٰ سے رہنمائی کی دعا کرتے ہوئے ایک فیصلہ کیا ہے. جب اندر آیا تھا تو ’’ 
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا‘‘ کے ساتھ ’’رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ‘‘ کی دعا کرتا ہوا آیا تھا اور آج جب باہر جا رہا ہوں تو اپنے اللہ سے ’’اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ‘‘ کی دعا کرتا ہوا جا رہا ہوں. 

جن حالات اور کیفیات سے گزر کر میں نے جماعت کی رکنیت سے تعلق منقطع کیا ہے 
وہ میں نے اپنی حد تک صحیح صحیح اور صاف صاف بیان کر دیئے ہیں. اس کے بعد بھی کسی ’’نفسیاتی تجزیے‘‘ کی ضرورت ہو تو جماعت کے کئی اہل قلم کو ما شاء اللہ اس میں مہارت تامہ حاصل ہی ہے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ ایسے کسی تجزیے سے کوئی فائدہ ہی اُٹھا سکوں.

آخر میں دست بدعا ہوں: 
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَ مَیِّتِنَا وَ شَاھِدِنَا وَ غَائِبِنَا وَ صَغِیْرِنَا وَ کَبِیْرِنَا وَ ذَکَرِنَا وَ اُنْثٰنَا. اَللّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَاَحْیِہٖ عَلٰی الْاِ سْلَامِ وَ مَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلٰی الْاِ یْمَانِ.اٰمین! 
خاکسار: 
اسرار احمد 
تحریر ۲۹؍ رمضان المبارک ۱۳۷۶ھ مطابق اپریل ۱۹۵۷ء بحالت اعتکاف بعد عصر