مولانا اصلاحی اور مولانا مودودی مرحوم کی سترہ سالہ رفاقت کا افسوسناک اختتام
اور
ایک خالص دینی و انقلابی تحریک کے ساتھ جدید جمہوری فلسفہ تنظیم کی پیوند کاری کاعبرتناک انجام
استعفاء
محترم امیر جماعت اسلام علیکم و رحمۃ اللہ
مجھے جماعت کی موجودہ پالیسی‘ اس کے موجودہ نظام اور اس کے موجودہ دستور سے اتفاق نہیں ہے اور بد قسمتی سے آپ پر بھی آپ کے بعض اقدامات کے سبب سے مجھے اعتماد باقی نہیں رہا ہے‘ جماعت کے کچھ مخلصین جو اصلاح احوال کی کوشش کر رہے تھے اب وہ بھی اپنی کوششوں میں ناکام ہو کر مجھے اپنی مایوسی کی اطلاع دے چکے ہیں. اس وجہ سے نہایت افسوس کے ساتھ اب میں جماعت کی رکنیت سے استعفاء دیتا ہوں.
اس موقع پر میں یہ ظاہر کرنے میں اطمینان اور خوشی محسوس کرتا ہوں کہ مجھے اس جماعت سے جو محبت رہی ہے انشاء اللہ بحیثیت مجموعی وہ اب بھی قائم رہے گی. اس جماعت کے اندر میرے بہترین احباب ہیں جن کے دینی جذبات و احساسات کی میرے دل میں بڑی قدر و عزت ہے.
آپ سے مجھے کوئی ذاتی رنجش یا شکایت نہیں ہے اور اگر ہے تو میں اس کو صدق دل سے معاف کرتا ہوں. چودہ پندرہ سال کے تعلق کے دوران میں آپ کو مجھ سے بہت سی تکلیفیں پہنچی ہوں گی. میں ان سب کے لیے نہایت ادب سے معافی مانگتا ہوں اور اپنے لیے دعا کی درخواست کرتا ہوں. مرکز یا جماعت کے کسی اور رفیق کے لیے میری کوئی بات وجہ شکایت بنی ہو تو میں آپ کے واسطہ سے ان سے بھی معافی کی درخواست کرتا ہوں.
والسلام
(دستخط) امین احسن اصلاحی ۱۳؍ جنوری ۵۸ء
مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کی باہمی خط و کتابت
مولانا امین اصلاحی کے استعفاء کے بعد مولانا مودودی صاحب نے اُن کو گفتگو کے لیے بلایا تھا اس گفتگو کے بعد حسب ذیل خط امیر جماعت کی طرف سے مولانا اصلاحی صاحب کے نام آیا.
۱۵؍ جنوری ۵۸ء
محترمی و مکرمی‘ اسلام علیکم و رحمۃ اللہ
رات میں نے اپنی گفتگو میں آپ سے ذکر کیا تھا کہ میں نے غلام محمد صاحب کو ایک خط میں اپنے حقیقی احساسات واضح طور پر لکھ کر بھیج دیئے تھے اور میرا منشا یہ تھا کہ آپ کو یا تو وہ خط دکھا دیا جائے یا کم از کم اس کے مضمون سے پوری طرح آگاہ کر دیا جائے تاکہ آپ میرے احساسات سے بے خبر نہ رہیں. لیکن آپ کی گفتگو سے مجھے اندازہ ہوا کہ آپ کو اس کی ہوا بھی لگنے نہیں دی گئی. ہمارے یہ دوست اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ یہ غلطی کرتے رہے ہیں کہ ایک کو دوسرے کے احساسات سے پوری طرح با خبر نہیں کیا. ان کی یہ وضع احتیاط کچھ ایسی رہی ہے گویا وہ پرندے پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے اور ڈرتے تھے کہ کسی حرکت سے پرندہ بھڑک کر اُڑ نہ جائے. حالانکہ معاملات کی صفائی کے لیے یہ ضروری تھا کہ ہر ایک کے سامنے دوسرے کی حقیقی پوزیشن پوری طرح آ جائے اور پھر ہم ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ آیا ہم ایک دوسرے کی تسکین خاطر کر کے باطمینان ایک ساتھ چل سکتے ہیں.
میں اگرچہ وہ بیشتر باتیں آپ سے زبانی کہہ چکا ہوں جو میں نے غلام محمد صاحب کے خط میں لکھی تھیں‘ پھر بھی میں محسوس کرتا ہوں کہ اگر اس خط کو میں آپ سے پوشیدہ رکھوں تو آپ کے ساتھ خیانت کروں گا. اس لیے اس کی نقل آپ کو ارسال کر رہا ہوں. البتہ اس میں ایک دو باتیں میں نے اب بڑھا دی ہیں جو اصل خط میں نہ تھیں اور اس سے میرا مقصد بعض امور کی مزید توضیح ہے. میرا مقصد اس نقل کو بھیجنے سے یہ ہے کہ آپ کے سامنے میری پوزیشن پوری طرح واضح ہو جائے اور اس کو سامنے رکھ کر آپ پورے معاملہ پر غور کریں‘ خدا نخواستہ آپ کو کوئی اذیت دینا میرے پیش نظر نہیں ہے.
آپ نے جائزہ کمیٹی کے سلسلے میں جو خط مجھے لکھا تھا‘ اگر آپ ضرورت سمجھتے ہوں تو اس کے ایک ایک نکتہ کا جواب میں آپ کو لکھ کر بھیج سکتا ہوں. میں نے اس کا جواب لکھنے سے اس لیے احتراز نہیں کیا تھا کہ اس میں آپ نے جو اعتراض مجھ پر کیے تھے ان کا کوئی جواب میرے پاس نہ تھا‘ بلکہ اس کے وجوہ دوسرے تھے جن کی طرف میں زبانی گفتگو میں اشارہ کر چکا ہوں.
یہ خط میں اس غرض کے لیے آپ کو نہیں لکھ رہا ہوں کہ آپ اسے رات کی گفتگو کے آخری نتیجہ کی حیثیت سے لیں. بلکہ دراصل یہ رات کی گفتگو کے سلسلہ ہی میں ہے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ آخری نتیجہ پر پہنچنے سے پہلے مزید غور کے لیے جس مواد کی ضرورت میں محسوس کرتا ہوں وہ آپ کے سامنے آ جائے. آپ بھی اگر کسی مزید بات کی ضرورت محسوس کریں تو مجھے لکھ سکتے ہیں یا مجھ سے زبانی فرما سکتے ہیں. اُلجھے ہوئے معاملات کو صاف کرنا اگر پیش نظر ہو تو صبر کے ساتھ تمام حقائق کا سامنا کرنا ناگزیر ہے.
خاکسار
(دستخط) ابو الاعلیٰ
مولانا مودودی صاحب کا خط بنام جناب چوہدری غلام محمد
مکرمی و محترمی‘ السلام علیکم و رحمۃ اللہ
آپ کا خط انشاء اللہ خاں صاحب کے ذریعہ سے ملا. آپ نے ایک ایسا معاملہ چھیڑ دیا ہے جس کے متعلق میں کچھ کہنا یا لکھنا پسند نہ کرتا تھا. لیکن اب جبکہ آپ نے اسے چھیڑ دیا ہے تو میں چاہتا ہوں کہ اپنے خیالات صاف صاف آپ کو بتا دوں تاکہ آپ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ میں کسی کبریا ضد کی بنا پر اصلاحِ حال کی کوشش سے پرہیز کر رہا ہوں. اس کے ساتھ یہ مصلحت بھی میرے پیش نظر ہے کہ اگر آپ کو میرے احساسات کا علم ہو جائے تو شاید آپ حقیقی صورتِ حال کو سمجھ کر اصلاح کی کوئی راہ نکال سکیں.
آپ لوگ جانتے ہیں کہ پچھلے پندرہ سولہ برس کے دوران میں میرا طرزِ عمل مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کے ساتھ کیا رہا ہے. جماعت میں مجھے سب سے بڑھ کر انہیں پر اعتماد تھا. ہر معاملہ میں ان کی رائے کو میں سب سے زیادہ وزن دیتا تھا. ہر معاملہ میں ان کے مشورے‘ ان کی شرکت اور معاونت کو ضروری سمجھتا تھا. ان کو بجا طور پر جماعت میں جو اہمیت حاصل ہے وہ میرے علی الرغم حاصل نہیں ہوئی ہے بلکہ ان کی قابلیت اور جماعت کی قدر شناسی کے ساتھ میری دلی خواہش اور کوشش کا بھی اس میں دخل ہے. میں نے ہمیشہ جماعت کے اندر بھی اور باہر بھی اُن کو آگے رکھنے کی کوشش کی ہے. اور قولاً و عملاً اپنے بدل کی حیثیت سے پیش کیا ہے تاکہ جماعت میں کم از کم ایک آدمی تو ایسا رہے جس پر میرے بعد جماعت پورے اعتماد کے ساتھ جمع ہو سکے. یہ بات بھی وہ سب لوگ جو مجلس شوریٰ کے رکن رہے ہیں اپنے تجربات و مشاہدات کی بناء پر جانتے ہوں گے کہ میں نے بارہا ان کی ناگوار باتیں ٹھنڈے دل سے برداشت کی ہیں. ان کی ناز برداری خود ہی نہیں کی ہے‘ دوسروں سے بھی کروائی ہے. پھر یہ بات آپ خود مولانا ہی سے پوچھ لیجئے کہ اس سالہاسال کی رفاقت کے دوران میں کیا کبھی میں نے ان کو کوئی سخت بات کہی یا لکھی ہے‘ یا ان کے متعلق کوئی ایسا اظہار خیال کیا ہے جو اُن کے لیے موجب شکایت ہو؟
لیکن اب یہ میرا نہیں‘ ان کا رویہ ہے جس کی بدولت میرے اور ان کے درمیان تعاون مشکل ہو گیا ہے (۱)
بے اعتمادی کا اظہار میری طرف سے نہیں‘ ان کی طرف سے ہوا ہے، اور ایسی سخت بے اعتمادی کا اظہار ہوا ہے‘ ایسی بدترین شکل میں ہوا ہے جس کے بعد اب کبھی میں اس اطمینان کے ساتھ ان سے بات نہیں کر سکتا کہ وہ مجھے نیک نیت اور ایماندار (۱): اس سے مراد وہ خاص تعاون ہے جو اب تک میرے اور ان کے مابین رہا ہے‘ ورنہ دستورِ جماعت کے تقاضوں کے مطابق ایک رکن جماعت اور رکن مجلس شوریٰ کا امیر جماعت کے ساتھ جو تعلق ہونا چاہیے وہ بہر حال عملاً رہے گا. نیز یہ بھی واضح رہے کہ مولانا کے ساتھ جو طرزِ عمل اب میں نے اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ جماعت کا جو کام وہ خود بخوشی کرنا چاہیں وہی ان سے لیا جائے اور کسی ایسے کام کے لیے سرے سے ان کو کہا ہی نہ جائے جسے کرنے کے لیے وہ راضی نہ ہوں. آدمی سمجھتے ہوئے گفتگو کر رہے ہیں (۱) .
مایوسی اگر ان کو مجھ سے ہوئی ہے تو یہ عجیب بات ہے. انہوں نے تو سارے اسباب وہ جمع کیے ہیں جو مجھے ان سے مایوس کر دینے کے لیے کافی ہیں. رنج اگر انہیں مجھ سے ہے تو یہ میرے لیے حیران کن بات ہے. واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے میرے تحمل کو اس آخری حد پر پہنچا دیا ہے جس کے بعد جائز اور بجا تحمل کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے‘ نہ اس کے آگے کوئی شخص مجھ سے تحمل کے مطالبہ کا حق رکھتا ہے. انہوں نے میرے متعلق جتنے بُرے خیالات کا اظہار کیا ہے ان سے واقف ہونے کے بعد میں حیران ہوں کہ ان سے میرا تعاون آخر کیسے ہو سکتا ہے؟
مجھے اس کا پورا احساس ہے کہ اس تحریک کے لیے میرا اور ان کا تعاون نہایت ضروری ہے اور اس میں فرق واقع ہو جانا سخت نقصان دہ ہے. اس معاملہ میں آپ کو یا کسی کو بھی مجھ سے کچھ کہنے کی حاجت نہیں. مگر آپ مجھے بتایئے کہ اس میں جو حقیقی موانع ہیں‘ ان کا آپ کے پاس یا میرے پاس کیا علاج ہے. آپ جانتے ہیں کہ میں ان موانع کو دُور کروں. مگر وہ میری طرف سے ہوں تو میں انہیں دُور کروں. میں نے ان کو کبھی OFFEND کیا ہو تو اس کی نشاندہی کی جائے‘ میں ہر وقت ان سے معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں. میں نے ان کی نیت پر‘ اخلاق پر‘ دیانت پر کبھی کوئی حملہ کیا ہو‘ یا شک میرے دل میں ہو تو آپ بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں اسے رفع کروں. مجھے ان سے کوئی ذاتی رنجش ہو تو اس کو بھی دل سے نکال دینے کا آپ مطالبہ کر سکتے ہیں. لیکن یہاں تو ان میں سے کوئی چیز بھی موجود نہیں ہے. موانع جو کچھ بھی ہیں انہیں کی طرف سے ہیں اور وہی ان کو دُور کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں.
(۱): اس کا شاہد ان کا وہ خط ہے جو انہوں نے جائزہ کمیٹی کے سلسلہ میں مجھے لکھا تھا. اس نے مجھ پر یہ بات واضح کر دی ہے کہ ان کے نزدیک میں ایک نہایت بے ایمان اور بد فطرت انسان ہوں‘ یہ معلوم ہونے کے بعد اب میرے لیے کس طرح ممکن ہے کہ میں ان سے اطمینان کے ساتھ کسی معاملہ میں بات کر سکوں.
اگرچہ آپ خود حالات سے واقف ہیں‘ مگر میں مختصراً بیان کیے دیتا ہوں کہ وہ موانع کیا ہیں:
(۱) مولانا نے پچھلے چند مہینوں میں میری ہر بات کو بدترین معنی پہنائے ہیں اور اس سے وہ وہ مفہوم نکالے ہیں کہ اگر فی الواقع میری باتوں کے مفہوم وہی کچھ ہوں تو شاید جماعت اسلامی کے ارکان ہی میں نہیں‘ متفقین و متاثرین میں بھی مجھ سے بڑھ کر خبیث آدمی کوئی نہیں ہو سکتا. جائزہ کمیٹی کے ارکان کے نام میرے خط پر جو طویل تبصرہ فرما کر انہوں نے میرے پاس بھیجا تھا‘ اور امارت سے میرے استعفاء کو جو معنی انہوں نے پہنائے اور نئی مجلس شوریٰ کے افتتاحی اجلاس میں میری تقریر کا جو مفہوم انہوں نے نکالا‘ یہ اس معنی آفرینی کی چند مثالیں ہیں جس سے مولانا اپنے اس قدیم نیاز مند کو نوازتے رہے ہیں. اگر یہ طریقہ انہوں نے اس لیے اختیار کیا ہے کہ اس دباؤ سے مجھے ایسی باتیں ماننے پر مجبور کیا جائے جو سیدھی طرح دلیل سے نہیں منوائی جا سکتیں تو یہ کھلا بلیک میلنگ ہے. لیکن اگر واقعی مولانا کے نزدیک میں اتنا ہی خبیث النفس ہوں جیسا ان کے بیان کردہ مضمون کے لحاظ سے میں لا محالہ قرار پاتا ہوں تو میرے ساتھ تعاون تو درکنار‘ انہیں تو جماعت اسلامی کے اندر میرے وجود کو بھی ایک لمحہ کے لیے ناگوار نہ کرنا چاہیے. پھر مجھ سے زیادہ ذلیل آدمی اور کون ہو سکتا ہے اگر اس کے بعد بھی میں اُن کے ساتھ تعاون کروں. ان کی تمام تاویلات اور معنی آفرینیوں کو میں غلط اور بے ہودہ اتہام سمجھتا ہوں (۱) . وہ خوا بلیک میلنگ کی خاطر یہ باتیں کر رہے ہوں‘ یا ان کے حقیقی خیالات میرے متعلق یہی ہوں‘ دونوں صورتوں میں نہ میں ان کے ساتھ تعاون کرنے کے لائق رہ گیا ہوں‘ نہ وہ میرے ساتھ تعاون کرنے کے لائق.
(۲): مولانا نے اس سال جنوری میں جماعت کی رکنیت سے استعفاء دیتے وقت جو خط (۱): یہ معاملہ میرے لیے جس قدر تکلیف دہ ہے اس کا اندازہ مولانا کو اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک میں بھی ان کے اقوال و افعال کے ویسے ہی بدتر معنی نکال کر ان کے سامنے رکھ دوں جیسے انہوں نے میرے اقوال و افعال کے نکال کر میرے سامنے رکھے ہیں‘ مگر میں اس سطح تک اُترنے کے لیے تیار نہیں ہوں. مجلس شوریٰ کو لکھا تھا اور اس متن کی جو شرحیں مختلف مراحل پر انہوں نے ارشاد فرمائی ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ جماعت اسلامی میرے مریدوں اور خوشامدی مصاحبوں کی ایک جماعت بن گئی ہے. ان باتوں سے مولانا کا نقطہ ٔ نظر صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر جماعت میں ان کی بات چلے تو وہ خالص ان کی دلیل کی طاقت سے چلتی ہے‘ اور میری بات چلے تو اس کی وجہ نہ میری دلیل کی طاقت ہے‘ نہ یہ ہے کہ جماعت کے لوگ اپنی حقیقی رائے کی بنا پر میرے ہم خیال ہیں‘ بلکہ صرف پیری مریدی ہے یا پھر خوشامد ہے جو میرے گرد جمع ہو جانے والے مصاحب کر رہے ہیں. اس معاملہ میں بھی میں یہی کہوں گا کہ یا تو ان باتوں کا اصل مدعا یہ ہے کہ جماعت میں بہر حال مرضی انہی کی چلنی چاہیے‘ دلیل سے نہ چلے تو وہ اس طرح کی دھونس اور بلیک میلنگ سے چلانے کی کوشش کریں گے. یا پھر واقعی اب اس جماعت کے متعلق مولانا کی حقیقی رائے ہی یہ ہے. پہلی صورت میں وہ جماعت کے لائق نہیں اور دوسری صورت میں جماعت ان کے لائق نہیں ہے.
(۳): مولانا نے مجھ پر پورے اصرار کے ساتھ آمریت کا الزام عائد کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ میں جماعت میں جمہوریت کا خاتمہ کر رہا ہوں. قریب کے زمانہ میں میرے خلاف اس الزام کو جتنا اُچھالا گیا ہے‘ میں جانتا ہوں کہ وہ سب انہی کی شہ پر ہے. اس کے اصل مصنف وہی ہیں. اس کے لیے دلائل فراہم کرنے والے بھی وہی ہیں اور اس سارے پروپیگنڈہ کی حوصلہ افزائی بھی انہوں نے کی ہے. اس سے وہ چاہے انکار کر دیں مگر ان کا ضمیر جانتا ہے کہ اس معاملہ میں انہوں نے کیا کچھ کیا ہے. اب میری پوزیشن یہ ہے کہ ایک طرف میں اپنے متعلق یہ جانتا ہوں کہ یہ ایک سراسر جھوٹا اور بے بنیاد الزام ہے جو مجھ پر لگایا گیا ہے‘ اور دوسری طرف مجھے اپنے برسوں کے تجربے اور مشاہدے سے معلوم ہے کہ مولانا کیسے کچھ جمہوریت پسند ہیں. دنیا بھر میں وہ اپنی جمہوریت پسندی کا سکہ جما سکتے ہیں مگر اس شخص کے سامنے ان کا یہ ادعا کیسے چل سکتا ہے جو ان کے آمرانہ مزاج کی ایک ایک ادا کو جانتا ہے. میرے سامنے وہ برسوں مجلس شوریٰ کے اجلاسوں میں دلیل کے بجائے تیز مزاجی اور تیز زبانی کی دھونس سے اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے رہے ہیں. میں بارہا اپنی آنکھوں دیکھ چکا ہوں کہ مجلس شوریٰ کے اجلاسوں میں ان پر تنقید کرنا تو درکنار ان کی رائے سے اختلاف کرنا بھی کیسی کچھ تلخیوں کا موجب ہوا ہے. پچھلے ہی سال کا وہ واقعہ بھی مجھے یاد ہے کہ مجلس شوریٰ صبح کے اجلاس میں ایک فیصلہ کر چکی تھی‘ اور شام کے اجلاس میں (غالباً مجلس شوریٰ ہی کی ایک معروف شخصیت کے نجویٰ سے متاثر ہو کر) وہ بپھرے ہوئے تشریف لائے اور آتے ہی انہوں نے مجلس کے اس فیصلہ کو چیلنج کر دیا‘ حالانکہ ایک طے شدہ فیصلہ کو چیلنج کرنا ویسے ہی کسی جمہوری قاعدے سے صحیح نہ تھا‘ اور مزید برآں مولانا مجلس شوریٰ کے باقاعدہ رکن اور دستور کی روسے ووٹ دینے کے مجاز تک نہ تھے. اس پر صدیق الحسن صاحب نے جب ان کو آئینی پوزیشن سمجھانے کی کوشش کی تو وہ جس طرح ان کے لتے لینے کے لیے تیار ہو گئے اسے میں نہیں بھولا ہوں اور شاید آپ لوگ بھی نہ بھولے ہوں گے. ان کی جمہوریت پسندی کی تازہ ترین مثال مجلس عاملہ کی تشکیل پر ان کا اعتراض ہے‘ حالانکہ یہ تشکیل ٹھیک ٹھیک جماعت کے دستور کے مطابق ہوئی ہے‘ اور جماعت کے دستور میں بھی تشکیل کا یہ قاعدہ اجتماعِ عام کی منظور کردہ قرار داد پر مبنی ہے اس اجتماع میں مولانا خود شریک تھے ان کی موجودگی میں وہ دستوری قرار داد پاس ہوئی اور انہوں نے اس سے اختلاف تک نہ کیا تھا. جس شخص کی جمہوریت پسندی کا یہ حال ہم برسوں اپنی آنکھوں دیکھتے رہے ہوں‘ خدا کی شان ہے کہ وہ اس شخص پر آج آمریت کا الزام لگانے کی جرأت کرتا ہے‘ جس نے ہمیشہ ٹھنڈے دل سے اپنے خلاف تنقیدیں سنی ہیں‘ جس سے اختلاف کرنے میں جماعت کے کسی شخص نے کبھی جھجک محسوس نہیں کی‘ جس نے مجلس شوریٰ کے اجلاسوں میں گھنٹوں اور دنوں صرف اس لیے بحث کو طول دیا ہے کہ اگر ایک رکن بھی اختلاف کر رہا ہے تو فیصلہ اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اسے مطمئن نہ کر دیا جائے‘ جس نے بارہا ایک مسئلہ کے فیصلہ کو صرف اس لیے ملتوی کر دیا کہ مجلس شوریٰ میں ڈویزن کرانا اسے پسند نہ تھا حالانکہ اکثریت اس کی ہم خیال تھی اور وہ اپنی رائے کے مطابق اکثریت سے فیصلہ کرا سکتا تھا‘ جس نے اپنے زمانۂ امارت میں ڈویزن کی نوبت اس قدر کم آنے دی ہے کہ شاید تین چار مرتبہ سے زیادہ آپ اس کا شمار نہیں کر سکتے. آپ لوگوں میں سے کوئی شخص ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کر سکتا کہ میں نے کبھی مجلس شوریٰ کے فیصلہ کو اپنی ذاتی رائے کی بنا پر ردّ کرنے یا بدلوانے کی کوشش کی ہو. آپ لوگ اس بات کے بھی گواہ ہیں کہ گزشتہ سال کی آخری مجلس شوریٰ میں اگر ڈویزن پر فیصلہ کیا جاتا تو اکثریت سے اس اقلیت کی رائے کو ٹھکرایا جا سکتا تھا جس کی پیٹھ آپ سب لوگوں کے سامنے مولانا امین احسن اصلاحی صاحب ٹھونک رہے تھے.ان سب حقائق کی موجودگی میں جب مجھے آمر ٹھہرایا جاتا ہے اور مولانا جمہوریت نواز بنتے ہیں تو میں اس کا مطلب یہ سمجھتا ہوں کہ اپنی آمریت نہ چلتے دیکھ کر مولانا کو غصہ آ گیا ہے اور اسی سے ان کو جمہوریت کا غم لاحق ہو گیا ہے. جس جمہوریت کے وہ خواہش مند ہیں وہ میرے نزدیک اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ جماعت میں ایک آئینی اور ایک غیر آئینی‘ دو قسم کی امارتیں چاہتے ہیں. آئینی امارت خواہ کسی کی بھی ہو‘ مگر غیر آئینی امارت انہیں حاصل رہے‘ پھر انہیں کبھی آمریت کا شکوہ نہ ہو گا.
(۴): قریب کے زمانہ میں مولانا کا مستقل رویہ یہ رہا ہے کہ میں نے اس زمانہ میں جو کچھ بھی لکھا ہے یا کہا ہے یا امیر جماعت کی حیثیت سے جو کام بھی کیے ہیں ان پر وہ ہمہ تن شکایت بنے رہتے ہیں‘ یہ ہر وقت کی عیب جوئی اور بات بات پر شکایت وہ چیز نہیں ہے جس کے ساتھ کبھی دو آدمیوں کے درمیان خوشگوار تعلق رہ سکتا ہو.
(۵): مولانا نے پچھلے دنوں مسلسل یہ طرزِ عمل بھی اختیار کیے رکھا ہے کہ جماعت میں ہر اس شخص کی انہوں نے حوصلہ افزائی کی ہے جو مجھ پر کسی طرح حملہ کر سکتا ہو. اس کی ابتداء پچھلے سال آپ سب لوگوں کے سامنے مجلس شوریٰ میں ہوئی تھی جب ملک سعید صاحب نے میری دیانت پر سراسر بے بنیاد حملہ کیا اور مولانا نے اسی وقت ان لوگوں کو حق گوئی کی داد دی. اس کے بعد سابقہ مجلس شوریٰ کے اس معرکۃ الآراء اجلاس میں مولانا جس جس طرح ان سب اصحاب کی پیٹھ ٹھونکتے رہے جنہوں نے مجھ پر اعتراضات‘ الزامات اور صریح اخلاقی حملوں کی بوچھاڑ کی تھی اسے آپ لوگ چاہے بھول گئے ہوں مگر میں کبھی نہیں بھول سکتا. کیونکہ نہ میں اندھا ہوں کہ اس وقت کا ان کا اندازہ نہ دیکھ رہا ہوں‘ نہ بے وقوف ہوں کہ ان کی باتوں کے معنی نہ سمجھتا ہوں‘ اور نہ بے حس ہوں کہ ان باتوں کو بھول جاؤں. پھر میرے خلاف جن جن حضرات نے پبلک میں کھل کر پروپیگنڈہ شروع کیا، میں جانتا ہوں کہ مولانا کی ہمدردیاں ان سب کے شامل حال رہی ہیں اور یہ بات اب کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے کہ مولانا ان سب کو حق بجانب اور مجھے قصور وار ثابت کرنے کی کوشش فرماتے رہتے ہیں. میرے لیے ان باتوں پر صبر کرنا تو ممکن ہے‘ اور میں خدا کے فضل سے اتنا ذلیل آدمی نہیں ہو کہ جواب میں کچھ لوگوں کو ان پر حملے کرنے کی جسارت دلاؤں. لیکن یہ ظاہر ہے کہ جس شخص سے مجھے یہ کچھ تجربات ہو رہے ہوں اس کے لیے میں اپنے دل میں کوئی گنجائش پیدا نہیں کر سکتا. میرا احساس یہ ہے کہ مولانا جماعت میں اپنی پوزیشن تو یہ بنا کر رکھنا چاہتے ہیں کہ کوئی ان کے سامنے دم نہ مار سکے اور میری پوزیشن یہ بنانا چاہتے ہیں کہ میں نہ صرف ان کے سامنے بلکہ ان کے منظور نظر لوگوں کے سامنے بھی دُم نہ مار سکوں اور اگر دُم ماروں تو وہ خود بھی آستین چڑھا کر میرے مقابلہ میں آ کھڑے ہوں گے اور اپنے ساتھیوں کو بھی مقابلہ میں ڈٹ جانے کی ہمت دلائیں گے. کیا اس کے بعد بھی یہ ممکن ہے کہ میرے اور ان کے درمیان مخلصانہ تعلق باقی رہ سکے؟
یہ ہیں وہ موانع جو میرے اور مولانا کے درمیان تعاون کی راہ میں حائل ہیں. ان میں سے کسی کو دُور کرنا بھی میرے اختیار میں نہیں ہے. آپ اگر انہیں دُور کرا سکیں تو ضرور اس کی کوشش کریں لیکن یہ خوب سمجھ لیجئے کہ ان موانع کی موجودگی میں میرے اور ان کے تعلقات کا بحال ہونا قطعاً ناممکن ہے‘ خواہ وہ جماعت میں رہیں یا نہ رہیں. جتنا کچھ وہ مجھے بدنام کرا چکے ہیں اسے صبر کے ساتھ میں نے برداشت کر ہی لیا ہے. اب اگر رکنیت سے مستعفی ہو کر باقی ماندہ کسر بھی پوری کرنا چاہیں تو کر لیں. بہر حال جس دوست کو انہوں نے کھو دیا ہے اسے اپنا رویہ بدلے بغیر اب وہ کبھی نہ پا سکیں گے. یہ فیصلہ کرنا ان کا اپنا کام ہے کہ وہ دوست ان کے لیے کوئی قیمت رکھتا تھا یا نہیں.
آپ نے اپنے خط میں عبد المجید قریشی صاحب‘ صفدر صاحب اور طفیل صاحب کی ان تلخ باتوں کی شکایت بھی کی ہے جو وہ بعض اوقات مولانا کے بارے میں کہہ بیٹھتے ہیں. قریشی صاحب کے متعلق تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا‘ مگر باقی دونوں صاحبوں کے متعلق میں جانتا ہوں کہ ان کے دل مولانا سے کس قدر رنجیدہ اور کیوں رنجیدہ ہیں. مولانا نے متعدد مرتبہ خود میرے سامنے ان کی تذلیل کی ہے. طفیل صاحب کے ساتھ تو ان کا جو برتاؤ رہا ہے اس کی ایک نہیں بیسیوں مثالیں آپ سب لوگوں کے سامنے مجلس شوریٰ کے بھرے اجلاسوں میں پیش آ چکی ہیں. مجھے معلوم ہے کہ ان باتوں سے ان کا دل اس قدر زخمی ہو چکا ہے کہ اگر آج مولانا امین احسن صاحب جماعت کے امیر ہو جائیں تو طفیل صاحب شاید ایک منٹ کے لیے بھی مرکز میں نہ ٹھہریں. نعیم صاحب کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے. انہوں نے بارہا مجھ سے اس کی سخت شکایت کی ہے کہ مولانا نے ان سے نہایت تذلیل و تحقیر کا برتاؤ کیا ہے‘ حتیٰ کہ ایک دفعہ اسی بنا پر وہ مجلس شوریٰ کی رکنیت سے استعفاء بھی لکھ کر مجھے دے چکے ہیں جسے واپس لینے کے لیے میں نے بمشکل انہیں راضی کیا. یہ وہ زمانہ ہے جس میں بیٹے تک باپ کی جھڑکیاں برداشت نہیں کرتے. آخر مولانا نے یہ کیوں سمجھ رکھا ہے کہ جو اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ شریف اور معزز خاندانوں کے نوجوان محض اللہ کے دین کی خاطر جماعت کی خدمت کرنے کے لیے آئے ہیں‘ وہ ان کی خاکِ پا کے برابر ہیں اور انہیں پورا حق ہے کہ جب چاہیں انہیں دس بیس آدمیوں کے سامنے ذلیل کر دیں. دراصل یہ مولانا کی اپنی ہی تیز مزاجی اور درشت کلامی کا خمیازہ ہے کہ جو لوگ کبھی ان کے سامنے آنکھ اُٹھانے کی جرأت بھی نہ کرتے تھے وہ اب سارا ادب لحاظ ختم کر دینے پر تُل گئے ہیں. اس صورتِ حال کو آخر میں کیسے بدل سکتا ہوں اور کب تک ان لوگوں کے جذبات کو قابو میں رکھ سکتا ہوں. انہوں نے تو خود میرے ساتھ بھی لحاظ مروّت کے معاملہ کو ختم کر دیا ہے اور غالباً آئندہ میرے لیے بھی یہ مشکل ہو گا کہ ان سے لحاظ مروّت کا برتاؤ کر سکوں. میں جن باتوں کی اصلاح چاہتا ہوں وہ مختصراً یہ ہیں:-
(۱) مولانا اپنی اس عادت کو بدلیں کہ جس شخص سے انہیں اختلاف ہوتا ہے وہ اس کی بات کو بدترین معنی پہنانے کی کوشش کرتے ہیں. افسوس ہے کہ انہوں نے اس عادت کو ایک خوبی سمجھ کر پرورش کیا ہے‘ اور اب وہ اس انتہاء کو پہنچ چکی ہے جس کا نمونہ جائزہ کمیٹی کے ارکان کے نام میرے خط پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے اپنے نوازش نامہ میں پیش فرمایا ہے. یہ طریقہ میرے نزدیک ایسا ہے جس کے ساتھ تو جماعتی زندگی میں نباہ سخت مشکل ہے.
(۲): مولانا کا یہ نقطہ ٔ نظر بھی بدلنا ضروری ہے کہ جماعت میں امیر سے اختلاف کرنا ایک خوبی اور اس سے اتفاق کرنا ایک برائی ہے. یہ نقطہ ٔ نظر بھی بتدریج پرورش کرتے رہے ہیں‘ یہاں تک کہ اب وہ بڑھ کر اس حد تک پہنچا ہے کہ جماعت میں جو بھی مجھ سے اتفاق کرتا ہے وہ ان کے نزدیک خوشامدی یا مرید‘ یا اندھا مقلد ہے اور جو بھی مجھ سے اختلاف کرے یا میرے خلاف صحیح یا غلط اظہار رائے کرے‘ اس کی وہ ہمت افزائی کرنا ضروری سمجھتے ہیں. میرے نزدیک یہ روش جماعت اسلامی میں امارت کی حقیقی روح کو بالکل ختم کر دینے والی ہے اور اس کا نتیجہ مجھے یہ نظر آتا ہے کہ کوئی شخص بھی پھر جماعت کی امارت سنبھال کر کام نہیں چلا سکتا.
(۳): مولانا نے مسلسل اپنے طرز عمل اور اپنی باتوں سے جماعت میں ’’امیر بمقابلہ مجلس شوریٰ‘‘ کے سوال کو اُبھارا ہے اور یہ صورتِ حال پیدا کی ہے کہ گویا امیر اور مجلس شوریٰ میں اختیارات کی کوئی کشمکش برپا ہے. نیز انہوں نے یہ اسپرٹ پیدا کرنے کی کوشش بھی کی ہے کہ امیر کے مقابلہ میں مجلس شوریٰ کے ارکان کو متحد ہونا چاہیے اور جو لوگ امیر کا ساتھ دیں ان کو خوشامدی اور ’’سرکاری پارٹی‘‘ کا آدمی اور غیر اہل الرائے قرار دے کر دبا دینا چاہیے. یہ باتیں میرے نزدیک اسلامی مجلس شوریٰ اور امیر جماعت کے تعلق کی حقیقی اسپرٹ کے بالکل خلاف ہیں اور اس کا لازمی نتیجہ وہ دھڑے بندی ہے جو پوری جماعت کے اخلاق اور اس کی اجتماعی روح کو برباد کر دے گی . جماعت اسلامی اگر صحیح طریقہ پر چل سکتی ہے تو اسی طرح کہ امیر اور مجلس شوریٰ بالکل ایک ٹیم بن کر کام کریں اور بحث و اختلاف جو کچھ بھی ہو حق و صواب تک پہنچنے کی خاطر ہو.
(۴): میں یہ جانتا ہوں کہ مولانا کو جماعت کی پالیسی سے کوئی اختلاف نہیں ہے‘ نہ جماعت کے متعلق ان کے جذبات میں کوئی فرق آیا ہے. ان کی ناراضی تمام تر مجھ سے ہے. ادھر میں مجبور ہوں کہ جماعت مجھے امارت سے سبکدوش کرنے پر کسی طرح راضی نہیں ہوتی اور میں اس سے بھاگ کر کہیں جا نہیں سکتا. اس لیے چاروناچار اس جماعت کے نظام کو اب میری ہی امارت میں چلنا ہے. اس حالت میں تعاون اور رفاقت کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ میری امارت سے اگر مولانا اپنے آپ کو پوری طرح RECONCILE نہ کر سکتے ہوں تو کم از کم اسے برداشت کرنے پر راضی ہو جائیں. اس کے بغیر میں نہیں سمجھتا کہ آخر کس طرح مل کر کام ہو سکتا ہے.
(۵): مولانا کا یہ طرزِ عمل میرے نزدیک جماعت کی خیر خواہی کے بالکل خلاف ہے کہ ملک سعید صاحب کے انٹرویو سے لے کر آج تک اخبارات میں میرے اور جماعت کے خلاف جس قدر پروپیگنڈہ ان کے نام اور حوالے سے ہوا‘ اس کی نہ صرف انہوں نے کبھی تردید نہ کی بلکہ وہ ہر قدم ایسا ہی اُٹھاتے چلے گئے جس سے اس کی توثیق ہو. اس کے لیے یہ نظیر کوئی نظیر نہیں ہے کہ آخر قیم جماعت نے میرا استعفاء بھی تو شائع کر دیا تھا. میرے استعفے میں کسی پر کوئی الزام نہ تھا. لیکن دوسرے جن حضرات کے استعفے بھی اخبارات میں آئے ہیں ان سب میں طرح طرح کی حاشیہ آرائیوں کے ساتھ مجھ پر اور جماعت پر الزامات کی بوچھاڑ کی گئی ہے اور ان سب میں کسی نہ کسی طرح مولانا کا نام بھی استعمال کیا گیا ہے. میرے نزدیک اگر کسی شخص کے دل میں جماعت کے لیے محبت اور قدر اور خیر خواہی کا کوئی ادنیٰ جذبہ بھی باقی ہو‘ اور وہ جانتا ہو کہ جماعت کی اخلاقی ساکھ کو نقصان پہنچنا اس ملک میں اقامت دین کے نصب العین کو کس قدر ضرر اور لا دینی کی علم بردار طاقتوں کو کس قد رفائدہ پہنچا سکتا ہے‘ تو وہ کبھی اس چیز کو ٹھنڈے دل سے برداشت بھی نہیں کر سکتا‘ کجا کہ وہ خود اس میں مددگار ہو‘ میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ مولانا کی طرف سے اس پروپیگنڈہ کی صاف صاف تردید ہو اور آئندہ وہ کوئی قدم ایسا نہیں اُٹھائیں جو اسے تقویت پہنچانے والا ہو. وہ خوب جانتے ہیں کہ جماعت کے کسی منصب سے ان کا استعفاء دو چار ہی دن بعد اخبارات میں بڑی حاشیہ آرائیوں کے ساتھ آ جائے گا. یہ جانتے ہوئے بھی جب وہ کسی منصب سے استعفاء دیتے ہیں تو کم از کم میرے نزدیک تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کا دل اب جماعت کے لیے ہر جذبۂ خیر سے خالی ہو چکا ہے اور میرا اندازہ ہے کہ یہی اثر ارکان جماعت اور متفقین کی ایک بڑی اکثریت کے ذہن پر مترتب ہو رہا ہے.
(۶): مولانا کے جس خط کو ڈاکٹر عثمانی صاحب پھیلا رہے ہیں اور جسے جماعت سے نکلنے والے حضرات جگہ جگہ لیے پھرتے ہیں‘ اس کی تلافی اب لا محالہ مولانا کو خود ہی کرنی ہو گی. اگر وہ نہیں کریں گے تو میرے لیے زیادہ دیر تک اس صورتِ حال کو برداشت کرنا بالکل نا ممکن ہے. پچھلے دورے میں کراچی‘ سکھر‘ بہاولپور‘ لائلپور اور راولپنڈی کے حلقوں میں مجھے اس سے سابقہ پیش آ چکا ہے. مختلف مقامات پر اسے جماعت کے ارکان اور متفقین تک پہنچایا گیا ہے‘ اور بعض جگہ تو خاص طور پر یہ کوشش کی گئی ہے کہ جماعت کو جن گوشوں سے مالی امداد ملتی ہے وہاں اسے پھیلا کر بدگمانیاں پیدا کی جائیں. اس میں میری جو گھناؤنی تصویر پیش کی گئی ہے‘ آخر اسے میں کب تک نظر انداز کر سکتا ہوں. اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا اور مولانا نے خود اس کی کوئی تلافی نہ کی تو میں اس کے متعلق کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہوں گا اور اس صورت میں اس بات کا لحاظ کرنا میرے لیے قطعاً ناممکن ہو گا کہ مولانا ابھی تک میرے ایک رفیق جماعت ہیں. مجھے لا محالہ اس تحریک کی خاطر اپنی مدافعت کرنی ہو گی‘ اور اگر ناگزیر طور پر اس سلسلہ میں مولانا پر کوئی آنچ آئے تو پھر مجھ سے شکایت کرنا بالکل غلط ہو گا.
(۷): مولانا کو ہم پہلے بھی سر آنکھوں پر بٹھاتے رہے ہیں اور اب بھی اس کے لیے تیار ہیں. لیکن بہت فرق ہے اس بات میں کہ کسی کو اس کے مرتبے اور خدمات کی وجہ سے سر پر بٹھایا جائے اور اس میں کہ کوئی اپنے مرتبے اور خدمات کی دھونس سے ہمارے سر پر سوار ہونے کی کوشش کرے. مولانا کو پہلی ہی صورت پر قناعت کرنی چاہیے اور ایسی باتیں نہ کرنی چاہئیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہو کہ وہ اپنے آپ کو دستور‘ نظام‘ جماعت اور امیر جماعت سب سے بالاتر رکھنا چاہتے ہیں.
(۸): آخری اور میرے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ مولانا اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ اس جماعت میں اگر وہ میرے ساتھی اور مددگار کی حیثیت سے رہیں تو میری اور ان کی طاقت مل کر ایک بڑی طاقت بنتی ہے جو جماعت کے لیے بھی مفید ہے اور تحریک اسلامی کے لیے بھی‘ اور اگر وہ میرے مد مقابل اور زعیم حزب اختلاف کی پوزیشن اختیار کریں تو یہ ہر حیثیت سے نقصان دہ ہے‘ جماعت کے لیے بھی اور تحریک اسلامی کے لیے بھی.
نوٹ: امین احسن صاحب اصلاحی کی طرف سے اس خط کا جو جواب دیا گیا ہے وہ اگلے صفحات پر درج ہے.
مولانا اصلاحی کا مکتوب بنام مولانا مودودی
مخدومی مولانا! السلام علیکم و رحمۃ اللہ
میں آپ کی اس عنایت کے لیے دل سے شکر گزار ہوں کہ آپ نے آخری نتیجہ تک پہنچانے میں میری مدد کے لیے وہ خط بھی بھیج دیا جو آپ نے میرے بارے میں چوہدری غلام محمد صاحب کو لکھا تھا. میں نے یہ خط پڑھ لیا. اس کو پڑھنے کے بعد میں جس نتیجہ پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے استعفاء دینے میں دیر لگائی. اگر اپنے بارے میں آپ کے ان احساسات کا علم مجھے پہلے ہو گیا ہوتا تو میں بہت پہلے استعفاء دے چکا ہوتا. لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ تاخیر بھی منجانب اللہ ہے اور انشاء اللہ موجب خیر ہو گی. میں اس خط پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا صرف چند باتوں کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں.
(۱): اس خط میں آپ نے جماعت کے اندر میرا اعتبار و وقار قائم کرنے کے لیے میرے اوپر اپنے جن احسانات کا ذکر کیا ہے میں ان کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں. مگر یہ ضرور عرض کروں گا کہ اس اہتمام سے ان احسانات کے جتانے کی ضرورت نہیں تھی. اس سے آپ کے اجر میں کمی ہو جانے کا اندیشہ ہے. ایک نا اہل پر اول تو یہ احسانات کرنے نہ تھے اور اگر آپ نے کر ہی ڈالے تھے تو کریم النفسی کا تقاضا یہ تھا کہ میرے کفرانِ نعمت کے باوجود ان کو بھول جاتے اور اگر آپ ان کو بھول نہیں سکتے تھے تو کم از کم یہ توقع تو مجھ سے نہ رکھتے کہ میں ان کے بدلہ میں ضمیر فروشتی کروں گا.
(۲): اس میں آپ نے مجھے جو دھمکیاں دی ہیں وہ بھی کچھ غیر ضروری سی ہیں اگر آپ یہ دھمکیاں نہ بھی دیتے جب بھی میں آپ کی طرف سے اسی طرزِ عمل کی توقع رکھتا ہوں جس کے اختیار کرنے کی آپ نے دھمکی دی ہے. میں زمانہ اور اہل زمانہ سے اتنا بے خبر نہیں ہوں. ان دھمکیوں کے جواب میں صرف یہ گزارش ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے برابر دعا کر رہا ہوں کہ وہ اس سلسلہ میں مجھے کسی ابتلا میں نہ ڈالے اور اگر ڈالے تو ایک مردِ حق کی طرح اس سے عہدہ برآ ہونے کی ہمت‘ توفیق اور قابلیت عطا فرمائے.
(۳): آپ حضرات نے میری تیز مزاجی‘ سخت کلامی اور ’’معنی آفرینی‘‘ کا شہرہ تو عجم سے لے کر عرب تک پہنچانے کی سعی فرمائی لیکن اس خط میں آپ نے میری نسبت جو الفاظ رقم فرمائے ہیں‘ میری نیت پر جو حملے کیے ہیں اور افراد کو بھی اور جماعت کو بھی جن جن طریقوں سے میرے خلاف برانگیختہ کیا ہے کبھی ان پر بھی ٹھنڈے دل سے غور فرمایئے.
(۴): میری آمریت اگر آپ کی طرف سے میری ’’نازبرداری‘‘ کے بل پر تھی تو گناہ گار آپ ہیں نہ کہ میں. غور کرنے کی بات ہے کہ ایک شخص جو شوریٰ کا رکن نہیں‘ جو ووٹ دینے تک کا مجاز نہیں‘ جس کو لوگوں کو شوریٰ سے کان پکڑ کر نکال دینے کا اختیار نہیں آخر اس کو یہ مقام کو کس طرح حاصل ہو گیا کہ وہ شوریٰ کو اس کے فیصلے بدلوا دینے پر مجبور کر دیتا تھا. آخر میرے ہاتھ میں وہ کون سا ڈنڈا تھا جس کے آگے سب حضرات بے بس تھے. میں نے شوریٰ کا جو فیصلہ اپنی آمریت کے زور سے شوریٰ سے بدلوا دیا تھا میں درخواست کرتا ہوں کہ وہ اور جن جن چیزوں پر آج اور اس سے پہلے میں ’’ہمہ تن شکایت‘‘ بنا رہا ہوں وہ سب آپ جماعت کے سامنے رکھ دیں اس سے جماعت کو میری نسبت رائے قائم کرنے میں بڑی مدد ملے گی اگر آپ کو ان کو ان کے سامنے لانے میں تردد ہو تو مجھے اجازت مرحمت فرمایئے میں ہی ان کو سامنے رکھ دوں تاکہ لوگ اندازہ کر سکیں کہ میں نے کن ہلاکتوں سے جماعت کو بچایا یا بچانے کی سعی کی مگر ناکام رہا.
(۵): میں جماعت کے متعلق یہ خیال نہیں رکھتا کہ وہ خوشامدیوں کی جماعت ہے یا آپ کے مریدوں کی جماعت ہے. میں جماعت کے اندرونی احساسات سے آپ سے زیادہ واقف ہوں میں خوشامدی صرف انہی افراد کو سمجھتا ہوں جو فی الواقع خوشامدی ہیں اور جن کے کارنامے ان کے اس وصف کے گواہ ہیں اور پیری کی گدی اُس جدید نظام کو سمجھتا ہوں جس کی بساط اب آپ نے بچھائی ہے اور جماعت جس کے نتائج سے بے خبر ہے.
(۶): جو لوگ جماعت سے نکلے یا نکالے گئے ہیں میرا ان کے ساتھ تعلق ڈھکا چھپا نہیں ہے. میں ان سے برأت کرنا گناہ سمجھتا ہوں. میرے نزدیک یہ سب لوگ آپ کے استبداد کے شکار ہوئے ہیں اور اگر ان میں سے کسی نے کوئی غلط حرکت کی بھی ہے تو محض آپ حضرات کی بے تدبیریوں سے مشتعل ہو کر کی ہے. میرے نزدیک آپ لوگوں نے ملک سعید کے ساتھ بھی سخت زیادتی کی ہے. ان کی غلطی اگر کوئی ہے تو یہ کہ انہوں نے آپ کی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی کوشش کی. میں نے اگر ان کی کسی بے جا حرکت پر پیٹھ ٹھونکی ہو تو مجھ پر خدا کی لعنت ہو.
(۷): آپ اپنے آپ کو نہ صرف جماعت اسلامی کا قائم مقام سمجھتے ہیں بلکہ خود اسلام کا بھی قائم سمجھنے لگے ہیں. آپ کے نزدیک اگر آپ کی کسی حرکت پر کسی کو اعتراض ہو تو وہ جماعت پر اعتراض ہے اور جب یہ جماعت پر اعتراض ہے تو اسلام پر اعتراض ہے. اس طرح آپ اپنا یہ ذہن بنائے بیٹھے ہیں کہ آپ کی ذات اگر کہیں زیر بحث آئی تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس ملک میں اقامت دین کا سارا کام درہم برہم ہو جائے گا اور لادینی طاقتیں غالب ہو جائیں گی. میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ سوچنے کے اس انداز کو بدلیں. خدا نے اسلام کو نہ آپ کے ساتھ باندھا ہے نہ جماعت اسلامی کے ساتھ اور نہ کسی اور کے ساتھ. اگر آپ اسلام کا کام کرنے اُٹھے ہیں تو خدا را اس کی یہ قیمت تو نہ مانگیے کہ اگر آپ اسلام پر بھی ہاتھ صاف کرنے لگ جائیں تو بھی لوگ اس کو جاننے کے باوجود چپ رہیں کیونکہ اس سے اقامت دین کے جہاد کو نقصان پہنچ جائے گا.
(۸): مصالحت کرانے والوں کے رویہ کا آپ نے جو شکوہ کیا ہے مجھے اس کی نسبت کچھ کہنا نہیں ہے. معلوم نہیں انہوں نے آپ کے ساتھ بے وفائی کی ہے یا آپ نے ان کے ساتھ. میں اس قضیہ میں پڑنا نہیں چاہتا. میرے نزدیک انہوں نے نہایت اخلاص اور احتیاط کے ساتھ حالات کو درست کرنے کی کوشش کی اگرچہ وہ اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے.
(۹): آپ نے جن شریف انسانوں کی تذلیل کا الزام مجھ پر لگایا ہے ان میں سے نعیم صدیقی صاحب کی نسبت مجھے کچھ نہیں کہنا ہے. ان کی تذلیل محض ان کے اپنے ذہن کی تخلیق کا کرشمہ ہے. البتہ طفیل صاحب کے اخلاص کی میں بڑی قدر کرتا رہا ہوں. جب کبھی میں نے محسوس کیا ہے کہ میری کسی بات سے ان کو تکلیف پہنچی ہے تو میں نے ان سے معافی مانگی مانگی ہے. اگر ان کا کوئی حساب میرے ذمہ باقی رہ گیا تھا تو میرا خیال ہے کہ ادھر پچھلی دو ملاقاتوں میں انہوں نے چکا لیا ہو گا. لیکن اگر کوئی ملال اب بھی ان کے دل میں باقی ہے تو میں اپنی ذات کو‘ اپنے مال کو اور اپنی آبرو کو ان کے آگے پیش کرتا ہوں وہ مجھ سے قصاص لے لیں. اور آخرت کی مسؤلیت سے مجھے بری کریں اور یہ تو آپ ان کو بہر حال اطمینان دلا دیں کہ وہ مرکز چھوڑنے کا ہرگز خیال نہ کریں. اب میرے امیر بن جانے کا کوئی امکان بھی باقی نہیں رہا ہے. والسلام
(دستخط) امین احسن اصلاحی ۱۶؍ جنوری ۵۸ء
نوٹ: مولانا اصلاحی کے اس خط کے جواب میں مولانا مودودی کی طرف سے جو خط آیا وہ اگلے صفحات پر ملاحظہ فرمایئے.
مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کا جوابی مکتوب
۱۶؍ جنوری ۵۸ء
محترمی و مکرمی السلام علیکم و رحمۃ اللہ
منسلکہ خط روانہ کرنے ہی والا تھا کہ آپ کا تازہ خط مل گیا. اگرچہ اس کے بعد کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے‘ لیکن چونکہ میں نے وعدہ کیا تھا کہ آپ کی گفتگو پر غور کرنے کے بعد دو دن کے اندر میں اپنے آخری تاثرات عرض کر دوں گا‘ اس لیے میں یہ خط بھیج رہا ہوں. مناسب ہو اگر آپ اسے کم از کم پڑھ ہی لیں اور اگر اس کے بعد اپنے نقطہ ٔ نظر میں کوئی تبدیلی فرمایئے تو اس سے زیادہ خوشی کی کوئی بات نہ ہو گی.
خاکسار ابو الاعلیٰ
محترمی جناب مولانا امین احسن صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ
میں حسب وعدہ دو دن سے غور و خوض کے بعد آپ کو مطلع کر رہا ہوں کہ آپ سے جو گفتگو ہوئی تھی اس کے متعلق میں کن نتائج پر پہنچا ہوں.
اس گفتگو میں جن مسائل کو آپ زیر بحث لائے تھے ان میں اصل اہمیت تین مسائل کی ہے.
اول یہ کہ آپ کو جماعت کے موجودہ دستور‘ نظام اور پالیسی سے اتفاق نہیں ہے اور آپ ان میں ترمیم چاہتے ہیں. دوم یہ کہ آپ میرے اس اقدام کو غلط سمجھتے ہیں جو میں نے جائزہ کمیٹی کے ارکان کے نام اپنے خط میں کیا تھا. اور آپ چاہتے ہیں کہ میں بھی اسے غلط مان لوں. سوم یہ کہ آپ کے نزدیک کوٹ شیر سنگھ کے اجلاس شوریٰ میں میری افتتاحی تقریر آپ کے نزدیک سخت قابل اعتراض ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ یہ جماعت کے اندر جمہوریت کا خاتمہ کر دینے والی چیز ہے.
میں ان میں سے ہر ایک پر نمبر وار اپنے خیالات ظاہر کروں گا.
۱. جماعت کا دستور‘ نظام اور پالیسی وہ چیز نہیں ہے جو میرے اور آپ کے درمیان کسی سمجھوتے کے ذریعہ سے بدلی اور بنائی جا سکے. یہ مرکزی مجلس شوریٰ کے اختیار کی چیز ہے‘ اور مرکزی مجلس شوریٰ ہرگز کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے کہ میں اور آپ ایک جگہ بیٹھ کر بالا بالا کچھ فیصلے کریں اور وہ بس ان پر انگوٹھا لگا دے. آپ اگر جماعت کی ان بنیادی چیزوں میں کوئی تبدیلی چاہتے ہوں تو نظامِ جماعت میں رہ کر مجلس شوریٰ کے رکن کی حیثیت سے اپنی تجاویز اور ترمیمات باقاعدہ پیش کیجئے. مجلس اگر آپ کے دلائل سے مطمئن ہو کر کوئی تغیر و تبدل کرنے پر راضی ہو جائے گی تو جو تغیر بھی آپ چاہیں گے وہ ہو جائے گا. زیادہ سے زیادہ جو کچھ آپ مجھ سے مطالبہ کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ آپ کی پیش کردہ ترمیمات کی میں تائید کروں. مگر اس مطالبہ کو بھی میں کسی سمجھوتے کی شکل میں پورا نہیں کر سکتا. اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ آپ مجھے اپنی ترمیمات کا قائل کرنے کی کوشش فرمائیں‘ میں قائل ہو جاؤں گا تو ضرور ان کی تائید کروں گا‘ ورنہ محض آپ کو راضی کرنے کے لیے ایک بات کو غلط سمجھتے ہوئے اس کی تائید کرنا بد دیانتی بھی ہے اور مجلس شوریٰ کے ساتھ خیانت بھی. اس پوزیشن کو اگر آپ قبول کریں تو میں اس کے لیے تیار ہوں کہ جس قدر جلدی ممکن ہو مجلس شوریٰ کا ایک اجلاس بلاؤں اور اس میں آپ کو اپنی مجوزہ ترمیمات پیش کرنے کا موقع دوں.مجلس شوریٰ کے متعلق یہ بدگمانی آپ اپنے دل سے نکال دیں کہ وہ یا اس کی اکثریت یا اس کی کوئی اقلیت میرے حق میں یا آپ کے خلاف کوئی تعصب رکھتی ہے. یہ سب لوگ للہ و فی اللہ کام کرنے کے لیے اس جماعت میں آئے ہیں‘ کسی بندے کی خاطر نہیں آئے ہیں. آپ کے خلاف ان کے دلوں میں قطعاً کوئی تعصب نہیں ہے. سب آج بھی اسی طرح آپ کے نیاز مند اور قدر شناس ہیں جس طرح پہلے تھے. آپ صاف دل کے ساتھ تشریف لائیے. آپ کی بات کھلے دل کے ساتھ سنی جائے گی. اس میں وزن ہو گا تو اپنے وزن کے لحاظ سے قبول کی جائے گی‘ اور اگر اس کے خلاف دلائل وزنی ہوں گے تو ان کے وزن کی بنا پر آپ کی بات ردّ کی جائے گی. کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف تعصب کے جذبے سے معاملات پر غور کرنا اور اس لحاظ سے ان کا فیصلہ کرنا ایک گناہِ عظیم ہے اور اُس حلف کے خلاف ہے جو مجلس شوریٰ کا ہر رکن اپنا فرض منصبی سنبھالنے سے پہلے اُٹھاتا ہے.
۲. جائزہ کمیٹی کے ارکان کے نام میرا خط جن اصحاب کے لیے موجب دل آزاری ہوا ہے ان سے میں بار بار علی الاعلان معافی مانگ چکا ہوں اور جتنی مرتبہ اور جس طرح آپ فرمائیں پھر معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں. میں پچھلے سال جنوری ہی میں اس کو واپس بھی لے چکا ہوں اور اس کے کالعدم ہونے کا اعلان بھی کر چکا ہوں‘ یہ زیادہ سے زیادہ وہ حد ہے جہاں تک میں کسی کو راضی کرنے کے لیے جا سکتا ہوں. رہی یہ بات کہ جس چیز کو میں غلط نہیں سمجھتا اسے محض راضی نامہ کے طور پر غلط مان لوں‘ تو یہ میرے نزدیک بد دیانتی ہے جس کا مجھ سے مطالبہ کرنے کا کسی کو بھی حق نہیں ہے. میں نے جس وقت یہ کام کیا تھا اسے حق سمجھتے ہوئے کیا تھا‘ اور اس کے بعد کوئی چیز میرے سامنے ایسی نہیں آئی جس کی بنا پر میں اسے باطل مان لیتا‘ بلکہ بعد کے واقعات نے تو میری رائے پر مہر تصدیق ثبت کر دی جس کی بنا پر میں آج پہلے سے زیادہ اسے حق سمجھتا ہوں. میں اپنے علم اور تجربے اور مشاہدے کی بنا پر یہ یقین رکھتا ہوں کہ ۵۶ء میں جماعت کے اندر ایک بلاک پیدا ہونا شروع ہوا. اس بلاک کے بننے اور منظم ہونے میں ’’جائزے‘‘ کے کام نے سب سے بڑا کردار ادا کیا (قطع نظر اس سے کہ ایسا کرنے کا ارادہ کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو) یہ بلاک دسمبر ۵۶ء کی مجلس شوریٰ کے موقع پر بالکل مشہود صورت میں اس طرح سامنے آیا کہ مجلس کے اندر بھی اور اس کے باہر بھی اس سے تعلق رکھنے والے ارکان موجود تھے اور آپ جیسا با اثر آدمی اس کا محور اور مدار بنا ہوا تھا. اور اس دسمبر کی مجلس شوریٰ میں یہ بات بھی میں نے اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ لی تھی جسے میں جھٹلا نہیں سکتا کہ اس صورتِ حال نے جماعت میں دھڑے بندی کی بنا ڈال دی ہے اور نوبت یہ آ گئی ہے کہ جماعت کی بنیادی پالیسی‘ جس پر ساری تحریک کو چلنا ہے‘ اتفاق رائے سے بننے کے بجائے دو دھڑوں کے درمیان مصالحت اور لین دین کی بنیاد پر بننے لگی ہے. میرے نزدیک یہ چیز دستور جماعت کے قطعی خلاف تھی. میں یہ بھی قطعی رائے رکھتا تھا کہ مصالحتوں کے ذریعہ سے گول مول پالیسیاں بنا کر یہ تحریک ہرگز نہیں چل سکتی. میں یہ بھی اچھی طرح جانتا تھا کہ مصالحتی فارمولے جماعت کو جمع کرنے کے بجائے اس کے تفرقے کو روز بروز بڑھاتے چلے جائیں گے کیونکہ اس کی تعبیر ہر دھڑے کے لوگ اپنے منشاء کے مطابق کریں گے‘ ہر ایک اپنی تعبیر کے حق میں ارکان جماعت کی رائے ہموار کرنے کی کوشش کرے گا‘ اور اس طرح رفتہ رفتہ پوری جماعت نہ صرف یہ کہ مختلف دھڑوں میں بٹتی چلی جائے گی بلکہ جماعت کے کارکن ان تعبیرات کی بحثوں میں الجھ کر کوئی کام کرنے کے قابل نہ رہیں گے. مجھے اس بات کا بھی یقین تھا کہ ایک مرتبہ دھڑے بندی میں مبتلا ہو جانے کے بعد اس جماعت کے اخلاق‘ اس کی یک جہتی‘ اس کی باہمی الفت‘ اس کا ڈسپلن‘ اس کی کارکردگی‘ غرض کوئی چیز بھی بخیریت نہیں رہ سکے گی. ان وجوہ سے میں یہ سمجھتا تھا کہ اس دھڑے بندی کو روکنے کے لیے مضبوط ہاتھوں سے ایک ضرب کاری لگائے بغیر چارہ نہیں ہے. میں جانتا تھا کہ اس کا نتیجہ اپنے عزیز ترین دوستوں سے لڑائی مول لینا ہو گا. میں اس سے بچنا چاہتا تھا. اسی لیے میں نے دسمبر ۵۶ء کی مجلس شوریٰ میں استعفاء پیش کیا تھا. مگر جب آپ لوگوں نے اسے قبول نہ کیا اور مجھے امارت کے فرائض ادا کرنے پر مجبور ہی کر دیا تو پھر میرے لیے ناگزیر تھا کہ امیر جماعت کی حیثیت سے جس چیز کو میں ایمانداری کے ساتھ اپنا فرض سمجھتا ہوں اسے ادا کروں. میں سخت گناہ گار اور بد دیانت ہوتا اگر اس دھڑے بندی کو دستور کے خلاف‘ جماعت کے لیے مہلک اور تحریک اسلامی کے لیے تباہ کن سمجھنے کے باوجود گوارا کرتا اور اسے توڑ دینے کے لیے جلدی سے جلدی کوئی قدم نہ اٹھاتا. میں نے جلد بازی نہیں کی. اس مصالحتی فارمولے کو جسے دسمبر ۵۶ء کی مجلس شوریٰ پاس کر گئی تھی ایک مرتبہ آزمائش کا موقع دینے کی پوری کوشش کی. مگر جب بالکل آفتابِ روشن کی طرح یہ حقیقت میرے سامنے آ گئی کہ یہ فارمولا جماعت میں تفرقے کی پرورش اور افزائش کا ذریعہ بن گیا ہے‘ تب میں نے انتہائی قلبی اذیت کے ساتھ اپنا فرض انجام دیا. میں نے جو قدم اس وقت اٹھایا وہ اس دھڑے بندی کو توڑنے کے لیے میرا پہلا قدم تھا‘ اور اسی میں‘ میں نے یہ ظاہر کر دیا تھا کہ آگے اس سلسلہ میں مجھے مزید قدم اُٹھانے ہیں. یہ قدم میں نے جن لوگوں کے خلاف اٹھایا ان سے مجھے کوئی عداوت نہ تھی. وہ میرے نہایت عزیز دوست تھے. اگر میں امیر جماعت نہ ہوتا تو ان سے ادنیٰ تعرض کرنے کا خیال بھی میرے دل میں نہ آ سکتا تھا. مگر جب آپ ایک نظام اور ایک تحریک کو چلانے کی ذمہ داری مجھ پر ڈالتے ہیں جس کے لیے میں خدا اور خلق اور پوری جماعت کے سامنے جواب دہ ہوں‘ تو میں اپنے فرائض کی ادائیگی میں دوستوں کی پاسداری تو نہیں کر سکتا. میرا فرض جس چیز کا مطالبہ بھی کرے گا‘ میں اسے کروں گا خواہ اس کی ضرب میرے کسی دوست پر پڑے یا میرے کسی بھائی بند پر‘ یا میری اپنی ذات پر.
یہ تھی بنیاد میرے اُس اقدام کی. اس کے بعد سے آج تک جو حالات پیش آئے ہیں ان میں سے ہر ایک نے میری اس رائے کی توثیق و تصدیق کی ہے جو میں نے اس اقدام کے وقت قائم کی تھی. آج ایک اندھا بھی دیکھ سکتا ہے کہ جماعت کے اندر بلاک سازی ہوئی تھی یا نہیں اور بلاک سازی کے رجحانات کس نوعیت کے تھے اور یہ عناصر کس مرکز (NUCLEUS) کے گرد جمع ہو رہے تھے. آپ کہتے ہیں کہ میرا اقدام جماعت کے لیے مہلک تھا. میں کہتا ہوں کہ اس کے نقصان کو اس نقصان سے کوئی نسبت نہیں ہے جو یہ قدم نہ اٹھانے کی صورت میں جماعت کو پہنچتا. بلکہ میں تو بالیقین یہ سمجھتا ہوں کہ اگر میں نے چند مہینے بھی اس حالت پر گزر جانے دیئے ہوتے تو آج جماعت کے جسم میں نامعلوم کتنے بلاکوں کے کتنے بڑے بڑے سرطان پیدا ہو چکے ہوتے. آپ کہتے ہیں کہ یہ اقدام دستور جماعت کے خلاف تھا. میں اس کے متعلق ماچھی گوٹھ کے اجتماع عام میں علی الاعلان بھی کہہ چکا ہوں‘ آپ سے زبانی گفتگو میں بھی عرض کر چکا ہوں‘ اور اب پھر اس کا اعادہ کرتا ہوں کہ پاکستان میں دستوری قانون کے جو نمایاں ترین ماہر موجود ہیں ان سب کی خدمات حاصل کر کے یہ معاملہ ان کے سامنے رکھ دیجئے اور ان سے یہ فیصلہ لے لیجئے کہ اقدام دستور کے اندر تھا یا باہر. ان ماہرین کی فیس میں اپنی جیب سے ادا کرنے کو تیار ہوں. آپ کہتے ہیں کہ وہ راستی اور انصاف کے خلاف تھا اور اس میں بے بنیاد الزامات لگائے گئے تھے. میں عرض کرتا ہوں کہ آپ مجلس شوریٰ کے ایک رکن کی حیثیت سے بآسانی اس بنیاد پر میرے خلاف عدم اعتماد کی قرار داد لے آئیں. مجلس کے پچاس ارکان‘ جنہیں ساری جماعت نے مل کر منتخب کیا ہے‘ نہ بے عقل اور کودن ہیں‘ اور نہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ سب کے سب بے ایمان ہیں. آپ اپنے سارے دلائل و شواہد ان کے سامنے رکھ دیجئے‘ اور میں بھی اپنے حق میں جو دلائل اور شہادتیں رکھتا ہوں وہ بے کم و کاست پیش کروں گا. ان کا جو فیصلہ ہو‘ اسے آپ بھی مان لیں، میں بھی مان لوں گا. یہ سیدھا اور صاف راستہ علی رؤس الاشہاد اختیار کرنے کے بجائے آخر میں اور آپ دو چار آدمیوں کے درمیان بند کمروں میں فیصلے کرانے کی کوشش کیوں کریں. آپ کو شکایت ہے کہ میں نے آپ کے خط کا جواب نہیں دیاجس میں آپ نے جائزہ کمیٹی کے خلاف میرے اقدام پر گرفت فرمائی تھی اس کی وجہ سے مختصراً آپ سے عرض کیے دیتا ہوں. میں اس بات کو پہلے سے جانتا تھا کہ جماعت میں بلاک سازی کرنے والے عناصر آپ کے گرد جمع ہو رہے ہیں. مجھے آپ سے امید نہیں تھی کہ آپ ایک حزبِ اختلاف کی قیادت سنبھالیں گے‘ بلکہ میں توقع رکھتا تھا کہ آپ میرے دست راست بن کر اس فتنہ کو روکنے میں میری مدد کریں گے. اسی لیے دسمبر ۵۶ء کی مجلس شوریٰ سے پہلے میں آپ ہی کو اس صورت حال کی اصلاح کے لیے ذریعہ بناتا رہا. مگر شوریٰ کے اس اجلاس میں آپ نے بڑی وضع احتیاط کے ساتھ جو روش اختیار فرمائی اس نے مجھے اچھی خاصی حد تک یہ یقین دلا دیا کہ آپ دانستہ یا نادانستہ اس بلاک سازی کے سرپرست بن چکے ہیں. اس کے بعد جب آپ کا وہ خط آیا تو میرے لیے در حقیقت وہ اس بات کی اطلاع تھی کہ آپ نے نہ صرف زعیم حزب اختلاف کی پوزیشن باقاعدہ سنبھال لی ہے بلکہ مجھ سے لڑنے کے لیے آستین بھی چڑھا چکے ہیں. میرے لیے یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ آپ سے تُو تُو مَیں مَیں کرنے کے لیے تیار ہو جاتا. میں یہ بھی جانتا تھا کہ اگر اس تُو تُو میں میں سے اس جماعت میں اور سارے ملک میں میرا وقار آپ کے ہاتھوں اور آپ کا وقار میرے ہاتھوں ختم ہو جائے تو پھر کوئی تیسرا آدمی ایسا نہیں ہے جو اس تحریک کو لے کر چل سکے. اس بنا پر میں نے آپ کو جواب دینے کے بجائے امارت سے استعفاء دینے کو ترجیح دی مگر افسوس ہے کہ آپ نے اس کو بھی اُلٹے معنی پہنائے.
اس کے بعد سے آج تک آپ جو کچھ کرتے رہے ہیں وہ بہر حال ظاہر صورت کے اعتبار سے تو ایک زعیم حزبِ اختلاف کا کردار ہی ہے. آپ ہی کے گرد وہ عناصر جمع ہوئے ہیں‘ آپ ہی کے ارشادات نے ان کے ذہن کی تخلیق کی ہے. آپ ہی کی حمایت نے ان کو شدت کے ساتھ اپنے نقطہ ٔ نظر پر جمایا ہے. یہ ایسے واقعات ہیں جن سے اب انکار کرنا تو کسی کے بس میں نہیں ہے. البتہ یہ بات میں جزم و یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ آیا آپ نے بالقصد یہ پوزیشن اختیار کی ہے‘ یا حالات و واقعات کے چکر نے آپ کو یہاں لا پھنسایا ہے. میں مجرد آپ کے قول پر یقین کرنے کے لیے تیار ہوں. آپ اپنی زبان یا قلم سے یہ فرما دیں کہ آپ کی پوزیشن آپ کے قصد و ارادے سے نہیں بنی ہے. میں اس کو صدق دل سے مان لوں گا اور انشاء اللہ اس کے متعلق شبہ تک میرے دل میں باقی نہ رہے گا.
۳. کوٹ شیر سنگھ کے اجلاس شوریٰ میں میری افتتاحی تقریر کے متعلق آپ کا تصور یہ ہے کہ یہ کوئی بلی تھی جو بہت دنوں سے تھیلے میں چھپی ہوئی تھی اور اس روز مناسب موقع دیکھ کر تھیلے سے باہر آ گئی ہے. اپنے پرانے دوست پر آپ کی یہ بڑی نوازش ہے کہ آپ اس کے متعلق اتنے بلند اور پاکیزہ خیالات رکھتے ہیں. ان خیالات سے واقف ہو جانے کے بعد میرے لیے یہ امید کرنا مشکل ہے کہ آپ کبھی میرے کسی قول کو اچھے مفہوم میں بھی لیں گے. تاہم میرا اخلاقی فرض یہ ہے کہ میں اپنا ما فی الضمیر صحیح صحیح بیان کر دوں. درحقیقت میرے پاس کبھی کوئی بلی نہ تھی جسے تھیلے میں چھپا کر رکھنے کی ضرورت مجھے محسوس ہوتی ہو اور اگر کوئی بلی تھی تو اگست ۴۱ء میں جس روز پہلی مرتبہ جماعت بنی تھی اور کسی امیر کا انتخاب ہوا بھی نہ تھا اسی وقت میں نے اسے تھیلے سے نکال کر سب کے سامنے رکھ دیا تھا. آپ روداد اجتماع اول ملاحظہ فرما لیں. تشکیل جماعت کے بعد سب سے پہلی تقریر جو میں نے کی تھی‘ اس میں جماعتی زندگی کے اصول بیان کرتے ہوئے میں نے عرض کیا تھا: -
’’اسلامی جماعت میں امیر کی حیثیت وہ نہیں ہے جو مغربی جمہوریتوں میں صدر کی ہوئی ہے. مغربی جمہوریتوں میں جو شخص صدر منتخب کیا جاتا ہے اس میں تمام صفات تلاش کی جاتی ہیں مگر کوئی صفت اگر نہیں تلاش کی جاتی تو وہ دیانت اور خوفِ خدا کی صفت ہے‘ بلکہ وہاں کا طریقہ انتخاب ہی ایسا ہے کہ جو شخص ان میں سب سے زیادہ عیار اور سب سے بڑھ کر جوڑ توڑ کے فن میں ماہر اور جائز و ناجائز ہر قسم کی تدابیر سے کام لینے میں طاق ہوتا ہے وہی برسر اقتدار آتا ہے. اس لیے فطری بات ہے کہ وہ لوگ خود اپنے منتخب کردہ صدر پر اعتماد نہیں کر سکتے. وہ ہمیشہ اس کی بے ایمانی سے غیر مامون رہتے ہیں اور اپنے دستور میں طرح طرح کی پابندیاں اور رکاوٹیں عائد کر دیتے ہیں تاکہ وہ حد سے زیادہ اقتدار حاصل کر کے مستند فرمانروا نہ بن جائے. مگر اسلامی جماعت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے صاحب امر کے انتخاب میں تقویٰ اور دیانت ہی کو تلاش کرتی ہے اور اس بنا پر وہ اپنے معاملات پورے اعتماد کے ساتھ اس کے سپرد کرتی ہے. لہٰذا مغربی طرز کی جمہوری جماعتوں کی تقلید کرتے ہوئے اپنے دستور میں اپنے امیر پر وہ پابندیاں عائد کرنے کی کوشش نہ کیجئے جو وہاں صدر پر عائد کی جاتی ہیں. اگر آپ کسی کو خدا ترس اور متدین پا کر اسے امیر بناتے ہیں تو اس پر اعتماد کیجئے اور اگر آپ کے نزدیک کسی کی خدا ترسی و دیانت اس قدر مشتبہ ہو کر آپ اس پر اعتماد نہیں کر سکتے تو اس کو سرے سے منتخب ہی نہ کیجئے‘‘.
میں پھر اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ یہ تقریر میں نے اس وقت کی تھی جب کسی امیر کا انتخاب نہ ہوا تھا‘ یہ سوال ابھی درپیش تھا کہ کس شخص کو امیر بنایا جائے اور اس امر کا پورا امکان تھا کہ میری جگہ کوئی اور آدمی جماعت کا امیر منتخب ہوتا. اس لیے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں نے یہ بات اپنے اختیارات کی خاطر کہی تھی. در اصل میری یہ رائے ہمیشہ سے تھی اور آج بھی ہے خواہ امیر جماعت مَیں ہوں یا آپ ہوں یا کوئی اور. میں یہ ہی سمجھتا ہوں کہ اسلامی تحریک کو چلانے والی جماعت‘ جس کی اساس خدا ترسی و دیانت پر رکھی گئی ہو‘ اس میں امیر جماعت کے ہاتھ اس طرح باندھنے کی کوشش کرنا جس طرح مغربی طرز کے جمہوری نظام میں باندھے جاتے ہیں‘ صحیح نہیں ہے. خصوصاً جس تحریک کو جاہلیت سے مغلوب ماحول میں قدم قدم پر لڑ کر اپنا راستہ نکالنا ہو وہ اگر ایک شخص کو اپنا لیڈر بھی بنائے اور پھر یہ چاہے کہ وہ ایک انجمن کے صدر یا ایک ڈسٹرکٹ بورڈ کے پریذیڈنٹ یا ایک میونسپلٹی کے ایگزیکٹیو آفیسر کی طرح کام کرے‘ تو میرے نزدیک یہ حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے بلکہ یہ تو جمہوریت کا ایسا ہیضہ ہے جس سے خود مغربی طرز کی جمہوریتیں بھی پرہیز کرتی ہیں. حالت جنگ میں برطانیہ جیسے سخت جمہوری المزاج ملک نے چرچل کو جو اختیارات دے رکھے تھے وہ آپ کے سامنے ہیں.
میری اس رائے کو آپ چاہیں تو غلط کہہ سکتے ہیں اس کے خلاف دلائل دینے کی آپ کو پوری آزادی ہے‘ حتیٰ کہ آپ کو یہ بھی اختیار ہے کہ اس کو جو بدتر سے بدتر معنی چاہیں پہنائیں. مگر آپ یہ الزام مجھ پر نہیں لگا سکتے کہ ایک بد نیتی کی بلی مدتوں سے مجرم ضمیر کے تھیلے میں چھپائے پھرتا رہا تھا. اور پہلی مرتبہ اسے موقع تاک کر کوٹ شیر سنگھ میں باہر نکال لایا. میں اس رائے کو حق سمجھتا ہوں‘ ہمیشہ اس کو ظاہر کیا ہے اور تشکیل جماعت کے بعد سے آج تک اس پر عملاً کام کرتا رہا ہوں. آپ کو پورا حق ہے کہ اسے غلط ثابت کرنے کی کوشش کریں. اس کی وجہ سے جماعت کو چھوڑنے کی کوئی حاجت نہیں ہے. جماعت میں رہتے ہوئے آپ مجلس شوریٰ کے ذہن کو اس سے مختلف جس رائے کے حق میں بھی ہموار کرنا چاہیں پوری آزادی کے ساتھ کر سکتے ہیں.
یہ میری گزارشات تو ان تین اہم ترین امور کے متعلق ہیں جو آپ میرے ساتھ اپنی گفتگو میں زیر بحث لائے تھے. باقی جو دوسرے امور ایسے ہیں جن پر آپ کو اعتراض یا شکایت ہو، اور جن کی تلافی آپ کے نزدیک ضروری ہو، آپ انہیں ایک دو تین چار کر کے مجھے لکھ دیں‘ یا کسی وقت زبانی ارشاد فرمائیں. ان کی میرے نزدیک کوئی بنیادی اہمیت نہیں ہے. اس لیے میں ان میں آپ کی رضا مندی کو اپنی مرضی پر مقدم رکھوں گا اور بلا تأمل آپ کی ہر بات قبول کروں گا. خاکسار (دستخط) ابو الاعلیٰ
مولانا امین احسن اصلاحی کی جانب سے جوابی مراسلہ
مکرمی جناب مولانا سید ابو الاعلیٰ صاحب
السلام علیکم و رحمۃ اللہ. آپ کی چٹھی مورخہ ۱۶ جنوری موصول ہوئی. اس میں کوئی نئی بات ایسی نہیں ہے جو میرے لیے قابل غور ہو. ان باتوں کا جواب میں بارہا دے چکا ہوں. تاہم مختصراً پھر عرض کیے دیتا ہوں.
(۱): میں مجلس شوریٰ کے وجود سے واقف ہوں‘ اس بات سے بھی مجھے انکار نہیں کہ وہ جماعت کے منتخب نمائندوں پر مشتمل ہے‘ میں اپنی نسبت یہ گمان بھی رکھتا ہوں کہ میں دلیل سے بات کر سکتا ہوں لیکن اس کی کیا ضمانت ہے کہ اگر میں نے دلیل کے ساتھ بات کی اور اور کچھ لوگ میری بات کے قائل ہو گئے‘ تو آپ مجھے سازش‘ جتھہ بندی‘ بلاک سازی اور شوریٰ کے اندر حزب اختلاف کی تخلیق کے الزامات دھر کے مجھے شوریٰ سے نکال باہر نہیں کریں گے. میں اس کی ضمانت تو دے سکتا ہوں کہ میں دلیل سے بات کروں گا لیکن اس کی ضمانت کس طرح دے سکتا ہوں کہ میری دلیل آپ کی دلیل کے خلاف نہیں جائے گی یا وہ دلیل آپ کے نقطہ ٔ نظر سے کسی مختلف نقطہ ٔ نظر کا ارکانِ شوریٰ کو قائل نہ کر سکے گی. میں ارکانِ شوریٰ کے خلاف یہ بد گمانی نہیں رکھتا کہ وہ میرے خلاف کسی تعصب میں مبتلا ہیں. لیکن آپ نے ان کے لے آزادانہ غور کرنے کی کوئی راہ کھلی کب چھوڑی ہے؟ وہ ایک ایسے شخص کی بات کس طرح سنیں گے جس کی قائم کی ہوئی ’’حزب اختلاف‘‘ کی سرکوبی سے آپ ابھی اچھی طرح فارغ بھی نہیں ہوئے. فرض کیجئے کہ میں آپ کی خواہش کے مطابق یہ قسم بھی کھا لوں کہ ماضی کی حزب اختلاف سے میرا کوئی رشتہ نہیں تھا. اور یہ عہد بھی کر لوں کہ آئندہ میں کبھی بلاک سازی نہیں کروں گا تو اس سے آپ کو یا شوریٰ کو اطمینان کس طرح ہو گا کہ اب میرے اندر سے بلاک سازی اور لیڈری کے جراثیم نکل چکے ہیں اور اب میرے ارد گرد جمع ہو جانے یا میری کسی رائے کو قبول کر لینے میں شوریٰ کے ارکان کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے. ان خطرات کے ہوتے ہوئے کس کی شامت آئی ہوئی ہے کہ میرے ’’بلاک‘‘ میں شامل ہو کر اپنا حشر وہ کرائے جو جائزہ کمیٹی کے ارکان اور دوسرے بہت سے لوگوں کا ہوا.
(۲): جائزہ کمیٹی کے ارکان سے معافی مانگنے کے بارے میں آپ جو کچھ کہتے ہیں معاف کیجئے گا اس سے آپ نے اپنے آپ کو ایک سخت ناگوار پوزیشن میں ڈال دیا ہے. آپ کا موقف اگر یہ ہے کہ آپ نے ان کے ساتھ جو کچھ کیا وہ مبنی بر انصاف اور مبنی بر دستور ہے تو پھر آپ معافی کس بات کی مانگتے ہیں. ایک جج ایک شخص کو قانون اور عدل کے تقاضوں کے مطابق سزا دیتا ہے تو اس سے مجرم اور ا سکے ورثہ کو تکلیف تو ہو گی ہی‘ مگر وہ معافی کیوں مانگے؟ اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ سے اس معاملہ میں غلطی ہوئی ہے تو پھر صاف صاف کہیے کہ بھائیو‘ معاف کرو‘ مجھ سے اس معاملہ میں سخت غلطی ہو گئی. ان دو واضح روشوں میں سے کسی ایک روش کو صاف صاف اختیار کرنے کی بجائے میں دیکھ رہا ہوں کہ اس معاملہ میں آپ نے ایک تیسری روش اختیار کر رکھی ہے. وہ یہ ہے کہ ایک طرف تو آپ بڑے طنطنہ کے ساتھ یہ فرماتے ہیں کہ میں نے جو کچھ کیا وہ دستور اور عدل کے عین مطابق ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی فرماتے جاتے ہیں کہ میں جائزہ کمیٹی کے ارکان سے معافی مانگ چکا ہوں اور ہزار بار معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں.
میرے نزدیک آپ نے یہ روش اس وجہ سے اختیار کی ہے کہ آپ اس بات کے لیے تو تیار نہیں ہیں کہ اپنی غلطی کا اقرار کریں کیونکہ اس سے شانِ امارت مجروح ہوتی ہے لیکن دوسری طرف آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ کے سوا ہر انصاف پسند آپ کے اس اقدام کو ناجائز ٹھہرا رہا ہے. اپنی شانِ امارت کی سرفرازی کے لیے تو آپ یہ فرما دیتے ہیں کہ میں نے جو کچھ کیا عدل‘ مصلحت اور دستور کا تقاضا وہی تھا لیکن جب خیال آتا ہے اس بات کا کہ دنیا میں سب اندھے بہرے ہی نہیں ہیں تو ان کی گرفت سے بچنے کے لیے معافی اور اس اقدام کی واپسی کا بھی حوالہ دے دیتے ہیں. اخلاقی جرأت کی کمی آدمی کو بسا اوقات اس طرح کی ناگوار پوزیشن میں ڈال دیتی ہے.
آپ کہیں گے کہ میں نے آپ کی ایک اچھی بات میں سے برے معنی نکال لیے ہیں لیکن میں کروں کیا؟ یہ بات ہی ایسی ہے کہ اس کے اندر سے کوئی اچھے معنی نکالے ہی نہیں جا سکتے.
اپنے اس اقدام کو جائز ثابت کرنے کے لیے آپ نے دھڑے بندی‘ بلاک سازی اور سازش وغیرہ کا جو افسانہ اپنے اس مکتوب میں پیش کیا ہے میں کہتا ہوں کہ آپ کے ذہن کے سوا اس کا کہیں وجود نہیں تھا. آپ کے ذہن پر شروع سے میری طرف سے جو ایک خطرہ مسلط ہے اس کے سبب سے آپ کو اکثر ڈراؤنے خواب نظر آتے رہتے تھے. اسی طرح کا ایک ڈراؤنا خواب آپ نے دسمبر ۵۶ء میں دیکھا اور پھر اس کے تحت آپ نے یہ کارنامہ سرانجام دے ڈالا. وہ تو خیریت ہوئی کہ ابھی آپ امیر جماعت اسلامی ہی تھے کہیں خدا نخواستہ امیر المؤمنین بن چکے ہوتے تو خدا ہی جانے کہ اس حالت میں آپ حزب اختلاف اور اس کے لیڈر کی کیا گت بناتے؟
آپ اس کارنامہ کی مصلحتیں مجھے سمجھانے کی بجائے بہتر ہے کہ اب معاملہ کو مستقبل کے مؤرخ کے حوالہ کیجئے. اس کے سامنے ہم سے زیادہ واضح نتائج ہوں گے اور وہ زیادہ بہتر طریقہ پر فیصلہ کر سکے گا کہ آپ نے جو کچھ کیا اس سے کیا برکتیں ظہور میں آئیں. مجھے اپنی سیاسی بصیرت پر اتنا اعتماد نہیں ہے کہ کوئی بات آپ کی طرح دعوے کے ساتھ کہہ سکوں لیکن اتنا ضرور عرض کروں گا کہ آپ کے سوا شاید ہی کوئی ایسا بد قسمت لیڈر ہو جس نے ایک معمولی CRISIS سے عہدہ برآ ہونے میں وہ بے بصیرتی دکھائی ہو جو آپ نے دکھائی. آپ نے میری لیڈری کے موہوم خطرہ سے لڑنے میں برسوں کے اُس کیے کرائے پر پانی پھیر دیا جس میں آپ کی طرح دوسروں کی محنتوں کا بھی بہت کچھ حصہ تھا.
آپ نے اس اقدام کی دستوری حیثیت کا فیصلہ کرانے کے لیے اپنی جس پیش کش کا حوالہ دیا ہے اس کا ذکر ظفر احمد انصاری صاحب نے مجھ سے کیا تھا میں نے اُن سے عرض کیا کہ تصفیہ صرف اس بات کا نہیں ہونا چاہیے کہ امیر کو شوریٰ کے ارکان کو اس طرح کا نوٹس دینے کا حق ہے یا نہیں بلکہ ان الزامات و اتہامات کا بھی ہونا چاہیے جو جائزہ کمیٹی کے ’’شریف‘‘ ارکان پر لگائے گئے ہیں. مگر معلوم ہوا کہ آپ اس چیز کو کسی عدالت کے سامنے لانے کے لیے تیار نہیں ہیں.
پھر ماہرین دستور سے فیصلہ حاصل کرنے کا طریقہ بھی آپ نے خود معین فرما دیا تھا وہ یہ کہ آپ نے اپنے زعم کے مطابق ایک استفتاء مرتب کر دیا تھا اور اس پر کسی ماہر دستور کا فتویٰ حاصل کرنا چاہا تھا. یہ شکل نہیں تھی کہ کسی ماہر دستور کی عدالت میں جماعت کا پورا دستور پیش ہوتا‘ اس کے سامنے فریقین کے نقطہ ہائے نظر رکھے جاتے اور پھر وہ اپنا فیصلہ دیتا. ایسی احمقانہ شکل کو کون مان سکتا ہے؟ فتویٰ تو صورت مسئلہ کو سامنے رکھ کر دیا جاتا ہے اگر آپ مسئلہ کی شکل اپنے رنگ میں رکھ دیتے تو اپنے منشاء کے مطابق جواب حاصل کر لیتے‘ دوسرا دوسری شکل پیش کر کے اپنے مطلب کے مطابق جواب حاصل کر لیتا. چنانچہ آپ نے جو استفتاء مرتب کیا تھا وہ میں نے دیکھا تھا اور مجھے آپ کی اس کوشش پر سخت حیرانی ہوئی تھی جو آپ نے اس میں کتمانِ حقیقت کے لیے فرمائی تھی.
جائزہ کمیٹی کے ارکان پر آپ نے جو الزامات لگائے تھے اب تک آپ ان کے بارے میں اپنے سوا کسی اور سے فیصلہ کرانے پر تیار نہیں ہوئے تھے. حد یہ ہے کہ پچھلے دنوں چار آدمیوں کی ایک پنچایت پر راضی ہو چکنے کے بعد نہ صرف یہ کہ اس پنچایت سے آپ مُکر گئے بلکہ آپ اور آپ کے اہل مرکز اب ان غریبوں کو صلواتیں بھی سنانے لگے ہیں حالانکہ وہ مجھ سے زیادہ آپ کے معتمدین میں ہو سکتے ہیں. عمر بہاؤ الدین امیری سابق سفیر شام نے مجھ سے خواہش کی کہ میں سارے معاملات میں ان کی تحکیم پر راضی ہو جاؤں. میں راضی ہو گیا. میرے راضی ہو جانے کے بعد ان کا حکم بننے سے گریز کرنا اور محض باہمی مصالحت کی اپیل پر اکتفا کر کے چلے جانا آخر کس کے گریز کا نتیجہ ہو سکتا ہے؟
اب آپ کے اس گرامی نامہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس معاملہ کا تصفیہ ’’بند کمروں‘‘ میں کرانے کے بجائے کھلے میدان میں کرنا چاہتے ہیں اور اس کی شکل آپ یہ تجویز فرماتے ہیں کہ میں (امین احسن اصلاحی) اس بنیاد پر کہ آپ نے جائزہ کمیٹی کے ارکان کے ساتھ نا انصافی کی ہے‘ شوریٰ کے سامنے عدم اعتماد کی ایک قرار داد لاؤں. اگر قرار داد پاس ہو جائے تو میں جیتا آپ ہارے اور اگر ردّ ہو جائے تو میں ہارا اور آپ جیتے. اتنے دنوں کے گریز و فرار کے بعد اب آپ کی یہ مبارزت طلبی دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے لیکن افسوس ہے کہ آپ کا یہ تجلد بھی اپنے اندر بہت سی کمزوریاں چھپائے ہوئے ہے اور جو اسباب ووجوہ اس کے محرک ہوئے ہیں ان میں سے بعض کی طرف مجھے اشارہ کرنے کی اجازت دیجئے.
(۱): اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ جب جائزہ کمیٹی کے ارکان کے ساتھ نا انصافی کا مطالبہ آ کے اوپر عدم اعتماد کے ساتھ اُٹھے گا تو آپ کو معلوم ہے کہ کم از کم موجودہ شوریٰ میں تو ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو عبد الرحیم اشرف اور عبد الغفار حسن وغیرہ کی خاطر آپ کو قربان کرنے پر تیار ہو‘ ان میں سے جن کو انصاف عزیز ہو گا وہ بھی اتنے انصاف پسند نہیں ہو سکتے کہ چند مُردوں کے ساتھ انصاف کرنے کے لیے خود اپنی زندگی خطرہ میں ڈال دیں اور جماعت کے لیے پریشانی پیدا کر دیں.
(۲): دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ موجودہ شوریٰ تقریباً ان تمام عناصر سے پاک ہو چکی ہے جن کو جائزہ کمیٹی کے ارکان سے‘ اور وہ بھی ان کے جماعت سے نکل جانے کے بعد‘ کوئی ہمدردی ہو سکتی ہے.
(۳): تیسری وجہ یہ ہے کہ آپ موجودہ شوریٰ کو شروع ہی سے ایسی تربیت دے رہے ہیں کہ وہ آپ کی آنکھوں سے دیکھے اور آپ کے کانوں سے سُنے. جو لوگ اس سے مختلف مزاج رکھتے ہیں ان کا مستقبل نہ صرف اس شوریٰ میں بلکہ سرے سے جماعت ہی کے اندر میں نہایت تاریک دیکھتا ہوں.
(۴): چوتھی وجہ یہ ہے کہ جو معاملہ عدالتی نوعیت کا ہے جس میں ٹھنڈے ماحول کی ضرورت ہے جس میں گواہوں اور بیانات کی ضرورت ہو گی اس کو آپ عدم اعتماد کی تحریک کے ساتھ چھپا کر اور پچاس آدمیوں کی ایک بھیڑ کے سامنے رکھ کر نہ صرف خراب کرنا چاہتے ہیں بلکہ مجھے بھی ذلیل کرانا چاہتے ہیں.
معاف کیجئے گا یہ وجوہ ہیں جو آپ کو جرأت دلا رہے ہیں کہ آپ مجھے شوریٰ میں اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لیے بلا رہے ہیں.
(۵): آپ نے اپنی ’’بلی‘‘ کی تاریخ پیدائش ناحق بیان کرنے کی کوشش فرمائی ہے میں اس بات سے ناواقف نہیں ہوں کہ یہ بلی آپ کے تھیلے میں روز اول سے موجود ہے لیکن آپ کو یاد ہو گا کہ تقسیم سے پہلے آلٰہ آباد کی شوریٰ کے اجلاس میں‘ میں نے اس کا گلا دبانے کی کوشش کی. یاد نہ ہو تو مذکورہ شوریٰ کی رُوداد پڑھ لیجئے. اس وقت تو یہ مر نہ سکی لیکن میں اور جماعت کے دوسرے اہل نظیر برابر اس کی فکر میں رہے اور شوریٰ میں اس کی موت و حیات کا مسئلہ بار بار چھڑتا رہا یہاں تک کہ تقسیم کے بعد ہم نے جو دستور بنایا اس میں اس کی موت کا آخری فیصلہ ہو گیا. واضح رہے کہ جب اس کے قتل کا فیصلہ ہوا تھا تو اس وقت شرع شریف‘ مصلحت زمانہ اور اسلامی جمہوریت سب کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر ہوا تھا. اس کی تائید میں علماء کے فیصلے بھی حاصل کیے گئے تھے اور اہل نظیر کی رائیں بھی جمع کی گئیں تھیں. اس میں شبہ نہیں کہ آپ اپنے عمل سے وقتاً فوقتاً اس کو زندہ بھی کرتے رہے لیکن ہمارے دستور نے اس کی زندگی تسلیم نہیں کی. اس سلسلہ میں جب کبھی آپ نے دستور کی مخالفت کی تو عموماً اپنے اقدامات میں بے بصیرتی کا ثبوت دیا جس سے جماعت کے اہل الرائے اس بارہ میں یکسو ہو گئے کہ یہ ’’بلی‘‘ مردہ ہی رہے تو اچھا ہے. لیکن آ پ پر اس کی موت بڑی شاق تھی. آپ اس کو حیاتِ تازہ بخشنے کے لیے برابر بے چین رہے اسی کے عشق میں آپ نے استعفاء دیا. ماچھی گوٹھ میں آپ نے اس کے لیے رازداروں کو خلوت میں بلا کر سازش کی. پھر کوٹ شیر سنگھ میں اس پر مسیحائی کا آخری افسوں پڑھا اور یہ واقعی زندہ ہو گئی. اب آپ مجھے دعوت دیتے ہیں کہ میں پھر شوریٰ میں آؤں اور اس کے اندر رہ کر اس کو مارنے کی کوشش کروں تو میں اس سے معافی چاہتا ہوں. ایک ’’بلی‘‘ برسوں کی محنت سے میں نے ماری‘ آپ نے وہ پھر زندہ کر دی اور اب آپ کی مجلس عاملہ نے اس کی رضاعت و پرورش کی ذمہ داری بھی اٹھالی. اب میں پھر اس کے مارنے میں لگوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی ساری زندگی اس ’’گربہ کُشی‘‘ ہی کی نذر کر دوں‘ آخر یہ کون سا شریفانہ پیشہ ہے.
میرے نزدیک جماعت اسلامی کے امیر کو شوریٰ کے فیصلوں کا پابند ہونا چاہیے اگرچہ وہ تقویٰ اور تدین کے کتنے ہی اونچے مقام پر ہو. اس کو جو آزادی دی جائے وہ ہرگز غیر محدود نہیں ہونا چاہیے. میں اس چیز کو اسلام اور جمہوریت دونوں ہی کا مشترک تقاضا سمجھتا ہوں آپ اگر زمانۂ جنگ کے چرچل کے اسوہ کی پیروی زمانہ امن میں کرنا چاہتے ہیں تو شوق سے کیجئے میں اس آمریت کو اسلامی نظام جماعت کے نام سے پیش کر کے اسلام کو رسوا کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لینے کے لیے تیار نہیں ہوں.
آپ نے مجھ پر بلاک سازی‘ جتھہ سازی‘ حزبِ اختلاف کی لیڈری‘ بلیک میلنگ مخالفین ِ امیر کی حوصلہ افزائی اور جماعت کی بد خواہی وغیرہ کے جو الزامات لگائے ہیں‘ میں ان کے لیے کوئی صفائی پیش کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا. حالات کی اصلاح کے سلسلہ میں میرا جو رول رہا ہے اس کو میں جانتا ہوں میرا رب جانتا ہے اور جماعت کے مخلصین جانتے ہیں. آپ اگر مجھے ان الزامات کا مستحق خیال فرماتے ہیں تو میں اس امیر کی طرف سے ان کا خیر مقدم کرتا ہوں جس کو تقویٰ اور تدین کی بنا پر انتخاب کرنے میں‘ میں نے بھی حصہ لیا ہے اور جو ابھی کل تک خدا کو گواہ بنا بنا کر علی رؤس الاشہاد بھی اور نجی ملاقاتوں میں بھی مجھ پر اپنے کامل اعتماد کا اظہار کرتا رہا ہے.
اس باب میں میری طرف سے یہ آخری تحریر ہے. میں آپ سے بھی ملتجی ہوں کہ اس بارہ میں اب مجھے کچھ نہ لکھیں.
میں جانتا ہوں کہ آپ کی رفاقت سے محروم ہو کر میں کیا کچھ کھو رہا ہوں لیکن آپ کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر آپ نے مجھ جیسے خیر خواہ مخلص کے مشوروں کی قدر نہیں کی ہے تو آ پ کو ’’بُرے مشیروں‘‘ کے مشورے ماننے پڑیں گے میں دل سے متمنی تھا کہ مجھے آپ کی رفاقت حاصل رہے لیکن آپ نے اپنے دونوں خطوں میں اس کی جو قیمت مانگی ہے میں وہ اداء کرنے سے قاصر ہوں.
یہ جو کچھ میں نے لکھا ہے آپ کو جماعت اسلامی کے امیر کی حیثیت سے لکھا ہے اس حیثیت سے الگ آپ میرے بڑے بھائی ہیں اور میں انشاء اللہ آپ کی برابر عزت کرتا رہوں گا. مجھے امید ہے کہ آپ مجھے اپنی شفقتوں سے محروم نہیں فرمائیں گے.
والسلام
(دستخط) امین احسن اصلاحی، ۱۸؍ جنوری ۵۸ء