ان میں سے ایک کا تعلق جماعت میں اختلافِ رائے کے حق اور اظہارِ رائے کی آزادی سے ہے جس کی پُر زور نفی مولانا نے اپنے مخصوص طرزِ نگارش اور خطابی انداز کو بھرپور طور پر بروئے کار لا کر اس طرح کی ہے کہ ایک عام قاری یا سامع فوری طور پر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا. لیکن اگر ذرا بنظر غائر دیکھا جائے تو اس سے عقل اور نقل دونوں تقاضے بری طرح پامال ہوتے نظر آتے ہیں اس لیے کہ یہ فہم عام (Common Sense) اور فطرتِ انسانی کے بھی خلاف ہے‘ اور قرآن و سنت کے اُن نصوص کے بھی منافی ہے جن میں مشاورتِ باہمی کی پُر زور تاکید کی گئی ہے.
اور دوسرا معاملہ قائم اور امیر کی شخصیت کو ع ’’پیراں نمے پرند و مریداں مے پرانند!‘‘ کے مصداق اور مولانا کے اپنے الفاظ کے مطابق خود بنانے اور دوسروں سے بنوانے‘ کا ہے تاکہ اُس کی عظمت کا نقش قلوب و اذہان پر قائم ہو جائے اور اس کی گہری محبت اور عقیدت دلوں میں رچ بس جائے‘ اور اس سلسلے میں مولانا جب تحریک کی کامیابی کی شرائط کے ضمن میں ’’ایک شخصیت کے جادو‘‘ کی اہمیت کو نمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ ’’اس جادو کو فروغ دینے‘‘ کا بھی ذکر کرتے ہیں‘ تو اس سے شخصیت پرستی کے فتنے کے لیے نہ صرف یہ کہ دروازہ چوپٹ کھل جاتا ہے بلکہ اس کے جواز کا ایک پورا فلسفہ بھی سامنے آ جاتا ہے! یہ فلسفہ مولانا کے بعض دوسرے قریبی رفقاء (بالخصوص جناب نعیم صدیقی) کے ذریعے تو بہت پہلے سے فروغ پا رہا تھا‘ چنانچہ ’نقض غزل‘ کے اب سے تئیس سال قبل کے تحریر کردہ حصے میں اس پر مفصل کلام موجود ہے (ملاحظہ فرمائیں باب سوم میں ’’شخصیت گری‘‘ کے زیر عنوان متعلقہ بحث) تاہم خود مولانا کے اپنے الفاظ میں اس کی پُر زور وکالت اسی تقریر یا تحریر کے ذریعے سامنے آئی ہے.
بہر حال ہمارے نزدیک مولانا کے فلسفہ ٔ تحریک کے یہ دو پہلو قائد تحریک کے اختیارات کے بارے میں ان کی رائے کے ساتھ شامل ہو کر ایک بالکل فاشسٹ جماعت کا نقشہ سامنے لاتے ہیں اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا کے بارے میں ان کے بعض ناقدین اور معاندین کا یہ الزام بھی بے بنیاد نہ تھا کہ اُن کا مزاج فسطائی ہے‘ اور یہ اطلاع بھی غلط نہ تھی کہ انہوں نے خیری برادران سے بھرپور تاثر قبول کیا تھا جن کے ذہن اور فکر کی ساری اُٹھان نازی جرمنی میں ہوئی تھی!
بہر حال ہم مولانا کے فلسفہ ٔ تحریک کے ان دونوں پہلوؤں سے کامل براء ت کے ساتھ ساتھ اپنے اس یقین کامل کا اظہار کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلام کا عطا کردہ نظامِ بیعت متذکرہ بالا دونوں لعنتوں کے بغیر تحریک کے جملہ تقاضے بہ احسن وجوہ پورا کر سکتا ہے اور اس میں مشاورتِ باہمی کی روح کو بھی بہ تمام و کمال سمویا جا سکتا ہے اور اختلافِ رائے کے حق اور اظہارِ رائے کی آزادی پر بھی کسی قدغن کی ضرورت نہیں پڑتی. چنانچہ بحمد اللہ تنظیم اسلامی کی صورت میں ہمارا یہ یقین و اذعان ایک واقعی تجربے کی صورت میں سامنے آ رہا ہے اور ہم اس پر صدق دل سے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہ:
’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الّذِیْ ھَدَانَا لِھٰذَا وَ مَا کُنَّا لِنَھْتَدِیْ لَوْ لَا اَنْ ھَدَانَا اللّٰہُ‘‘
آئندہ کے لیے دعا کرتے ہیں:
’’رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَ ھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ!‘‘
اٰمِیْن یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ!!