ہمارا طریقہ ٔ کار
’’ سب سے پہلے ہم مسلمانوں کو ان کا فرض یاد دلاتے ہیں اور انہیں صاف صاف بتاتے ہیں کہ اسلام کیا ہے‘ اس کے تقاضے کیا ہیں‘ مسلمان ہونے کے معنی کیا ہیں اور مسلمان ہونے کے ساتھ کیا ذمہ داریاں آدمی پر عائد ہوتی ہیں.
اس چیز کو جو لوگ سمجھ لیتے ہیں ان کو پھر ہم یہ بتاتے ہیں کہ اسلام کے سب تقاضے انفرادی طور پر پورے نہیں کئے جا سکتے. اس کے لیے مجموعی سعی ضروری ہے. دین کا ایک بہت ہی قلیل حصہ انفرادی زندگی سے تعلق رکھتا ہے. اس کو تم نے قائم کر بھی لیا تو نہ پورا دین ہی قائم ہو گا اور نہ اس کی شہادت ہی ادا ہو سکے گی بلکہ جب اجتماعی زندگی پر نظامِ کفر مسلط ہو تو خود انفرادی زندگی کے بھی بیشتر حصوں میں دین قائم نہ کیا جا سکے گا اور اجتماعی نظام کی گرفت روز بروز اس انفرادی اسلام کی حدود کو گھٹاتی چلی جائے گی. اس لیے پورے دین کو قائم کرنے اور اس کی صحیح شہادت ادا کرنے کے لیے قطعاً ناگزیر ہے کہ تمام ایسے لوگ جو مسلمان ہونے کی ذمہ داریوں کا شعور اور انہیں ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں‘ متحد ہو جائیں اور منظم طریقے سے دین کو عملاً قائم کرنے اور دنیا کو اس کی طرف دعوت دینے کی کوشش کریں اور ان مزاحمتوں کو راستہ سے ہٹائیں جو اقامت و دعوتِ دین کی راہ میں حائل ہوں.
نظم جماعت
یہی وجہ ہے کہ دین میں جماعت کو لازم قرار دیا گیا ہے اور اقامت دین اور دعوتِ دین کی جدو جہد کے لیے ترتیب یہ رکھی گئی ہے کہ پہلے ایک نظم جماعت ہو پھر خدا کی راہ میں سعی و جہد کی جائے اور یہی وجہ ہے کہ جماعت کے بغیر زندگی کو جاہلیت کی زندگی اور جماعت سے علیحدہ ہو کر رہنے کو اسلام سے علیحدگی کا ہم معنی قرار دیا گیا ہے. (۱)
کام کے تین راستے
جو لوگ اس بات کو بھی سمجھ لیتے ہیں اور اس فہم سے ان کے اندر مسلمان ہونے کی ذمہ داری کا احساس اس حد تک قوی ہو جاتا ہے کہ اپنے دین کی خاطر اپنی انفرادیت اور خود پرستی حاشیہ (۱): اشارہ ہے اس حدیث کی طرف جس میں نبی ﷺ نے فرمایا ہے:
اَنَا امْرُکُمْ بِخَمْسٍ اللّٰہُ اَمَرَنِیْ بِھِنَّ اَلْجَمَاعَۃ‘ وَالسَّمْعُ وَ الطَّاعَۃُ‘ وَالْھِجْرَۃُ‘ وَالْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘ فَاِنَّہٗ مَنْ خَرَجَ مِنَ الْجَمَاعَۃِ قِیْدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَۃَ الْاِسْلَامِ مِنْ عُنُقِہٖ اِلَّاَ اَنْ یُّرَاجِعَ. وَ مَنْ دَعَا بِدَعْوَیٰ جَاہِلِیَّۃٍ فَھُوَ مِنْ جُثَی جَھَنَّمَ. قَالُوْا یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ اِنْ صَامَ وَ صَلّٰی؟ قَالَ وَ اِنْ صَلّٰی وَ صَامَ وَ زَعَمَ اَنَّہٗ مُسْلِمٌ. (احمد و حاکم)
’’میں تم کو پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں جن کا حکم اللہ نے مجھے دیا ہے. (۱) جماعت. (۲) سمع. (۳) طاعت. (۴) ہجرت. (۵) خدا کی راہ میں جہاد. جو شخص جماعت سے بالشت بھر بھی الگ ہوا اس نے اسلام کا حلقہ اپنی گردن سے اتار پھینکا‘ الا یہ کہ وہ پھر جماعت کی طرف پلٹ آئے. اور جس نے جاہلیت (یعنی افتراق و انتشار) کی دعوت دی وہی جہنمی ہے. صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اگرچہ وہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے؟ فرمایا: ہاں اگرچہ وہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے‘‘.
(۱) کارِ دین کی صحیح ترتیب یہ ہے کہ پہلے جماعت ہو اور اس کی ایسی تنظیم ہو کہ سب لوگ کسی ایک کی بات سنیں اور اس کی اطاعت کریں‘ پھر جیسا بھی موقع ہو اس کے لحاظ سے ہجرت اور جہاد کیا جائے.
(۲) جماعت سے علیحدہ ہو کر رہنا گویا اسلام سے علیحدہ ہونا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اس زندگی کی طرف واپس جا رہا ہے جو اسلام سے قبل زمانہ ٔ جاہلیت میں عربوں کی تھی کہ ان میں کوئی کسی کی سننے والا نہ تھا.
(۳) اسلام کے بیشتر تقاضے اور اس کے اصل مقاصد جماعت اور اجتماعی سعی ہی سے پورے ہو سکتے ہیں. اسی لیے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت سے الگ ہونے والے کو اس کی نماز اور روزے اور مسلمانی کے دعوے کے باوجود اسلام سے نکلنے والا قرار دیا. اسی مضمون کی شرح ہے جو حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے اس ارشاد میں فرمائی ہے کہ لا اسلام الا بجماعۃ . (جامع بیان العلم لابن عبد البر)
کو قربان کر کے جماعتی نظم کی پابندی قبول کر لیں‘ ان سے ہم کہتے ہیں کہ اب تمہارے سامنے تین راستے ہیں اور تمہیں پوری آزادی ہے کہ ان میں سے جس کو چاہو اختیار کرو. اگر تمہارا دل گواہی دے کہ ہماری دعوت‘ عقیدہ‘ نصب العین‘ نظام جماعت اور طریق کار سب کچھ خالص اسلامی ہے اور ہم وہی کام کرنے اُٹھے ہیں جو قرآن و حدیث کی روسے امت مسلمہ کا اصل کام ہے تو ہمارے ساتھ آ جاؤ. اگر کسی وجہ سے تمہیں ہم پر اطمینان نہ ہو اور کوئی دوسری جماعت تم کو ایسی نظر آتی ہو جو خالص اسلامی نصب العین کے لیے اسلامی طریق پر کام کر رہی ہو تو اس میں شامل ہو جاؤ. ہم خود بھی ایسی جماعت پاتے تو اسی میں شامل ہو جاتے کیونکہ ہمیں ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ چننے کا شوق نہیں ہے. اور اگر تم کو نہ ہم پر اطمینان ہے نہ کسی دوسری جماعت پر تو پھر تمہیں اپنے فرض اسلامی کو ادا کرنے کے لیے خود اٹھنا چاہیے اور اسلامی طریق پر ایک ایسی جماعت بنانی چاہیے جس کا مقصد پورے دین کو قائم کرنا اور قول و عمل سے اس کی شہادت دینا ہو. ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی تم اختیار کرو گے انشاء اللہ حق پر ہو گے. ہم نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا اور نہ بسلامتی ہوش و حواس ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ صرف ہماری ہی جماعت حق پر ہے اور جو ہماری جماعت میں نہیں ہے وہ باطل پر ہے. ہم نے کبھی لوگوں کو اپنی جماعت کی طرف دعوت نہیں دی ہے. ہماری دعوت تو صرف اُس فرض کی طرف ہے جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر اور آپ پر یکساں عائد ہوتا ہے. اگر آپ اس کو ادا کر رہے ہیں‘ برحق ہیں خواہ ہمارے ساتھ مل کر کام کریں یا نہ کریں. البتہ یہ بات کسی طرح درست نہیں ہے کہ آپ نہ خود اُٹھیں‘ نہ کسی اُٹھنے والے کا ساتھ دیں اور طرح طرح کے حیلے اور بہانے کر کے اقامت دین اور شہادت علی الناس کے فریضے سے جی چرائیں یا اُن کاموں میں اپنی قوتیں خرچ کریں جن سے دین کے بجائے کوئی دوسرا نظام قائم ہوتا ہو اور اسلام کے بجائے کسی اور چیز کی گواہی آپ کے قول و عمل سے ملے. معاملہ دنیا اور اس کے لوگوں سے ہوتا تو حیلوں اور بہانوں سے کام چل سکتا تھا‘ مگر یہاں تو اس خدا کیساتھ معاملہ ہے جو علیم بذات الصدور ہے. اُسے کسی چال بازی سے دھوکا نہیں دیا جا سکتا.
مختلف دینی جماعتیں
اس میں شک نہیں کہ ایک ہی مقصد اور ایک ہی کام کے لیے مختلف جماعتیں بننا بظاہر غلط معلوم ہوتا ہے اور اس میں انتشار کا بھی اندیشہ ہے مگر جب نظامِ اسلامی درہم برہم ہو چکا ہو اور سوال اس نظام کے چلانے کا نہیں بلکہ اس کے از سر نو قائم کرنے کا ہو تو ممکن نہیں ہے کہ ابتدا ہی میں وہ الجماعۃ وجود میں آ جائے جو تمام امت کو شامل ہو‘ جس کا التزام ہر مسلمان پر واجب ہو اور جس سے علیحدہ رہنا جاہلیت اور علیحدہ ہونا ارتداد کا ہم معنی ہو. آغاز کار میں اس کے سوا چارہ نہیں کہ جگہ جگہ مختلف جماعتیں اس مقصد کے لیے بنیں اور اپنے اپنے طور پر کام کریں. یہ سب جماعتیں بالآخر ایک ہو جائیں گی اگر نفسانیت اور افراط و تفریط سے پاک ہوں اور خلوص کے ساتھ اصل اسلامی مقصد کے لیے اسلامی طریق پر کام کریں. حق کی راہ میں چلے والے زیادہ دیر تک الگ نہیں رہ سکتے. حق ان کو جمع کر کے ہی رہتا ہے کیونکہ حق کی فطرت ہی جمع و تالیف اور وحدت و یگانگت کی متقاضی ہے. تفرقہ صرف اُس صورت میں رونما ہوتا ہے جب حق کے ساتھ کچھ نہ کچھ باطل کی آمیزش ہو یا اوپر حق کی نمائش ہو اور اندر باطل کام کر رہا ہو‘‘.