مولانا مودودی مرحوم کی ایک اہم تحریر
(بشکریہ ہفت روزہ ’’آئین‘‘ لاہور)

جماعت اسلامی کے صحافتی حلقے کا ایک جریدہ ہفت روزہ ’’آئین‘‘ آج کل ماہانہ شائع ہو رہا ہے. اس کی اشاعت بابت ربیع الاول ۱۴۱۰ھ میں جماعت اسلامی پاکستان کے اجتماعِ ارکان منعقدہ فروری ۱۹۵۷ء بمقام ماچھی گوٹھ کا ذکر آیا ہے. اور اس کے ضمن میں مولانا مودودی مرحوم کی ایک تقریر شائع کی گئی ہے جو ’’مبینہ طور پر‘‘ مولانا موصوف نے ماچھی گوٹھ کے کُل پاکستان اجتماعِ ارکان میں کی تھی.

ماچھی گوٹھ کے اجتماع پر ان سطور کی تحریر کے وقت تقریباً ثلث صدی بیت چکی ہے. اس عرصے کے دوران بہت سا پانی وقت کے دریا میں بہہ چکا ہے‘ چنانچہ نہ صرف مولانا مودودی بلکہ اجتماع کے ناظم و صدر یعنی چوہدری غلام محمد سمیت بہت سی شخصیتیں راہی ملک بقا ہو چکی ہیں (اللہ ان سب کی مغفرت فرمائے). اور بہت سی باتیں طاقِ نسیان کے حوالے ہو چکی ہیں. بنابریں واقعات کی تفاصیل کے ضمن میں کوئی تسامح بعید از قیاس نہیں. تاہم جماعت اسلامی سے منسلک کسی شخص سے‘ بالخصوص جبکہ وہ اجتماع میں شرکت کا دعویدار بھی ہو‘ ایسی فاش غلطی حیرت انگیز ہے کہ ایک ایسی تقریر کو ماچھی گوٹھ کے ارکانِ جماعت کے اجتماعِ عام سے منسوب کر دیا گیا ہے جو وہاں کسی محدود اور منتخب نشست میں ہوئی ہو تو دوسری بات 
ہے‘ جملہ ارکانِ جماعت کے کھلے اجلاسِ عام میں ہرگز نہیں ہوئی!

٭٭٭
تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ مضمون نگار ۵۷۵۶ء کے بحرانی دَور میں جماعت کے مرکزی دفتر میں بطور ٹائپسٹ ملازم تھے اور مولانا مودودی کی اس تقریر کا مسودہ انہوں نے خود ٹائپ کیا تھا جو اب انہیں کہیں پران کاغذات میں دستیاب ہو گیا ہے‘ چنانچہ گمان غالب یہ ہے کہ ایک تہائی صدی قبل کی پوری تفاصیل تو انہیں یاد نہیں رہیں‘ تاہم انہوں نے خیال کیا کہ جب ایک تقریر اس اہتمام سے لکھی ہی نہیں‘ ٹائپ بھی کرائی گئی تھی تو بالفعل اجتماع میں کی بھی گئی ہو گی. چنانچہ اس کے ساتھ کچھ سابقہ اور لاحقہ اپنے تصور کے بل پر لگا کر انہوں نے اسے آب و تاب سے شائع کر دیا. 
واللہ اعلم !! 

اس ’’سابقہ‘‘ اور ’’لاحقہ‘‘ میں جو کرم فرمائی انہوں نے اُن لوگوں پرکی ہے جنہوں نے اُس موقع پر مولانا مودودی کی بعض آراء اور اقدامات سے اختلاف کیا تھا اور جو سبّ و شتم اور رکیک حملے ان کی شخصیتوں پر روا رکھے ہیں‘ ان سے قطع نظر‘ مولانا مرحوم کی اس ’’تحریر‘‘ کی اشاعت کے لیے ہم مضمون نگار کے شکر گزار ہیں. اس لیے کہ اس کے ذریعے تحریک اسلامی کے قائد و امیر کے حقوق و اختیارات کے ضمن میں مولانا مرحوم کا ذہن پوری طرح واضح ہو کر سامنے آ گیا ہے!

اور چونکہ یہ ایک ایسا اہم اور بنیادی مسئلہ ہے جس سے اقامت دین کی جدو جہد کرنے والی ہر جماعت اور تنظیم کو لازماً سابقہ رہتا ہے‘ لہٰذا ہم اسے ’’من و عن‘‘ شائع کر رہے ہیں‘ تاکہ اس اہم مسئلے کے بارے میں دورِ حاضر کے ایک معروف داعی اسلام اور قائد تحریک اسلامی کے تصورات سب کے سامنے آ جائیں. 


’’خطاب‘‘ مولانا مودودی مرحوم




’’محترم رفقاء
میں نے اپنے ایک سے زیادہ بیانات میں آپ سے وعدہ کیا ہے کہ اس اجتماع کے موقع پر میں آپ کو یہ بتاؤں گا کہ میں جماعت کی امارت سے کیوں الگ ہونا چاہتا ہوں‘ اس منصب سے علیحدگی کیوں ضروری ہو گئی ہے‘ اور میرے خیال میں اب اس تحریک اور جماعت کے نظام کو چلانے کے لیے مناسب صورت کیا ہے.

مجھے یہ معاملہ آپ کے سامنے ایک بڑے نازک موقع پر پیش کرنا پڑ رہا ہے. ایک طرف میرا یہ فرض ہے کہ معاملے کا ہر پہلو آپ کے سامنے بے کم و کاست پیش کر دوں‘ کیونکہ اس کے بغیر آپ کوئی رائے قائم نہیں کر سکتے. مگر دوسری طرف مجھ پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اسے پیش کرنے میں ہر ایسے طریقے سے اجتناب کروں جو کسی خرابی کا موجب ہو‘ تاکہ آپ اس پر ایک تصفیہ طلب مقدمے کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک حل طلب مسئلے کی حیثیت سے بے لاگ طور پر غور کر سکیں. میں اپنے بیان میں ان دونوں باتوں کو ملحوظ رکھنے کی پوری کوشش کرونگا. مگر اس میں میری کامیابی ایک حد تک آپ حضرات کی مدد پر بھی منحصر ہے. آپ میری مدد اس طرح کر سکتے ہیں کہ جن امور کو میں آپ کے سامنے اجمال کے ساتھ پیش کروں آپ ان کی تفصیل نہ مجھ سے دریافت کریں اور نہ خود ان کی کھوج میں لگ جائیں. میں ان کو صرف اس لیے پیش کر رہا ہوں کہ آپ پوری طرح اس صورتِ حال سے با خبر ہو جائیں جو مجھے اور جماعت کو اس وقت درپیش ہے‘ اور اس غرض کے لیے ان کا صرف اجمالی بیان کافی ہے بشرطیکہ آپ مجھ پر یہ اعتماد کریں کہ میں آپ کے سامنے حقیقی صورتِ حال رکھ رہا ہوں. یہ احتیاط آپ ملحوظ نہ رکھیں گے تو ہر چیز کی تفصیل ایک مقدمہ بن جائے گی اور آپ اپنے نصب العین کے لیے آگے کچھ کام کرنے کے بجائے انہی مقدمات میں اُلجھ کر رہ جائیں گے.

اب میں آپ کے سامنے اصل معاملہ پیش کرتا ہوں.

آپ جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی‘ جس میں آپ شامل ہوئے ہیں‘ صرف ایک جماعت یا انجمن نہیں ہے‘ بلکہ ایک تحریک کی علمبردار جماعت ہے. یہ بھی آپ جانتے ہیں کہ یہ جماعت جس تحریک کی علمبردار ہے وہ کوئی محدود نوعیت کی تحریک نہیں‘ بلکہ پورے نظام زندگی میں ہمہ گیر تغیر و انقلاب اور اصلاح و تغیر کی تحریک ہے. اس بات سے بھی آپ واقف ہیں کہ یہ تحریک کامیابی کی منزل پر پہنچ نہیں چکی ہے بلکہ جدو جہد اور کشمکش کے کٹھن مراحل سے گزر رہی ہے اور ابھی نہ معلوم کتنی مدت تک اسے انہی مراحل سے گزرنا ہے. یہ بھی آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ اس جدو جہد کا کوئی ایک محاذ نہیں بلکہ بیسیوں محاذیں ہیں‘ اور یہ کشمکش کسی ایک طاقت سے نہیں بلکہ ان بے شمار اندرونی اور بیرونی طاقتوں سے ہے جو اسلامی نظام زندگی کے قیام میں شعوری یا غیر شعوری طور پر مزاحم ہیں. یہ سب حقیقتیں اگر آپ کے ذہن میں تازہ نہیں ہیں تو براہِ کرم اب تازہ کر لیجئے‘ کیونکہ اس کے بغیر آپ اس مسئلے کی نزاکت پوری طرح محسوس نہیں کر سکتے جسے میں آپ کے سامنے لانا چاہتا ہوں. 

جو جماعت اس طرح کی ایک تحریک چلا رہی ہو‘ اس میں قیادت کا مقام اگر کسی ایک شخص کو دیا جائے تو اسے بیک وقت دو مختلف نوعیت کے کام کرنے پڑتے ہیں. ایک‘ تحریک کی رہنمائی. دوسرے‘ نظامِ جماعت کی سربراہی. یہ دونوں کام صرف نوعیت ہی میں ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں بلکہ ان کے تقاضے بسا اوقات ایک دوسرے کی ضد ہو جاتے ہیں اور ایک شخص کے لیے ہر حالت میں ان دونوں کو ایک ساتھ پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے. آپ ذرا تجزیہ کر کے دیکھیں تو دونوں کا فرق اور ان کو ایک ساتھ نباہنے کی دشواری آپ کے سامنے واضح ہو جائے.
نظامِ جماعت کو چلانا ایک انتظامی نوعیت کا کام ہے. وہ لا محالہ ایک دستور چاہتا ہے‘ خواہ وہ تحریری دستور ہو یا رواجی. اس کے سربراہ کی حیثیت ایک صدر انجمن‘ ایک ناظم یا ایک ایگزیکٹو آفیسر سے مختلف نہیں ہو سکتی. اس کو لازماً کچھ مقرر اختیارات دیئے جائیں گے اور کچھ حدود کا پابند کیا جائے گا. وہ ان حدود اور اختیارات سے تجاوز بھی نہیں کر سکتا‘ اور ساتھ ہی اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اگر اسے انتظام چلانا ہے تو ان حدود کے اندر کسی نہ کسی 
وقت اپنے اختیارات کو استعمال بھی کرے‘ خواہ کسی کو گوارا ہو یا ناگوار. انتظام کے معاملے میں محبت کا کوئی سوال نہیں. وہ تو نظم کے تقاضے پورے کرنے کا طالب ہے. پھر جماعت کا نظام یہ چاہتا ہے کہ اس کے سب کام ایک لگے بندھے ضابطے پر چلیں. اس میں مشورے اور معاملات کے فیصلے کا ایک طریقہ مقرر ہو. اس میں نیچے سے اوپر تک تمام متعلقہ اداروں اور ان سے متعلق رکھنے والے اشخاص کے حدود اور حقوق اور اختیارات معین ہوں. اور اس میں ناظم اعلیٰ سے لے کر ایک ابتدائی رکن یا کارکن تک کسی کو نہ اپنی حد سے نکلنے کا حق ہو نہ دوسرے کی حد میں داخل ہونے کا. اس میں ہر فیصلے کے متعلق یہ سوال اُٹھایا جا سکتا ہے کہ وہ ضابطہ کے مطابق ہوا ہے یا نہیں. اس میں ہر حکم کے متعلق یہ بحث پیدا ہو سکتی ہے کہ وہ قاعدے کے اندر ہے یا باہر. اس میں پیدا ہونے والی نزاعات نہ صرف جماعت کے اندر تصفیہ طلب ہو سکتی ہیں‘ بلکہ ملکی عدالتوں میں بھی جا سکتی ہیں اور پبلک میں بھی بحث کا موضوع بن سکتی ہیں. یہ سب کچھ ایک منظم ادارے کی شکل میں کام کرنے کے قدرتی لوازم ہیں.

علاوہ بریں اگر ایسے کسی ادارے کو جمہوری طرز پر چلنا ہو تو اس میں اختلافات کا دروازہ کھلا ہونا چاہیے. فروعی ہی نہیں اصولی اختلاف کی بھی گنجائش ہونی چاہیے. اظہار رائے ہی کی نہیں‘ اپنے نقطہ ٔ نظر کے حق میں دوسروں کی رائے ہموار کرنے کی بھی آزادی ہونی چاہیے. اس میں پارٹیاں اور گروپ بننا جمہوریت کا فطری تقاضا ہے. اس میں اپوزیشن بھی ہو سکتی ہے اور سربراہ کی اپنی پارٹی بھی. نظم و نسق اکثریت کے ہاتھ میں بھی رہ سکتا ہے اور مخلوط بھی ہو سکتا ہے‘ فیصلے تقسیم آراء سے بھی ہو سکتے ہیں اور مختلف گروپوں کی مصالحت سے بھی. ادارے کے سربراہ کا کام بہر حال اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ جمہوری فیصلوں کو نافذ کر لے. جمہوریت خود یہ چاہتی ہے کہ اس میں کسی کا بھی اتنا زور نہ ہو کہ وہ ایک جمہوری ادارے کو اپنی رائے کے مطابق چلائے. جو شخص بھی ایسا زور آور بنتا نظر آ رہا ہو‘ جمہوری مزاج خود بخود اس کا زور توڑنے پر مائل ہو جائے گا. 

ایک تحریک کا مزاج‘ خصوصاً جبکہ وہ کشمکش اور جدو جہد کے مراحل میں ہو‘ اس سے بالکل مختلف ے اور اس کو چلانے کے مقتضیات کچھ دوسرے ہیں. تحریکیں دستوروں پر نہیں 
چلا کرتیں‘ ضابطوں کی بندش میں نہیں جکڑی جا سکتیں. اختلافات‘ خصوصیت کے ساتھ اصولی اور نظریاتی اختلافات‘ ان کے لیے سم قاتل ہیں. اندرونی پارٹیوں اور گروپوں کا ظہور ان کے لیے پیغام موت ہے. ان کے اندر نزاعات کا پیدا ہونا ہی خطرناک ہے کجا کہ کوئی نزاع ایک مقدمے کی صورت اختیار کرے اور تحریک کے چلانے والے اس میں ایک دوسرے کے مقابل فریق ہوں. تحریک کا مزاج وحدتِ فکر‘ وحدتِ قلب و روح اور زیادہ سے زیادہ وحدتِ عمل چاہتا ہے. اس سے تعلق رکھنے والوں کے دلوں اور دماغوں اور طبیعتوں میں جتنی ہم آہنگی اور سعی و حرکت میں جتنی مطابقت ہو‘ اتنی ہی وہ طاقت ور ہے اور جتنا ان کے درمیان فرق ہو اتنی ہی وہ کمزور ہے. ایک تحریک کی ہوا اکھاڑ دینے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ اس کے دو ترجمان دو مختلف زبانوں سے بولنا شروع کر دیں‘ یا ایک فکر پر چلتے چلتے یکایک اس میں دوسری فکر یا بہت سے مخلوط افکار کا رنگ جھلکنے لگے. تحریکوں میں اکثریت و اقلیت کا سوال پیدا ہونا سرے سے غلط ہے. جس تحریک میں یہ قاعدہ چلنے لگے کہ فیصلے اکثریت سے ہوں گے‘ یا اقلیت و اکثیرت کے درمیان سمجھوتے سے مخلوط پالیسیاں بنائی جائیں گی‘ اسے کوئی چیز شکست اور ناکامی سے نہیں بچا سکتی. کامیابی کا امکان اگر ہے تو اسی تحریک کے لیے ہے جس کا ہر قدم پوری جماعت کے قلبی فیصلے سے اُٹھے‘ جس کے ہر فیصلے کو پوری جماعت ہی نہیں‘ اس کی فکر سے متاثر ہونے والا وسیع ترین حلقہ بھی یوں محسوس کرے کہ گویا یہ اس کے دل کی آواز اور اس کی روح کی مانگ ہے‘ اور جس سے تعلق رکھنے والوں کو دنیا ہر جگہ ہم رنگ‘ ہم زبان اور ہم مزاج پائے.

یہ تو ہے ایک تحریک اور ایک جمہوری ادارے کے فرق کا ایک پہلو. اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایک تحریک کو چلانے والے رہنما کی حیثیت اور اس کے کام کی نوعیت ایک جمہوری ادارے کے سربراہ سے بنیادی طور پر مختلف ہوتی ہے. تحریک کی فطرت ایک ایگزیکٹو آفیسر نہیں چاہتی جو تحریک سے تعلق رکھنے والوں‘ یا ان کے نمائندوں کے فیصلے نافذ کیا کرے‘ بلکہ وہ ایک ایسا رہنما چاہتی ہے جو اس کی فکر کا ترجمان اور اس کے مزاج کا نمائندہ ہو‘ جسے تحریک کے اندر بھی اور باہر ساری دنیا میں بھی اس کا ترجمان اور نمائندہ مانا جائے. جس کو یہ حیثیت 
حاصل ہو کہ پورے اعتماد کے ساتھ اپنی تحریک کی طرف سے بولے اور پوری تحریک اس کی آواز میں آواز ملا دے. اس کی جماعت میں اس کا زور کسی ضابطے اور نظام کے بل پر نہیں بلکہ اس کی فکری قیادت اور اس کے اخلاقی اثر کے بل پر ہونا چاہیے. اس کے ساتھ جماعت کے لوگوں کا تعلق کسی دباؤ سے نہیں بلکہ گہری محبت اور قلبی لگاؤ پر مبنی ہونا چاہیے. اس کے ماتحت جماعت کا ڈسپلن امارت کی دھونس سے نہیں بلکہ دل کی سمع و طاعت سے قائم ہونا چاہیے. پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس شخص کو جدوجہد اور کشمکش کے دَور میں کسی تحریک کی رہنمائی کرنی ہو وہ کبھی ان جمہوری طریقوں سے کام نہیں چلا سکتا جو صرف انتظامی اداروں کی سربراہی کے لیے موزوں ہوتے ہیں. اس کے کام کی نوعیت اس کمانڈر کے کام سے ملتی جلتی ہوتی ہے جو میدانِ جنگ میں فوج کی قیادت کر رہا ہو. وہ دیے ہوئے نقشوں پر فوج کو نہیں لڑا سکتا. اپنے نقشے اسے خود سوچنے اور بنانے پڑتے ہیں. وہ ہر وقت کونسلیں بلا کر اور ان سے پوچھ پوچھ کر کام نہیں کر سکتا. اس کو بسا اوقات فیصلہ کرنے کے لیے گھنٹوں اور منٹوں کی مہلت بھی نہیں ملتی. وہ مشورے لے بھی سکتا ہے اور اسے مشورے دیئے بھی جا سکتے ہیں‘ لیکن اگر تحریک اس کو چلانی ہے تو فیصلہ مشیروں کے ہاتھ میں نہیں‘ اس کے ہاتھ میں ہونا چاہیے. اگر پہل(Initiative) اس کے اختیار میں نہ ہو تو وہ کمانڈر نہیں سپاہی ہے. اس کو فوج پر یہ اعتماد ہونا چاہیے کہ وہ اس کی اطاعت کرے گی اور فوج کو اس پر یہ اعتماد ہونا چاہیے کہ وہ بروقت اور صحیح فیصلہ کرے گا. اس کے اور فوج کے درمیان مشیر حائل نہیں ہو سکتے. مشترکہ کمانڈر کا حشر میدانِ جنگ میں وہ ہوا کرتا ہے جو ساجھے کی ہنڈیا کا حشر چوراہے میں ہوتا ہے. اسی طرح اس کے اور فوج کے درمیان لگے بندھے قاعدے اور ضابطے بھی حائل نہیں ہو سکتے. اسے یہ بھروسہ ہونا چاہیے کہ جس وقت جس کو بھی وہ پیچھے ہٹنے کو کہے گا وہ ہٹ جائے گا اور جسے آگے بڑھنے کا حکم دے گا وہ بڑھ جائے گا. حالت جنگ میں اسے احکام کی وجہ بتانے پر بھی مجبور نہ ہونا چاہیے‘ کجا کہ اس کو ان کی جواب دہی کرنی پڑ جائے اور جنگ چھوڑ کر وہ ساری فوج مقدمہ بازی میں لگ جائے. فوج اگر چاہے تو کمانڈر بدل سکتی ہے‘ لیکن اگر اسے لڑنا اور اپنے مقصود کو پہنچنا ہے تو جسے بھی وہ کمانڈر بنائے اس کو یہی اختیارات دینے ہوں گے‘ ورنہ بہتر ہے کہ وہ لڑائی کا خیال چھوڑ دے. اس فوج کو شکست ہی کے لیے نہیں‘ تباہی کے لیے بھی تیار ہو جانا چاہیے جو عین حالت مقابلہ میں اپنی مخالف طاقتوں کو خبر دے کہ اس کا کمانڈر‘ کمانڈر نہیں بلکہ جنرل اسٹاف کا محض ایجنٹ ہے‘ اور جنرل اسٹاف ایک مجلس مباحثہ (Debating Society) ہے جس میں فوجی افسر تدابیر جنگ سے گزر کر خود مقصد جنگ ہی پر دس دس پندرہ پندرہ دن مناظرہ کرتے رہتے ہیں‘ اور ہائی کمانڈ کے فیصلے اب فوجی افسروں کی اکثریت کے ووٹ‘ یا ان کے گروپوں کی مفاہمت پر موقوف ہو کر رہ گئے ہیں.

تحریک کی قیادت اور جمہوری اداروں کی سربراہی میں ایک اور پہلو سے بھی فرق اور عظیم فرق ہے. جیسا کہ میں پہلے اشارہ کر چکا ہوں‘ جمہوریت یہ نہیں چاہتی کہ اس میں کوئی بھی اتنا زور آور ہو جائے کہ اس کی رائے جمہور کی رائے کے تابع ہونے کے بجائے اس کی حاکم بن جائے. ایسا زور جہاں بھی پیدا ہونے لگے گا جمہوری مزاج اس کو ضرور توڑنا چاہے گا. ایک انگریز نے اپنی جمہوریت پسند قوم کے ذہن کی خوب ترجمانی کی ہے کہ ’’ہم ہیروز کی پرستش تو کرتے ہیں مگر کسی ہیرو کی حکومت قبول نہیں کر سکتے‘‘. یہ ہے جمہوریت کا مزاج. لیکن تحریک کے مزاج کا تقاضا اس کے بالکل برعکس ہے. کوئی تحریک اس کے بغیر نہیں چل سکتی کہ اس کو ایک شخصیت لے کر چلے جسے تحریک کے اندر بھی دلوں اور دماغوں پر غیر معمولی اثر حاصل ہو‘ اور تحریک کے گرد و پیش عام پبلک میں بھی اس کے اثرات پھیلتے چلے جائیں. دینی تحریک ہو یا دنیوی‘ ایک شخصیت کے بغیر اس کا کام نہیں چلتا. اللہ تعالیٰ نے خود اسلامی تحریک کے لیے انبیاء کی شخصیتیں سامنے لا کر رکھ دیں اور ان کا غیر معمولی وزن اپنی مشیت ہی سے نہیں‘ اپنے احکام سے بھی قائم کیا. انبیاء کے بعد جب اور جہاں بھی کوئی دینی تحریک اُٹھی ہے ایک شخصیت کے بل پر اُٹھی‘ اور بڑی بڑی شخصیتوں نے کسی دنیوی غرض کے لیے نہیں بلکہ خدا کے دین کی خاطر یہ ایثار کیا ہے کہ اپنا سارا وزن اس کے وزن میں شامل کر کے اس کا وزن بڑھایا اور گرد و پیش کی دنیا میں اس کا اثر قائم کیا. پچھلی ہی صدی میں خود ہمارا ملک ایک عظیم الشان تحریک جہاد کا نظارہ کر چکا ہے. اس نے جو کارنامہ 
انجام دیا اور جس وسیع پیمانے پر لاکھوں انسانوں کو متاثر کیا وہ اس کے کارکنوں کی خوبی سے زیادہ ایک شخصیت کے جادو کا اثر تھا اور اس جادو کو فروغ دینے میں شاہ اسماعیل شہید اور مولانا عبد الحئی اور بہت سی دوسری عظیم شخصیتوں نے حصہ لیا تھا. اسی صدی میں دو خالص دنیوی تحریکیں ہمارے برعظیم میں چل چکی ہیں. ایک نے برطانوی حکومت کا تختہ اُلٹ کر ہندوستان کو آزاد کرایا اور دوسری نے ہندوؤں کے حلق سے پاکستان اگلوا لیا. کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ یہ جو کچھ بھی کامیابی ان دونوں تحریکوں کو نصیب ہوئی‘ ایک ایک شخصیت کے بل پر ہی ہوئی؟ اور یہ دیکھ لیجئے کہ وقت کے کیسے کیسے بڑے لوگوں نے اپنی شخصیتوں کو ان دونوں لیڈروں کی شخصیتوں میں گم کر دیا تھا. یہ تحریکوں کا فطری مزاج ہے. کسی کو دین عزیز ہو یا وطن عزیز ہو‘ یا قوم عزیز‘ بہر حال جس کو بھی کسی مقصد عزیز کے لیے کوئی تحریک چلانی ہو اسے دل کی آمادگی کے ساتھ‘ یا سینے پر پتھر رکھ کر‘ ایک شخصیت گوارا کرنی پڑے گی‘ بلکہ خود بنانی اور دوسروں سے بنوانی پڑے گی. جمہوریت اس سے انکار کرتی ہے اور تحریک اس کا تقاضا کرتی ہے. 

میں نے تفصیل کے ساتھ یہ تجزیہ آپ کے سامنے اس لیے کیا ہے کہ آپ اس اجتماعِ ضدین کو اچھی طرح سمجھ لیں جس پر جماعت اسلامی نے اپنے نظام کا ڈھانچہ اور اپنے کام کا نقشہ مرتب کیا ہے‘ اور ان مشکلات کو بھی سمجھ لیں جو آپ کی جماعت کے امیر کے دو بالکل مختلف و متضاد حیثیتیں نباہنے میں لازماً پیش آتی ہیں. آپ ایک طرف تو ایک جمہوری جماعت ہیں جس کا سارا کام ایک لگے بندھے ضابطے اور ایک مقرر دستور پر چلتا ہے. اور دوسری طرف آپ ایک تحریک لے کر چلتے ہیں جو بہت سی مزاحم طاقتوں کے مقابلے میں ایک ہمہ گیر اصلاح و انقلاب کے لیے برسر پیکار ہے. ان دونوں کاموں کی سربراہی آپ ایک آدمی کے سپرد کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جمہوری ادارے کے ناظم کی حیثیت سے وہ جمہوریت کے سارے تقاضے پورے کرے‘ اور تحریک کے رہنما کی حیثیت سے ان تقاضوں سے بھی عہدہ بر آ ہو جو جمہوری تقاضوں کی عین ضد ہیں. آپ جماعت جس روز سے بنی ہے میں آج تک ان دونوں حیثیتوں کو بھلی طرح یا بُری طرح‘ بہر حال کسی نہ کسی طرح نباہتا رہا 
ہوں‘ اور اس پر کسی داد کا نہ طالب ہوں نہ مستحق. جب تک میرے لیے کام کرنے کی کچھ بھی گنجائش رہی‘ میں نے خدمت سے منہ نہیں موڑا اور ہر طرح کے دردِ سر برداشت کیے. لیکن اب میرے لیے اس اجتماع ضدین کو نباہنا قریب قریب ناممکن ہو چکا ہے. میں کسی نظریے اور قیاس کی بنا پر نہیں بلکہ مسلسل تجربات کی بنا پر پوری طرح غور و خوض کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جماعت اسلامی میں جمہوریت اور تحریکیت کا تضاد‘ اور جماعت کی امارت میں نظم کی سربراہی اور تحریک کی رہنمائی کا تضاد‘ جو اب تک کسی نہ کسی طرح ایک مزاج میں سمویا جاتا رہا ہے‘ اب اس حد کو پہنچ گیا ہے کہ اگر حکمت اور معاملہ فہمی کے ساتھ اس کا علاج بروقت نہ کیا گیا تو یہ جماعت اور تحریک دونوں کو لے ڈوبے گا. اس معاملے میں میری ذمہ داری دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی‘ آپ سب لوگوں سے زیادہ سخت اور نازک ہے. میں بیس پچیس سال سے اس تحریک کو چلاتا آ رہا ہوں. اور پندرہ سال سے جماعت کی سربراہی کا بار بھی میرے اوپر رہا ہے حتیٰ کہ قید کے زمانے میں بھی اس بار سے میں پوری طرح سبکدوش نہیں ہو سکا ہوں. میرے لیے یہ برداشت کرنا ممکن نہیں ہے کہ خدا کے دین کی خاطر اس کے بہت سے مخلص بندوں نے جس چیز کی تعمیر کا سربراہ کار مجھے بنایا تھا‘ اب میری ہی سربراہی میں اس کی تخریب ہو. میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اولین فرصت میں تمام رفقائے جماعت کے سامنے وہ وجوہ بھی رکھ دوں جن کی بنا پر منصب امارت کی دو گونہ اور متضاد ذمہ داریا ں میرے سپرد رہنا اس کام کے لیے تباہ کن ہے‘ اور یہ بھی بتا دوں کہ میرے نزدیک اب اس تضاد کے نقصانات سے جماعت اور تحریک کو بچانے کی کیا صورتیں ممکن ہیں.

جماعت میں جمہوری میلانات اب اس رُخ پر چل پڑے ہیں کہ جدو جہد ہی کے مرحلے میں اس کے اندر مختلف الخیال افراد کی گروہ بندی شروع ہو گئی ہے. جمہوری نقطہ ٔ نظر سے یہ چیز کسی طرح بھی قابل اعتراض نہیں‘ بلکہ عین تقاضائے جمہوریت ہے. آخر چند افراد ‘ جو ایک خیال رکھتے ہوں‘ کیوں نہ ایک دوسرے سے ربط قائم کریں؟ کیوں نہ تحریر و تقریر اور بحث و گفتگو کے ذریعہ سے اپنے خیالات کی تبلیغ کریں؟ کیوں نہ زیادہ سے زیادہ 
لوگوں کو اپنا ہم خیال بنائیں؟ کیوں نہ جماعت کے عام ارکان اور با اثر لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کریں؟ کیوں نہ باہمی تعاون کے ساتھ جماعتی مشوروں پر اپنا اثر ڈالیں؟ ان میں سے کوئی چیز بھی نہ جمہوریت کے خلاف ہے‘ نہ اسے ناجائز ہی کہا جا سکتا ہے. لیکن جد و جہد کے مرحلے میں کسی تحریک کی علمبردار جماعت کے اندر جمہوریت کا یہ تجربہ سخت نقصان دہ‘ بلکہ مہلک ہے. اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ایک گروہ کے مقابلہ میں دوسرے گروہ بھی منظم ہوں‘ جماعت کے اندر گروہوں کی کشمکش برپا ہو‘ امیر جماعت پوری تحریک اور جماعت کا لیڈر نہ رہے‘ بلکہ عملاً جماعت کے اندر اکثریت کا لیڈر بن کر رہ جائے‘ ایک جگہ اس کی ہدایات پر عمل ہو تو دوسری جگہ ان پر تنقید ہو رہی ہو اور ان کی تعمیل میں کم از کم سرد مہری برتی جائے‘ جماعت کے عام کارکنوں میں تذبذب‘ بے اطمینانی اور دو دلی کی کیفیت پیدا ہو جائے‘ عوام الناس کے سامنے جماعت کے لوگ خود اپنے ان اختلافات کو پیش کر کے اپنی تحریک کی ہوا اکھاڑ دیں‘ امیر جماعت اس حالت کو فروغ پانے دے تو ایک ایسے کام کی بربادی کا مظلمہ اپنی گردن پر لے جو بیس پچیس سال کی مسلسل کوششوں سے اس ملک میں خدا کے دین کے لیے اس درجے کو پہنچا ہے کہ اب نہ صرف یہاں‘ بلکہ بیرونی دنیا میں بھی اسلام پسند لوگوں کی امیدیں اس کی کامیابی سے وابستہ ہو رہی ہیں‘ اور اگر وہ اسے روکنے کی کوشش کرے تو اس پر آمریت اور استبداد کے الزامات عائد ہوں‘ جماعت کے اندر اس کے اپنے دست و بازو اس کے خلاف خم ٹھونک کر کھڑے ہو جائیں‘ جماعت کے باہر علی الاعلان اس کے خلاف پروپیگنڈہ شروع ہو جائے‘ اچھے اچھے ذمہ دار لوگ جماعت سے نکلنے پر تیار ہو جائیں‘ اور مخالف طاقتیں اس پھوٹ کو دیکھ کر جماعت کے ان عناصر کی پیٹھ ٹھونکنے لگیں جن کے طرز فکر کو وہ اپنے مفاد کے لیے زیادہ مفید سمجھیں. جدو جد کے دَور میں جمہوریت کا یہ تجربہ ان نتائج کے سوا کوئی دوسرا نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا‘ اور بد قسمتی سے یہ نتائج رونما ہونے شروع ہو گئے ہیں. 

میں نے خوب غور کر کے یہ رائے قائم کی ہے‘ اور آپ حضرات بھی جذبات سے قطع نظر کر کے غور کریں گے تو اسی رائے پر پہنچیں گے کہ اس حالت میں میرا امیر جماعت رہنا 
جماعت اور تحریک کے لیے بہت خطرناک ہے. آپ سب جانتے ہیں کہ ابتداء سے اس تحریک اور اس جماعت کے ساتھ میرے تعلق کی نوعیت کیا رہی ہے‘ اور جماعت کے اندر ہی نہیں‘ باہر سارے ملک میں‘ اور ملک سے بھی باہر دنیا میں مجھ کو کیا حیثیت دی جاتی رہی ہے. یہ حیثیت بجا ہے یا بیجا‘ اس سے یہاں بحث نہیں ہے‘ بہر حال یہ ایک امر واقعہ ہے‘ اور اس کی موجودگی میں یہ بات آپ کے لیے غور طلب ہے کہ اگر میری یہ حیثیت مجروح ہو جائے تو اس سے جماعت کی ساکھ اور اس تحریک کے نفوذ و اثر کو جو نقصان پہنچے گا اس کی تلافی آپ اور کس طرح کر سکیں گے. میں امیر جماعت نہ رہوں اور میرے پاس میرے اخلاقی اثر اور میری دلیل کی طاقت کے سوا کوئی دوسری طاقت نہ ہو‘ تو میں بتدریج جماعت کو سمجھا کر جمہوریت کے اس قبل از وقت تجربے سے باز رکھ سکتا ہوں. لیکن نظام جماعت کا سربراہ بھی اگر اس وقت میں ہی رہوں تو اس حالت کی اصلاح کے لیے جو کوشش بھی کروں گا وہ محض ایک اخلاقی سعی نہ ہو گی بلکہ اس کے ساتھ نظم و ضبط کی طاقت بھی ہو گی. اس صورت میں لاکھ جتن بھی کروں تو میں نہ ایک فریق بننے سے بچ سکتا ہوں اور نہ اس شبہ ہی سے محفوظ رہ سکتا ہوں کہ اس وقت جمہوریت سے جماعت کو بچانے کے لیے میری کوشش اس دینی تحریک کے مفاد کے لیے نہیں بلکہ اپنی آمریت برقرار رکھنے کے لیے ہے. بیس پچیس سال تک اس تحریک کی خدمت کرنے سے میری جو کچھ بھی حیثیت بن گئی ہے وہ اسی صورت میں مفید ہو سکتی ہے جبکہ جماعت اور اس کے حلقہ ٔ اثر کے ہر شخص کو مجھ پر اعتماد ہو‘ اور ہر ایک کے ساتھ میرا تعلق یکساں محبت و اخلاص کا ہو اور میرا اخلاقی اثر ان لوگوں پر بھی باقی رہے جو میری رائے سے اختلاف رکھتے ہوں. ایک فریق بن جانے اور طرح طرح کے شبہات و الزامات سے متہم ہو جانے کے بعد مجھے یہ چیز حاصل نہ رہے گی‘ اور اس کا نقصان اس سے بہت زیادہ ہو گا جو بظاہر آپ میرے امارت سے ہٹ جانے میں محسوس کرتے ہیں. 

ایک اور وجہ جو اس سے بھی زیادہ اہم‘ بلکہ میرے نزدیک سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ میری جو کچھ بھی شخصیت دین کی تھوڑی سی خدمت کرنے کی وجہ سے بن گئی ہے وہ اب دین کے کام آنے کے بجائے دین کی راہ میں حائل ہوتی نظر آ رہی ہے. بہت سی 
باتیں جو پہلے جماعت کے حلقوں سے باہر‘ زیادہ تر مخالفین کی زبانوں سے سنی جاتی تھیں‘ اور خلافِ واقعہ بد گمانی سمجھ کر نظر انداز کر دی جاتی تھیں‘ اب وہ خود جماعت میں اچھے اچھے ذمہ دار لوگوں کی زبان و قلم پر آنے لگی ہیں‘ اور یہ ممکن نہیں رہا ہے کہ ان کو بھی نظر انداز کیا جائے. جو خیالات ظاہر کیے گئے ہیں، اور جن کو میں یقینی ذرائع سے جانتا ہوں وہ یہ ہیں کہ میری وجہ سے جماعت اسلامی میں شخصیت پرستی پیدا ہو رہی ہے. میری امارت در اصل ایک پیری کی گدی ہے اور یہ جماعت میرے مریدوں کی جماعت ہے. اس جماعت میں میری بات میری دلیل کی طاقت اور میری رہنمائی پر ہوشمندانہ اعتماد کی وجہ سے نہیں چلتی بلکہ میری شخصیت کے ساتھ لوگوں کی اندھی عقیدت کی وجہ سے چلتی ہے. اس میں کسی آزاد فکر اور مستقل رائے رکھنے والے آدمی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے‘ کیونکہ وہ میرے مقابلے میں اپنی بات نہیں منوا سکتا. جماعت میں جو کوئی میری بات کی تائید کرتا ہے اس کی تائید کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ عقل و بصیرت کی بنا پر مجھ سے اتفاق رکھتا ہے‘ بلکہ دراصل یا تو وہ خوشامدی ہے یا اندھا مرید. مجھ سے اختلاف ایک خوبی ہے‘ کیونکہ وہ اخلاقی جرأت اور استقلال رائے کی علامت ہے‘ اور میری تائید ایک برائی ہے کیونکہ اس کی وجہ خوشامد یا اندھی عقیدت کے سوا اور کچھ نہیں ہے. اس حالت میں ضمیر اور عقل و علم رکھنے والوں کے لیے دو ہی راستے رہ گئے ہیں. یا تو وہ جماعت کو چھوڑ کر چلے جائیں‘ یا پھر جماعت میں رہ کر اس شخصیت کے بت کو توڑنے کی فکر کریں. 

اپنے بہترین اور عزیز ترین رفقاء کے یہ خیالات جب سے میرے علم میں آئے ہیں‘ میں اس فکر میں لگ گیا ہوں کہ اس بت کے توڑنے کا اجر و ثواب ان سے پہلے میں خود لُوٹ لے جاؤں. خدا کی لعنت اس شخصیت پر جو خدا کی راہ میں کام آنے کے بجائے اس کے راستے میں بُت بن کر کھڑی ہو جائے. اس کو توڑنے کے لیے پہلا کام تو میں یہ کرتا ہوں کہ اس پیری کی گدی کو آپ کے سامنے لات مار کر عام ارکان کی صف میں آ رہا ہوں. اس سے بھی کام نہ چلے گا تو زبان و قلم پر قفل چڑھا کر کسی گوشے میں بیٹھ جاؤں گا. پھر بھی یہ شخصیت راہِ خدا میں حائل رہی تو ملک چھوڑ کر کہیں چلا جاؤں گا. میں اس شخصیت کو ختم کرنے کے 
لیے خود کشی تو نہیں کر سکتا، کیونکہ یہ جائز نہیں ہے‘ اور یہ بھی نہیں کر سکتا کہ کسی گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کر کے اسے ذلیل کروں. البتہ دوسری ہر وہ تدبیر اختیار کرنے کے لیے تیار ہوں جس سے شخصیت کا یہ بُت خد کے راستہ سے ہٹ سکے.

محترم رفقائ! یہ ہیں وہ وجوہ جنہوں نے مجھے اس بات پر مطمئن کر دیا ہے کہ میرا اب جماعت کی امارت سے ہٹ جانا ضروری ہے‘ اور اس پر ٹھہرنا نقصان دہ. کسی کو یہ غلط فہمی لاحق نہ ہونی چاہیے کہ مجھ سے کوئی قصور ہو گیا ہے جس کی جوابدہی سے میں ڈرتا ہوں. اس لیے استعفاء دے کر اس پر پردہ ڈال رہا ہوں. جو شخص بھی ایسا خیال رکھتا ہو میں اسے قسم دیتا ہوں کہ میری ذاتی زندگی کا جو عیب بھی اسے معلوم ہے‘ یا میرے زمانہ امارت کے جس کام کو بھی وہ انصاف‘ یا دیانت‘ یا دستور جماعت کے خلاف سمجھتا ہے‘ اسے یہاں پوری جماعت کے سامنے علی الاعلان پیش کر دے. میں اس وقت تک یہاں سے نہ ہٹوں گا جب تک اس کی جوابدہی نہ کر لوں. اور جماعت کو خدا کا واسطہ دے کر کہوں گا کہ وہ میرے ساتھ کسی رعایت سے کام نہ لے‘ بلکہ اگر میرے اوپر کوئی الزام ثابت ہو تو میرا استعفاء قبول کرنے کے بجائے عدم اعتماد کی تجویز پاس کر کے مجھے معزول کرے.

اسی طرح اگر کسی کا یہ خیال ہو کہ میں اپنی کچھ باتیں منوانے کے لیے استعفاء کو دھمکی کے طور پر استعمال کر رہا ہوں تو وہ بھی اپنے دل سے یہ خیال نکال دے. میں پہلے یہ کہہ چکا ہوں اور پھر اس کا اعادہ کرتا ہوں کہ میں نے یہ استعفاء واپس لینے کے لیے نہیں دیا ہے. خوب سوچ سمجھ کر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میرا امیر جماعت رہنا اب اس کام کے لیے مفید نہیں بلکہ اُلٹا نقصان دہ ہے‘ اور اس رائے کے وجوہ میں نے بے کم و کاست آپ کے سامنے پیش کر دیئے ہیں. اس پر بھی یہ بد گمانی باقی رہ جائے کہ جب دلیل نہیں چلتی تو میں استعفے کی دھمکی سے کام نکالتا ہوں‘ تو میرے پاس اس کا کوئی علاج نہیں.

اب میں وضاحت کے ساتھ آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک آئندہ کے لیے کیا انتظام ہو گا. 
سب سے پہلے آپ کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ آپ جماعت کی قیادت کے لیے کس طرح کا انتظام پسند کرتے ہیں.

اس کی ایک شکل یہ ہے کہ آپ امیر جماعت کو صرف نظم جماعت کا سربراہ بنا کر رکھیں اور تحریک کسی ایک شخص کی راہنمائی میں نہ چلے بلکہ عام جمہوری اداروں کی طرح اجتماعی فیصلوں سے چلے‘ اور امیر جماعت کا کام ان فیصلوں کو نافذ کرنے سے زیادہ کچھ نہ ہو. اس طرز پر تحریک چلانے کا تجربہ آپ کرنا چاہیں تو کر لیں. آپ جماعت میں درجنوں ایسے آدمی پا سکتے ہیں جو اس حیثیت سے جماعت کے مرکزی صدر کی خدمت انجام دینے کی پوری قابلیت رکھتے ہیں. میرے ہٹ جانے سے اس صورت میں سرے سے کوئی خلا واقع نہیں ہوتا. 

دوسری شکل یہ ہے کہ آپ امیر جماعت کو بیک وقت اپنے جمہوری نظام کا سربراہ بھی رکھنا چاہیں اور تحریک کا رہنما بھی. یہ اگر آپ کی مرضی ہو تو آپ مجھے چھوڑ کر جماعت کے ذمہ دار لوگوں میں سے جس کو مناسب سمجھیں اپنا امیر چُن لیں. میں ہر اس شخص کی اطاعت اور وفادارانہ رفاقت کا عہد کرتا ہوں جسے آپ امیر بنائیں. جو خدمت بھی مجھ سے لی جائے گی اس کے بجا لانے میں مجھے ذرہ برابر تامل نہ ہو گا. میری شخصیت اگر آپ کے منتخب کردہ امیر کی مددگار بن سکے گی تو یہاں پائی جائے گی‘ ورنہ اس سے نجات پانے کے لیے آپ کو کسی فکر کی ضرورت نہ پیش آئے گی. اس کا استیصال ان شاء اللہ میں خود کروں گا. 

تیسری شکل یہ ہے کہ آپ نظامِ جماعت کی امارت اور تحریک اسلامی کی رہنمائی کو ایک دوسرے سے الگ کر دیں. اس صورت میں جماعت کا سارا نظم دستور کے مطابق ایک امیر چلاتا رہے گا، اور تحریک بھی اسی جماعتی مشینری کے ذریعہ سے چلے گی‘ مگر تحریک کی رہنمائی ایک ایسا شخص کرے گا جس کے لیے دستور میں کوئی نام اور کوئی منصب اور کوئی ضابطے کا اختیار و اقتدار نہ ہو گا. اس کی جگہ اگر ہو گی تو آپ کے دستور میں نہیں بلکہ آپ کے دلوں میں ہو گی. آپ اسے باقاعدہ منتخب نہ کرینگے بلکہ محض اعتماد کی بنا پر اس کی رہنمائی قبول کریں گے. اس کے پاس اپنے فیصلے نافذ کرنے کے لیے کوئی طاقت نہ ہو گی بلکہ آپ کا امیر اور آپ کی مجلس شوریٰ اور آپ سب اپنی مرضی سے خود چاہیں گے تو اس کے مشوروں پر چلیں 
گے اور اس کی قیادت میں کام کریں گے. جب تک آپ چاہیں اس کو رہنما بنا کر رکھیں اور اسے اپنا لیڈر مانتے رہیں. یہ بالکل آپ کا اپنا اختیاری فعل ہو گا. اور جب کبھی آپ اس سے جان چھڑانا چاہیں تو یہ بات بالکل کافی ہو گی کہ اس کے کہے پر چلنا چھوڑ دیں. اس کے لیے سرے سے کسی جھگڑے اور کسی ضابطے کی کارروائی کا سوال پیدا ہی نہ ہو گا. 

اس آخری صورت کا تجربہ آپ کرنا چاہیں تو نظم جماعت کے لیے بس ایک میر چُن لیجئے. رہا رہنمائے تحریک تو وہ آپ کی رائے عام سے خود اس مقام پر آ جائے گا. اس معاملہ میں کسی رائے دہی اور کسی انتخاب کی کوئی حاجت نہیں‘ کیونکہ یہ کوئی دستوری چیز نہیں ہے. 

لیکن ضروری تنبیہہ کے طور پر میں دو باتیں پہلے ہی آپ سے عرض کیے دیتا ہوں. ایک یہ کہ جماعت کی موجودہ شخصیتوں میں سے جس کسی کو بھی آپ رہنمائی کا مقام دیں وہ اسی صورت میں اس تحریک کی کوئی خدمت انجام دے سکے گا جبکہ باقی تمام شخصیتیں اس کی پیش روی کو خواستہ یا ناخواستہ گوارا کرنے کے لیے تیار نہ ہوں. دینی لحاظ سے قطع نظر‘ دنیوی وجاہت و قابلیت اور ناموری کے لحاظ سے ہمارے درمیان شاید ہی کوئی شخصیت اس پائے کی ہو جس پائے کی شخصیت کانگرس میں جمع ہوئی تھیں. مگر آپ نے دیکھا کہ ان لوگوں نے خدا کی خاطر نہیں‘ کسی اَجر آخرت کی اُمید پر نہیں‘ صرف آزادی وطن کی خاطر گاندھی کی شخصیت کا نہ صرف تابع ہونا گوارا کیا بلکہ اس کی بڑائی خود قائم کی. اور اس کا نتیجہ آپ سب لوگ دیکھ چکے ہیں.ہم بھی اگر دنیا میں خدا کا کلمہ بلند کرنا چاہتے ہیں. تو کسی ایک آدمی کو آگے کر کے سب کو اس کے پیچھے چلنا ہو گا‘ اور خدا ہی کی خاطر اس کی شخصیت میں اپنی شخصیتوں کو گم کر دینا پڑے گا. یہ قربانی دینے کے لئے کوئی تیار ہو یا نہ ہو‘ میں اس کے لیے سچے دل سے تیار ہوں. آپ جس کو بھی بالاتفاق اپنا رہنما مان لیں گے‘ میں خدا کو اور آپ سب کو گواہ کر کے اعلان کرنا ہوں کہ اپنا سب کچھ لا کر اس کے قدموں میں ڈال دوں گا.

دوسری بات جو یہ کام کرنے سے پہلے آپ کو خوب سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ کشمکش کے دَور میں ایک تحریک کی رہنمائی کا کام ایک ڈرائیور کے کام سے ملتا جلتا ہوتا ہے. جس کے ہاتھ میں آپ موٹر کا اسٹیرنگ وہیل دے رہے ہوں اس کے متعلق اچھی طرح اطمینان کر 
لیجئے‘ اور چلنے سے پہلے یہ بھی طے کر لیجئے کہ کہاں جانا ہے اور کس طرف سے جانا ہے.
 
مزید جو مشورے یا ہدایات بھی آپ دینا چاہیں آغازِ سفر میں دے دیجئے. لیکن جب ڈرائیور اسٹیرنگ وہیل سنبھال کر پُر ہجوم راستوں سے گاڑی لیے جا رہا ہو‘ اس وقت گاڑی میں بیٹھے ہوئے لوگ چاہے بجائے خود کیسے ہی ماہر ڈرائیور ہوں‘ اور چاہے خود موٹر کے بنانےوالے انجنیئر ہی کیوں نہ ہوں‘ ڈرائیور کو بار بار مشوروں اور ہدایات اور احکام اور نقد و تبصرے سے نواز کر صرف حادثہ ہی مول لے سکتے ہیں، بخریت منزل پر نہیں پہنچ سکتے. اس لیے کہ اس وقت صرف ڈرائیور ہی کی قوت فیصلہ یہ طے کر سکتی ہے کہ کس ہجوم سے گاڑی کو کس طرح نکالے‘ آتی جاتی گاڑیوں سے اپنی گاڑی کو کیسے بچائے‘ کس گاڑی کو آگے نکلنے دے اور کس سے خود آگے نکل جائے، اور ایک طرف سے اگر راستہ بند ہو تو دوسری طرف سے کس طرح اپنا راستہ نکالے. ایسے مواقع پر مشورے کی ضرورت ہو گی تو ڈرائیور خود اسے محسوس کر کے مشورہ لے گا، کچھ پوچھنا ہو گا تو وہ خود پوچھے گا، کوئی ہدایت طلب کرنی ہو گی تو وہ خود طلب کر لے گا، دوسروں کے لیے‘ اگر وہ بخیریت سفر کرنا چاہتے ہوں‘ اس کے سوا کوئی کام نہیں ہے کہ وہ صبر کے ساتھ چلے چلیں. حتیٰ کہ اگر حادثہ بھی ہوتا نظر آئے تو ضبط سے کام لیں‘ اس لیے کہ خطرے کے موقع پر شور مچانے یا اسٹیرنگ وہیل پر ہاتھ ڈالنے کے معنی یہ ہیں کہ حادثہ نہ ہوتا ہو تو ہو جائے. آپ ڈرائیور بدلنا چاہیں تو بدل دیں‘ مگر جسے بھی ڈرائیور بنائیں اس کو اطمینان کے ساتھ گاڑی چلانے دیجئے. جو شخص اسے آمریت سمجھ کر اس پر صبر نہ کر سکتا ہو اس کا گاڑی سے اُتر جانا اس سے بہتر ہے کہ وہ خود بھی حادثے سے دوچار ہو اور پوری موٹر کو بھی اس کے مسافروں سمیت خطرے میں مبتلا کرے. تاہم اگر آپ لوگ ایک دفعہ تمام موٹر نشینوں کی مشترک ڈرائیوری کا تجربہ کرنا چاہیں تو میں آپ کو اس سے منع نہیں کرتا. میں اس میں بھی آپ کے ساتھ ہوں. جو کچھ آپ سب کا حشر ہو گا میرا بھی ہو جائے گا. البتہ اس صورت میں اسٹیرنگ وہیل ہاتھ میں لینے کی ذمہ داری آپ مجھ پر ڈالنا چاہیں گے بھی تو میں اسے کبھی قبول نہ کروں گا. اس اسکیم میں میری جگہ محض ایک خاموش مسافر کی ہو گی جو گاڑی اور اس کے مسافروں کی سلامتی کے لیے دعا کرنے کے سوا کچھ نہ کرے گا.‘‘