مسئلہ خواتین‘ اور ’’الھدٰی‘‘ کے ضمن میں تائید کا شکریہ
اور
’’دعوتِ اتحاد‘‘ پر ’’تعاون علی البر‘‘ کی پیشکش!
(شائع شدہ ’’میثاق‘‘ جولائی ۱۹۸۲ء)
محترمی و مکرمی میاں صاحب
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکارتہ!
مزاج گرامی !
مسلمان معاشرے میں خواتین کے فرائض اور دائرہ کار کے بارے میں میری ایک رائے کے خلاف جو مظاہرہ کراچی کی کچھ مغرب زدہ خواتین کی جانب سے ہوا تھا اس پر آپ کا جو مومنانہ ردّ عمل سامنے آیا اور میرے ٹی وی پروگرام ’’الھدٰی‘‘ کو جاری رکھنے کا جو پُر زور مطالبہ آپ نے کیا اس پر میری جانب سے ہدیۂ تشکر قیم تنظیم اسلامی قاضی عبد القادر صاحب نے آپ کو پہنچا دیا تھا اور اس پر آپ کا جواب بھی جناب اسلمی سلیمی صاحب کی وساطت سے مجھے مل گیا تھا. یعنی یہ کہ آپ نے جو کچھ کیا نصح دینی کے جذبے کے تحت اور اپنا فرض سمجھ کر کیا جس پر کسی شکریے کی آپ کو ضرورت نہیں ہے. میرے نزدیک یہ بھی آپ کے خلوص و اخلاص ہی کا مظہر ہے! (حال ہی میں مجھے معلوم ہوا ہے کہ میرے ایک بزرگ رفیق کار شیخ جمیل الرحمن صاحب نے بھی آپ کو شکریے کا خط لکھا تھا اور اُن کے نام جوابی خط میں بھی آپ نے ان ہی جذبات کا اظہار فرمایا ہے).
اس وقت ملک میں خواتین کو مردوں کے ’’شانہ بشانہ‘‘ لانے کا جو عمل اسلامی حدود و تعزیرات کے نفاذ اور ملکی قوانین خصوصاً عدالتی نظام کو ’’اسلامیانے‘‘ کے ’’شانہ بشانہ‘‘ جاری ہے‘ میرے خیال میں اسی پر زیادہ سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے بالخصوص اس تازہ خبر کا نوٹس ضرور لیا جانا چاہیے کہ خواتین کو تمام یونین کونسلوں کی سطح پر نمائندگی ملے گی. اور اس طرح ایک اخباری اندازے کے مطابق سیاسی میدان میں فعال خواتین کی تعداد ایک دم دس گنا ہو جائے گی.
میرے اس عریضے کی تحریر کا اصل محرک آپ کی اُس تقریر کی اخباری رپورٹ ہے جو آپ نے پچھلے دنوں لاہور میں ’’تعلیم القرآن کانفرنس‘‘ میں کی تھی جس میں اس اخباری اطلاع کے مطابق آپ نے جملہ مسلمانانِ پاکستان کو دعوت دی تھی کہ وہ اسلام اور قرآن کی اساس پر متحد ہو جائیں اس ضمن میں‘ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ اگر یہ اخباری اطلاع درست ہے تو آپ کے پاس اس ’’اتحاد‘‘ کے لیے تفصیلی پروگرام کیا ہے؟ اور آیا اس سے مراد (کالعدم) جماعت اسلامی میں شمولیت کی دعوت ہے یا یہ کسی وسیع تر دینی اتحاد کی پیشکش ہے؟ اور اگر یہ وسیع تر دینی اتحاد کی دعوت ہے تو بالفرض اگر میں آپ کی اس پکار پر لبیک کہوں تو ایک طرف مجھے کیا تقاضے پورے کرنے ہوں گے اور آپ کی مجھ سے توقعات کیا ہوں گی، اور دوسری طرف اس مجوزہ ’’تعاون علی البر و التقویٰ‘‘ کے ضمن میں اشتراکِ عمل کے لیے کونسا میدان کار آپ کے سامنے ہے؟
میں چونکہ یہ سوال محض سر را ہے‘ یا بر سبیل شغل نہیں کر رہا ہوں بلکہ اس میں پوری طرح سنجیدہ ہوں لہٰذا اس کے باوصف کہ میرا گمان ہے کہ تحریک اسلامی کے قائد ہونے کے ناطے آپ ان امور سے ناواقف نہیں ہوں گے، تاہم اپنے بارے میں چند وضاحتیں کئے دیتا ہوں:
۱. مولانا مودودی مرحوم و مغفور کے مجموعی دینی فکر میں دین کے باطنی عنصر (یعنی وہ Esoterie Element جو عام طور پر ’’تصوف‘‘ کے عنوان سے جانا پہچانا جاتا ہے) کی کمی کو شدت کے ساتھ محسوس کرنے کے باوجود دین کا جو انقلابی اور تحریکی تصور انہوں نے پیش فرمایا اور خصوصاً فرائض دینی کی جو نشان دہی انہوں نے کی اُس کا میں نہ صرف یہ کہ پوری طرح قائل ہوں بلکہ اپنی بساط بھر اُس پر عامل بھی ہوں. فللّٰہ الحمد !!
۲ . جماعت اسلامی کی قبل از تقسیم ہند پالیسی کو مجموعی اعتبار سے میں آج بھی صحیح سمجھتا ہوں. البتہ جماعت اسلامی پاکستان کی بعد از تقسیم پالیسی کو میں صرف غلط ہی نہیں سابقہ موقف سے انحراف کا مظہر سمجھتا ہوں، اور اپنے مقدور بھر کوشش اس امر کی کر رہا ہوں کہ اس سابقہ نہج پر ایک تحریک دوبارہ اُٹھے. اور اگرچہ میں خوب جانتا ہوں کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے اور تحریکیں روز روز نہیں اُٹھا کرتیں لیکن اپنے شعورِ فرض کے مطابق کوشش کرتے ہوئے جان جاں آفریں کے سپرد کر دیے میں‘ میں کامیابی کی واحد صورت مضمر دیکھتا ہوں. لہٰذا جیسے تیسے کوشش میں لگا ہوا ہوں تاکہ اور کچھ نہیں تو اللہ تعالیٰ کے حضور ’’معذرت‘‘ تو پیش کر سکوں!
۳. میں دیکھ رہا ہوں کہ ثلث صدی کی سیاسی جدو جہد کے حاصل اور دو بار کے شدید مایوس کن اور تلخ تجربوں کے بعد اب جماعت کا مجموعی رخ سیاست سے دعوت و تبلیغ کی طرف مڑ رہا ہے. لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ اگر اس تبدیلی میں انقلابی رنگ شعوری اور واضح طور پر اجاگر نہ ہوا تو یہ تبدیلی مفید نہیں بلکہ مضر ہو گی. اور اس انقلابی رنگ کو شعوری اور واضح طور پر از سر نو اجاگر کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ سابقہ غلطی کا واضح اور برملا اعتراف و اعلان ہو اور یہی وہ اصل شکل ہے جس کے حل کی کوئی امید نہیں‘ بقول اقبال ع ’’منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں! ‘‘ تاہم اس سب کے باوجود اگر کسی وسیع تر دینی اتحاد اور اشتراکِ عمل کا کوئی واضح پروگرام آپ کے سامنے ہو تو انشاء اللہ العزیز آپ مجھے اور میرے ساتھیوں کو اس ضمن میں ’انا اول المسلمین‘‘ کی سی شان کے ساتھ پیش قدمی کرتے ہوئے پائیں گے !!
امید ہے کہ آپ جواب سے جلد نوازیں گے.
اگر آپ اس سلسلے میں مجھ سے کسی گفتگو یا تبادلہ خیال کی ضرورت محسوس فرمائیں تو بلا جھجک جب چاہیں طلب فرما لیں‘ میں بخوشی حاضر ہو جاؤں گا.
فقط و السلام
خاکسار
اسرار احمد عفی عنہ
میاں طفیل محمد صاحب کا جواب (بلا تبصرہ!)
محترمی و مکرمی ڈاکٹر صاحب!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ. گرامی نامہ ملا. یاد فرمائی کا شکریہ. قطع نظر اس اخباری رپورٹ کے جس کا حوالہ آپ نے اپنے خط میں دیا ہے‘ تحریک اسلامی کے بنیادی نکاتِ دعوت میں سے ایک نکتہ امت مسلمہ کا اتحاد ہے‘ اسی بنا پر ہم مسلمانانِ پاکستان کو بھی اتحاد واتفاق کی دعوت دیتے ہیں اور اس کا مفہوم بالکل واضح ہے. اسلام کے بنیادی عقائد اور اصولی احکام متفق علیہ ہیں اس لیے سب کو انہی کو بنیاد بنا کر کام کرنا چاہیے اور انہی پر زور دینا چاہیے. فروعی اختلافات کو جائزہ حدود کے اندر رکھنا چاہیے اور انہیں تفرقہ اور جدال کا سبب نہیں بننا چاہیے. اگر اس بات پر اتفاق کر لیا جائے اور اس کے مطابق عمل کیا جائے تو وہ آویزش اور کشیدگی جو آج مسلمانوں کے مختلف فرقوں‘ گروہوں اور جماعتوں کے مابین پائی جاتی ہے وہ ’’تعاون علی البر و التقویٰ‘‘ میں بدل سکتی ہے اور اقامت دین کی منزل جو ہر مسلمان کا مقصود ہونا چاہیے بہت قریب آ سکتی ہے.
جہاں تک اشتراک عمل کا تعلق ہے اس کے لیے اس بنیادی اتفاق کے بعد طریق کار اور حکمت عملی کی یکسانی بھی درکار ہے. اب آپ خود ہی غور فرما لیں کہ تحریک یا جماعت اسلامی کے بارے میں جب آپ یہ فرماتے ہیں. ’’البتہ جماعت اسلامی پاکستان کی بعد از تقسیم پالیسی کو میں صرف غلط ہی نہیں سابقہ موقف سے انحراف کا مظہر سمجھتا ہوں‘‘. تو اس کے بعد اشتراک عمل کی کیا بنیاد باقی رہ جاتی ہے. ایسی صورت میں جب تک طریق کار اور حکمت عملی پر اتفاق نہ ہو جائے دین کے مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے اپنے طریق کار اور پالیسی کے مطابق اقامت دین کا مثبت کام کیا جائے اور کسی دوسرے کے کام کو پبلک پلیٹ فارم پر یا پریس میں ہدف ملامت و نکتہ چینی نہ بنا جائے.
والسلام
خاکسار
(طفیل محمد)