خطبہ ٔ مسنونہ کے بعد تلاوتِ آیات


اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾ (البقرۃ:۲۱)
اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖۤ اَنۡ اَنۡذِرۡ قَوۡمَکَ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱﴾قَالَ یٰقَوۡمِ اِنِّیۡ لَکُمۡ نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ۙ﴿۲﴾اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ اتَّقُوۡہُ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ۙ﴿۳﴾ (نوح:۱-۳)
یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ (الاعراف:۵۹۶۵۷۳۸۵)
فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ﴿۱۰۸﴾ۚ (الشعراء:۱۰۸۱۲۶۱۴۴۱۵۰۱۶۳)
وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ (الذّٰریٰت:۵۶)
وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۙ حُنَفَآءَ وَ یُقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ذٰلِکَ دِیۡنُ الۡقَیِّمَۃِ ؕ﴿۵﴾ (البینۃ:۵)

اس تحریر کے ذریعے راقم کے دینی فکر کو ایک جامع اور مانع شکل میں پیش کرنا مقصود ہے. جہاں تک میرے دینی فکر کے اجزاء کا تعلق ہے تو یہ کوئی ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور میں انہیں اپنی تقاریر‘ گفتگوؤں ‘ دروسِ قرآن‘ خطباتِ جمعہ اور خطباتِ عید میں بارہا بیان کر چکا ہوں. دوسرے لفظوں میں یہ علیحدہ علیحدہ تو نہ صرف معلوم ہیں بلکہ معروف بھی ہیں اور بتکرارو اعادہ سامنے بھی آتے رہتے ہیں‘لیکن یہاں انہیں میں جامع اور مانع صورت میں بیان کرنا چاہتا ہوں.

جامع اور مانع‘ علم منطق کی دو اصطلاحات ہیں. کسی شے کی تعریف ’’جامع‘‘ اس اعتبار سے کہلائے گی کہ اس شے کی حقیقت کا کوئی جزو اس تعریف سے باہر نہ رہے‘ یعنی وہ اس کے تمام پہلوؤں کو جمع کر لے کہ وہ جامع ہو جائے ‘جبکہ ’’مانع‘‘ اس طرح سے ہوکہ اس کے خلاف کوئی شے اس میں داخل نہ ہونے پائے. اس طرح جامع اور مانع تعریف وہ کہلاتی ہے کہ جو کسی شے کو یوں معین کر دے کہ ایک طرف تو اس کے تمام اجزاء اس میں شامل ہوں اور دوسری طرف اس کے منافی کوئی شے اس میں شامل نہ ہو سکے. اس تحریر کا مقصد بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے اپنی دینی سوچ اور فکر کا ایک جامع اور مانع خلاصہ آپ کے سامنے لا سکوں!