میرے نزدیک قرآن کی دعوت کا اوّلین اور جامع ترین عنوان ’’عبادتِ رب‘‘ ہے.باقی کی تمام چیزیں اسی کی شرح میں‘ اسی کے ذیل میں اور اسی کے مراحل کے طور پر آتی ہیں. یہ لفظ قرآن مجید میں کافی تکرار کے ساتھ آیا ہے.
قرآن مجید کا آغاز سورۃ الفاتحہ سے ہوتا ہے. یہ گویا کہ پورے قرآن کے لیے ایک تمہید کی مانند ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو دعا کی تلقین فرمائی ہے. اس میں سات آیات ہیں جن کو ’’سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ‘‘ کہا گیا ہے. اس کی مرکزی آیت اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ضمن میں اسی سے استعانت طلب کی گئی ہے. ابتدائی آیات میں یہ اقرار کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ ہی ساری تعریفوں کا سزاوار ہے‘ وہی تمام جہانوں کا پالن ہار اور پروردگار ہے‘ وہی رحمن اور رحیم ہے‘ جزا و سزا کے دن کا مختار مطلق ہے‘ اب اسی سے التجا کی جا رہی ہے کہ عبادت کے تقاضے پورے کرنے میں ہماری مدد فرما. سورۃ الفاتحہ کو نہ صرف قرآن مجید کا دیباچہ اور خلاصہ کہا جاتا ہے بلکہ اسے اُمّ القرآن‘ اساس القرآن‘ الکافیہ اور الشافیہ جیسے القابات بھی دیے گئے ہیں.ا سی سورۃ الفاتحہ کا
مرکزی تصور یہ آیت اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ ہے.
سورۃ الفاتحہ میں کی گئی دعا اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾ کا جواب اس سورۃ کے بعد دیا گیا ہے. اس ضمن میں سورۃ البقرۃ کے پہلے دو رکوعوں میں تین قسم کے اشخاص کی نشاندہی کر دی گئی ہے : ۱) وہ گروہ جس نے قرآن مجید کی ہدایت سے بھرپور استفادہ کیا ہے. اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے: اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ ٭ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۵﴾ ’’یہی لوگ اپنے ربّ کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں‘‘.
۲) وہ افراد جنہوں نے اپنے دل اور ذہن کے دروازے ہدایت قرآنی سے بند کر کے ان پر تالے لگا دیے اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا اور وہ اپنے تعصب‘ ہٹ دھرمی‘ تکبر اور حسد کی وجہ سے اللہ کی ہدایت سے محروم ہو گئے. ان کے بارے میں فرمایاگیا: خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫ (آیت۷) ’’اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیاہے‘‘.
۳) تیسرا طبقہ وہ ہے جس کے بارے میں فرمایا گیا : وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ مَا ہُمۡ بِمُؤۡمِنِیۡنَ ۘ﴿۸﴾ ’’انسانوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کہتے تو ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور یومِ آخر پر‘ لیکن وہ حقیقتاً مومن نہیں ہیں‘‘.
یہاں سب سے زیادہ بحث تیسرے طبقے سے متعلق ہوئی ہے. دو طبقوں کا ذکر تو پہلے رکوع میں کردیا گیا ہے جبکہ تیسرے طبقے کے لیے دوسرا رکوع پورے کا پورا مختص کیا گیا ہے.اس طبقے کا بہ تمام و کمال اطلاق یا تو منافقین پر تھا یا پھر اُس دور کے یہودی علماء پر‘ لیکن اس سے کم تر درجے میں وہ لوگ بھی اس زمرے میں آتے ہیں جو ضعفِ ایمان میں مبتلا ہیں. ان کے بارے میں سورۃ التوبۃ میں فرمایا گیا : خَلَطُوۡا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا ؕ (آیت ۱۰۲) یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے اندر نیکیاں اور بدیاں جمع کر لیتے ہیں. یہ اصل میں اس بیماری کے مختلف shades ہیں. منافقین میں یہ بیماری درجہ بدرجہ بڑھتی جاتی ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی: فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا ۚ (البقرۃ:۱۰) .بدقسمتی سے ہماری ایک عظیم اکثریت کسی نہ کسی طرح اس مرض میں مبتلا ہے‘ لہذا اس کا شمار اسی زمرے میں ہوتا ہے. اس کے بعد سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۱ سے قرآن مجید کی دعوت کا آغاز ہوتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾
’’اے بنی آدم! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور تم سے پہلوں کو بھی (پیدا کیا) تاکہ تم بچ سکو.‘‘
چونکہ ’’عبادت ‘‘ کے لیے اردو میں ایسا کوئی لفظ موجود نہیں ہے جو مکمل طور پر اس کی ترجمانی کا حق ادا کر سکے‘ اس لیے فی الحال اسے اسی طرح رکھتے ہوئے آیت کے بقیہ حصے پر غور کیجیے.
’’ مِنْ قَبْلِکُمْ‘‘ خاص طور پر اس لیے کہا گیا کہ رسولوں کی دعوت کے جواب میں اُن سے اُن کی قوموں نے اکثر و بیشتر جو بات کہی وہ یہی ہوتی تھی کہ ہم نے تو اپنے آباء و اجداد کو یہی کرتے ہوئے پایا تھا جو ہم کر رہے ہیں. گویا ان کی طرف سے دلیل یہ تھی کہ ہم اپنے آباء و اجداد کی رسومات کو کیسے چھوڑ دیں؟ یہاں اس بات کی نفی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جیسے تم مخلوق ہو ویسے ہی تمہارے آباء و اجداد بھی مخلوق تھے‘ جیسے تم سے غلطی ہو سکتی ہے ویسے ان سے بھی ہو سکتی ہے‘ لہذا تمہیں ان کی پیروی نہیں کرنی‘ بلکہ پیروی تو اس کی کرنی ہے جو خود بھی سیدھے راستے پر ہو اور تمہیں بھی سیدھا راستہ دکھائے‘ یا جو حق تم پر منکشف ہوجائے اس کی پیروی کی جائے.
’’لَـعَلَّـکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘ کا ترجمہ عام طو رپر کر دیا جاتا ہے: ’’تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو جائے‘‘. یہ صحیح نہیں ہے . دراصل ’’وَقٰی‘ یَـقِیْ‘‘ کے عربی زبان میں معانی ہیں کسی کو بچانا. اس کو یاد رکھنے کے لیے آسان ترین حوالہ ’’وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘ ہے ‘یعنی ’’اے اللہ ہمیں آگ کے عذاب سے بچائیو!‘‘. ’’وَقٰی ‘ یَقِی‘‘ کامعنی بچانا اور ’’اِتَّقٰی‘ یَتَّقِیْ‘‘ کا معنی بچنا ہے. اسی طرح ’’’لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘ کے معانی ہوں گے ’’تاکہ تم بچ سکو‘‘. کس چیز سے بچ سکو؟ اس دنیا کی زندگی میں افراط و تفریط کے دھکوں سے بچ جاؤ گے اور صراطِ مستقیم تمہیں میسر آ جائے گی اور آخرت میں اللہ کے غضب اور ا س کی سزا سے بچ جاؤ گے اور اس کی رحمت و مغفرت کے امیدوار بن سکوگے. قرآن کی دعوت کا نکتہ ٔ‘ اوّلین یہ ہے.
’’عبادتِ رب‘‘ کے ضمن میں دوسرے حوالے کے لیے سورۂ نوح کی ابتدائی تین آیات نہایت اہم ہیں ‘کیونکہ رسولوں کی تاریخ حضرت نوح سے شروع ہوتی ہے. ان سے پہلے آنے والے تمام پیغمبر نبی تھے‘ رسول نہیں تھے. پہلے رسول حضرت نوح تھے اور آخری رسول حضرت محمد ﷺ ہیں. آخری رسول کی دعوت یہ ہے:
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾ (البقرۃ:۲۱)
جبکہ پہلے رسول کی دعوت سورۂ نوح کی ابتدائی تین آیات میں بیان ہوئی:
اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖۤ اَنۡ اَنۡذِرۡ قَوۡمَکَ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱﴾قَالَ یٰقَوۡمِ اِنِّیۡ لَکُمۡ نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ۙ﴿۲﴾اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ اتَّقُوۡہُ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ۙ﴿۳﴾ (نوح:۱-۳)
’’یقینا ہم نے نوح ()کو بھیجا تھا اس کی قوم کی جانب (اس ہدایت کے ساتھ) کہ خبردار کر دو اپنی قوم کو اس سے پہلے کہ اُن پر دردناک عذاب ٹوٹ پڑے. اس نے کہا : اے میری قوم! میں یقینا تمہارے لیے ایک واضح طور پر خبردار کرنے والا ہوں. (تم کو آگاہ کرتا ہوں) کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو!‘‘
چنانچہ یہی ’’عبادتِ رب‘‘ پہلے رسول کی دعوت تھی اور یہی آخری رسول کی دعوت ہے. فرق صرف یہ ہے کہ نبی آخر الزمان ‘ﷺ سے پہلے کے تمام رسولوں کی دعوت صرف اپنی قوم کی طرف تھی جبکہ آپؐ ‘کی دعوت پوری نوعِ انسانی کی طرف ہے.لہذا پہلے رسولوں کی دعوت کے ضمن میں الفاظ آتے ہیں : اِنَّا اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ اور وَاِلٰی عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوْدًا اور وَاِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاھُمْ صَالِحًا لیکن محمد رسول اللہﷺ کی بعثت چونکہ پوری نوعِ انسانی کے لیے ہوئی ہے لہذا یہاں لفظ ’’یٰقَوْمِ‘‘ نہیں آیا بلکہ ’’یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ‘‘ آیا ہے: یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾
مکی سورتوں میں سورۃ الاعراف اور سورۃ الشعراء اس اعتبار سے بہت نمایاں ہیں کہ سورۃ الاعراف حجم کے اعتبار سے سب سے بڑی سورۃ ہے جس کے ۲۴ رکوع ہیں جبکہ سورۃ الشعراء تعدادِ آیات کے اعتبار سے سب سے بڑی سورۃ ہے جس کی ۲۲۷ آیات ہیں . ان دونوں سورتوں میں ایک ایک رسول کا تذکرہ ایک ایک رکوع پر محیط ہے. حضرات نوح‘ ہود‘ صالح اور شعیب علیہم السلام کے لیے ایک ایک رکوع ہے. سورۃ الاعراف میں چار مرتبہ یہ الفاظ آئے ہیں : یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ِؕ ؕ چنانچہ نوح علیہ السلام کی دعوت بھی یہی تھی اور ہود‘صالح اور شعیب علیہم السلام کی دعوت بھی یہی تھی. سورۃ الشعراء میں پانچ مرتبہ یہ الفاظ آئے ہیں: فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ﴿۱۰۸﴾ۚ ’’اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو‘‘.
اس سے آگے چل کر تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ازروئے قرآن انسانوں اور جنوں کی تخلیق کی غایت یہی ’’عبادت‘‘ تھی . یہاں دو الفاظ کو علیحدہ علیحدہ سمجھنا نہایت ضروری ہے.ایک ہے غایت تخلیق اور ایک ہے علت تخلیق‘ اور ان دونوں میں فرق ہے. علت تخلیق یہ کہ اللہ نے کیوں پیدا کیا؟ کس وجہ سے پیدا کیا؟ کس لیے پیدا کیا؟ یہ بہت بڑا فلسفیانہ سوال ہو جائے گا اور قرآن مجید فلسفیانہ سوالات سے کھل کر بحث نہیں کرتا. البتہ کس مقصد کے لیے پیدا کیا! یہ غایت ِتخلیق ہے. انسانوں اور جنوں کی غایت تخلیق سورۃ الذاریات میں بایں الفاظ بیان ہوئی ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ
’’میں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر صرف اس لیے کہ میری عبادت کریں.‘‘
اس ضمن میں آخری حوالہ سورۃ البینہ کی پانچویں آیت ہے:
وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۙ حُنَفَآءَ وَ یُقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ذٰلِکَ دِیۡنُ الۡقَیِّمَۃِ ؕ﴿۵﴾
’’اور انہیں نہیں حکم دیا گیا تھا مگر اس کا کہ عبادت کریں صرف اللہ کی‘ اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے اور قائم کریں نماز اور ادا کریں زکوٰۃ‘ اور یہ ہے ہمیشہ کا قائم و دائم دین.‘‘
یہ گویا دین کا خلاصہ ہے. یہی ’’دین قیم‘‘ ہے جو آغاز سے اختتام تک ایک ہی رہے گا. یہ دین حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ایں دم تک بلکہ تاقیامِ قیامت ایک ہی ہے. جیسا کہ سورۃ الشوریٰ میں فرمایا:
شَرَعَ لَـکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِلَـیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖ اِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰی… (آیت ۱۳)
’’اللہ نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا‘ اور جسے (اے محمدؐ ) اب آپ کی طرف ہم نے وحی کے ذریعے بھیجا ہے‘ اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ اور موسٰی ؑ اور عیسٰی ؑ کو دے چکے ہیں…‘‘
چنانچہ دین تو سب کا ایک ہی ہے. قرآن مجید کے یہ حوالے اس لیے دیے گئے ہیں تاکہ یہ نکتہ واضح ہو جائے کہ ایک اصطلاح جو قرآن مجید کی دعوت کے اعتبار سے اوّلین اہمیت کی حامل بھی ہے اور جامع ترین عنوان کی حیثیت بھی رکھتی ہے وہ ہے ’’عبادتِ رب‘‘ یا ’’اللہ کی عبادت‘‘.