اصل میں ہمارے ہاں تصورات کے اندر جو خرابی اور کجی پیدا ہوئی وہ یہ ہے کہ ہم نے ’’عبادت‘‘ اور ’’عبادات‘‘ کو گڈمڈ کر دیا ہے. نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج عبادات ہیں لیکن عبادت فی الاصل کوئی اور شے ہے‘ جبکہ ہمارا تصورِ عبادت صرف انہی چند مراسم عبودیت تک محدودہو کر رہ گیا ہے . یہ ہمارے دینی فکر کی سب سے بڑی اور سب سے بنیادی کجی ہے ؎
خشت اوّل چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج!
یعنی اگر کسی عمارت کی بنیاد ہی ٹیڑھی ہے تو ساری عمارت چاہے آسمان تک بلند ہو‘ جو بھی تعمیر ہو گی وہ ٹیڑھی ہی ہو گی.
عبادت کا لفظ ’’عبد‘‘ سے بنا ہے . عبد کے معنی غلام کے ہیں اور غلام بھی پرانے زمانے کا تصور کیجیے‘ آج کا نہیں‘جب کہ ایک غلام ایک فرد کا مملوک ہوتا تھا‘ اس کی ملکیت ہوتا تھا. آقا اور غلام کی جو نسبت تھی وہ آج نہ ہمارے سامنے موجود ہے اور نہ ہی ہمارے تجربے میں ہے. ہمارے ہاں یہ تو ضرور ہے کہ فلاں قوم حاکم ہے‘ فلاں غلام ہے‘ لیکن اس صورت میں آقا اور غلام کا انفرادی رشتہ نہیں ہوتا. ہاں‘ بحیثیت مجموعی ایک قوم غلام ہو گئی ہے‘ لیکن انفرادی اعتبار سے جو آقا اور غلام میں رشتہ تھا وہ تو موجود نہیں ہوتا. لہذا اس تصور کو سمجھ لیجیے کہ ’’عبد‘‘ ہوتا کیا تھا؟ یعنی غلام کسے کہتے تھے؟
اوّلاً آقا اپنے غلام کا مالک ہوتا تھا. آقا نے اسے اگر رات کو سونے کے لیے کوئی کوٹھڑی دے رکھی ہے یا کوئی چارپائی دے دی ہے تو وہ ان اشیاء کا مالک نہیں ہو جاتا تھا. وہ تو خود مملوک ہے‘ لہذا اس کی ہر شے اس کے مالک کی ہے. جیسے کہ ایک بزرگ صحابی نے حضورﷺ سے اپنے بیٹے کی شکایت کی کہ یہ میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا حالانکہ یہ اچھا بھلا صاحب ِ حیثیت ہے. حضورﷺ نے اس نوجوان صحابی کو گریبان سے پکڑا اور اس کا گریبان اس کے والد کے ہاتھ میں دے کر فرمایا : اَنْتَ وَمَالُکَ لِاَبِیْکَ ’’تو خود اور تیرا مال تیرے باپ کی ملکیت ہے‘‘. یہ انداز بتمام و کمال ایک غلام کا ہوتا تھا جو اپنے آقا کی ملکیت ہوتا تھا. چنانچہ غلام کا کام تھا کہ آقا جو حکم بھی دے اس پر سرتسلیم خم کرنا ہے‘ چاہے اس میں جان ہی چلی جائے.
دوسرے یہ کہ آج کل ہمارا آجر و مستأجر کے باہمی تعلق (Employer- employee relationship) کا تصور بالکل مختلف ہے. اگر آپ نے کسی کو اپنے ہاں خانساماں کی حیثیت سے ملازم رکھا ہے اور آپ اسے کہیں کہ جاؤ میرا غسل خانہ صاف کر آؤ تو وہ صاف جواب دے سکتا ہے کہ جناب یہ میرا کام نہیں‘ آپ نے جس کام کے لیے مجھے رکھا ہے وہ کام لیجیے. لیکن غلام کا یہ کام نہیں تھا کہ وہ کسی وجہ سے انکارکرے. پھر ہمارے ہاں ملازمت کے قواعد و ضوابط میں وقت کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے. آپ گورنمنٹ کے ملازم ہیں تو جو بھی آٹھ گھنٹے دفتر کا وقت ہے اس میں آپ کام کیجیے‘ اس کے بعد آپ فارغ ہیں. آپ کاآفیسر اور باس اس وقت تک آپ کا حاکم ہے جب تک دفتر میں ہے. دفتر سے باہر آنے کے بعد اب وہ بھی عام شہری ہے اور آپ بھی عام شہری ہیں. اس کا بھی الیکشن میں آپ کی طرح ایک ہی ووٹ ہو گا. آپ کا باس اگر آپ سے دفتری اوقات کے بعد بھی کام لینا چاہے تو آپ اسے انکار بھی کر سکتے ہیں کہ میرا وقت ختم ہو گیا ہے‘ میں مزید کام کرنے کوتیار نہیں. لیکن غلام کا یہ کام نہیں‘ وہ تو ہمہ وقت‘ ہمہ تن خادم ہے. اسے جو حکم ملے اس پر اسے عمل کرنا ہے.
عبدیت (غلامی) کے اس تصور کو ذہن میں رکھئے‘ لفظ عبادت اس سے بنا ہے. یعنی ’’عبادت‘‘ کے قریب ترین کوئی لفظ اگر آئے گا تو وہ غلامی کا لفظ آئے گا. تاہم یہ لفظ بھی قریب ترین ہے‘ عبادت کی پوری حقیقت اس میں بھی ادا نہیں ہو رہی. اس کی وضاحت بعد میں ہو جائے گی. چنانچہ قرآنی آیات میں جہاں بھی عبادت کا لفظ آیا ہے وہاں ان کے ترجمے میں غلامی کا لفظ استعمال کیا جانا چاہیے :اعْبُدُوا اللّٰہَ ’’اللہ کی غلامی اختیار کرو‘‘. تب ہی کسی حد تک اس کا مفہوم ادا ہو گا‘ ورنہ عبادت کا ترجمہ جب ہم عبادت ہی رکھ لیتے ہیں تو ذہن میں وہی نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ ہی آئے گا. ’’عبادت‘‘ اور’’عبادات‘‘ کا فرق سورۃ البینہ کی اس آیت سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے:
وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۙ حُنَفَآءَ وَ یُقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ذٰلِکَ دِیۡنُ الۡقَیِّمَۃِ ؕ﴿۵﴾
اس کے درمیان میں یہ جو حرف ’’و‘‘ ہے یہ حرفِ عطف کہلاتا ہے اور عربی نحو کی رو سے عطف دو مختلف اور مغائر چیزوں کو جوڑتا ہے‘ جیسے ’’میں اور وہ‘‘. ظاہر بات ہے ’’میں‘‘ اور ہوں ’’وہ‘‘ اور ہے. معطوف علیہ اور معطوف کے مابین مغائرت لازم ہے ‘لہذا معلوم ہوا کہ وَمَآ اُمِرُوْا اِلاَّ لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَلا حُنَفَآءَ اور شے ہے اور وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ اور شے ہے. اب یہ سمجھ لیجیے کہ ’’عبادت‘‘ اور ’’عبادات‘‘ کے مابین کیا رشتہ اور ربط و تعلق ہے. درحقیقت اس عظیم فریضہ ’’عبادت‘‘ کی ادائیگی کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ عبادات تسہیل اور آسانی کے لیے تجویز کی ہیں کہ ان کے ذریعے اس کی یاد دہانی ہوتی رہے. مبادا تم بھول جاؤ ‘ لہذا دن میں پانچ مرتبہ یاد کر لیا کرو : اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘.حفیظ جالندھری کا بڑا پیارا شعر ہے ؎
سرکشی نے کر دیے دھندلے نقوشِ بندگی
آؤ سجدے میں گریں ‘ لوحِ جبیں تازہ کریں!
نماز اس عہد کو تازہ کرنے کا نام ہے. ازروئے الفاظ قرآنی: اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ ’’نماز قائم کرو میری یاد کے لیے‘‘. روزہ اس لیے دیا گیا تاکہ آپ اپنے حیوانی تقاضوں پر کچھ کنٹرول حاصل کریں اور یہ حیوانی تقاضے آپ سے اللہ کی شریعت کے خلاف کوئی کام نہ کروا لیں. زکوٰۃ اس لیے دے دی گئی کہ قلب کے اوپر مال کی محبت کا تسلط نہ ہو جائے. حج میں ان ساری برکات کو جمع کر دیا گیا. تو یہ ’’تسہیل العبادۃ‘‘ ہے‘ جیسے آپ نے بچپن میں ایک قاعدہ ’’تسہیل الاملا‘‘ لکھا ہو گا. اس قاعدے میں حروفِ تہجی نقطوں (dots) کی صورت میں لکھتے ہوتے تھے‘ ان نقطوں پر قلم پھیرنے سے طالب علم کو لکھنا آ جاتا تھا. یہ تسہیل الاملا تھی. اسی طرح سے تسہیل العبادۃ ہے کہ ان عبادات کے ذریعے فریضہ عبادت کو آسان کر دینا جو کہ بہت مشکل اور بہت کٹھن ہے‘ اس کے تقاضے بڑے گھمبیر ہیں. ان کی آسانی کے لیے فرمایا تم نماز قائم کرو‘ زکوٰۃ ادا کرو‘ روزہ رکھا کرو‘حج کیا کرو‘ اس سے تمہارے اندر عبادت کے لیے کچھ قوت‘ ہمت‘ طاقت اور استقامت پیدا ہو گی.