’’عبادت‘‘ اصل میں کیا ہے؟ عبادت کی حقیقی تعریف میں دو لفظ خاص طور پر جمع ہوں گے : اطاعت +محبت. اس کے لیے بہترین اصطلاحات فارسی کی ہیں‘ یعنی 
بندگی+پرستش. پرستش انتہائی محبت کرنے کو کہتے ہیں. کہا جاتا ہے وطن کا پرستار‘ یعنی وطن سے انتہائی محبت رکھنے والا ‘ وطن کی آن پر اپنی جان پیش کر دینے والا. غلامی کے لیے فارسی لفظ بندگی ہے. اس کی شیخ سعدی رحمہ اللہ نے بہترین تعبیر اس شعر میں کی ہے جو کبھی اکثر و بیشتر مساجد میں لکھا جاتا تھا ؎

زندگی آمد برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی!

ایک ہے بندگی‘ اطاعت‘ غلامی. لیکن ’’عبادت‘محض غلامی نہیں.

یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ محض لفظ اطاعت پر بھی قرآن مجید میں عبادت کا اطلاق ہوا ہے. اس کی بڑی پیاری مثالیں ہیں. جب حضرات موسٰی و ہارون ( علیہما السلام) پہلی مرتبہ فرعون کے دربار میں پیش ہوئے تو فرعون نے پُرجلال انداز میں کہا کہ ان کی یہ جرأت! ہماری محکوم قوم بنی اسرائیل کے دو افراد اس طرح کھڑے ہو کر ہمارے سامنے مطالبہ کر رہے ہیں وَقَوْمَھُمَا لَنَا عَابِدُوْنَ ’’جبکہ ان دونوں کی قوم تو ہماری غلام ہے‘‘. اب یہاں بنی اسرائیل کے لیے لفظ ’’عَابِدُوْنَ‘‘ آیا ہے تو ظاہر بات ہے کہ بنی اسرائیل آل فرعون کی عبادت نہیں کرتے تھے. غلامی تو تھی‘ یہ قوم ان کی محکوم تو تھی‘ ان پر اطاعت لازم تھی‘ لیکن (معاذ اللہ) عبادت نہیں. وہ موحد قوم تھی‘ حضرت ابراہیم کی نسل سے تھی‘ حضرت اسحق اور حضرت یعقوب علیہما السلام کی نسل سے تھی. گویا یہاں اطاعت کے لیے عبادت کا لفظ آیا ہے. اس پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تو فرعون کا قول ہے‘ یہ دلیل نہیں بن سکتا.

لیکن یاد رہے کہ فرعون کے دربار میں حضرت موسٰی نے بھی یہی لفظ استعمال کیا. جب فرعون نے کہا : اَلَمۡ نُرَبِّکَ فِیۡنَا وَلِیۡدًا وَّ لَبِثۡتَ فِیۡنَا مِنۡ عُمُرِکَ سِنِیۡنَ ﴿ۙ۱۸﴾ (الشعراء:۱۸یعنی اے موسٰی ! تم وہی نہیں ہو جو ہمارے ٹکڑوں پر پلے ہو اور ہمارے محل میں تمہاری پرورش ہوئی؟ ہم نے تمہیں پالا جب کہ تم چھوٹے سے تھے اور دریا میں بہتے ہوئے ہمارے پاس آ گئے تھے. اس کے جواب میں حضرت موسٰی  کا جو قول تھا اسے قرآن نقل کر رہا ہے : وَتِلْکَ نِعْمَۃٌ تَمُنُّھَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ﴿ؕ۲۲﴾ یہ جو تم مجھ پر اتنا بڑا احسان جتا رہے ہو اس کی حقیقت یہی ہے ناکہ تم لوگوں نے ایک فرد کو پال لیا ہے جبکہ میری پوری قوم کو غلام بنا کے رکھا ہوا تھا.

متذکرہ بالا آیات میں غلامی اور اطاعت پر بھی محض لفظ عبادت کا اطلاق قرآن مجید میں ہوا ہے‘ لیکن اللہ کی جو عبادت مطلوب ہے وہ محض غلامی اور اطاعت نہیں‘ بلکہ اللہ کی وہ بندگی‘ اطاعت اور غلامی ہے جو کہ اس کی محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر کی جائے. جبری غلامی‘ جبری محکومی اور جبری اطاعت اس طرح کی عبادت قرار نہیں پائے گی جیسی عبادت اللہ کو ہم سے مطلوب ہے‘ جس کا تقاضا کیا جا رہا ہے. چنانچہ امام ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم (رحمۃ اللہ علیہما) جو ان کے اہم ترین شاگردوں میں سے ہیں‘ فلسفی ذہن اور صوفیانہ مزاج رکھنے والے ہیں‘ ان دونوں نے واقعتا ’’عبادت‘‘ کی بہترین تعبیر ان الفاظ میں کی ہے : ’’اَلْعِبــــادۃُ تجـمـع اثنین: غایۃ الحُبِّ مع غایۃ الذُّلِّ والخُضوع‘‘ یعنی ’’عبادت دو چیزوں کو جمع کرنے سے وجود میں آتی ہے : اللہ کی حد درجے محبت اور حد درجے اللہ کے سامنے بچھ جانا‘‘ اللہ کے سامنے ذلت‘ فروتنی اور تواضع اختیار کر لینا. یہ دو چیزیں جمع ہوں گی تو عبادت ہو گی.

اس کے لیے ایک مثال نوٹ کر لیجیے کہ انسانی وجود روح اور جسد کا مرکب ہے. انسان کا ایک جسد ہے جس کا دو اڑھائی من وزن ہے اور یہی ہے جو سب کو نظر آتا ہے. لیکن اس کی اصل حقیقت وہ ہے جسے جان یا روح کہتے ہیں اور جس کا کوئی وزن ہی نہیں. اگر اس جسم سے روح نکل جائے تب بھی اس کا وزن وہی رہے گا ‘ لیکن اس کے بعد بہترین کام یہ ہو گا کہ جلد از جلد اس کو قبر میں اتار دیا جائے‘ ورنہ یہ جسد خاکی متعفن ہوجائے گا‘ بدبو آئے گی‘ آپ اس کے قریب بیٹھ نہیں سکیں گے. جسد اور جان یا روح میں جو رشتہ ہے وہی رشتہ اطاعت اور محبت میں ہے . جسد جو کہ نظر آتا ہے‘ واضح ہے‘ وہ ہے اطاعت‘ لیکن اس کی اصل روح جو اسے ’’عبادت‘‘ بناتی ہے وہ ہے اللہ کی انتہائی محبت. یہ دو چیزیں جب جمع ہوتی ہیں تو پھر عبادتِ رب کا تقاضا پورا ہوتا ہے.

چونکہ میں اپنے دینی فکر کا نچوڑ اور خلاصہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں تو ایک نکتہ اور نوٹ کرتے جایئے. اطاعت اور محبت میں اللہ اور رسول ایک وحدت کی حیثیت رکھتے ہیں. قرآن حکیم میں متعدد بار فرمایا گیا: اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ بلکہ اللہ کی اطاعت ہے ہی رسول کی اطاعت کے ذریعے. جیسا کہ ارشاد ہوا:

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (النساء:۸۰)
’’جس نے رسول کی اطاعت کی‘ اس نے اللہ کی اطاعت کی.‘‘
اور سورۃ النساء ہی میں فرمایا:

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ (آیت ۶۴)
’’ہم نے جو رسو ل بھی بھیجا ‘اسی لیے (بھیجا ہے) کہ اذنِ باری تعالیٰ کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے.‘‘

سورۃ الشعراء میں رسولوں کا اپنی قوموں سے یہ مطالبہ بار بار نقل ہوا ہے: 

فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ 
(آیات ۱۰۸۱۲۶۱۴۴۱۵۰۱۶۳)
’’پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو!‘‘

حضرت نوح ّنے بھی اپنی قوم سے یہی کہا:

اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاتَّقُوْہُ وَاَطِیْعُوْنِ 
’’(میں تمہیں آگاہ کرتا ہوں) کہ اللہ کی عبادت (اس کی بندگی اور پرستش) کرواور اس کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو!‘‘

جیسے اطاعت میں اللہ اور اس کا رسول دونوں جمع ہیں‘ اسی طرح محبت میں بھی اللہ اور اس کا رسول دونوں جمع ہیں. سورۃ التوبۃ کی آیت ۲۴ ملاحظہ کیجیے:

قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُۨ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۴
’’(اے نبیؐ ! ان سے) کہہ دیجئے: (دیکھو لوگو!) اگر تمہارے باپ‘ تمہارے بیٹے‘ تمہارے بھائی‘ تمہاری بیویاں (اور بیویوں کے لیے شوہر) اور تمہارے عزیز و اقارب‘ اور یہ مال جو تم نے بڑی محنت سے جمع کیے ہیں اور تمہارے کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تمہیں اندیشہ ہوتا ہے (کہ کساد بازاری نہ ہو جائے) اور یہ گھر اور کوٹھیاں جو تمہیں بڑی محبوب ہیں اگر (یہ آٹھ چیزیں) تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے محبوب تر ہیں تو انتظار کرو‘ یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ (تمہارے سامنے) لے آئے‘ اور اللہ ایسے فاسقوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا.‘‘

البتہ اللہ کی محبت اوراللہ کی اطاعت مل کر ’’عبادت‘‘ بنتی ہے‘ مگر رسول کی محبت اور اطاعت مل کر عبادت نہیں بنتی (معاذ اللہ). اس کا نام اتباع ہے. فرمایا:

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ… (آل عمران:۳۱)
’’(اے نبیؐ )ان سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو‘ اللہ تم سے محبت کرے گا…‘‘