اگلا نکتہ یہ ہے کہ یہ اطاعت جو جسد ہے‘ جو عبادت کا اصل ظاہر ہونے والا جزو ہے‘ اس کے بارے میں اہم ترین بات یہ ہے کہ اطاعت نام ہے صرف کلی اطاعت کا‘ نہ کہ جزوی اطاعت کا. جزوی اطاعت اللہ کو قبول نہیں‘ وہ اسے منہ پر دے مارتا ہے . اللہ غنی ہے ‘ محتاج نہیں. فقیر تو کہتا ہے روپیہ ڈال دو تب بھی ٹھیک ہے‘ چار آنے ڈال دو تب بھی ٹھیک ہے‘ لیکن غنی کا معاملہ یہ نہیں ہوتا. اللہ تو الغنی اور الحمید ہے. اس کی طرف سے تو بات سیدھی سیدھی سی ہے کہ دین پر چلنا ہے تو پورے دین پر چلو‘ ورنہ دفع ہو جاؤ‘ ہمیں تمہاری جزوی اطاعت کی کوئی ضرورت نہیں. اس کو مثبت طور پر بھی کہا گیا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ (البقرۃ:۲۰۸)
’’اے اہل ایمان! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ!‘‘

یہاں ۳۳ فیصد نمبروں سے پاس شمار نہیں ہو گے. اپنی مکمل شخصیت اور مکمل نظام زندگی کے ساتھ اجتماعی اور انفرادی طور پر اللہ کی اطاعت میں داخل ہو جاؤ.اور یہ چیز منفی انداز میں بھی قرآن میں آتی ہے اور اس ضمن میں سورۃ البقرۃ کی آیت ۸۵ بہت اہم ہے. اس مقام پر جو تذکرہ ہو رہا ہے وہ اگرچہ بنی اسرائیل کا ہے‘ لیکن یہ جان لیجیے کہ مختلف اقوام اور افراد کے معاملے میں اللہ کا قانون تبدیل نہیں ہوا کرتا. اللہ کا قانون اٹل ہے. ازروئے الفاظ قرآنی:

فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ۬ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحۡوِیۡلًا ﴿۴۳﴾ (فاطر:۴۳)
’’پس تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے‘ اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقررہ راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے.‘‘

وہاں فرمایا گیا ہے:

اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۵﴾ (البقرۃ:۸۵)
’’تو کیا تم کتاب (اورشریعت) کے ایک حصے کو تو مانتے ہو اور ایک کو رد کرتے ہو؟ تو جو لوگ بھی تم میں سے یہ طرزِ عمل اختیار کریں گے ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں وہ ذلیل و خوار کر دیے جائیں اور قیامت کے دن شدید ترین عذاب میں جھونک دیے جائیں ‘اور اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے جو تم کرتے ہو.‘‘

جزوی اطاعت کی حقیقت کے اعتبار سے یہ قرآن حکیم کی اہم ترین آیت ہے. یہاں ایسا طرزِ عمل اختیار کرنے والوں کے لیے ’’اَشَدَّ الْعَذَابِ‘‘ (شدید ترین عذاب) کا تذکرہ ہے. اللہ کی جزوی اطاعت کرنے والوں کا حشر کفار سے بدتر ہو گا. یہی وجہ ہے کہ منافقین کے بارے میں فرمایا گیا:

اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِی الدَّرۡکِ الۡاَسۡفَلِ مِنَ النَّارِ (النساء:۱۴۵)
’’منافق آگ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے.‘‘

یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان سے کہا گیا ہے:

لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۲﴾کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۳﴾ (الصف:۲،۳’’کیوں کہتے ہو وہ جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے غضب کو بھڑکانے اور اس میں بیزاری پیدا کرنے والی ہے یہ بات کہ تم وہ بات کہو جو کرتے نہیں.‘‘

اللہ تعالیٰ کو تو پوری اطاعت چاہیے‘ اسے جزوی اطاعت قبول نہیں. ایسی اطاعت مردود ہے‘ لوٹا دی جاتی ہے‘ منہ پر مار دی جاتی ہے. یہ نکتہ اگر پورے طور پرآپ کے ذہن نشین ہو جائے تو میری اگلی بات کا منطقی ربط آپ کی سمجھ میں آ جائے گا.