اسی میں درحقیقت ایک بہت بڑے سوال کا جواب ہمیں ملتا ہے اور وہ یہ کہ آج ہم دنیا میں ذلیل و خوار ہیں‘ جبکہ کفار کا غلبہ ہے ؎

رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر!

تو کیا اللہ کو کفر پسند ہے اورا سلام اور ایمان ناپسند ہے؟ ہم دل میں سوچتے ہیں کہ ہم کم سے کم اللہ کو مانتے تو ہیں‘ نمازیں بھی پڑھ لیتے ہیں‘ ہمارے بیس بیس‘ تیس تیس لاکھ افراد جا کر حج بھی کرتے ہیں‘ پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے لیے عزت نام کی کوئی شے نہیں ہے‘ دنیا میں ہمارا کوئی وقار اور کوئی حیثیت نہیں ہے. ع ’’کس نمی پرسد کہ بھیا کیستی!‘‘کسی بھی بین الاقوامی مسئلے میں ہماری تو رائے بھی کوئی نہیں پوچھتا. وہ تو 
G-7‘ G-8‘ یا G-15 ہیں جن کے مشورے اور فیصلے چلتے ہیں. کوئی مسلمان ملک نہ G-7 میں ہے نہ G-15 میں. گویا نہ تین میں نہ تیرہ میں‘ کہیں بھی نہیں.یو این اوکے مستقل ممبران ‘جن کے پاس ویٹو پاور ہے ان میں کسی مسلمان ملک کے آنے کا کوئی امکان نہیں. اب بھی اگرکوئی نیا ملک آئے گا تو بھارت آئے گا‘ پاکستان کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا. یہ کیوں ہے؟ ؎

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی‘ٔ فرشتہ ہماری جناب میں!

یہ بہت اہم سوال ہے‘ اگر آپ نے نہیں سوچا تو یہ آپ کی غفلت ہے. یہ قابل غور بات ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں‘ دنیا میں ہماری کیا حیثیت ہے. اب اگر قیامت ٹوٹ رہی ہے تو کشمیر میں مسلمانوں پر ٹوٹ رہی ہے‘ اس سے پہلے چیچنیا کا تہس نہس کر کے رکھ دیا گیا‘ کوسوو کا جو معاملہ ہوا ہے‘ بوسنیا میں جو کچھ ہوا ہے‘ ابھی فلپائن کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے‘ یہ سب کیوں ہے؟ نائیجیریا میں کیا کچھ نہیں ہوا؟ وہاں ایک صوبہ شریعت اسلامی نافذ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے اور عیسائیوں کے ہاتھوں ہزاروں مسلمان قتل ہو جاتے ہیں. یہی معاملہ انڈونیشیا کے اندر ہو رہا ہے. اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا اللہ کو کفر سے محبت اور اسلام سے دشمنی ہے؟ یا پھراللہ عاجز اور لاچار ہے کہ وہ مسلمانوں کی مدد کرنا تو چاہتا ہے لیکن نہیں کر سکتا؟ دونوں میں سے کسی بات کا جواب آپ ’’ہاں‘‘ میں نہیں دے سکتے. انہی دونوں چیزوں کو اقبال نے بڑی خوبصورتی سے جمع کیا ہے ؎

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات!

اے اللہ تُو قادر ہے‘ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٌ ہے اور عادل بھی ہے.پھر دنیا میں بے انصافی کیوں ہو رہی ہے؟ سرمایہ دار مزدور کا خون نچوڑ کر اس سے شراب کشید کر رہا ہے‘ پھر اسے شام کو بیٹہ کر پیتا ہے. بندۂ مزدور کے اوقات واقعتا بہت تلخ ہیں. اے اللہ! تو قادر بھی ہے‘ عادل بھی ہے‘ اسلام کو پسند کرتا ہے‘ کفر کو ناپسند کرتا ہے‘ پھر بھی ایسا سلوک کیوں ہے کہ تیرے نام لیوا ذلیل و خوار ہیں؟ اس کا جواب سورۃ البقرۃ کی آیت ۸۵ میں دے دیا گیا ہے جس کا ہم نے ابھی مطالعہ کیا:

فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلاَّ خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ۚ
جو کوئی بھی مسلمان قوم اور مسلمان اُمت میں یہ طرزِ عمل اختیار کرے (کہ وہ دین کو جزوی طور پر اختیارکرے‘ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی) اُس کی سزا اس کے سوا کچھ نہیں کہ دنیا کی زندگی میں ان پر ذلت و رسوائی اور خواری مسلط کر دی جائے. یہ تو بہرحال ہم بھگت رہے ہیں‘ لیکن آخرت کا معاملہ اس سے شدید تر ہے :

وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰی اَشَدِّ الْعَذَابِ ؕ
’’اور قیامت کے دن انہیں شدید ترین عذاب میں جھونک دیا جائے گا.‘‘

اگر آپ کو یہ نکتہ سمجھ میں نہیں آیا تو میری بات اور میرے دینی فکر کی اساس ہی آپ کے پلے نہیں پڑی‘ چاہے آپ نے میرے بہت سے دروس اور بہت سی تقریریں سنی ہوں. یہ میرے فکر کا اساسی نکتہ ہے.

اس پس منظر میں جائزہ لیجیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہماری اطاعت اس وقت کلی ہے یا جزوی؟ اوّل تو یہ کہ پوری دنیا میں کوئی ایک ملک بھی ہم ایسا نہیں دکھا سکتے جہاں ہم نے اسلام کا عدل و قسط پر مبنی نظام قائم کیا ہو. سعودی عرب میں نماز‘ روزہ‘ حج‘ عمرے سب کچھ ہے ‘لیکن کیا اللہ کا دین قائم ہے؟ کیا بادشاہت کا نظام اور ملکی دولت کے اوپر ایک خاندان کا قبضہ اور ارب ہا ارب ڈالر کا ایک ایک محل بنانا اسلام ہے؟ اگر یہ اسلام ہے تو پھر اس کی نوع انسانی کو کوئی ضرورت نہیں. اس اسلام کو تو نوعِ انسانی بہت عرصے پہلے ترک کر چکی ہے.