یہ تو پوری امت کا مسئلہ ہے‘ لیکن ابھی آپ انفرادی معاملے پر آیئے. ہمارے ہاں ۹۹ء۹۹ فیصد آبادی وہ ہے کہ شریعت کے اوپر جتنا عمل کیا جا سکتا ہے وہ بھی نہیں کرتی. ہر ایک نے کسی نہ کسی حرام شے کو اپنے لیے حلال ٹھہرا رکھا ہے اور اسے بامر مجبوری کا نام دے رکھا ہے کہ کیا کریں جی سود کے بغیر تو کاروبار نہیں ہو سکتا! سرکاری ملازم کا رشوت کے بغیر کیسے گزارہ ہو سکتا ہے! کاروباری آدمی کہے گا کہ حساب کتاب صحیح رکھ کر ہمیں تو اپنی دکان بند کرنا پڑے گی. ہر ایک نے کوئی نہ کوئی حرام شے اختیار کی ہوئی ہے. باقی یہ کہ نمازیں‘ روزے‘ عمرے اور حج بھی ہیں. پردے کا تو خیر رواج ہی نہیں رہا. اعشاریہ صفر ایک فیصد لوگ ایسے ہوں گے یا ہو سکتے ہیں کہ وہ جتنے اسلام پر عمل کر سکتے ہیں اس پر کر رہے ہیں. وہ نماز پڑھ رہے ہیں‘ روزہ رکھ رہے ہیں‘ شراب نہیں پی رہے‘ سودی لین دین میں براہِ راست ملوث نہیں ہیں‘ انہوں نے سود پر سرمایہ لے کر کوئی کاروبار نہیں کیا‘ سود پر قرض لے کر مکان نہیں بنایا‘ کہیں بینک میں پیسہ رکھ کر سود نہیں کھا رہے. الغرض جتنا عمل ہو سکتا ہے وہ کر رہے ہیں. ایسے لوگ کتنے ہوں گے؟ لیکن ان کے حوالے سے بھی غور کیجیے کہ شریعت کے اجتماعی احکام پر وہ بھی عمل پیرا نہیں ہو سکتے. کیا یہ شریعت کا حکم نہیں ہے کہ زانی کو سو کوڑے مارو اور چور کے ہاتھ کاٹ دو؟ کیا یہ اس معاشرے کے رکن نہیں ہیں؟ اس ریاست کے شہری نہیں ہیں؟ کیااس اجتماعی نظام کی کوئی ذمہ داری ان پر نہیں آتی؟ کیا یہ اس کے لیے ذمہ دار نہیں ہیں؟

کہاں ہے یہ قرآنی حکم کہ : وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَھُمَا ؟کہاں ہے شادی شدہ زانی کی سنگساری؟ کہاں ہیں وہ کوڑے جو زنا پر برسرعام لگائے جائیں تاکہ لوگ اپنی نگاہوں سے دیکھیں؟ معاشی نظام پورے کا پورا سود پر مبنی ہے. میں بھی اور آپ بھی سود کو inhale کر رہے ہیں. حدیث کے اندر تو صاف آیا ہے کہ ایک وقت آ جائے گا کہ ایک شخص چاہے براہِ راست سود نہ کھائے‘ لیکن اس کا غبار اور دھواں اس کے اندر ضرور جائے گا. بڑی پیاری تشبیہہ ہے. اگر فضا میں دھواں ہے تو آپ کیا ناک بند کر لیں گے کہ دھواں اندر نہ جانے پائے؟ جینے کے لیے سانس تو لینا ہے‘ دھواں بہرحال اندر جائے گا. گرمیوں میں بعض اوقات dust suspension ہو جاتا ہے تو کیا ناک بند کر لیں گے کہ میں تو dust کو اندر نہیں لے جانا چاہتا؟جینے کے لیے سانس لینا پڑے گا. سانس لیں گے تو dust اندر جائے گا. حدیث میں الفاظ آئے ہیں کہ سود کا ’’دخان‘‘ اور ’’غبار‘‘ تو لازماً اندر جائے گا. اللہ کا شکر ہے کہ پوری انفرادی زندگی میں سود میں براہِ راست ملوث ہونے کا معاملہ نہیں ہے‘ لیکن یہ غبار تو جا رہا ہے. گندم کے ہر دانے کے ساتھ سود اندر جا رہا ہے.

غور کیجیے‘ یہ میں کن کی بات بتا رہا ہوں؟ ان کی جو باقی شریعت پر سو فیصد عمل پیرا ہیں. فرض کیجیے کہ انہوں نے گھر میں شرعی پردہ بھی نافذ کر رکھا ہے تو اس کے کیا کہنے‘ یہ بہت بڑا جہاد ہے. ان کی پوری شرعی داڑھی ہے‘ لباس شرعی ہے‘ ہر اعتبار سے زندگی شریعت کے مطابق ہے‘ لیکن جو اس اجتماعی نظام کے تابع ہیں اس کے اعتبار سے تو وہ کفر ہی کا حصہ ہیں کہ وہ اس کفر کے نظام کے اندر سانس لے رہے ہیں‘ اس کے اندر جی رہے ہیں. یہ صورت حال آپ کے لیے اور میرے لیے لمحۂ فکریہ ہے. جان لیجیے ہماری اطاعت جزوی ہے. خاص طور پر جو لوگ بڑے شوق سے جا کر امریکہ میں آباد ہو گئے انہیں تو وہاں کے عائلی قوانین کو قبول کر کے آباد ہونا ہے. یہاں ہم اپنے شرعی عائلی قوانین پر تو چل رہے ہیں. یہاں ہمارے عائلی قوانین میں بھی گڑبڑ کی گئی تھی تاہم ان ترمیمات پر زیادہ عمل نہیں ہو رہا ہے. ہم سے کہیں بہتر بھارت کے مسلمان ہیں جنہوں نے اپنے عائلی قوانین میں ہندو اکثریت کو اب تک دخل نہیں دینے دیا.

میں بھارتی مسلمانوں کو سلام کرتا ہوں. امریکہ میں رہنے والے مسلمان کا شرعی قوانین پر بھارتی مسلمان سے بھی کم عمل ہے. بھارتی مسلمان ابھی تک اپنے عائلی قوانین پر قائم ہے. امریکہ میں تو ظاہر بات ہے کہ شادی ‘ طلاق اور وراثت کے قوانین میں آپ کا کوئی عمل دخل نہیں. جب میں نے یہ بات امریکہ میں کہی تو ایک صاحب بڑے دھڑلے سے کہنے لگے کہ اب یہاں ’’Will‘‘ (وصیت) ہو سکتی ہے. میں نے کہا یہ خود خلافِ شریعت ہے. وصیت تو ایک تہائی سے زیادہ میں ہو ہی نہیں سکتی. لہذا اگر آپ نے will کر دی ہے تو وہ بھی شریعت کے خلاف ہے‘ شریعت پر عمل پیرا ہونا تو ممکن ہی نہیں ہے. بہرحال یہ ایک گھمبیر مسئلہ ہے. ایک طرف صورت وہ ہے کہ فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلاَّ خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاٌ ۚ وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰی اَشَدِّ الْعَذَابِ ؕ اور دوسری طرف یہ بیڑیاں ہیں جو ہمارے پاؤں میں پڑی ہوئی ہیں.