اس وقت میرے ذہن میں وہ حدیث آ رہی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ فتنے سے نکلنے کا راستہ 
مَخرَج کیا ہے! بڑی مشہور حدیث ہے جو ہم نے بڑی عام کی ہے. قرآن مجید کی مدح میں حضرت علی ؓسے مروی حدیث آتی ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 

اَلَا اِنَّھَا سَتَکُوْنُ فِتْنَۃٌ
’’آگاہ رہو عنقریب ایک بہت بڑا فتنہ رونما ہو گا.‘‘ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں ‘میں نے پوچھا:

مَا الْمَخْرَجُ مِنْھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟
’’اللہ کے رسول ! اس سے نکلنے کا راستہ کون سا ہے؟‘‘

امام طبرانی کی معجم کبیر میں یہ روایت اور انداز سے آئی ہے کہ جبرائیل ؑ نے 

حضور سے پوچھا:

یَا مُحَمَّد!اُمَّتُکَ بَعْدَکَ؟
یعنی ــ’’اے محمد !کبھی سوچا ہے کہ آپؐ کی امت کا آپ ؐ کے بعد کون والی وارث ہوگا؟‘‘

قَالَ رَسُوْلُ اللہِ :مَا الْمَخْرَجُ یَا جِبْرَائِیلْ؟ 
’’حضور پوچھتے ہیں کہ اےجبرائیل!(سوال تو واقعی بہت اہم ہے)تم ہی بتاؤ اس سے نکلنے کا راستہ کون سا ہے؟‘‘انھوں نے فرمایا:

کِتَابُ اللّٰہِ‘ فِیْہِ خَبَرُ مَا قَبْلَکُم و نَـبَأُ مَا بَعْدَکُمْ ‘وَحُکْمُ مَا بَیْنَکُمْ‘وَھُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِیْمُ‘ وَھُوَ الذِّکْرُ الْحَکِیْمُ ‘وَھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ
’’اللہ کی کتاب. اس میں تم سے پہلوں کے حالات بھی ہیں، تم سے بعد کی خبریں بھی ہیں اور تمھارے جھگڑوں کا فیصلہ بھی یہی ہے. یہی صراط مستقیم ہے، یہ پرحکمت بیان ہے اور یہی اللہ کی مضبوط رسی ہے.‘‘ 

یہ بڑی طویل اور پیاری حدیث ہے. بہرحال میں نے یہ اس لیے بتایا کہ اس گھمبیر صورت حال سے نکلنے کا کیا مخرج (exit) ہے. بڑے بڑے ہالوں میں سرخ Exit لکھا ہوتا ہے کہ اگر کوئی آگ لگ جائے‘ بم دھماکہ ہو جائے تو اس Exit کی طرف بھاگو. تو ہمارے لیے مخرج (Exit) کیا ہے؟

(۱) اس وقت کے حالات میں جتنے اسلام پر عمل کرنا قانوناً ممکن ہے‘ لازماً کیا جائے ‘مشکل اگرچہ کتنا ہی ہو. مشکل اور ناممکن میں فرق ہے. چور کا ہاتھ کاٹنا میرے لیے ناممکن ہے‘ زانی کو سنگسار کرنا میرے لیے ناممکن ہے‘ لیکن گھر میں شرعی پردہ نافذ کر لینا میرے لیے ممکن ہے‘ مشکل ضرور ہے. یہاں بے پردگی کا کوئی قانون آج تک نہیں بنا‘ کوئی مصطفی کمال پاشا یہاں نہیں آیا اور (ان شاء اللہ) ہرگز نہیں آ سکتا جو خواتین کا برقع زبردستی اتروا دے. جس کسی نے برقع اتارا ہے اس نے خود اتارا ہے اور خود بے پردگی اختیار کی ہے. پہلی بات تو یہ ہے کہ آدمی جتنے دین پر عمل کر سکتا ہو پہلے وہ اس پر تو عمل کرے. وہ ۰۱ء۰فیصد پر تو آ جائے. چاہے مشکل ہو‘ چاہے اس میں بھوک آ جائے‘ چاہے تکلیف آ جائے‘ چاہے بائیکاٹ ہو جائے. آپ شرعی پردہ نافذ کریں گے ‘آپ کا سوشل بائیکاٹ ہو جائے گا. کچھ بھی ہو جائے‘ ہرچہ بادا باد‘ شریعت کے حکم پر جتنا عمل کر سکتے ہیں وہ تو پورا کریں.

(۲) ایک اہم بات یہ ہے کہ اس اجتماعی نظام کو جس کی وجہ سے آپ مکمل شریعت پر عمل نہیں کر سکتے اسے ذہناً قبول کر یں نہ قلباً.

Don't accept it! don't reconcile with it!
(۳) اس کی چاکری اور غلامی نہ کریں ‘نہ اسے promote کریں ‘نہ اس کے تحت پھلنے پھولنے اور پھیلنے کی کوشش کریں کہ جائیداد زیادہ ہو جائے‘ کاروبار میں اضافہ ہو جائے‘ بلڈنگز زیادہ ہو جائیں.

یہ میں نے تین منفی پہلو بیان کیے ہیں. یہ بات بہت اہم ہے کہ اسے ذہناً تسلیم نہ کریں. گویا کہ اس کے اندر under protest رہیں‘ کم از کم passive resistance تو ہو کہ اسے ذہناً اور قلباً تسلیم نہیں کیا‘ اس کی چاکری کرنے کو تیار نہیں. میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جس وقت ہندوستان میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دعوت اٹھی تو اپنے ابتدائی دور میں وہ دعوت صد فیصد اسلامی تھی‘ اور اس کی بنیاد پر ان پر بغاوت کا مقدمہ چل سکتا تھا. انگریز کا دور تھا‘ لیکن انہوں نے واضح طور پر کہا کہ فوج کی ملازمت حرام ہے‘ آپ انگریز کی فوج میں جاتے ہیں تو گویا آپ اسے تقویت دے رہے ہیں. ہمارے ہی مسلمان فوجیوں نے جا کر پہلی جنگ عظیم میں جنرل ایلن بی کو یروشلم کا قبضہ لے کر دیا تھا. ہمارے یہ فوجی جہلم اور راولپنڈی کے علاقے کے تھے. یہی لوگ تھے جنہوں نے خانہ کعبہ پر بھی گولیاں چلائی تھیں. مولانا مودودیؒ کا فتویٰ تھا کہ یہ ملازمت حرام ہے. اسی طرح سرکاری ملازمت بھی حرام ہے‘ خاص طور پر عدلیہ سے متعلق ملازمت کسی طور پر جائز نہیں.

آپ عدالت کے اندر وکیل کی حیثیت سے پیش ہو رہے ہیں اور اس قانون کے تحت مقدمہ لڑ رہے ہیں جو اللہ کا قانون نہیں ہے‘ کسی اور کا ہے. اور غضب خدا کا کہ اس عدالت کی کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں جہاں اللہ کے قانون کی بجائے انگریز کے قانون کے مطابق فیصلہ دینا ہے. جبکہ اللہ کاتو حکم ہے: وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ (المائدۃ:۴۴’’اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ (احکام) کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں‘‘. انگریز کے دور میں ایسی مثالیں موجود تھیں کہ نماز روزہ بھی ہے‘ تہجد بھی ہے‘تسبیحات بھی ہیں اور حج بھی ہے‘ اور ان سب کے ساتھ ساتھ انگریز کی عدالت میں جج بھی ہیں. اس وقت مولانا مودودیؒ کا یہ بات کہنا بڑی ہمت و جرأت کا کام تھا. وہ تو یہ کہ انگریز یہاں سے اپنا بوریا بستر لپیٹ رہا تھا‘ لہذا اس نے اسے نظر انداز کیا‘ ورنہ اس بات کو کون برداشت کر سکتا ہے؟ انہوں نے زیادہ سے زیادہ یہ اجازت دی تھی کہ پبلک یوٹیلٹی کے محکمے مثلاً محکمہ ڈاک‘ ریلوے وغیرہ ‘یعنی جن سے عوام کے کام اور سہولتیں وابستہ ہیں ان کی ملازمت تو اختیار کی جا سکتی ہے لیکن وہ محکمے جو حکومت کی گاڑی کو چلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں اور وہ محکمے جو حکومت کی اس گاڑی کے اندر جتے ہوئے ہیں‘ اس بگھی کو آگے لے کر دوڑ رہے ہیں‘ ان محکموں میں ملازمت اختیار کرنا نظامِ باطل کو support کرنا ہے‘ جو سراسر حرام ہے.

اس بات کو میں نے منفی پہلو (negative aspect) قرار دیا ہے تو سمجھ لیجیے کہ یہ دراصل کفارہ ہے. اگر میں ایسے نظام کے تحت زندہ رہنے پر مجبور ہوں جہاں حق کا بول بالا نہیں ہے‘ پورا نظام حق کے تابع نہیں ہے‘ اجتماعی زندگی میں اللہ کی اطاعت نہیں ہے تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میں کہاں جاؤں؟ امریکہ چلا جاؤں‘ لیکن وہاں تو یہاں سے زیادہ کفر ہے . سعودی عرب میں مجھے بسنے ہی نہیں دیں گے اور وہاں میں نے حکومتِ الٰہیہ کا نام لے لیا تو میرے وجود کا نام و نشان نہیں ملے گا. ہم مجبور ہیں‘ لہذا اس کا کوئی کفارہ ہونا چاہیے. کفارہ کسے کہتے ہیں؟ کفر (ک ف ر ) کا اصل مفہوم کسی چیز کا چھپا دینا ہے. اس کا ایک معنی ناشکری کرنا بھی ہے. اس لیے کہ کسی نے آپ کے ساتھ احسان کیا ہے تو آپ کے دل سے اس کے لیے احسان مندی کے جذبات کا فوارہ ابلنا چاہیے. اگر آپ نے اس کو دبا لیا تو یہ کفر کہلائے گا‘ یعنی کفرانِ نعمت.شکرکے مقابلے میں کفر آتا ہے. ’’کفار‘‘ کا لفظ قرآن مجید میں کاشت کار کے لیے بھی آتا ہے:

کَمَثَلِ غَیۡثٍ اَعۡجَبَ الۡکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیۡجُ فَتَرٰىہُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ یَکُوۡنُ حُطَامًا (الحدید:۲۰)

اس لیے کہ وہ بیج کو زمین میں دباتا ہے تو اس سے پودا نکلتا ہے. کفارہ یہ ہوتا ہے کہ آپ سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا ہے تو اس کے اثرات کو زائل کرنے اور دھونے کے لیے کوئی عمل کیا جائے. اب یہ گناہ کہ میں نظام باطل میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوں‘ میری پوری اجتماعی زندگی اس نظام سے متعلق ہے اور وہ نظام کفر پر مبنی ہے‘ میں انفرادی زندگی کے اعتبار سے فرض کیجیے ۰۱ء۰ فیصد میں بھی آ گیا ہوں کہ میر ے لیے جتنے بھی شرعی احکام پر عمل ممکن تھا وہ میں کر رہا ہوں‘ تب بھی حال یہ ہے کہ میری پوری اجتماعی زندگی تو کفر کے تابع ہے‘ تو اس کا مخرج اور کفارہ کیا ہے؟ یہی کفارہ میں نے آپ کو بتایا ہے کہ اس نظام کو ذہناً و قلباً تسلیم نہ کیا جائے‘ اس کے ساتھ reconcile نہ کیا جائے. یہی منفی انداز آیت الکرسی کے بعد آنے والی آیت میں اختیار کیا گیا ہے:

فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہَا (البقرۃ:۲۵۶)
’’جو کفر کرے طاغوت کا اور ایمان لائے اللہ پر وہ ہے کہ جس نے مضبوط کنڈے پر ہاتھ ڈال لیا ہے اور یہ کنڈا اپنی جگہ چھوڑنے والا نہیں ہے.‘‘

لہذا اسے مضبوطی سے تھامے رکھو! اس نظام کو promote نہ کیا جائے. اس کی چاکری ‘ اس کی خدمت نہ کی جائے‘ بلکہ اس سے انحراف کیا جائے.اس کے تحت پھلنے پھولنے اور پھیلنے کی کوشش نہ کی جائے‘ بلکہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی کم سے کم لازمی بنیادی ضروریات کے لیے جتنا وقت اور جتنی صلاحیت اور محنت کی ضرورت ہے اس کو ایک طرف کرتے ہوئے باقی پوری محنت و صلاحیت اور تمام اوقات اس نظام کے خلاف جدوجہد میں لگا دیے جائیں. باطل نظام کے تحت مجبوراً زندگی گزارنے والا انسان اگر اس نظام کو بیخ وبُن سے اکھاڑنے اور نظامِ حق کو غالب کرنے کے لیے جدوجہد کرے گا تو یہ اس کے لیے کفارہ ہوتا چلا جائے گا. گویا اگرچہ گندگی اندر جا رہی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ دھل بھی رہی ہے. اس جدوجہد میں مصروف انسان اللہ کا شکر ادا کرے کہ میں نے جو سانس لیا تھا اس کے ساتھ اگرچہ سود بھی اندر گیا تھا لیکن اس کے ساتھ جو آکسیجن آئی تھی اس نے مجھے توانائی بخشی تھی‘ اس توانائی کا اکثر حصہ میں نے اس نظام کو ختم کرنے کے لیے لگا دیا ہے‘ لہذا میں پاک ہو گیا ہوں‘ یہ اس کا کفارہ ہے.

دیکھئے مثبت اور منفی دو چیزیں آ گئیں کہ اس نظام کو ذہناً تسلیم نہ کرے‘ اس کی چاکری نہ کرے اور اسے درہم برہم کرنے کی جدوجہد کرے. نظام باطل کی چاکری کرنے والوں کو یہ حدیث پیش نظر رکھنی چاہیے. رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ مَشٰی مَعَ فَاسِق لِقُوِّیَہٗ فَقَدْ اَعَانَ عَلٰی ھَدْمِ الْاِسْلَامِ 
’’جو شخص کسی فاسق کے ساتھ اسے تقویت پہنچانے کے لئے چلا‘اس نے اسلام کی جڑیں کھودنے میں مدد کی.‘‘

اگر حال یہ ہو کہ نظام باطل کی سروس ہو رہی ہے‘ اور اس کے حوالے سے طرے پر طرے چڑھائے جا رہے ہیں‘ خطابات لیے جا رہے ہیں‘ نظامِ باطل کی محافظ پولیس اور فوج میں سروس ہو رہی ہے تو اس کے ساتھ اسلام کا کیا سوال؟

مثبت بات یہ ہے کہ اپنے تن من دھن کا کم سے کم حصہ اپنے لیے اور اپنے اہل و عیال کے لیے رکھا جائے‘ باقی سارے کا سارا اس نظام کو uproot کر کے اس کی جگہ پر نظامِ دین حق کو قائم کرنے کے لیے صرف کر دیا جائے. بصورت دیگر ‘ایک حدیث سن لیجیے .فرض کیجیے کوئی شخص ۰۱ء۰ فیصد میں آ گیا ہے‘ یعنی شریعت کے تمام احکام پر کاربند ہے‘ نماز ‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ پر عمل پیرا ہے ‘ حرام خورد و نوش کے قریب نہیں جاتا‘ براہ راست سود میں ملوث نہیں ہے اور اسی طرح اس کے گھر میں شرعی پردہ بھی رائج ہے‘ لیکن وہ inactive ہے‘ باطل کے خلاف فعال نہیں ہے ‘ activist نہیں ہے تو اس کے لیے اس حدیث نبویؐ میں بہت سارا سامانِ عبرت موجود ہے:

اَوْحَی اللّٰہُ عَزَّوَجَلَ اِلٰی جِبْرِِیْلَؑ اَنِ اقْلِبْ مَدِیْنَۃَ کَذَا وَکَذَا بِاَھْلِھَا ‘ قَالَ فَقَالَ: یَا رَبِّ اِنَّ فِیْھِمْ عَبْدَکَ فُلَانًا لَمْ یَعْصِکَ طَرْفَۃَ عَیْنٍ ‘ قَالَ: فَقَالَ: اِقْلِبْھَا عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ‘ فَاِنَّ وَجْھَہٗ لَمْ یَتَمَعَّرْ فِیَّ سَاعَۃً قَطُّ
’’اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو وحی کے ذریعے سے حکم دیا کہ فلاں فلاں شہروں کو اس کے رہنے والوں پر الٹ دو (تلپٹ کر دو‘ جیسے کہ سدوم اور عامورہ کی بستیوں کے ساتھ کیا گیا‘ جہاں حضرت لوط  کو بھیجا گیا تھا). اس پر جبرائیل ؑنے عرض کیا : اے رب! ان لوگوں میں تو تیرا فلاں بندہ بھی ہے جس نے کبھی پلک جھپکنے جتنی دیر بھی تیری معصیت میں بسر نہیں کی. حضور فرماتے ہیں اس پر اللہ نے فرمایا : الٹو اس بستی کو پہلے اس بدبخت پر‘ پھر دوسروں پر‘ اس لیے کہ (وہ اتنا بے غیرت اور بے حمیت انسان ہے کہ) میری وجہ سے کبھی اس کے چہرے کی رنگت تک نہیں بدلی.‘‘

اسے اس بات پر کبھی غصہ بھی نہیں آیا کہ اللہ کی شریعت کے ساتھ کیا معاملہ ہو رہا ہے. اندازہ کیجیے اس حدیث میں جس بندے کا ذکر ہو رہاہے یہ وہ شخص ہے جو ۰۱ء۰ فیصد میں سے ہے‘ جس کا پلک جھپکنے جتنا وقت بھی کبھی گناہ میں بسر نہیں ہوا. اس سے زیادہ پاک صاف‘ نیک‘ زاہد اور عابد کا آپ تصور کر سکتے ہیں؟ یہاں گواہی دینے والے حضرت جبرائیل ؑ ہیں‘ کوئی کرائے کا وکیل نہیں ہے‘ اور یہ کہ گواہی بھی اللہ کے سامنے دی جا رہی ہے جہاں ابوجہل بھی جھوٹ نہیں بول سکے گا. یہ زاہد و عابد آدمی ایسا بے غیرت ہے کہ کیا مجال اس کو کبھی غصہ آیا ہو کہ اللہ کی شریعت کے ساتھ کیا معاملہ ہو رہا ہے . آپ کو کوئی ماں کی گالی دے دے تو اوّل تو آپ اسے جانے نہیں دیں گے‘ لیکن اگر آپ میں طاقت نہیں ہے تو آپ اپنی جگہ کانپ کر رہ جائیں گے‘ آپ کے چہرے میں پورے جسم کا خون آ جائے گا. اس بدبخت کو تویہ بھی نہیں ہوا ہے ؎

مست رکھو ذکر و فکرِ صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے!

یہ فقط ’’اللہ ہُو‘‘ میں لگا رہا.

تو جان لیجیے کہ واحد مخرج یہ ہے کہ شریعت کے جن اجزاء پر عمل ممکن ہے‘ چاہے کتنا ہی مشکل ہو‘ اس پر تو عمل لازم ہے ‘ بقیہ جس پر آپ عمل نہیں کر سکتے اس کا کفارہ یہ ہے کہ منفی طور پر’’یَکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ‘‘ کیا جائے‘ اسے ذہناً اور قلباً تسلیم نہ کیا جائے‘ اس کی چاکری نہ ہو‘ اس کے ساتھ تعاون نہ ہو‘ اس کی ملازمت نہ ہو‘ اسے promote نہ کیا جائے اور اس کے تحت پھلنے پھولنے کی کوشش نہ کی جائے‘ بلکہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات کے لیے کم سے کم پر قناعت کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں‘ قوتوں‘ توانائیوں کا زیادہ سے زیادہ حصہ اللہ کے دین کو قائم کرنے کی جدوجہد کے اندر وقف کر دیا جائے. یہ ہے وہ جدوجہد جس کا شریعت کی رو سے جامع عنوان ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے اورجس کے بغیر ایمان کا تصور ہی نہیں. سورۃ الحجرات کی آیت ۱۵ میں مومن کی جامع اور مانع تعریف آئی ہے :

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵
’’مؤمن تو صرف وہ ہیں جو ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسول پر‘ پھر شک میں نہیں پڑے‘ اور پھر انہوں نے جہاد کیا اپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میں. صرف یہ لوگ (اپنے دعوائے ایمان میں) سچے ہیں.‘‘

اس کے بغیر نجات نہیں ہے. سورۃ الصف میں فرمایا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱
’’اے اہل ایمان! کیا میں تمہیں وہ تجارت بتاؤں جو تم کو عذابِ الیم سے بچا دے؟ ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر‘ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو اپنے مالوں سے بھی اور اپنی جانوں سے بھی. یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو.‘‘

اگر تم جہنم کی آگ سے بچنا چاہتے ہو تو اس کے لیے یہ ناگزیر ضرورت ہے.