اب میں اپنی دعوتِ قرآنی اور فکر قرآنی کا دوسرا نکتہ بیان کر رہا ہوں جو اہم ترین ہے. ہم عبادت سے اب جہاد پر آتے ہیں‘ لیکن جہاد کی دو منزلیں ہیں. پہلی منزل یہ ہے کہ پہلے اس کی دعوت عام کرنی ہو گی. دعوتِ دین کو پھیلاؤ. جو لوگ آئیں انہیں جمع کرو‘ انہیں منظم کرو‘ ان کو تربیت دو‘ تیار کرو‘ پھر انہیں میدان میں لا کر طاقت کا استعمال کر کے نظام کو بدلو. دعوتِ دین‘ اللہ کی کتاب کی دعوت اور نشر و اشاعت جہاد کا پہلا مرحلہ ہے. اس کے لیے اصطلاح ’’شہادت علی الناس‘‘ ہے جو اجتماعی فریضہ ہے‘ جس کے لیے اُمت وجود میں آئی ہے:

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ (البقرۃ:۱۴۳)
’’اور اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو.‘‘
یہ دراصل فریضۂ رسالت ہے جو اُمت کو ادا کرنا ہے. یہ رسالتِ محمدیؐ کا تسلسل ہے جوقیامت تک جاری رہے گا. پہلے رسول اللہ نے بنفس نفیس یہ فریضہ انجام دیا اوراس کے بعد حجۃ الوداع میں آپؐ اسے اُمت کے حوالے کر کے دنیا سے رخصت ہوئے:

فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبِ 
’’اب جو موجود ہیں وہ ان تک پہنچائیں جو غیر موجود ہیں.‘‘

اور اس کی آخری منزل اقامتِ دین یعنی دین کو قائم کردینا ہے:

لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا
’’تاکہ اللہ کی بات سب سے اونچی ہو جائے.‘‘

تکبیرربّ ہو جائے‘ اللہ کا کلمہ بلند ہو‘ اللہ کا حکم بالادست ہو. اسی اقامتِ دین پر جا کر عبادتِ رب بھی مکمل ہو گی. اب میں اگر اس نظام کے تحت زندگی گزار رہا ہوں تو میری عبادت مکمل ہو گئی‘ انفرادی زندگی میں بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی.میری بندگی اس وقت مکمل ہوئی ہے‘ اس سے پہلے ناقص تھی. اس نقص کی تلافی مَیں اس جدوجہد سے کررہا تھا‘ اس جدوجہد کی صورت میں مَیں اس گناہ کا کفارہ ادا کر رہا تھا. اب اگر یہ ہو گیا تو میری عبادت بھی پوری ہو جائے گی اور شہادت علی النّاس کا تقاضا بھی پورا ہو جائے گا‘ اور آپ پوری دنیا کو دعوت دے سکیں گے کہ آؤ اپنی آنکھوں سے دیکھو یہ ہے اسلام‘ یہ ہے محمد رسول اللہ‘ کی رحمت للعالمینی کا مظہر اَ تم‘ یہ ہے وہ نظامِ حق ‘ نظامِ عدل وقسط‘ یہ ہے انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمت کا مظہر. یہ نظام جو اللہ نے محمد رسول اللہ‘ کو دیا اور جسے اللہ تعالیٰ نے آپؐ پرکامل کیا:

اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا (المائدۃ:۳)
’’ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے ‘ اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین قبول کر لیا ہے.‘‘

یہ ہے میرے دینی فکر کی بنیاد! اس دینی فکر سے کماحقہ آگاہی کے لیے اب میں لٹریچرتجویز کرتا ہوں. اس ضمن میں سب سے اہم تو میرا مطالعہ قرآن حکیم کا منتخب نصاب ہے‘ جو ایک ایک گھنٹے کے چوالیس آڈیوکیسٹس پر مشتمل (۱ہے. اب یہ دروس کتابچوں کی صورت میں بھی شائع کر دیے گئے ہیں. یہ میں نے قرآن مجید کے اجزاء منتخب (۱) مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کے یہ دروس اب ایک آڈیو سی ڈی میں بھی دستیاب ہیں. کر کے قرآن کے حوالے سے دعوت پیش کی ہے. ایک کتاب ’’مطالباتِ دین‘‘ کے نام سے موجود ہے‘ جس میں عبادتِ ربّ ‘ شہادت علی الناس اور اقامتِ دین تین اصطلاحات کے حوالے سے دین کے مطالبات پیش کیے گئے ہیں. ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ پر کتابچہ موجود ہے. انگریزی میں بھی دو گھنٹے کا ویڈیو اور آڈیو موجود ہے اور اردو میں بھی کہ جہاد کسے کہتے ہیں‘ جس کو کہ آج ہم نے دنیا کے اندر بدنام کر کے رکھ دیا ہے. ’’حقیقت ایمان‘‘ پر میرے پانچ لیکچرز ویڈیوز کی صورت میں موجود ہیں (۱. ایمان یعنی ایمان حقیقی کو جتنا emphasize میں نے کیا ہے‘ وہ زور کسی اور تحریک میں نہیں ہے. تبلیغی جماعت میں ایمان کی محنت کی بات ضرور ہوتی ہے لیکن وہ علمی اور فکری بنیادپر نہیں.

اب ایک بات یہ سمجھ لیجیے کہ ایک ہے بنیادی طور پر کسی فرض کا ادا ہو جانا اور ایک ہے اس کا کماحقہ ادا ہوجانا . ایک وہ شخص ہے جو کسی فرضِ عین کی ادائیگی سرے سے نہیں کر رہا تھا‘ وہ تو فرض کا تارک ہو گیا‘ لیکن کوئی ہے جس نے اپنی زندگی کو اس رخ پر تو ڈھال لیا ہے لیکن ا س کے لیے وہ اتنی محنت نہیں کر رہا جتنی کہ وہ کر سکتا تھا‘ تو اس کا معاملہ بھی اللہ کے ہاں قابل گرفت ہو جائے گا.نماز آپ نے جیسے تیسے پڑھی‘ وہ ادا تو ہو گئی‘ لیکن اگر اس میں خشوع و خضوع اور استحضار نہ ہوا‘ اللہ کی طرف انابت ہی نہ ہوئی‘ اس کی طرف توجہ ہی نہ ہوئی تو بات وہی ہوئی کہ نماز پڑھی تو ہے مگر نماز کی حقیقت حاصل نہ ہوئی. چنانچہ پہلی بات تو یہ کہ آدمی اس فریضے کی فرضیت کو پہچان لے جو آج اُمت مسلمہ کے ذہنوں سے بالکل خارج ہے. انہیں نماز‘ روزے‘ حج‘ زکوٰۃ کی فرضیت تو معلوم ہے لیکن ’’اقامت دین‘‘ کی فرضیت معلوم ہی نہیں. لیکن اس کے بعد خاص طور پر تنظیم اسلامی کے رفقاء میں سے ہر ایک کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ جتنا گڑ ڈالیں گے اتنا ہی میٹھا ہو گا‘ تو آپ اپنی قوتوں‘ توانائیوں اور صلاحیتوں کا کتنا حصہ اس کام کے لیے صرف کر رہے ہیں؟ کیا محض قانونی تقاضا پورا ہو رہا ہے یا واقعتا (۱) یہ پانچ لیکچرز اب ’’حقیقت ِایمان‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کر دیے گئے ہیں. حتی المقدور اور حسب استطاعت جدوجہد ہو رہی ہے؟ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ:

لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَا (البقرۃ:۲۸۶)
’’اللہ تعالیٰ کسی کو مکلف نہیں ٹھہرائے گا مگر اس کی وسعت کے مطابق.‘‘

چنانچہ ہو سکتا ہے کم والا وہاں کامیاب ہو جائے اور زیادہ والا ناکام ہو جائے. کیوں؟ اس لیے کہ کم والے کی استعداد ہی اتنی تھی جتنا اس نے کیا ہے‘ اس سے زیادہ استعداد تھی ہی نہیں ‘ جبکہ زیادہ والے کی استعداد اس سے کہیں زیادہ تھی‘ اس نے اپنی استعداد سے کم کیا تو وہ ناکام ہو جائے گا.