اب آیئے کہ اِس جماعت کی تلاش کیسے کی جائے! اس جماعت کے چار بنیادی خصائص (Cardinal Characteristics) یہ ہیں:

(۱) اس جماعت کا اعلانیہ ہدف (declared goal) اقامتِ دین ہونا چاہیے.کرنے کے اور بھی بہت سے اچھے کام ہیں‘ جیسے غالب نے کہا ہے ؎

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور!

چنانچہ علمی ‘تعلیمی‘ تبلیغی‘ اصلاحی اور خدمت ِخلق جیسے بہت سے کام ہیں. ان میں سے ہر ایک کام کرنا اچھا ہے‘ لیکن آپ یہ کہہ لیں کہ یہ سارے کام اس ایک کام میں بالقوۃ موجود ہیں‘ گویا implied ہیں. اس جماعت کا ہدف برملا اور اعلانیہ یہ ہو کہ یہ جماعت اقامت دین کی جدوجہد کے لیے قائم کی گئی ہے‘ اس کا مقصد دین کو مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے دنیا میں قائم کرنا ہے. (۲) یہ جماعت حد درجے منظم ہو اور سمع و طاعت (Listen and Obey) کے اصول پر پوری طرح عمل پیرا ہو‘ جس میں کہ صرف ایک استثناء ہو گا کہ شریعت کے خلاف کوئی حکم دیا جائے گا تو نہیں مانیں گے‘ باقی شریعت کے دائرے کے اندر اندر جو بھی نظمِ جماعت کے تحت فیصلہ ہو گا وہ ہمیں قبول کرنا ہو گا اور اس پر عمل کرنا ہو گا. اس سمع و طاعت (Listen and Obey) کا نام ہی بیعت ہے.

واضح رہے کہ بیعت ’’بیع‘‘ سے ہے‘ یعنی اپنے آپ کو بیچ دینا‘ کسی کے حوالے کر دینا کہ جو حکم دیں گے وہ میں مانوں گا. اسی کا تذکرہ سورۃ التوبۃ کی آیت ۱۱۱ میں ہے:

اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ ؕ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَیَقۡتُلُوۡنَ وَ یُقۡتَلُوۡنَ… فَاسۡتَبۡشِرُوۡا بِبَیۡعِکُمُ الَّذِیۡ بَایَعۡتُمۡ بِہٖ ؕ وَ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۱۱۱
’’یقینا اللہ نے خرید لیے ہیں اہل ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے بدلے میں. وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں‘ پھر قتل کرتے بھی ہیں اور قتل ہوتے بھی ہیں … پس تم خوشیاں مناؤ اس بیع پر جو تم نے اللہ کے ساتھ کی ہے. یہی ہے اصل کامیابی.‘‘

پھر جو بیع اللہ سے ہوئی تھی اس کی بیعت حضور کے ہاتھ پر ہوئی:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ ؕ یَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ ۚ
(الفتح:۱۰
’’(اے نبیؐ !) جو لوگ آپ سے بیعت کر رہے ہیں وہ حقیقت میں اللہ سے بیعت کر رہے ہیں‘ ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ کا ہاتھ ہے.‘‘

ایک ہاتھ حضور کا ہوتا تھا‘ دوسرا ہاتھ بیعت کرنے والے صحابی کا‘ جبکہ تیسرا غیر مرئی (invisible) ہاتھ اللہ کا. یہ بیعت ہے.

البتہ بیعت کے بارے میں دو وضاحتیں ہیں. یہ بیعت دستوری بھی ہو سکتی ہے یعنی اس جماعت کا یہ دستور ہے‘ یہ مقصد ہے‘ اقامت ِدین کے لیے یہ جماعت قائم ہوئی ہے‘ فلاں شخص اس کا رکن بن سکتا ہے. یہ ارکان اپنے میں سے ایک معین وقت کے لئے امیر چنیں گے‘ مثلاً پانچ سال کےلئے یا دو سال کے لئے. پھر یہ کہ اس کے لئے ایک شوریٰ ہو گی‘ جسے ارکانِ جماعت منتخب کریں گے‘ پھر ارکان اور شوریٰ کے اختیارات کا تعین ہوگا.طے کیا جائے گا کہ امیر کے کیا اختیارات ہوں گے. یہ دستور (constitution) ہے. ایک شخص جماعت میں شامل ہوتے وقت اس دستور کا حلف اٹھائے گا کہ میں اس کی اطاعت کروں گا تو یہی اس کی بیعت ہے. یہ دستوری (constitutional) بیعت ہے اور یہ مباح اور جائز ہے‘ حرام نہیں ہے ‘ لیکن وہ بیعت جو منصوص‘ مسنون اور ماثور ہے‘ لہذا اس دستوری بیعت سے کم از کم تین درجے افضل ہے‘ وہ شخصی بیعت ہے‘ یعنی کسی شخص (individual) سے بیعت کرنا کہ مَیں اپنے آپ کو آپ سے وابستہ کر رہا ہوں ‘ جو حکم آپ دیں گے میں اسے مانوں گا بشرطیکہ شریعت کے خلاف نہ ہو‘ اپنا مشورہ ضرور پیش کروں گا لیکن فیصلہ آپ کے اختیار میں ہو گا. یہ شخصی بیعت ہے.

میں نے اس کے لیے تین الفاظ (منصوص‘ مسنون اور ماثور) استعمال کیے ہیں. رسول اللہ سے کسی صحابی نے پوچھا: ’’حضور میرے حسنِ سلوک کا اوّلین مستحق کون ہے؟حضور‘نے فرمایا : تمہاری والدہ. پوچھا : پھر کون؟ فرمایا: تمہاری والدہ. پھر پوچھا: اس کے بعد کون؟ فرمایا: تمہاری والدہ. چوتھی مرتبہ پوچھنے پر آپؐ نے فرمایا : تمہارا والد. چنانچہ ادب اور خدمت کے حوالے سے والدہ کا حق والد کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے. اسی طرح شخصی بیعت ‘دستوری بیعت سے تین گنا افضل ہے. چونکہ قرآن اور حدیث میں اس کا ذکر ہے‘ لہذا یہ منصوص ہے. پھر یہی مسنون ہے‘ کیونکہ پوری سیرت میں ہم اس کا تذکرہ دیکھتے ہیں. حضور کے بعد سے لے کر بیسویں صدی کے آغاز تک مسلمانوں کا ہر اجتماعی کام اسی بیعت کی بنیاد پر ہوا ہے‘ لہذا یہ ماثور بھی ہے.

خلافت کا نظام قائم تھاتو بیعت کی بنیاد پر. حضرات ابوبکرؓ ‘ عمرؓ ‘ عثمانؓ ‘ علی ؓ کی بیعت منعقد ہوئی تھی.پھر یہ کہ خلافت نے ملوکیت کی شکل اختیار کر لی تھی تو وہ نظام بھی بیعت پر قائم تھا. یزید کی امارت کے لیے بھی لوگوں سے بیعت لی گئی تھی. اس کے خلاف اگر حضرت حسین ؓ کھڑے ہوئے تو وہ بھی بیعت لے کر.عبد اللہ ؓ بن زبیر ؓ بھی بیعت لے کر کھڑے ہوئے. حضرت نفس زکیہ اور امام زید رحمۃ اللہ علیہما بیعت لے کر سامنے آئے. پھر انیسویں صدی میں جب نو آبادیاتی نظام (colonial rule) آیا تو جس ملک میں بھی اس کے خلاف مزاحمت کی تحریک چلی اور یورپی استعمار کے خلاف جہاد کیا گیا تو وہ بھی بیعت کی بنیاد ہی پر ہوا. سوڈان میں مہدی سوڈانی‘ لیبیا میں سنّوسی ‘ الجزائر میں عبدالقادر الجزائری اور روس میں امام شامل نے بیعت کی بنیاد پر لوگوں کو جہاد کے لیے منظم کیا. اس ضمن میں سب سے بڑی جہادی تحریک ہندوستان میں سید احمد بریلویؒ اور ان کے سب سے بڑے لیفٹیننٹ شاہ اسماعیل شہیدؒ نے اٹھائی جو بیعت کی بنیاد پر ہی تھی. پھر بیسویں صدی کے آغاز میں کوشش ہوئی تھی کہ ابوالکلام آزاد کو ’’امام الہند‘‘ مان کر ان کے ہاتھ پر بیعت ہو جائے‘ لیکن وہ کوشش ناکام ہو گئی. اس کے بعد مذہبی دنیا میں انتشار ہے ‘ chaos ہے‘ تفریق در تفریق ہے. بہرحال ہم نے تنظیم اسلامی قائم کی ہے‘ جس کا نظم شخصی بیعت کی بنیاد پر قائم ہے.

رسول اللہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے جو بیعت لی اس کے الفاظ احادیث میں نقل ہوئے ہیں. یہ حدیث متفق علیہ ہے ‘یعنی بخاری اور مسلم دونوں میں آئی ہے. حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ  عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا وَعَلٰی اَنْ لاَّ نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ وَعَلٰی اَنْ نَّقُوْلَ بِالْحَقِّ اَیْنَ مَا کُنَّا لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ
’’ہم نے بیعت کی تھی اللہ کے رسول سے اس پر کہ آپ کا ہر حکم سنیں گے اور اس کی اطاعت کریں گے‘ مشکل میں بھی اور آسانی میں بھی‘ چاہے طبیعت آمادہ ہو چاہے طبیعت پر جبر کرنا پڑے‘ چاہے ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے‘ اور جن کو بھی آپ امیر بنائیں گے ہم ان سے جھگڑیں گے نہیں‘ اور یہ کہ جہاں کہیں بھی ہوں گے حق بات کہیں گے‘ اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کے خوف سے زبان پر تالا نہیں ڈالیں گے .‘‘ یہ اس بیعت کے نکات ہیں جو حدیث میں بیان ہوئے. اور اس امت کی اس قدر ناشکری ہے کہ اس وقت بیعت کی بنیاد پر کوئی جماعت قائم نہیں ہے‘ سوائے تنظیم اسلامی کے. ہم نے تنظیم کے رفقاء کے لیے بیعت کے جو الفاظ رکھے ہیں وہ اسی حدیث سے ماخوذ ہیں. ہم نے اس بیعت میں ’’فِی الْمَعْرُوْفِ‘‘ کا اضافہ کیا ہے : ’’اِنِّیْ اُبَایِعُکَ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْمَعْرُوْفِ‘‘ اور یہ اضافہ بھی حدیث کی بنیاد پر کیا گیا ہے. اسی حدیث کی جو مسلم شریف کی روایت میں ہے اس میں یہ اضافی الفاظ موجود ہیں. رسول اللہ‘تو ظاہر بات ہے کوئی غلط حکم نہیں دے سکتے تھے‘ لیکن فرض کریں آپؐ نے کوئی لشکر بھیجا ہے تو اس کا ایک امیر ہے‘ اس کی اطاعت بھی تو کرنی ہے‘ وہ امیر کوئی غلط کام کر سکتا ہے‘ غلط حکم دے سکتا ہے‘ لہذا فرمایا:

اِلاَّ اَنْ تَرَوْا کُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَکُمْ فِیْہِ مِنَ اللّٰہِ بُرْھَانٌ
’’اِلاّ یہ کہ تم (اپنے امیر کی طرف سے) کوئی ایسا کفر دیکھوجس کے لیے تمہارے پاس (کتاب و سنت سے) کھلی دلیل موجود ہو (کہ یہ کفر ہے).‘‘
تب تم کہہ سکتے ہو کہ ’’لَا سَمْعَ وَلَا طَاعَۃَ‘‘ . ہم نے اپنی بیعت میں اسی اصول کو اختیار کیا ہے. بیعت کے باقی الفاظ وہی ہیں جو متذکرہ بالا حدیث میں آئے ہیں.
مسلم شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے ایک طویل حدیث مروی ہے‘ جس میں یہ الفاظ آئے ہیں:

مَنْ مَاتَ وَلَیْسَ فِیْ عُنُقِہٖ بَیْعَۃٌ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً 
’’جو مسلمان مرا اس حال میں کہ اس کی گردن میں بیعت کا قلادہ نہیں ہے وہ جاہلیت کی موت مرا.‘‘

دیکھئے کس قدر دوٹوک الفاظ استعمال کیے گئے ہیں. میں نے عرض کیا تھا کہ بیعت کا مطلب ہی یہ ہے کہ اپنے آپ کو بیچ دینا. جیسے آپ قربانی کے لیے جانور خرید کر لے جا رہے ہوتے ہیں تو اس کی گردن میں آپ نے ایک رسی ڈالی ہوئی ہوتی ہے جو آپ نے خود تھام رکھی ہوتی ہے. بالکل یہی کیفیت نظم جماعت کی ہے.جس شخص کی آپ نے بیعت کی ہے گویا کہ اپنی گردن میں قلادہ ڈال کر اس کے ہاتھ میں دے دیا ہے کہ جدھر حکم دو گے ادھر مڑ جائیں گے. لیکن اگر کسی شخص کی گردن میں بیعت کا قلادہ نہیں ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرا. جاہلیت سے مراد حضور‘ سے پہلے کا معاشرہ ہے.
اس بیعت کی دو ہی شکلیں ہوتی ہیں. اوّلاً:اسلامی نظامِ خلافت موجود ہے تو خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت ہو گی. اور ثانیاً: اگر اسلامی نظامِ خلافت موجود نہیں ہے تو وہ خود بخود آسمان سے تو ٹپکے گا نہیں‘ اسے قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑے گی اور اس جدوجہد کے لیے جماعت اسی طرح لازم و ملزوم ہے جیسے نماز کے لیے وضو.چنانچہ جماعت کے امیر کے ہاتھ پر بیعت ہو جائے گی. تیسری کوئی شکل سرے سے ہی نہیں. لیکن تاویلیں کرنے والے نہ معلوم کیا کیا تاویلیں کرتے ہیں!

اقامت دین کی جدوجہد کے لیے مطلوبہ جماعت کے خصائص اربعہ میں سے دو میں نے آپ کے سامنے رکھے ہیں. ان کا اعادہ کرتے ہوئے آگے چلیے:

(۱) اس جماعت کے پیش نظر اقامت دین کا اعلانیہ ہدف ہو.

(۲) اس کا نظم سمع و طاعت والا ہو‘ چاہے وہ دستوری بیعت ہو جو کہ مباح اور جائز ہے‘ چاہے وہ شخصی بیعت ہو جو کہ تین درجے بہتر ہے.

(۳) آپ یہ معلوم کیجیے کہ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے اس جماعت کے پیش نظر طریق کار کیا ہے. ان سے معلوم کیجیے کہ آپ کیا کام کرنا چاہتے ہیں اور کیسے کرنا چاہتے ہیں! آپ ہمیں بتایئے کہ سیرت النبیؐ کے ساتھ اس کاکیا ربط و تعلق ہے؟ حضور کے منہاج کے ساتھ اس کا کیا correlation ہے؟ ان موضوعات پر میرے کتابچے موجود ہیں. بیعت سمع و طاعت کے موضوع پر میرا اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی کتابچہ موجود ہے. ’’منہج انقلاب نبویؐ ‘‘ کے عنوان سے چار سو صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب موجود ہے. ان موضوعات پر میرے بے شمار خطابات ہوئے ہیں‘ مختصر بھی ہیں‘ مطول بھی ہیں اور ان کے آڈیو اور ویڈیو کیسٹ موجود ہیں. اقامت ِدین یا انقلاب اسلامی کی جدوجہد کے لیے جو طریق کار اختیار کیا جائے وہ سیرت النبیؐ سے ماخوذ ہونا چاہیے اور اگر اس میں کہیں حالات کی مناسبت سے تبدیلی کی ضرورت محسوس ہو‘ اجتہاد کرنا لازم ہو تو معین کرنا چاہیے کہ موجودہ حالات میں کیا بنیادی تبدیلی واقع ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے ہمیں یہاں اجتہاد کرنا پڑا‘ اور وہ معین اجتہاد ہو گا‘ یہ نہیں کہ ہم سارے مسنون راستے کو چھوڑ دیں.

(۴) چوتھی اور آخری بات یہ کہ اس جماعت کی قیادت کے قریب ہو کر انہیں دیکھیں اور پرکھیں. اس لیے کہ پیچھے چلنے والوں میں تو ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں. حضور کے پیچھے صف اوّل میں عبد اللہ بن ابی منافق اعظم بھی کھڑا ہوتا تھا اور جب حضور خطبہ دینے کھڑے ہوتے تو وہ اپنی چوہدراہٹ ظاہر کرنے کے لیے کہا کرتا کہ لوگو غور سے سنو! یہ اللہ کے رسول ہیں‘ ان کی بات توجہ سے سنو! پیچھے چلنے والوں کا معاملہ مختلف بھی ہو سکتا ہے. لہذا آپ قیادت کے قریب ہو کر سونگھیں کہ خلوص و اخلاص اور للٰہیت کی خوشبو آ رہی ہے یا نفسانیت کی بدبو آ رہی ہے. کہیں اپنی شخصیت کی promotion یا جائیداد بنانے یا اپنے مفادات اور کاروبار چمکانے کے لیے تو یہ سارا ڈھونگ نہیں رچایاہوا ہے. میں نے ’’سونگھنے‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے‘ اس لیے کہ یہ تو بڑا مشکل ہوتا ہے کہ بہت تفصیل میں جا کر آپ دیکھ سکیں‘ البتہ ؏ ’’دل را بدل رہیست‘‘ کے مصداق آپ کو خوشبوآجائے گی یا بدبو بھی آ جائے گی.

ان چار معیارات پر جو جماعت پاس مارکس بھی لے جائے ‘آپ پر فرضِ عین ہے کہ اس میں شامل ہوں. آپ کا ایک دن بھی اس میں شمولیت کے بغیر نہیں گزرنا چاہیے‘ ورنہ آپ کا یہ دن کفر میں گزرے گا. سائیں عبدالرزاق صاحب یہ کہا کرتے تھے کہ ’’جو دم غافل سو دم کافر!‘‘ یعنی صوفیاء کے نزدیک کفر اور اسلام کی ایک 
definition یہ بھی ہے کہ انسان کا جو سانس اللہ کی یاد کے بغیر گزرا ہے وہ کفر کا سانس ہے. اقبال بھی کہتا ہے ؎

بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟

میرے نزدیک آپ پر جو دن اور رات جماعتی زندگی کے بغیر گزرے ‘وہ دن کفر کا دن اور وہ رات کفر کی رات ہے.

البتہ کسی جماعت میں شامل ہو کر بھی آنکھوں پر تعصب کی پٹی مت باندھ لیجیے. مزید غور کیجیے‘ سوچتے رہئے‘ آنکھیں دیکھتی رہیں‘ کان سنتے رہیں‘ دماغ سوچتا رہے‘ اگر اس سے بہتر کوئی جماعت نظر آئے تو اسے چھوڑ کر اس میں شامل ہو جائیں. اس لیے کہ اب نبی کی جماعت کوئی نہیں. نبی کی جماعت میں ایک دفعہ شامل ہو کر ‘ ایک مرتبہ ہاتھ میں ہاتھ دے کر اگر آپ اسے چھوڑ دیں گے تو ’’مَنْ شَذَّ شُذَّ فِی النَّارِ‘‘ کے مصداق ٹھہریں گے.اب تو کوئی جماعت نبی کی جماعت نہیں ہے‘ سب ہمارے جیسے انسان ہیں. ہاں اللہ نے کسی کو درد زیادہ دے دیا‘ کسی کو سوچ اور فکر زیادہ دے دی‘ کسی میں قوتِ کار زیادہ رکھ دی‘ کسی کے اندر ذہانت زیادہ ہے‘ کسی کے لیے حالات ایسے سازگار کر دیے کہ اس پر حق واضح ہو گیا اور اس کو قبول کرنے کی ہمت بھی ہو گئی.یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے‘ لیکن اس سے بڑھ کر کسی کو کوئی ترجیح حاصل نہیں ہے. جیسے کہ ہم سورۂحٰم السجدۃ کے درس میں پڑھتے ہیں:

وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۳۳
’’اور اُس شخص سے اچھی بات کس کی ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے اور عمل صالح پر کاربند ہو اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں.‘‘

یعنی میں تم پر کوئی دھونس نہیں جمانا چاہتا کہ میں کوئی بہت بڑا متقی‘ بڑی روحانی شخصیت کا مالک اور کوئی بڑا عارف باللہ ہوں‘ بلکہ میں عام مسلمان ہوں.

یہ ہیں جماعت کے ضمن میں وہ چار خصائص جو دیکھنے ضروری ہیں. اگر ان خصائص پر پورا اترنے والی کوئی جماعت نہ ملے تو کھڑے ہو جائیں‘ کمر ہمت کس لیں اور اپنی جماعت بنانے کی تیاری کریں.