اب آخری نکتہ یہ ہے کہ اگر ہم یہ جدوجہد کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ جیسے میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی توفیق سے پوری زندگی یہ جدوجہد کی ہے‘ اس کے لیے اللہ ہی نے میرے لیے حالات سازگار بنائے. اب دو ہی امکانات ہیں کہ یا تو میں اسی دنیا میں اپنی زندگی ہی میں کامیابی دیکھ لوں یا مجھے اس زندگی میں اس کوشش کا کوئی ثمر نظر نہ آئے. تو جان لیجیے کہ اگر ہم دنیا میں ناکام رہتے ہیں تب بھی یہ ناکامی نہیں ہے‘ اس لیے کہ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے.

اگر میں نے یہ ساری جہد و کوشش خلوص و للہیت کے ساتھ کی ہے تو کم سے کم انفرادی سطح پر میری نجات لازم ہے. اگر کسی میں یہ کہنے کی ہمت ہے کہ اے اللہ! تو نے مجھے جو توانائی‘ قوت‘ ذہانت‘ صلاحیت‘ وسائل و ذرائع اور جو اولاد دی میں نے اسی کام کے اندر لگا دی تو اللہ تعالیٰ کے ہاں نجات کی امید کی جا سکتی ہے. اگر یہ ہو جائے تو ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ یہی سب سے بڑی کامیابی ہو جائے گی. دوسری چیز (دنیا میں نصرت و کامیابی) کو تو قرآن ایک طرح سے تنقید کے انداز میں بیان کرتا ہےوَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا ’’ایک اور شے جو تمہیں بہت پسند ہے ‘‘ اللہ کو تو اس سے غرض ہی نہیں . اللہ کو اگر اس سے غرض ہو کہ دین قائم ہو جائے تو اسے ایک آن میں قائم کر دے وَھُوَ الْقَوِیُّ الْعَزِیْزُ یہ سارا سلسلہ تو تمہارے امتحان کے لیے ہے.

اس جدوجہد میں اپنی جانیں قربان کرنے والے کامیاب ہیں‘ چاہے وہ حضرت سمیہ اور یاسر رضی اللہ عنہماکی طرح مکہ میں ہی شہید کر دیے گئے . اس سے بڑی کامیابی کس کی ہو گی جن کو حضور نے خبر دی تھی کہ اصْبِرُوْا آلَ یَاسِرَ فَاِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّۃَ ’’اے یاسر کے گھر والو! صبر کرو‘ تمہارے استقبال کی تیاریاں تو جنت میں ہو رہی ہیں‘‘. حضرت حمزہؓسمیت ستر صحابہؓ غزوۂ احد میں شہید ہو گئے. ابھی تو سمجھئے پانچ سال کے بعد وہ منظر سامنے آنا تھا کہ جب حضور دس ہزار کے لشکر کے ہمراہ مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے. ستر صحابہ کرام بئر معونہ پر لے جا کر ذبح کر دیے گئے. اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے. ذٰلِکَ یَوۡمُ التَّغَابُنِ (التغابن:۹’’وہی ہے اصل ہار جیت کے فیصلے کا دن‘‘. اصل کامیابی وہاں کی کامیابی ہے.

میری آج کی گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ اگر یہ جدوجہد نہیں ہے تو انفرادی نجات قطعاً نہیں ہے. اگر قرآن سچا ہے اور حضرت محمد سچے ہیں تو میں ڈنکے کی چوٹ کہتا ہوں کہ اس کے بغیر ہماری انفرادی نجات ممکن نہیں ہے. یہ میرے پچاس برس کے مطالعۂ قرآن کا حاصل‘ لب لباب اور خلاصہ ہے.

ہماری اس جدوجہد اور کوشش کا نتیجہ ہمارے سامنے بھی نکل سکتا ہے کہ ہم دُنیوی اعتبار سے بھی کامیاب ہو جائیں‘ اور ان شاء اللہ ضرور ہوں گے. آج نہیں تو کل ہوں گے‘ ہم نہیں ہوں گے تو ہماری اگلی نسل ہو گی. اس لیے کہ اس کی خبر تو محمد رسول اللہ نے دی ہے. اور اگر ہم کسی ایک ملک میں بھی اس نظام کو قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ پوری اُمت مسلمہ کی طرف سے فرضِ کفایہ ادا ہو جائے گا. یہ اصل میں میرے فکر کی ایک اور dimension ہے. اس پر میری کتاب ’’سابقہ اور موجودہ مسلمان امتوں کا ماضی‘ حال اور مستقبل‘‘ کے عنوان سے موجود ہے.

اس وقت اُمت ِمسلمہ عذابِ الٰہی کی گرفت میں ہے. اس کی ایک وجہ میں آپ کے سامنے پہلے بیان کر چکا ہوں کہ دین پر ہمارا عمل جزوی ہے‘ لہذا ہم خِزْیٌ فِی الْحَیٰـــوۃِ الــدُّنْیَا اور ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ کی تصویر بنے ہوئے ہیں. اس کی عملی مثال کبھی یہودی تھے‘ آج ہم ہیں. دوسری بات یہ سمجھ لیجیے کہ جو امت حاملِ کتاب ہوتی ہے‘ شریعت الٰہی کی حامل ہوتی ہے اور اللہ کے رسول کی امت ہونے کی مدعی ہوتی ہے وہ زمین پر اللہ کی نمائندہ ہوتی ہے. اگر وہ اپنے عمل سے غلط نمائندگی کرے تو وہ کافروں سے بڑھ کر مجرم ہے. اس وجہ سے آج ہم عذابِ الٰہی کی گرفت میں ہیں اور عذاب الٰہی کی یہ گرفت ڈھیلی نہیں پڑے گی‘ ہلکی بھی نہیں ہو گی‘ سخت سے سخت تر ہوتی چلی جائے گی جب تک کہ کسی ایک قابل ذکر ملک میں اللہ کے نظام کو قائم کر کے پوری دنیا کے لیے فرض کفایہ ادا نہ ہو جائے کہ بھئی دیکھو‘ یہ ہے اسلام. آؤ اپنی آنکھوں سے دیکھو‘ یہ ہے اسلام کا نظامِ حکومت‘ یہ ہے اسلام کا معاشی‘ عمرانی اور سوشل نظام. آؤ اور اس کی برکات کو دیکھو. افغانستان میں نظام اسلام کی تھوڑی سی برکات ہمارے ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب دیکھ کر آئے ہیں. وہاں اگرچہ ابھی نظام کی بات نہیں ہے‘ لیکن شریعت کے احکام کچھ نافذ ہوئے ہیں‘ ان کی برکتیں وہ دیکھ کر آئے تو انہوں نے کہا کہ اگر دوسرے ملکوں میں بھی وہی نظام نافذ ہو جائے جو وہاں ہے تو پوری دنیا مسلمان ہوجائے گی. (۱یہ تاثر ڈاکٹر جاوید اقبال کا ہے‘ حالانکہ وہ آزاد خیال آدمی ہیں. میں نے ان کا یہ بیان پڑھا تو وقت لے کر ان کے پاس گیا اور انہیں مبارک باد پیش کی. نوٹ کیجیے کہ اگر ہم یہ کرتے ہیں تو پوری اُمت کی جانب سے فرض کفایہ ادا ہو جائے گا.