علامہ تقی الدین نبہانی ؒالاخوان کے اوّلین مرشد عام اور مؤسس یعنی حسن البناء شہیدؒ کے قریبی دوستوں میں سے تھے‘ لیکن غالباً الاخوان میں یہ شامل نہیں ہوئے تھے‘ تاہم فکر ایک ہی تھا. اس کے بعد انہوں نے اپنے طور پر ’’حزب التحریر‘‘ قائم کی. یہ اردن (۱) واضح رہے کہ محترم ڈاکٹر صاحب کا یہ خطاب ۳۱؍دسمبر ۲۰۰۰ء کا ہے .افسوس کہ ۱۱؍ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد حکومت پاکستان نے امریکہ کے آلۂ کار ہونے کا کردار ادا کیا اور طالبان حکومت افغانستان میں اسلامی معاشرے کے قیام کی جس جدوجہد میں مصروف تھی اسے یکسرسبوتاژ کر دیا گیا. کے رہنے والے تھے. انہوں نے کافی کتابیں لکھی تھیں اور خاص طور پر اسلامی فقہ ان کا موضوع تھا. یعنی اب اگر اسلامی نظام قائم ہو گا تو اس میں فقہی اعتبار سے کیا کیا امور غور طلب ہیں‘ اس حوالے سے انہوں نے کافی کام کیا ہے. چند سال پہلے حزب التحریر ہی سے ’’المہاجرون‘‘ کا ایک گروپ علیحدہ ہوا ہے. انگلینڈ میں حزب التحریر کے بہت بڑے لیڈر بِکری تھے‘ جنہوں نے علیحدہ ہو کر المہاجرون قائم کی ہے. ان کا بنیادی فکر ایک ہی ہے. یہ اصل میں انہی احیائی تحریکوں کا تسلسل ہے جو ایک وقت میں عالم اسلام میں شروع ہوئی تھیں. انڈونیشیا میں مسجومی پارٹی‘ ہندوستان میں جماعت اسلامی‘ ایران میں فدائین‘ مصر میں الاخوان‘ لبنان میں عبادالرحمن اور ترکی میں سعید نورسی کی تحریک‘ یہ تمام تحریکیں ایک وقت میں شروع ہوئی تھیں.نعیم صدیقی مرحوم نے ان تحریکوں کے بارے میں بڑا پیارا شعر کہا تھا ؎
ہے ایک ہی جذبہ کہیں واضح کہیں مبہم
ہے ایک ہی نغمہ کہیں اونچا کہیں مدّھم!
ان تحریکوں میں ایک ہی نغمہ یعنی ایک ہی فکر اور ایک ہی سوچ کارفرما ہے. ان تحریکوں پر چونکہ ستر برس گزر گئے ہیں لہذا ان پر بڑھاپا بھی طاری ہو گیا ہے. اب تک کسی کو خاص کامیابی بھی حاصل نہیں ہو سکی. ان میں سے کچھ گروپ علیحدہ ہوئے ہیں. جیسے مَیں جماعت اسلامی سے علیحدہ ہواتو میں نے ایک علیحدہ جماعت تنظیم اسلامی بنائی‘ لیکن میرا فکر تو وہی ہے‘ میں نے اس فکرسے کبھی اعلانِ براء ت نہیں کیا. اسی طرح یہ تحریک حزب التحریر ہے. یہ لوگ خلافت کے عنوان سے کام کر رہے ہیں. ان کے اکثر لوگ امریکہ یا انگلینڈ میں ہیں‘ عالم اسلام میں ان پر ہر جگہ پابندی عائد ہے‘ سوائے پاکستان کے کہ یہاں کچھ آزادیاں حاصل ہیں (۱) . مولانا زاہد الراشدی صاحب نے ایک بار بتایا تھا کہ لندن میں ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں پوری دنیا کی اسلامی تحریکوں کے کارکن جمع ہوئے اور وہاں اس بات پر اجماع ہو گیا تھا کہ پوری دنیا میں اسلام کے (۱) اب پاکستان میں یہ صورت حال برقرار نہیں اور یہاں بھی حزب التحریر پر پابندی عائد کی جا چکی ہے.
صحیح اور مکمل نظام کا اگر کوئی امکان کسی ملک میں ہے تو وہ صرف اور صرف پاکستان میں ہے. اس کے ضمن میں یہ ایک مزید گواہی ہے کہ حزب التحریر اور المہاجرون نے یہ سمجھا ہے کہ کام کرنے کا موقع اگر کہیں ہے تو یہاں ہے‘ کیونکہ یہاں پر بہرحال حقوق ہیں. آپ بات کر سکتے ہیں‘ تقریریں کر سکتے ہیں‘ آپ جماعت بنا سکتے ہیں‘ جب تک امن و امان کا مسئلہ نہ کھڑا کیا جائے اورکوئی توڑ پھوڑ نہ کی جائے اس وقت تک آپ کو آزادی ٔ اظہارِ خیال کے اختیارات حاصل ہیں. اس وجہ سے یہ تحریکیں یہاں آئی ہیں. اللہ کرے ان کے ذریعے سے بھی مزید کچھ لوگوں کے اندر آگاہی (awareness) پیدا ہو جائے. بہرحال یہ بھی درحقیقت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ؎
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے!
اصل بات ہمت‘ ارادے اور عزم کی ہے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے استقامت طلب کرنی چاہیے.
اقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات