اب آیئے اس بات کی طرف کہ یہ قرآن سب سے بڑی نعمت کیوں ہے؟ دراصل ہمارا نعمتوں کا تصور دولت‘ شہرت‘ اقتدار‘ جائیداد‘ اولاد‘ صحت وغیرہ تک محدود ہے. لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی شے بھی نعمت نہیں ہے‘ نعمت صرف ایک ہے اور وہ ہدایت ہے. ہدایت ہو گی تو دولت بھی نعمت ہے‘ صحت بھی نعمت ہے‘ ہدایت کی بنا پر آپ دولت اور صحت سے نیکیاں کمائیں گے. اور اگر ہدایت نہیں ہے تو اسی صحت کی بنیاد پر بدمعاشیاں کریں گے. تو ظاہر ہے کہ ایسی صحت نعمت نہیں بلکہ زحمت ہے. ہدایت ہے تو زندگی نعمت ہے‘ زندگی کاایک ایک لمحہ نعمت ہے‘ ہدایت نہیں ہے تو زندگی لعنت ہے. ہدایت ہے تو اولاد نعمت ہے‘ اسے آپ دین کے کام میں لگائیں گے اور اسے صدقہ ٔجاریہ بنائیں گے. ہدایت نہیں ہے تو اولاد لعنت ہے جو آپ کے لیے عذاب کا باعث بنے گی.
آپ نے حرام کے ذریعے سے جو کچھ کما کر جمع کیا ہے اس کو اللوں تللوں میں اُڑائے گی اور ان کی بدمعاشیوں کا حساب آپ کے کھاتے میں جمع ہوتا رہے گا. قرآن مجید میں دو جگہ کہا گیا ہے: فَلاَ تُعْجِبْکَ اَمْوَالُھُمْ وَلآَ اَوْلاَدُھُمْۡ ؕ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ بِھَا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا (التوبہ:۵۵ ‘اور قدرے مختلف الفاظ کے ساتھ التوبہ: ۸۵) ’’ان کے مال اور ان کی اولاد (کی کثرت) تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے‘ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے ان کو دنیا کی زندگی میں عذاب دینا چاہتا ہے.‘‘ اگر ہدایت نہیں تو نہ دولت نعمت ہے‘ نہ اولاد نعمت ہے‘ نہ صحت نعمت ہے‘ بلکہ یہ سب ہماری تباہی کا سامان ہے‘ ہمارے جہنم میں جانے کے لیے تمہید ہے. ہاں پارس وہ شے ہے جس سے کوئی چیز چھو جائے تو وہ سونا بن جاتی ہے. اسی طرح ہدایت وہ شے ہے کہ اس کے ساتھ صحت بھی نعمت ہے‘ زندگی بھی نعمت ہے. اس کے باوجود بھی اگر کچھ کوتاہیاں ہو جائیں تو ان کی تلافی کا امکان ہے. انسان توبہ کے ذریعے اپنی غلطیوں کی تلافی کرلیتا ہے. ہدایت کے ساتھ اگر اقتدار نصیب ہو جائے تو خلق خدا کی بہتری کا سامان ہو جائے گا. اگر اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آجائے جن کے پاس ہدایت نہیں تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ خلق خدا انہیں کوسے گی اور یہ خلق خدا کو لعنت کریں گے. تو معلوم یہ ہوا کہ اس دُنیا میں‘ اس آسمان کے نیچے اور اس زمین کے اوپر حقیقتاً نعمت صرف ایک ہے اور وہ ہدایت ہے ‘جو کہ مطلقاً نعمت ہے‘ سرتاپا نعمت ہے اور جو ہر نعمت کو نعمت بنانے والی ہے. اگر یہ نہ ہو تو پھر کوئی شے نعمت نہیں ہے.