اس نعمت ہدایت کی عظمت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی عجیب بات کی طرف میرے ذہن کو متوجہ کیا. وہ یہ کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنے کلام کی جو عظمت بیان کی ہے اس کے ضمن میں سورۃ الحشر کی ایک بڑی عظیم آیت ہے اور پھر دو آیات سورۂ یونس کی‘ چار سورۃ الرحمن کی‘ چھ سورۂ عبس کی اور آٹھ سورۃ الواقعہ کی. گویا ایک‘ دو‘ چار‘ چھ‘ آٹھ سیڑھیاں ہیں. پھر ایک عظیم آیت سورۃ الجمعہ کی ہے جو کہ سورۃ الواقعہ میں بیان کردہ منفی کردار کو مزید واضح کرتی ہے. میں اس وقت ان قرآنی آیات کے حوالے سے عظمت قرآن کی طرف صرف اشارہ کروں گا‘ کیونکہ قرآن کی عظمت فی نفسہٖ کیا ہے؟ یہ ہم سمجھ ہی نہیں سکتے. سورۃ الحشر میں ارشاد ہوتا ہے:
لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ؕ وَ تِلۡکَ الۡاَمۡثَالُ نَضۡرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۲۱﴾
’’اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اُتار دیتے تو تم دیکھتے کہ وہ دب جاتا اور پھٹ جاتا اللہ کے خوف سے. یہ مثالیں ہم لوگوں کے غور و فکر کے لیے بیان کر دیتے ہیں.‘‘
قرآن کے بیان کا مقصدیہ ہے کہ یہ مضمون اتنا لطیف ہے کہ تمہارے ذہن کی گرفت میں نہیں آسکتا. اس تمثیل کے ذریعے سے جو بھی کچھ سمجھ سکتے ہو‘ سمجھ لو. قرآن کی عظمت اپنی جگہ ہے. اقبال نے اس حقیقت کو ایک اور انداز میں کہا ہے ؎
فاش گویم آں چہ در دل مضمر است
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
مثل حق پنہاں و ہم پیدا ست ایں
زندہ و پائندہ گویا ست ایں!
’’اس کتاب کے بارے میں جو بات میرے دل میں پوشیدہ ہے اسے اعلانیہ ہی کہہ گزروں. حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب نہیں ہے بلکہ کچھ اور ہی شے ہے. جیسے اللہ کی ذات الحق ہے ویسے ہی یہ الحق ہے اور جو صفات اللہ کی ہیں‘ یعنی زندہ وپائندہ اور گویا (متکلم) وہی صفات اس قرآن کی بھی ہیں.‘‘
آگے چلئے‘ دو آیات سورۂ یونس کی ملاحظہ ہوں: یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآءَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَــآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِلا وَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ’’اے لوگو! دیکھو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت بھی آگئی ہے اور تمہارے سینوں کے اندر جو روگ ہیں ان کی دوا بھی آ گئی ہے‘ اور یہ ہدایت اور رحمت ہے اہل ایمان کے حق میں.‘‘ دل اگر سخت ہو گئے ہیں تو ان کو نرم کرنے کے لیے نصیحت بھی قرآن ہے ‘اور پھر یہ کہ دل کے روگ کون سے ہیں؟ ان میں دنیا کی محبت ہے. یہ material world ‘ مال و زر (ہندی میں اسے مایہ کہتے ہیں) حقیقت میں کچھ نہیں ہے. اس کی محبت میں انسان گرفتار ہو گیا تو یہی ضلالت ہے اور یہی گمراہی ہے. اس مایہ کی محبت کو دل سے نکالنا‘ اسے اَست کے چکر سے نکال دینا ہی درحقیقت اس کا علاج ہے. قرآن اس حوالے سے یہ کام کرتا ہے کہ لوگوں کے سینوں میں جو روگ ہیں‘ یعنی مال کی محبت‘ شہرت کی محبت‘ اقتدار‘ دولت و جائیدا دکی محبت‘ ان محبتوں کو کھرچ کھرچ کر نکال دیتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی محبت کو دل میں اس طرح داخل کرتا ہے کہ اصل محبوب اللہ تعالیٰ ہو جائے.
اور پھر قرآن (ھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِلْمُوْمِنِیْنَ) یعنی یہ اہل ایمان کے حق میں ہدایت بھی ہے اور رحمت بھی. لیکن اصل بات دل کے ٹھکنے کی ہے. ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ: اگر کسی شخص کو اللہ تعالیٰ نے قرآن دیا ہو اور پھر بھی وہ کسی دوسرے شخص کے بارے میں یہ سوچے کہ اس پر اللہ کا فضل و کرم مجھ سے زیادہ ہوا ہے کہ اس کو اللہ نے محل دیا ہے‘ اتنی لمبی کار دی ہے،یعنی اس پر اللہ کا کرم زیادہ ہوا ہے تو اس نے قرآن کی بہت ناقدری کی. اسے معلوم ہی نہیں کہ اس کے پاس کتنی بڑی دولت ہے. کسی شخص کے پاس کوہِ نور ہیرا ہو اور وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا رہا ہو تو اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اسے پتا ہی نہیں کہ اس کے پاس کوہِ نور ہیرا ہے. پروفیسر یوسف سلیم چشتی ؒ نے مجھے ہندی کا ایک دوہا سنایا تھا. بھیکا ایک ہندی شاعر تھا‘ وہ کہتا ہے ؎
بھیکا بھوکا کوئی نہیں‘ سب کی گدڑی لال
گرہ کھول جانے نہیں اس بدیے کنگال
یعنی کوئی انسان بھوکا نہیں ہے. اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے دل میں اپنی معرفت گویا کوہِ نور ہیرے کی صورت میں رکھی ہوئی ہے‘ تو پھر وہ بھوکا اور مفلس کیسے ہو گیا! صرف دل کی گرہ کھولنے کی ضرورت ہے. چونکہ انسان اپنے دل کی گرہ کو کھولتا نہیں ہے‘ اس لیے محسوس کرتا ہے کہ بھوکا ہو گیا ہے‘ مفلس اور کنگال ہو گیا ہے. سورۃ یونس کی دوسری آیت ہے : قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ؕھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ ’’کہہ دیجیے کہ یہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے‘ پس اس (نعمت) پر چاہیے کہ خوشیاں مناؤ. وہ بہتر ہے اس سے جو وہ جمع کرتے ہیں.‘‘ چنانچہ اس قرآن پر فخر کرو کہ اللہ نے ہمیں اتنی بڑی دولت دی ہے.
سورۃ الرحمن کی چار آیات ملاحظہ ہوں: اَلرَّحۡمٰنُ ۙ﴿۱﴾عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ﴿۲﴾خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ ۙ﴿۳﴾عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ ﴿۴﴾ ’’الرحمن‘ اس نے قرآن سکھایا‘ انسان کو تخلیق کیا‘ اسے بیان سکھایا.‘‘چار چیزیں جو سب سے چوٹی کی ہیں اللہ تعالیٰ نے ان چار آیتوں میں جمع کر دی ہیں. اللہ کے ناموں میں سب سے پیارا نام ’’الرحمن‘‘ ہے. اہل عرب میں ’’اللہ‘‘ کا لفظ زیادہ معروف تھا‘ اور وہ ’’رحمن‘‘ کے لفظ سے بدکتے تھے‘ لیکن قرآن نے آکر جس نام کو زیادہ نمایاں کیا وہ ’’رحمن‘‘ ہے‘ کہ سب سے زیادہ محتاج ہم اللہ کی رحمت ہی کے ہیں. جبکہ رسول اللہﷺ نے یہ فرمایا: ’’جب تک رحمت خداوندی دستگیری نہیں فرمائے گی میں بھی جنت میں داخل نہیں ہوسکتا!‘‘ ہمارا تمہارا کیامعاملہ ہےـ. عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ’’اس نے قرآن سکھایا‘‘.ویسے تو انسان کو سارے کا سارا علم اللہ تعالیٰ ہی نے دیا ہے. فزکس ‘ الجبرا‘ جیومیٹری کس نے سکھائی ؟ کیمسٹری کس نے پڑھائی؟ لیکن سب سے اونچا علم قرآن کا ہے. خَلَقَ الْاِنْسَانَ ’’اس نے انسان کو تخلیق کیا‘‘. ویسے تو ساری کائنات اللہ تعالیٰ ہی نے بنائی‘ فرشتے‘ جن‘ آسمان‘ زمین‘ سیارے اور ستارے بنائے‘ لیکن ان سب میں سب سے چوٹی کی مخلوق انسان ہے. عَلَّمَہُ الْبَیَانَ ’’اس نے اسے بیان سکھایا‘‘. اسے بہت کچھ سکھایا ہے‘ سماعت‘ بصارت دی ہے اور بہت صلاحیتیں دے رکھی ہیں‘ لیکن چوٹی کی چیز ’’بیان‘‘ ہے اس کا ایک نتیجہ نکلتا ہے‘ اور وہ یہ کہ اس چوٹی کے مصرف کو یعنی قوتِ بیانیہ کو چوٹی کی شے پر خرچ کرو. یعنی اس کو قرآن کے پڑھنے پڑھانے‘ سیکھنے سکھانے‘ سمجھنے سمجھانے میں صرف کرو. چنانچہ اسی قافیہ میں وہ حدیث آجاتی ہے جو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
خَیْرُ کُمْ مَّنْ تَـعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗ (رواہ البخاری)
’’تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن سیکھیں اور سکھائیں.‘‘
سیکھنے سکھانے کے مختلف مراحل و مدارج ہیں. قرآن کا صرف ناظرہ پڑھنا‘ سیکھنا سکھانا بھی ٹھیک ہے‘ حفظ اور تجوید بھی ٹھیک ہے .اور قرآن کو سمجھنا ہے تو اس کے لیے عربی سیکھنی پڑے گی. پھر ایک تو اس کا سرسری طور پر سمجھنا ہے اور دوسرے یہ کہ اس کی گہرائیوں میں اترنا ہے‘ اس کے فلسفے اور حکمت کو سمجھنا ہے‘ اسی سے اپنی معاشی زندگی کے لیے ہدایت اخذ کرنی ہے اور اسی سے اپنی سیاسی و سماجی زندگی کے لیے رہنمائی لینی ہے‘ تو یہ اس کے مختلف مدارج ہیں. لیکن بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن پڑھیں اور پڑھائیں‘ سیکھیں اور سکھائیں.
اب چھ آیتیں سورۂ عبس کی ہیں:
کَلَّاۤ اِنَّہَا تَذۡکِرَۃٌ ﴿ۚ۱۱﴾فَمَنۡ شَآءَ ذَکَرَہٗ ﴿ۘ۱۲﴾فِیۡ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ ﴿ۙ۱۳﴾مَّرۡفُوۡعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍۭ ﴿ۙ۱۴﴾بِاَیۡدِیۡ سَفَرَۃٍ ﴿ۙ۱۵﴾کِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ ﴿ؕ۱۶﴾ ’’کوئی نہیں! یہ قرآن یاد دہانی ہے. پس جو چاہے یاد دہانی حاصل کر لے. یہ قرآن بڑے ہی باعزت‘ بلند اور پاکیزہ صحیفوں میں ہے ‘اور اس کے کاتب ملائکہ مقربین ہیں ‘جو کہ بہت ہی با عزت اور نہایت نیک ہیں.‘‘
یہ قرآن کی ایک اور اعتبار سے مدح ہے. قرآن تو صرف یاددہانی ہے. تمہاری روح کے اندر وہ سارا علم موجود ہے‘ تمہاری روح میں دبی ہوئی چنگاری موجود ہے. جیسے چنگاری کے اوپر راکھ آ جاتی ہے اسی طرح تمہاری روح کے اندر موجود چنگاری پر راکھ آ گئی ہے. قرآن صرف اس راکھ کوہٹانے کے لیے آیا ہے‘ یہ دلوں کے زنگ کودور کرنے کے لیے آیا ہے. قرآن اندر کے سوئے ہوئے شعور کوبیدار کرنے کے لیے آیا ہے. اس کے بعد فرمایا: قرآن بہت ہی با عزت صحیفوں میں ہے جو کہ بہت ہی بلند ہیں.ایک جگہ الفاظ آئے ہیں: وَاِنَّــہٗ فِیْٓ اُمِّ الْکِتٰبِ لَدَیْنَا لَـعَلِیٌّ حَکِیْمٌ (الزخرف) یہ قرآن تو ہمارے پاس اُمّ الکتاب میں ہے‘تمہارے پاس تو قرآن کی مصدقہ نقلیں ہیں ‘یہ اصل قرآن نہیں ہے بَلۡ ہُوَ قُرۡاٰنٌ مَّجِیۡدٌ ﴿ۙ۲۱﴾فِیۡ لَوۡحٍ مَّحۡفُوۡظٍ (البروج) اصل قرآن تو لوح محفوظ میں ہے.
اب آیئے‘ ملاحظہ کیجئے آٹھ آیتیں (۷۵ تا ۸۲) سورۃ الواقعہ کی:
فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوۡمِ ﴿ۙ۷۵﴾وَ اِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوۡ تَعۡلَمُوۡنَ عَظِیۡمٌ ﴿ۙ۷۶﴾
’’نہیں! مجھے قسم ہے ان مقامات کی جہاں ستارے گرتے ہیں‘ اور اگر تمہیں علم ہو تو یہ بہت بڑی قسم ہے جو ہم نے کھائی ہے.‘‘
آج شاید انسان کو پتا چلا ہے کہ اس کائنات کے اندر بہت بڑے بڑے black holes ہیں‘ جو کہ ’’مَوَاقِعِ النُّجُوْمِ‘‘ ہیں. یہ تو ماہرین فلکیات (astronomists) سے پوچھیں کہ یہ black holes کیا ہیں اور کس بلا کا نام ہیں؟ کوئی بڑے سے بڑا سیارہ قریب سے گزر جائے تو وہ ان میں دھنس جائے گا اور فنا ہو جائے گا:
اِنَّہٗ لَقُرۡاٰنٌ کَرِیۡمٌ ﴿ۙ۷۷﴾فِیۡ کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡنٍ ﴿ۙ۷۸﴾لَّا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ
’ ’یہ بڑا باعزت قرآن ہے‘ چھپی ہوئی کتاب میں ہے. (وہ کتاب اللہ کے پاس لوحِ محفوظ میں ہے) اسے تو چھو ہی نہیں سکتے مگر صرف وہ کہ جو انتہائی پاک ہوں (یعنی فرشتے جو اسے چھوتے ہیں)ـ.‘‘
اگرچہ علماء نے اس آیت سے فقہی حکم نکال لیا ہے کہ بغیر وضو قرآن کو ہاتھ نہ لگایا جائے‘ لیکن یہاں اصل مفہوم کچھ اور ہے‘ اور وہ یہ کہ قرآن کے باطن تک انسان کی رسائی اُس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کاباطن بالکل پاک نہ ہو جائے‘ ورنہ وہ قرآن کے بھی ظاہر کے اندر الجھا رہے گا کہ یہ اسم ہے‘ یہ فعل ہے‘ اس کا مادہ یہ ہے. اس بات کو مولانا روم اس طرح فرماتے ہیں ؎
ما ز قرآں مغزہا برداشتیم
استخواں پیش سگاں انداختیم
یعنی قرآن سے اس کا اصل مغز تو ہم نے لے لیا ہے اور خالی ہڈی کتوں کے آگے ڈال دی ہے‘ وہ خالی ہڈیوں میں لڑتے رہتے ہیں. پس اگر اندر پاک ہو گیا ہو تو قرآن کے باطن تک رسائی ہو گی‘ ورنہ آپ تفسیر لکھ دیں گے‘ لیکن آپ کی رسائی قرآن کے باطن تک نہیں ہو گی. تفسیریں تو غیر مسلم بھی لکھ دیتے ہیں. لوگوں نے بڑی بڑی کتابیں لکھ دی ہیں‘ حدیث کے بڑے بڑے انڈکس غیر مسلموں نے مرتب کر دیے ہیں‘ لیکن قرآن کے باطن تک ان کی رسائی نہیں ہو سکی.
تَنۡزِیۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۸۰﴾ ’’پھر اس کا اتاراجانا ہے (لوح ِمحفوظ ‘ کتابِ مکنون ‘اُمّ الکتاب سے) اُس ہستی کی طرف سے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے.‘‘
آگے اب منفی پہلو ہے. اب تک کی باتیں آپ کو اچھی لگ رہی تھیں‘ اب کڑوی بات ہے: اَفَبِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ اَنۡتُمۡ مُّدۡہِنُوۡنَ ﴿ۙ۸۱﴾ ’’کیا اس قرآن جیسی چیز سے تم بے اعتنائی برت رہے ہو؟‘‘بے توجہی کر رہے ہو‘ اسے پڑھتے نہیں‘ پڑھتے ہو تو سمجھتے نہیں‘ سمجھتے ہو تو عمل نہیں کرتے. اتنی عظیم شے! کائنات کی عظیم ترین نعمت سے یہ سلوک! انگریزی ہم نے اتنی پڑھ لی کہ انگریزوں کو پڑھا دیں‘ لیکن عربی نہیں سیکھ سکے کہ قرآن سمجھ سکیں. آخر اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے؟ پی ایچ ڈی میں‘ فزکس‘ کیمسٹری میں‘ ڈاکٹری میں نہ جانے کتنے کتنے سال لگا کر لوگ ڈگریاں لیتے ہیں کہ آدھی عمر گزر چکی ہوتی ہے. سب کچھ پڑھ لیتے ہیں‘ لیکن اتنی عربی نہیں پڑھ سکتے کہ قرآن سمجھ سکیں. اب یہ سمجھ لو قرآن اس کو کیا کہتا ہے: وَ تَجۡعَلُوۡنَ رِزۡقَکُمۡ اَنَّکُمۡ تُکَذِّبُوۡنَ ﴿۸۲﴾ ’’اورتم نے اپنا نصیب یہ ٹھہرا لیا ہے کہ قرآن کو جھٹلا رہے ہو!‘‘ اگرچہ زبان سے نہیں کہتے کہ قرآن جھوٹا ہے‘ لیکن اگر تم قرآن کو سچا اور حق سمجھتے تو کیا اس کے ساتھ یہ سلوک کرتے!
یہ ہے وہ شے جس کو میں نے reverse گیئر سے تعبیر کیا ہے‘ جو میرے اور آپ کے لیے لمحۂ فکریہ ہے. اس کے لیے میں پھر ایک آیت کا حوالہ دے رہا ہوں اور وہ ہے سورۃ الجمعہ کی آیت ۵. اللہ تعالیٰ نے سابقہ اُمت ِمسلمہ جو مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ اور ملعون ہیں (یعنی یہودی) کی مثال دی ہے:
مَثَلُ الَّذِیۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰىۃَ ثُمَّ لَمۡ یَحۡمِلُوۡہَا کَمَثَلِ الۡحِمَارِ یَحۡمِلُ اَسۡفَارًا (الجمعۃ: ۵)
’’مثال ان لوگوں کی جو حامل توراۃ بنائے گئے‘ پھر انہوں نے اس کو نہیں اٹھایا (اس کی ذمہ داری ادا نہیں کی) اس گدھے کی سی ہے جس پر (کتابوں کا) بوجھ لدا ہواہو.‘‘
اگر ہم نے بھی وہی رویہ اختیار کیا تو گویا پھر یہ ہماری ہی مثال ہے.