اس ساری گفتگو کا عملی نتیجہ یہ ہے کہ پوری قوت کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی سطح پر قرآن کی طرف رجوع کی ایک زبردست تحریک چلنی چاہیے ‘جس میں لوگوں کو دعوت دی جائے کہ آؤ قرآن پڑھو پڑھاؤ‘ سیکھو سکھاؤ‘ سمجھو سمجھاؤ‘ اس کا علم حاصل کرو اور عام کرو. اب ۲۰۰۰ء شروع ہوچکا ہے. میں ۱۹۶۵ء میں دوبارہ لاہور منتقل ہوا تھا‘ یعنی اس تحریک کو شروع ہوئے ۳۵ برس گزر چکے ہیں.۱۹۶۷ء سے اس سمن آباد سے دعوت رجوع الی القرآن کا آغاز ہوا. اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ؏ ’’شادم اززندگی خویش کہ کارے کردم!‘‘ بڑا اطمینان اور سکون ہے کہ زندگی اسی کام میں لگی ہے.
اپنی بہترصلاحیت‘ بیشتر وقت‘ بہتر توانائیاں صرف اس کام میں صرف کی ہیں کہ قرآن پڑھو پڑھاؤ‘ سیکھو سکھاؤ‘ سمجھو سمجھاؤ! سورۃ الفتح کے آخر میں ایک نقشہ کھینچا گیا ہے: کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ جیسے ایک کسان نے کھیتی لگائی‘ ہل چلایا‘ بیج ڈالا‘ پانی دیا ‘یا یہ کہ بارانِ رحمت آ گئی تھی‘ اب اس نے دیکھا کہ بیج پھوٹ رہے ہیں او رپتیاں نکل رہی ہیں‘ پھر اس نے اپنا پٹھہ اٹھایا ہے‘ پھر ذرا اس کو گدرا کیا ہے‘ پھر وہ کھیتی اپنی نال پر کھڑی ہو گئی ہے. یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِھِمُ الْکُفَّارَ (آیت۲۹) اس کاشتکار کو وہ منظر بہت بھلا اور بہت اچھا لگتا ہے‘ وہ خوش ہوتا ہے او راس کا دل باغ باغ ہوتا ہے کہ میری محنت بارآور ہو رہی ہے. یہی معاملہ محمد رسول اللہﷺ کا تھا. ۲۳ برس کی دن رات کی محنت شاقہ میں ایسے ایسے مرحلے آئے کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.
انتقال سے چند دن پہلے جس وقت آپ ﷺ مرضِ وفات کی کیفیت میں تھے اور جماعت میں شریک نہیں ہو رہے تھے اس حالت میں آپؐ کو بہت شدید تکلیف رہی ہے. سر میں درد بہت شدید تھا. جس وقت ذرا سا افاقہ ہوا تو حجرے کے دروازے کا پردہ اٹھا کر دیکھا تو مسجد میں نماز ہو رہی تھی‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ امامت کرا رہے تھے. آپﷺ کے چہرے پر یہ سوچ کر تبسم آیا کہ یہ میری کھیتی ہے جو میں نے لگائی ہے‘ آج یہ فصل میری نگاہوں کے سامنے ہے. اور پھر اس کے بعد پردہ ڈال دیا.
اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اسی تمثیل کا ایک عکس میں اپنی تحریک رجوع الی القرآن کی صورت میں دیکھ رہا ہوں. میں نے ۳۵ برس پہلے جس کام کا آغاز کیا تھا آج میں اس کھیتی کو اپنی نگاہوں کے سامنے پروان چڑھتے ہوئے دیکھ رہا ہوں. میں نہیں سمجھتا کہ اس وقت اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی سو سے کم تعداد ہو گی جو اس قرآنی فکر کو درس و تدریس کے ذریعے عام کر رہے ہیں‘ او ریہ نوجوان بھی اب ادھیڑ عمر میں پہنچ رہے ہیں. یہ نصف صدی کا قصہ ہے‘ دوچار برس کی بات نہیں. میرے دو بیٹے اب چالیس کی دہائی میں ہیں اور میرے ساتھی نوجوان جو میرے ساتھ میرے درس میں شریک ہوتے تھے وہ fifties کے آس پاس آرہے ہیں. اتنے لوگ ہیں کہ جو اس کام میں لگے ہوئے ہیں. قرآن کا پڑھنا پڑھانا‘ سیکھنا سکھانا‘ سمجھنا سمجھانا ہو رہا ہے.
میرے پردادا حافظ نور اللہ صاحب کی ۱۸۵۷ء میں ان گریزوں نے جائیداد ضبط کر لی تھی. چنانچہ وہ اپنے آبائی علاقے ضلع مظفر نگر (یوپی) کو چھوڑ کر مشرقی پنجاب کے قصبہ حصار میں منتقل ہو گئے. بعد ازاں دو نسلیں توہماری ایسی گزری ہیں کہ جن میں کوئی قابل ذکر دینی کام نظر نہیں آتا. مسائل روز گار ہی اتنے گھمبیر تھے کہ ؏ ’’دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا‘‘ والا معاملہ رہا. لیکن پھر اللہ کا شکر ہے کہ اس کے بعد تیسری نسل سے یہ کام شروع ہو گیا. آج میں سوچ رہا تھا کہ اللہ کے فضل و کرم سے میرے دو بیٹے حافظ ہیں. میرے تین چھوٹے بھائی ہیں اور تینو ں کا ایک ایک بیٹا حافظ ہے.
خاص طور پر میں یہاں برادرم اقتدار احمد مرحوم (اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے) کا تذکرہ ضرور کرنا چاہوں گا. ان کے پاس میں خود یہ فرمائش لے کر گیا تھا کہ تم اپنا ایک بیٹا میرے حوالے کرو جو قرآن اکیڈمی میں ایک سالہ کورس کرے اور پھر اس کام میں لگے. انہوں نے اپنے منجھلے بیٹے حمید احمد کو اس کام کے لیے وقف کر دیا‘ لیکن وہ سعادت مند بچہ جلد ہی ایک حادثے میں انتقال کر گیا. اب میرے اندر اس بات کی ہمت نہیں تھی کہ میں ان سے کسی دوسرے بیٹے کا مطالبہ کرتا‘ کیونکہ کاروبار کے تقاضے بھی ہوتے ہیں‘ لیکن میری کسی توقع یا مطالبے کے بغیر فوری طور پر اقتدار احمد مرحوم نے کہا کہ میرے چھوٹے بیٹے رشید ارشد کو اس کام میں لگالیں. میں سمجھتا ہوں کہ یہ اسی حسن نیت کا نتیجہ نکلا ہے کہ اس بچے نے چھوٹی سی عمر میں یہاں دورۂ ترجمہ قرآن مکمل کیا ہے.
یہ حافظ بھی ہے. بحمداللہ میرے تین بیٹے بھی دورۂ ترجمہ قرآن کر چکے ہیں. عزیزم عاکف سعید‘ اللہ کے فضل و کرم سے چار پانچ مرتبہ یہ سعادت حاصل کر چکے ہیں. ابھی امریکہ کے قلب شکاگو سے دورۂ ترجمہ قرآن کر کے آ رہے ہیں. میرے ایک اور شاگرد اس وقت نیویارک میں دورۂ ترجمہ قرآن کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں. اسی طرح پورے پاکستان کے اندر بہت بڑے پیمانے پر یہ کام ہو رہا ہے. یہ سب اللہ کا فضل ہے وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ (الضحٰی) ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کا کوئی خاص انعام ہو تو اس کا تذکرہ بھی کیا کریں اور شکر کیا کریں. بحمداللہ میرے دو بیٹے‘ دو پوتے اور ساڑھے پانچ نواسے حافظ ہیں. ایک نے چونکہ پندرہ پارے کیے ہیں‘ اس لیے ساڑھے پانچ کہا ہے. یہ سب کچھ اللہ کے فضل و احسان کا مظہر ہے.
۱۹۴۷ء کی بات ہے‘ اگست یا ستمبر کا مہینہ تھا‘ ہم حصار میں محصور تھے. ہندو باہر سے آکر پے بہ پے حملے کرتے رہتے تھے‘ ان سے دفاع کے لیے ہم نے مورچے لگا لیے تھے. بھائی جان نے اس وقت B.Sc انجینئرنگ اور میں نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا تھا. چنانچہ یہ فارغ وقت ہم ایک مسجد میں بیٹھ کر مولانا مودودیؒ کا رسالہ ترجمان القرآن‘ جس میں سورۂ یوسف کی تفسیر چھپ رہی تھی‘ بڑے غور سے پڑھ رہے تھے. قرآن کا ذوق میرے اندر وہیں سے شروع ہوا. شوق پہلے بھی تھا‘ بلکہ یہ تو اُس وقت سے تھا جب میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا. اُس وقت علامہ اقبال کا ایک شعر میرے ذہن میں چپک کر رہ گیا تھا ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر!
اُس وقت میری عمر دس گیارہ سال ہو گی. لیکن قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے کا ذوق اس وقت پیدا ہوا جب ہم دونوں مل کر joint study کرتے تھے. پھر قرآن کی عظمت منکشف ہوئی. اس سے ایک دلچسپی او رلذت پیدا ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے اس درجہ مناسبت عطا فرمائی کہ اللہ کے فضل و کرم سے پھر میری زندگی تو اسی کام میں لگ گئی. پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب کہا کرتے تھے کہ ہم نے عاشق قرآن تو بہت دیکھے ہیں لیکن فنافی القرآن ڈاکٹر اسرار کے سوا کوئی نہیں دیکھا‘ حالانکہ وہ مولاناا حمد علیؒ کے بہت قریب رہے. جس زمانے میں حمایت اسلام ایک تبلیغی کالج ہوتا تھا اس وقت وہ اس کے پرنسپل تھے اور اس کے منتظم مولانا احمد علیؒ ہوتے تھے. ان کا ان سے بہت قریبی ربط تھا.
بہرحال دعوت رجوع الی القرآن کے حوالے سے میں آپ کو جو خوشخبری دے رہا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ جگہ جہاں آپ اس وقت بیٹھے ہیں اب یہ بھی جامع القرآن کی شکل اختیار کرے گی. یعنی جیسے حضوراکرمﷺ نے حجۃ الوداع میں فرمایا تھا: اِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ کَھَیْئَتِہٖ یَوْمَ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ (متفق علیہ) قریش نے کیلنڈر میں اونچ نیچ کر دی تھی‘ اشہر حرم آگے پیچھے کر دیے تھے‘ لیکن حجۃ الوداع کے موقع پر صحیح تقویم کے مطابق حج ہوا تھا. حضور ﷺ نے فرمایا: ’’آج سے نسی ء کا قاعدہ منسوخ ہوا. آج وقت کی تقویم وہیں آ گئی ہے کہ جس پر اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پیدا کیاتھا.‘‘
تو یوں سمجھئے کہ ۱۹۶۶ء سے جو تحریک قرآنی میرے پھوپھی زاد بھائی شیخ نصیر احمد مرحوم کے مکان 211-Aاین سے اور پھر مسجد خضراء سمن آباد سے درسِ قرآن کی صورت میں شروع ہوئی تھی اور پھر دس برس تک دعوت رجوع الی القرآن کا جو ڈنکا بجا ہے وہ اسی ارضِ سمن آباد میں تھا.پورے شہر سے کھنچ کھنچ کر لوگ آیا کرتے تھے .اور اب یہ کہ منظورحسن صاحب جو اس جگہ کے مالک تھے ان کی خواہش تھی کہ یہ جگہ قرآن مجید کی دعوت کا مرکز بنے. میں اس بات کا اعلان کر رہا ہوں کہ قرآن اکیڈمی ماڈل ٹاؤن کی طرز پر یہاں بھی ان شاء اللہ تعالیٰ ایک چھوٹی سی جامع القرآن تعمیر ہو گی اور اسے ذرا چھوٹے پیمانے پر ایک مرکز کی حیثیت حاصل ہو گی. اب آپ اُس وقت کو غنیمت سمجھیں اور کمر کس لیں. عربی کلاسز شروع ہوں تو محنت و توجہ کے ساتھ عربی پڑھنے میں لگ جائیں. کوئی اور اجتماعات ہوں تو ان کے اندر پوری پابندی کے ساتھ شرکت کریں.تعمیر ہو تو اس میں دل کھول کر چندہ دیں اور پورے زور و شور کے ساتھ اس کی تعمیر میں حصہ لیں تاکہ یہ جلدازجلد مکمل ہو سکے. یہاں ایک مسجد بھی بنے گی. ابھی تک مختلف مسجدیں مختلف مسلکوں کے نام سے پہچانی جاتی ہیں. کوئی دیوبندی مسلک کی مسجد ہے تو کوئی بریلوی مسلک کی. اسی طرح اہل حدیث اور شیعہ مسالک کی مساجد ہیں. لیکن یہ مسجد اسلام اور قرآن کی مسجد یعنی ’جامع القرآن‘ ہو گی اور اس کے ساتھ کسی فرقہ واریت کا معاملہ نہیں ہوگا. ان شاء اللہ تعالیٰ وہ مرکز یہاں بنے گا.