اب ذرا ایک اور بات کا جائزہ لیجئے! دیکھئے‘ قرآن مجید سب سے بڑی نعمت ہے‘ تو اللہ تعالیٰ کے ہاں ان نعمتوں کا حساب بھی ہونا ہے جو ہمیں عطا کی گئی ہیں : ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ (التکاثر) ’’پھر قیامت کے دن تم سے ان نعمتوں کے بارے میں حساب کتاب بھی ہو گا‘‘.یعنی تم نے ہماری نعمت کا صحیح استعمال بھی کیا کہ نہیں؟ نعمت قرآنی کا استعمال ایک تو یہ ہے کہ قرآن پڑھو پڑھاؤ ‘ سیکھو اور سکھاؤ‘ اس کے نور کو عام کرو‘ چہار دانگ عالم کو اس کی روشنی اور ہدایت سے منور کر دو. لیکن اس کا دوسرا معاملہ یہ ہے کہ اس کتاب کے نظام کو قائم کرنے کے لیے تن من دھن کی بازی لگاؤ. یہ صرف پڑھنے کے لیے نہیں آئی ہے‘یہ اس لیے آئی ہے کہ ہمارے سارے فیصلے اس کے مطابق ہوں: وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓـئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ … ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ … ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (المائدۃ) ’’جو اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں… وہی تو ظالم ہیں (وہی تو مشرک ہیں)… وہی تو فاسق ہیں.‘‘ ہم کیا ہیں؟ انفرادی طو رپر (اللہ کا شکر ہے) ہم مسلمان ہیں‘ اجتماعی طور پر ہم کافر ہیں! ہمارا نظام کافرانہ ہے‘ ہماری معیشت سود پرمبنی ہے. یہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف بغاوت ہے. ہمارے خلاف اللہ اور اس کے رسول کا اعلانِ جنگ ہے. ہمارے معاشرے میں فحاشی‘ عریانی اور بے حیائی ہے. چنانچہ سوچ لیجیے کہ قرآن کے فیصلے کے مطابق ہمارا شمار کن لوگوں میں ہوتا ہے!

قرآن مجید کی دعوت کا خلاصہ یہ ہے کہ سارے نبیوں نے کہا: 
یٰــقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَـکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ’’اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی بندگی کرو‘ جس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں‘‘.اور اُعْبُدُوا اللّٰہَ وَاَطِعْیُوْنِ ’’اللہ کی بندگی کرو اور میری اطاعت کرو‘‘.اللہ کی بندگی اور پرستش کرو ‘لیکن اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے: وَمَآ اُمِرُوْآ اِلاَّ لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَلا حُنَفَـآءَ (البینۃ:۵) ’’ اور انہیں اللہ تعالیٰ کی بندگی ہی کاحکم دیا گیا تھا اطاعت کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے یکسو ہو کر.‘‘اب ہماری بندگی تو ادھوری ہے ‘اور ادھوری بھی کہاں ہے؟ ہماری پوری اجتماعی زندگی تو اسلام و قرآن کے خلاف ہے.انفرادی زندگی میں ٹھیک ہے میں شراب نہیں پیتا‘ سود نہیں کھاتا‘ نماز پڑھتا ہوں‘ روزہ رکھتا ہوں‘ لیکن اس سے آگے اجتماعیت کا پہلا قدم شروع ہوتے ہی کفر شروع ہو گیا. آج ہمارے کتنے گھر ہیں جن میں شرعی پردہ ہے؟ میں رواجی پردے کی بات نہیں کررہا‘ شرعی پردے کی بات کر رہا ہوں. اگر گھر میں شرعی پردہ نہیں ہے تو اجتماعیت کا تو پہلا قدم ہی غلط ہوگیا. کتنے لوگ ہیں جو حلال کھا رہے ہیں؟ کتنے کاروباری ہیں جو اپنے آپ کو بینک کے اوور ڈرافٹس سے بچائے ہوئے ہیں اور کتنے لوگ ہیں جنہوں نے سودی قرضہ لے کر مکان نہیں بنائے ہیں؟ اس سارے کفر کے خلاف جب تک جدوجہد نہ ہو‘ سعی و محنت اور جہاد نہ ہو‘ ہماری یہ جزوی ہدایت اللہ کے ہاں قبول نہیں. سورۃ المائدہ ہی میں فرمایا: قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْ ءٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ (آیت ۶۸’’(اے نبی !) کہہ دیجیے: اے کتاب والو(یہودیو‘ نصرانیو) تمہاری کوئی حیثیت ہماری نگاہ میں نہیں ہے جب تک کہ تم توراۃ اور انجیل کو اور جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے قائم نہیں کرتے.‘‘ تمہارا منہ نہیں ہے کہ ہم سے بات کر سکو. اسی طرح اللہ تعالیٰ ہم سے فرماتے ہیں کہ کس منہ سے تم نماز پڑھ رہے ہو جب کہ تم نے اللہ کی کتاب کو قائم نہیں کیا. 

گویا: ’’یٰٓــاَھْلَ الْقُرْآنِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْئٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا ’’الْقُرْاٰنَ‘‘ وَمَا اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِنْ رَبِّکُمْ‘‘ یعنی’’اے قرآن والو! تمہاری کوئی حیثیت نہیں جب تک کہ تم قرآن کو اور جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے اسے قائم نہیں کرتے.‘‘

چنانچہ اب ہمارے لیے کرنے کا کام کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ میں اکیلا یہ کام نہیں کر سکتا.اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سو پچاس یا ہزار دو ہزار آدمی مل کر بھی نہیں کر سکتے. لیکن جدوجہد اور کوشش تو کر سکتے ہیں. اپنی توانائیاں‘ صلاحیتیں‘ قوتیں‘ اپنے اوقات‘ اپنے وسائل اور اپنی اولاد کو تو اس کام کے لیے لگا سکتے ہیں. اگر ہم یہ بھی نہیں کرتے تو پھر یقینا اس وعید کا شکار ہو جاتے ہیں کہ:

اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۵﴾ (البقرۃ:۸۵’’کیا تم ہماری کتاب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک حصے کو نہیں مانتے؟ (یعنی کچھ احکام پر عمل کرتے ہو اور کچھ پر نہیں کرتے؟) تو جان لو کہ تم میں سے جو کوئی یہ حرکت کرے اس کی سزا اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اسے دنیا میں ذلیل و خوار کر دیا جائے اور قیامت کے دن شدید ترین عذاب میں جھونک دیا جائے. اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے.‘‘ 
اس سے بچنے کی ایک ہی شکل ہے. وہ یہ کہ غلبہ چونکہ باطل اور طاغوت کا ہے اور اللہ کا دین مغلوب ہے‘ میں اور آپ اس کے تحت رہنے پر مجبور ہیں‘ ہم سودی نظام کے اندر سانس لے رہے ہیں‘ میرے اور آپ کے سانس کے ساتھ سود اندر جا رہا ہے‘ تو پھر اس سب کے کفارے کے لیے ہمیں کیا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے؟ جواب اس کا صرف یہ ہے کہ یہاں رہتے ہوئے ہمیں اپنی توانائیوں‘ قوتوں‘ صلاحیتوں‘ اوقات اور وسائل و ذرائع کا کم سے کم حصہ اپنی ذات پر اور اپنے اہل و عیال پر اور زیادہ سے زیادہ حصہ ایسی جدوجہد میں لگا دینا چاہیے جس کے ذریعے دین کے نظام کو قائم کیا جا سکے. اگر یہ کر لیا تو کفارہ ادا ہو جائے گا‘ جو گناہ اندر جا رہا ہے وہ دھل جائے گا. اسے آپ اقامت دین یا نظام خلافت کہہ لیں‘ قرآن کا قائم کرنا کہہ لیں‘ دین کا قیام یا نظامِ مصطفی کا قیام کہہ لیں. یہ نام مختلف ہو سکتے ہیں‘ لیکن کام کی نوعیت ایک ہی ہے. ’’عِبَاراتُنَا شَتّٰی وَحُسْنُکَ وَاحِدٌ‘‘.

پھر اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ اگر آپ باطل نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں تو اس صورت میں آپ پر اقامت دین کی جدوجہد فرضِ عین ہے. میں یہ بات سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں. میری پوری زندگی قرآن مجید کے پڑھنے پڑھانے میں گزری ہے. یہ بات میں اپنے مطالعہ قرآنی کی روشنی میں کہہ رہا ہوں کہ جو آدمی اس جدوجہد میں شریک نہیں ہے‘ اس کی نماز‘ نماز نہیں ہے‘ روزہ‘ روزہ نہیں ہے. اس لیے کہ جب تک طاغوت کا کفر نہیں کرتا اس وقت تک اس کا اللہ پر ایمان معتبر ہی نہیں ہوتا. 

فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ سْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی (البقرۃ: ۲۵۶
’’پھر جو کوئی طاغوت کا کفر کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو اس نے ایک مضبوط کنڈے کو تھام لیا.‘‘

طاغوت کا کفر پہلے ہے اور اللہ پر ایمان بعد میں ہے. اگر انسان طاغوت کے خلاف جدوجہد نہیں کر رہا اور ا س کے تحت پھلنے ‘پھیلنے اور پھولنے کی کوشش کر رہا ہے‘ جائیداد بنا رہا ہے‘ کاروبار بڑھا رہا ہے‘ تو اس کا مطلب ہے طاغوت کے ساتھ اس کی ہم آہنگی ہے‘ وہ اسے ذہناً قبول کر چکا ہے او ردل سے اسے مان چکا ہے. لہذا اس کی نماز منہ پر دے ماری جائے گی.