میرے مطالعے کا حاصل یہی ہے کہ دین کے لیے یہ جدوجہد ہم پر فرض ہے. اس ضمن میں یہ چار باتیں اپنے پلے باندھ لیں:

۱) اس جدوجہد کے لیے کسی جماعت میں شامل ہونا لازم ہے. کیونکہ یہ کام بغیر جماعت کے ممکن نہیں. یہ کام افراد نہیں کر سکتے. اسی لیے رسول اللہ نے فرمایا: عَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ (سنن الترمذی)’’(مسلمانو!) تم پر جماعت سے وابستہ رہنا ضروری ہے‘‘. یَدُ اللّٰہِ مَعَ الْجَمَاعَۃِ (سنن الترمذی) ’’اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے.‘‘اور ایک حدیث میں نبی اکرم نے صاف فرما دیا:

اَنَا آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ‘ اَللّٰہُ اَمَرَنِیْ بِھِنَّ: بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ
(مسند احمد)

’’مسلمانو! میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دے رہا ہوں‘ جن کا مجھے اللہ نے حکم دیا ہے: جماعت کا‘ سننے اور ماننے کا‘ اللہ کے راستے میں ہجرت اور جہاد کا.جماعت کا التزام ہو اور جماعت بھی سمع و طاعت والی ہو‘ اور یہ جماعت پھر ہجرت اور جہاد کے مراحل سے گزر کر اللہ کے دین کو قائم کرے.‘‘

اس جماعت کا معین ہدف اقامت دین کی جدوجہد ہونا چاہیے. کوئی چھوٹا کام مثلاً تعلیمی‘ تبلیغی اور اصلاحی نوعیت کا نہیں ہونا چاہیے. ویسے تو یہ کہ اگر کوئی سگریٹ نوشی کے خلاف بھی مہم چلائے تو وہ بھی اچھا کام ہے. تمباکو نوشی سے لوگوں کو بچانا‘ یہ بھی اچھا ہے‘ برا نہیں. آپ اپنے محلے کی صفائی کے لیے ’’انجمن حفظانِ صحت‘‘ بنا لیں تو یہ بھی بہت اچھی بات ہے. لیکن اس جماعت کاdeclared goal اقامت دین اور غلبۂ دین کی جدوجہد ہونا چاہیے.

۲) وہ جماعت انتہائی منظم (disciplined) ہونی چاہیے.

۳) یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس جماعت کا طریقہ کار کیا ہے. ایک بات طے ہے کہ اگر وہ طریقہ کار رسول اللہ کے طریقہ کار سے ماخوذ اور مستنبط نہیں ہے تو آپ کبھی منزل تک نہیں پہنچ سکتے ؎

خلافِ پیمبرؐ کسے راہ گزید
کہ ہر گز بمنزل نہ خواہد رسید!

چنانچہ راستہ وہی اختیار کرنا ہو گا .بقول امام مالکؒ : لاَ یَصْلُحُ آخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلاَّ بِمَا صَلُحَ بِہٖ اَوَّلُھَا ’’اس اُمت کے آخری حصے کی اصلاح نہیں ہوگی مگر صرف اسی طریقے پر جس پر کہ پہلے حصے کی اصلاح ہوئی ہے.‘‘

۴) آپ کے لیے جس طرح بھی ممکن ہو اُس جماعت کی قیادت کے قریب ہو کر دیکھ لیں کہ دل کیا گواہی دیتا ہے کہ کیا یہ لوگ مخلص ہیں یا بہروپیے ہیں؟ یہ دین کے نام پر دُنیا کی کوئی دکان تو نہیں چمکا رہے؟ اگر دل ان لوگوں کے خلوص کی گواہی دے دے اور یہ جماعت بقیہ شرطیں بھی پوری کر رہی ہو تو پھر اس جماعت میں شامل ہونا فرضِ عین ہے. اگر باطل کے غلبے کے تحت زندگی گزارنے والے شخص کے لیے دین کے غلبے کی جدوجہد فرضِ عین ہے تو پھر اس فرضِ عین کو پورا کرنے کے لیے جماعت کا التزام بھی فرضِ عین ہے. یہ بات سمجھ لیجئے کہ جس طرح نماز کے لیے وضو فرض ہے‘ اس لیے کہ وضو کے بغیر نماز نہیں‘ اسی طرح چونکہ جماعت کے بغیر دین کی اقامت ممکن نہیں ‘لہذا اگر اقامت دین فرض ہے تو التزامِ جماعت بھی فرض ہے.