دوسرے رکوع کی پہلی پانچ آیات جن میں ایمانیات کے مضمرات کو واضح کیا گیا ہے‘ ان میں سے چار آیات کا تعلق انسان کے فکر و عمل سے ہے. یعنی ایمانِ حقیقی حاصل ہونے کے بعد انسان کی سوچ اور اس کے زاویہ ٔ نگاہ میں کیا انقلاب آنا چاہیے اور اس کے باطنی احساسات میں کیا تبدیلی آنی چاہیے. جب اس نے اللہ کو مانا ہے تو اسے اللہ کی رضا پر راضی رہنا چاہیے‘ اسے تسلیم و رضا کی کیفیت کا حامل ہونا چاہیے اور اللہ سے کسی شکوہ و شکایت یا ناراضگی کی کیفیت میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے. اسی طرح اس کا سارا دارو مدار ‘ بھروسہ‘ توکل اور تکیہ اسباب و وسائل پر نہیں‘ بلکہ مسبب الاسباب یعنی ذاتِ باری تعالیٰ پر ہوجانا چاہیے. پھر یہ کہ دنیا میں جتنی بھی چیزوں سے اس کا تعلق ہے‘ خواہ وہ کہ جن سے اس کا سلسلہ ٔحیات وابستہ ہے‘ یعنی معاشی اسباب وذرائع وغیرہ اور خواہ وہ علائق دُنیوی کے زمرے میں سے ہوں‘ ان کے بارے میں اس کے نقطہ ٔ نظر میں واضح تبدیلی آنی چاہیے. انسان کو آگاہ رہنا چاہیے کہ جہاں محبت ہو وہیں خطرہ ہوتا ہے.

انسان کو اپنی اولاد‘ والدین‘ اعزہ و اقارب اور بیویوں (اور بیویوں کو شوہروں) سے جو طبعی محبت ہے یہی درحقیقت خطرے کی علامت ہے. یہ محبت اگر ایک حد کے اندر رہے‘ یعنی اللہ کی محبت کے تابع رہے تو صحیح ہے‘ درست ہے‘ لیکن اگر یہ اس حد سے بڑھ جائے تو انسان کی عاقبت برباد ہو جاتی ہے. یہ ہے نقطہ ٔنظر کی وہ تبدیلی جو ایمان کا تقاضا ہے. یعنی مال و اسبابِ دُنیوی اور اولاد کو ایک فتنہ و آزمائش سمجھنا چاہیے کہ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ ہمیں آزما رہا ہے. چنانچہ ان پانچ آیات میں سے چار آیات انسان کے فکر و نظر کی تبدیلی کے بیان پر مشتمل ہیں‘ جبکہ صرف ایک آیت عمل سے متعلق ہے. اور یہی وہ آیت ہے جو ہماری آج کی گفتگو کا مرکز و محور ہے:

﴿وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ فَاِنَّمَا عَلٰی رَسُوۡلِنَا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۲﴾﴾

رسول اللہ کی ذمہ داری اللہ کے احکام پہنچا دینا ہے. اس کے بعد ان احکام پر عمل کرنا سراسر تمہاری اپنی ذمہ داری ہے اوراس کی جواب دہی خود تمہیں کرنی ہو گی. جس طرح ایمانی حقائق تو اپنی جگہ اٹل ہیں‘ کوئی مانے تب بھی اور کوئی نہ مانے تب بھی‘ لیکن انہیں ماننے میں تمہاری فلاح و کامیابی ہے‘ اسی طرح اللہ کے احکام تو اپنی جگہ برحق ہیں‘ واجب التعمیل ہیں‘ لیکن تمہیں ان پر عمل کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے. اگر تم ان پر عمل کرو گے تو اس میں تمہاری فلاح و نجات اور اللہ کی رضا ہے.