یہاں یہ نسبت و تناسب قابل توجہ ہے کہ ثمراتِ ایمانی میں اصل اہمیت گویا فکر و نظر کی تبدیلی کی ہے‘ جس کا نتیجہ انسان کے عمل کی تبدیلی کی صورت میں نکلتا ہے. چنانچہ یہاں چار آیات فکر ونظر کی تبدیلی پر اور صرف ایک آیت عمل کی تبدیلی کے بارے میں وارد ہوئی ہے‘ اگرچہ یہ ایک آیت اپنے طو رپر اس قدر اہم اور جامع ہے کہ اگر اس پر نگاہ کو جما لیا جائے تو واقعہ یہ ہے کہ اس پر ’’ تل کی اوٹ میں پہاڑ‘‘ والا محاورہ صادق آتا ہے‘ یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ ’’سوسنار کی اور ایک لوہار کی‘‘ یا ’’ہاتھی کے پائوں میں سب کا پاؤں‘‘ والا معاملہ نظر آتا ہے ‘ اس لیے کہ ایک لفظ ’’اطاعت‘‘ میں شریعت کے تمام اوامر و نواہی مضمر ہیں. جب یہ کہا جاتا ہے کہ ’’اللہ کا حکم مانو‘‘ تو اس سے مراد اللہ کے تمام احکام ہوتے ہیں‘ کیونکہ اللہ کا حکم نماز پڑھنے کا بھی ہے‘ رمضان کے روزے رکھنے کا بھی ہے‘ صاحب ِ نصاب ہونے کی صورت میں زکوٰۃ ادا کرنے کا بھی ہے‘ اور صاحب ِ استطاعت کے لیے حج کرنے کا بھی ہے.

پھر یہ بھی اللہ کا حکم ہے کہ اس کے دین کی دعوت دو‘ دین کی تبلیغ واشاعت کرو‘ نیکی کا حکم دو اور بدی سے روکو! یہ بھی اللہ کا حکم ہے کہ حلال کو حلال جانو اور حرام کو حرام جانو‘ حلال پر قناعت کرو اور حرام سے اجتناب کرو! اور یہ بھی اللہ کا حکم ہے کہ دین کے لیے جہاد کرو‘ کلمہ ٔحق کہو‘ عدل و قسط پر قائم رہو‘ حق کے علمبردار بن جاؤ‘ انصاف کے گواہ بن کر کھڑے ہو جاؤ اور اللہ کے دین کو قائم کرو! پھر یہ کہ اس کے لیے جان کھپاؤ‘ مال کھپاؤ‘ اور اگر ضرورت پڑے تو نقد جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں آجاؤ! یہ سب احکام ہی تو ہیں‘ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ قرآن میں جہاں اللہ کا حکم ماننے کی بات ہوتی ہے ہمارا ذہن نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ سے آگے کچھ نہیں سوچتا. یا زیادہ سے زیادہ یہ کہ سور نہیںکھانا‘ شراب نہیں پینی اور زنا نہیں کرنا. اس سے آگے اللہ کا کوئی حکم ہمارے سامنے ہے ہی نہیں.

ہمارے ہاں عمل کا جو سارا فساد پیدا ہواہے اس کی سب سے بڑی وجہ تو ایمان کا فقدان ہے. جس چیز کو ایمان سمجھا جاتا ہے وہ محض ایک موروثی عقیدہ 
(racial creed) ہے جو ماں باپ کی طرف سے چلا آرہا ہے.حقیقی ایمان کا حال تو یہ ہے کہ ؏ ’’ڈھونڈ اب اس کو چراغِ رخِ زیبا لے کر!‘‘ کے مصداق تلاش کرنے پر شاید کہیں نظر آ جائے. پھر یہ کہ جہاں ایمان کچھ موجود بھی ہے وہاں فرائض کا تصور محدود ہے اور سارے کا سارا ایمانی جوش و جذبہ انہی ’’عبادات‘‘ کے اندر پورا ہو جاتا ہے.

جوں جوں ایمانی جذبہ ترقی کرتا ہے تو انسان فرائض کے بعد مستحبات و نوافل میں آگے بڑھتا چلاجاتا ہے لیکن وہ یہ نہیں سوچتا کہ اللہ کے احکام تو سب کے سب برابر ہیں‘ اللہ کا حکم جس طرح زنا اور شراب کی حرمت کا ہے اس سے کہیں بڑھ کر سود کی حرمت کا بھی ہے اور یہ کہ اگر وہ اللہ کے احکام میں کہیں اپنی پسند اور مرضی سے یا اپنی سہولت اور مصلحت کی خاطر ذرا سی بھی تفریق اور تقسیم کر لے تو اس طرزِ عمل کے لیے قرآن میں بہت سخت وعید آئی ہے : 

اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۵﴾ (البقرۃ) 
’’کیا تم ہماری کتاب (و شریعت اور ہمارے اوامر و نواہی) کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک حصے کو نہیں مانتے؟ تو کوئی سزا نہیں ہے اس کی جو تم میں سے یہ روش اختیار کرے سوائے اس کے کہ اسے دنیا میں ذلیل و خوار کر دیا جائے اور آخرت میں شدید ترین عذاب میں جھونک دیا جائے. اور اللہ غافل نہیں ہے اس سے جو کچھ کہ تم کر رہے ہو!‘‘

اس اعتبار سے آپ غور کیجیے کہ 
’’وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ‘‘ کہنے کو تو دو چھوٹے چھوٹے جملے ہیں‘ لیکن ان میں ایک قیامت مضمر ہے. واقعہ یہ ہے کہ یہاں تِل کی اوٹ میں پہاڑ موجود ہے. شریعت کے تمام اوامر و نواہی اور تمام دینی ذمہ داریوں کا ذکر ان چند الفاظ میں موجود ہے:

وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ ۚ 
’’اور اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو (اُس کے) رسولؐ کی‘‘
اس کے ساتھ ہی بڑے استغناء کے انداز میں یہ فرمادیا گیا کہ اگر تم نے روگردانی کی ‘ پیٹہ دکھائی‘ اعراض کیا‘ انکار کیا تو اس میں اللہ کا کوئی نقصان ہے نہ اس کے رسولؐ کا:

فَاِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ فَاِنَّمَا عَلٰی رَسُوۡلِنَا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۲﴾ 
’’پھر اگر تم نے روگردانی کی تو جان لو کہ (ہمارے) رسول کی ذمہ داری صرف پہنچا دینے کی ہے.‘‘

رسول اللہ نے اپنی ذمہ داری ادا فرما دی‘ وہ فارغ ہوئے‘ اب عمل کی ذمہ داری تمام تر تم پر ہے‘ اور اگر تم اس میں کوتاہی کروگے تو اللہ کی کوئی احتیاج تمہارے ساتھ وابستہ نہیں ہے‘ اس کا کوئی کام تمہاری اطاعت کے بغیر رکا ہوا نہیں ہے‘ جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں الفاظ آئے ہیں کہ:

’’اے میرے بندو‘ اگر تمہارے اوّلین بھی اور آخرین بھی‘ انسان بھی اور جن بھی‘ سب کے سب اتنے متقی ہو جائیں جتنا کہ تم میں کوئی بڑے سے بڑا متقی ہو سکتا ہے‘ تب بھی میری سلطنت اور میرے کارخانہ ٔقدرت میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا اور اگر تمہارے اوّلین و آخرین اور انس و جن سب کے سب ایسے ہو جائیں جتنا کہ تم میں کوئی زیادہ سے زیادہ سرکش و نافرمان ہو سکتا ہے‘ تب بھی میری سلطنت میں کوئی کمی نہیں آئے گی‘‘. (۱معلوم ہوا کہ اللہ تو غنی ہے‘ اِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ لیکن اس کے احکامات کی پابندی میں خود ہماری خیر اور بھلائی ہے.

آیت زیر درس کے مطالعہ کا آغاز کرنے سے پہلے یہ نسبت و تناسب ذہن میں ایک بار پھر تازہ کر لیجیے کہ یہاں فکر و نظر کی تبدیلی پر چار آیات اور دعوتِ عمل پر صرف (۱) صحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب تحریم الظلم. راوی: ابوذر غفاریؓ ایک آیت آئی ہے‘ اس لیے کہ تمام فرائض کی ادائیگی اور تمام اوامرو نواہی کی پابندی کا دار و مدار ہی فکر و نظر کی تبدیلی پر ہے. یہ تبدیلی گہرائی اور گیرائی کے اعتبار سے جس قدر زیادہ ہو گی‘ اس کے اندر جس قدر زیادہ پختگی اور دوام ہو گا اور ایمانِ حقیقی جس قدر قلب کی گہرائیوں میں راسخ اور فکر و نظر میں پیوست ہو جائے گا اسی قدر انسان کے لیے ممکن ہو گا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ؐ کی اطاعت کر سکے. لہذا یہ دونوں چیزیں باہم لازم و ملزوم کے درجے میں ہیں. اب ہم اس آیت مبارکہ کے ایک ایک لفظ پر غور کرتے ہیں.