آیاتِ قرآنی کی روشنی میں اطاعت کا مفہوم

مطالعہ ٔقرآن حکیم کے منتخب نصاب میں لفظ ’’اطاعت‘‘ اس سے قبل صرف ایک جگہ یعنی سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع میں آیا ہے. وہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت لقمان کی نصائح میں جو اضافہ کیا گیا اس میں یہ مضمون آیا ہے کہ اگر مشرک والدین تم پر دباؤ ڈالیں کہ تم اللہ کے ساتھ شرک کرو تو ان کی اطاعت مت کرو! وہاں الفاظ آئے ہیں: ﴿فَلَا تُطِعْھُمَا﴾ کہ پھر تم ان کا کہنا مت مانو‘ یہاں وہ اپنی حدو د سے تجاوز کر رہے ہیں. اگرچہ والدین کا مقام اتنا بلند ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے شکر کے فوراً بعد والدین کے شکر کو لازم قرار دیا : ﴿اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ﴾ لیکن اگر وہ اپنے اس مقام سے مزید بلند ہو کر اللہ سے بھی بالاتر ہونا چاہتے ہیں اور اللہ کے احکام کے خلاف کوئی حکم دینا چاہتے ہیں تو ان کا کہنا نہیں مانا جائے گا‘ کیونکہ ازروئے حدیث نبویؐ : لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ (۱یعنی جس معاملے میں اللہ تعالیٰ کی معصیت لازم آتی ہو اس معاملے میں مخلوق میں سے کسی کی بھی اطاعت نہیں کی جا سکتی! لیکن اصلاً یہ آیت مبارکہ (آیت زیر درس) ہمارے منتخب نصاب میں اطاعت کی تاکید پر مشتمل پہلا مقام ہے.

لفظ اطاعت اگرچہ عام طور پر کسی بھی حکم برداری‘ فرمانبرداری‘ کسی کے حکم کو مان لینے اور اس کی تعمیل کے لیے استعمال ہو جاتا ہے‘ چاہے وہ برضا و رغبت اور دلی آمادگی 
(۱) جامع الصغیر للسیوطی‘ ح:۹۹۰۳‘ راوی: عمران بن حصینؓ . مشکوٰۃ المصابیح‘ کتاب الامارۃ والقضاء‘ الفصل الثانی. سے ہو‘ چاہے بالجبر ہو‘ لیکن دراصل اس لفظ کا مادہ ’’طوع‘‘ ہے جو ’’کرہ‘‘ (مجبوری یا کراہت کے ساتھ کسی کا حکم ماننا) کی ضد ہے. چنانچہ یہ لفظ (طوع) قرآن حکیم میں ’’کرہ‘‘ کی ضد کے طور پر تین مقامات پر آیا ہے:

(۱) سورۂ آل عمران کی آیت ۸۳ میں فرمایا:

وَ لَہٗۤ اَسۡلَمَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ طَوۡعًا وَّ کَرۡہًا 

یعنی آسمانوں اور زمین میں جو بھی مخلوقات ہیں وہ سب کی سب اللہ کے حضور میں جھکی ہوئی ہیں‘ اس کے آگے سرتسلیم خم کیے ہوئے ہیں‘ دلی آمادگی کے ساتھ بھی اور کراہت کے ساتھ بھی‘کیونکہ ان کے لیے کوئی اور چارۂ کار ہے ہی نہیں. خود ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے وجود کا اکثر و بیشتر حصہ جبراً اللہ کی اطاعت کر رہا ہے‘ اس لیے کہ ہمارے اس جسمانی وجود کی پوری فزیالوجی اور پورا جسمانی نظام اللہ کے قانون میں جکڑا ہوا ہے. ہم تو اس پر بھی قادر نہیں کہ اپنی مرضی سے اپنے جسم کے کسی حصے پر بالوں کا اُگنا بند کر دیں. البتہ جہاں اس نے ہمیں اپنا اختیاراستعمال کرنے کی کچھ اجازت دی ہے وہاں اگر ہم اپنے اختیار سے اس کے دیے ہوئے اختیار کو اسی کے قدموں میں ڈال دیں تو یہی ہماری کامیابی ہے ؎ 

جان دی‘ دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا!

اس اعتبار سے ’’طوع‘‘ اور ’’کرہ‘‘ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں.
(۲) اسی طرح سورۃ الرعد کی آیت ۱۵ جو آیت سجدہ ہے‘ کے الفاظ ہیں:

وَ لِلّٰہِ یَسۡجُدُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ طَوۡعًا وَّ کَرۡہًا

کہ اللہ کے لیے سجدے میں گری ہوئی ہے ہر شے جو آسمانوں اور زمین میں ہے‘ طوعاً بھی اور کرہاً بھییعنی بطوعِ خاطر اور بطیب خاطر‘ دلی آمادگی کے ساتھ بھی اور جبری طور پر بھی. کسی کا جی چاہے یا نہ چاہے اسے اس کی اطاعت تو کرنی ہے.

(۳) سورۂ حم السجدہ (آیت ۱۱) میں 
’’طَوْعًا اَوْ کَرْھًا‘‘ کے الفاظ آئے ہیں. یعنی حرفِ عطف ’’وَ‘‘ کے بجائے ’’اَوْ‘‘ لایا گیا ہے جو واضح کرتا ہے کہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی ضد اور مدمقابل ہیں. فرمایا گیا:

فَقَالَ لَہَا وَ لِلۡاَرۡضِ ائۡتِیَا طَوۡعًا اَوۡ کَرۡہًا ؕ 
کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین دونوں کو حکم دیا کہ چلے آؤ‘ طوعاً یا کرہاً‘ چاہے اپنی مرضی سے‘ چاہے مجبوری سے . یہ احکام اور قوانین ہیں جو ہم نے تمہارے لیے طے کر دیے ہیں‘ اب چاہے اپنی دلی خواہش سے اس پر عمل پیرا رہو چاہے جبراً ان پر عمل کرو‘ بہرحال یہ تو تمہیں کرنا ہی ہے!