مذکورہ بالا تین آیات کے بعد ایک آیت سورۃ الاحزاب کی ملاحظہ فرما لیجیے. سورۃ الاحزاب کی آیت ۳۵ میں دین کے عملی تقاضوں کا بیان ہے. اس کے بعد آیت ۳۶ میں ارشاد ہوتا ہے:

وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَمۡرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ مِنۡ اَمۡرِہِمۡ ؕ 
’’کسی مؤمن مرد اور کسی مؤمن عورت کے یہ شایانِ شان ہے ہی نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ فرمادیں تو پھر بھی اپنے معاملے میں ان کے پاس کوئی اختیار باقی رہ جائے.‘‘ 

یعنی اگر یہ احساس بھی اُبھرے کہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے بعد بھی میرے پاس کچھ اختیار اور چوائس موجود ہے تو پھر ایمان کہاں رہا؟ اس سے تو ایمان کی نفی ہو گئی. جب اللہ اور اس کے رسول کو مانا ہے تو اپنا اختیار ختم ہو گیا. ہاں جب تک کوئی حکم نہ آئے‘ یا فرض کریں حکم تو موجود ہے لیکن آپ کے علم میں نہیں آیا تو آپ کا اختیار برقرار ہے. آپ اللہ کے ہاں اپنی ناواقفیت کا عذر پیش کر سکیں گے اور جن کے ذمہ آپ تک یہ حکم پہنچاناتھا وہ مسئول ٹھہریں گے .لیکن یہ جاننے کے بعد بھی کہ یہ اللہ کا حکم ہے‘ یہ اس کے رسول کا فرمان ہے‘ یہ سمجھنا کہ اب بھی اس معاملے میں میرا اختیار باقی ہے‘ ایمان کے منافی طرزِ عمل ہے. آیت کا آخری ٹکڑا ہے: وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیۡنًا ﴿ؕ۳۶﴾ 
’’اور جوکوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کا ارتکاب کرے گا (تو وہ جان لے کہ ) وہ توبڑی صریح گمراہی میں مبتلا ہوگیا.‘‘

اللہ تعالیٰ مجھے‘ آپ کو اور تمام اہل ایمان کو اس سے بچائے.

ہر انسان کی انفرادی شخصیت کے دو رُخ ہیں. ایک یہ کہ کچھ حالات و کیفیات‘ خواہ خوشگوار ہوں یا ناگوار‘ اس پر وارد ہوتی ہیں‘ اگرچہ یہ اسباب ووسائل کے ایک طویل سلسلے کے ذریعے سے اس تک پہنچیں. اور دوسرے یہ کہ اس کے تمام اَعضاء وجوارح سے کچھ نہ کچھ صادر یا خارج ہوتا ہے. ہم زبان سے بات کرتے ہیں تو اس کے لیے ہمارے دماغ کا ایک بڑا حصہ‘ عضلات کا ایک پورا سلسلہ اور ہماری زبان اور ہونٹ کام کرتے ہیں‘ تب کہیں جا کر الفاظ ادا ہوتے ہیں. ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم پر جو کچھ وارد ہو‘ خواہ وہ کسی بھی سلسلہ ٔاسباب سے ہو کر آ رہا ہو‘ سمجھا جائے کہ یہ منجانب اللہ ہے. اگرچہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ درمیان میں عمل کرنے والا ذمہ دار نہیں رہا‘وہ اگر ظلم کر رہا ہے تو اسے اس کے ظلم کی سزادی جائے گی‘ البتہ ہمیں یہی سمجھنا چاہیے کہ بغیر اذنِ رب ہم پر کوئی شے وارد نہیں ہو سکتی. لیکن دوسری طرف جو کچھ ہم سے صادر ہو رہا ہے وہ اللہ اور رسول کی اطاعت کے سانچے میں ڈھل کر صادر ہونا چاہیے. اس کے لیے مجھے فانی کا یہ اندازِ تعبیر بہت پسند ہے ؎ 

فانی ترے عمل ہمہ تن جبر سہی
سانچے میں اختیار کے ڈھالے ہوئے تو ہیں!

اس شعر میں جبریہ کے نقطہ ٔنظر کی ترجمانی بڑی خوبصورتی سے کی گئی ہے‘ اگرچہ ہم اس موقف کو صد فیصد درست نہیں سمجھتے. انسان میں اللہ تعالیٰ نے ایک قدرت بھی رکھی ہے اور اسے اختیار بھی دیا ہے کہ ﴿اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا﴾ لیکن ایک نقطہ ٔنظر یہ ہے کہ انسان مجبورِ محض ہے. جیسے میر تقی میر نے کہا ہے ؎ 

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہیں ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

یہ ایک پورے فلسفیانہ مکتب فکر کا نظریہ ہے‘ جسے فانی نے اپنے شعر میں بیان کر دیا ہے‘ لیکن بہرحال ان کے نزدیک انسانی اعمال کامعاملہ یہ ہے کہ ؎

سانچے میں اختیار کے ڈھالے ہوئے تو ہیں!

اسی کو غنیمت سمجھو کہ تمہیں تمہارے خالق نے اختیار کا ایک احساس تو دیا ہے اور تم یہ محسوس کرتے ہو کہ میں یہ اپنی مرضی سے کر رہا ہوں.فانی کے اس اندازِ تعبیر کو اختیارکرتے ہوئے میں کہا کرتا ہوں کہ ہمارے اعمال کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہونا چاہیے. ہمارا ہر عمل خواہ و ہ آنکھ سے ہو رہا ہو‘ ہاتھ سے ہو رہا ہو یا زبان سے ہو رہا ہو‘ اس کے بار ے میں ہمیں محتاط رہنا چاہیے کہ وہ اطاعت کے اس سانچے سے باہر نہ رہے. اس میں شک نہیں کہ بعض اعمال غیر اختیاری طور پر بھی صادر ہوجاتے ہیں‘ مثلاً راہ چلتے کوئی ایسی آواز آپ کے کانوں میں پڑ گئی جس کا بالارادہ سننا گناہ ہے‘ یا اچانک کسی نامحرم پر نگاہ پڑ گئی‘ لیکن یہی اعمال اگر اپنے ارادہ و اختیار سے کیے جائیں تو ان کی نوعیت میں زمین آسمان کا فرق واقع ہو جاتا ہے. چنانچہ جہاں بھی آپ کے اختیار کا سانچہ موجود ہے اس میں سے برآمد ہونے والا ہر عمل گویا اللہ اور رسول کی اطاعت کے سانچے میں ڈھلا ہواہونا چاہیے.

ارادہ و عمل کے اختیار کے بارے میں ایک متوازن نقطہ ٔنظر رکھنا بہت ضروری ہے. ہمیں جو اختیار حاصل ہے وہ اتنا زیادہ بھی نہیں ہے جتنا عام آدمی سمجھتا ہے‘ بلکہ ہماری مجبوری کا پہلو بھی یقینا بہت بڑا ہے. مثلاً ہمارا 
genetics کا نظام ہمارے اختیار میں نہیں ہے. ہمیں جو جینز (genes) ملے ہیں جن سے ہمارے جسمانی نقش و نگار اور ہماری شخصیت کے خدوخال تیار ہوئے ہیں وہ ہمارے خالق کی طرف سے عطا کردہ ہیں اور ہمیں اس معاملہ میں کسی انتخاب و اختیار کا حق نہیں دیا گیا. اس کے علاوہ بھی بہت سے اعتبارات سے ہم مجبور ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتاکہ انسانی شخصیت میں اختیارکا ایک عنصر بہرحال موجود ہے. اللہ تعالیٰ نے انسان میں یہ عنصر جس مقدار میں رکھا ہے اسی نسبت سے وہ اس کا محاسبہ کرے گا. ’’اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ‘‘ کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ نے جو بھی اختیار دیا ہے اسے اپنے اختیار سے اس کے قدموں میں ڈال دیا جائے.

اب ظاہر بات ہے کہ اطاعت پر ہی ایمانِ حقیقی کا دار و مدار ہے. اگر اطاعت موجود ہے تو ایمان موجود ہے‘ اور اگر اطاعت نہیں ہے توایمان بھی نہیں ہے. واضح رہے کہ یہاں بات حقیقی ایمان کی ہو رہی ہے نہ کہ قانونی ایمان کی ‘جس کی بنیاد پر ہم کسی کو دنیا میں مسلمان سمجھتے ہیں. یہ تو ہماری ایک سماجی ضرورت اور مجبوری ہے کہ ہم دنیا میں کسی شخص کوقانونی طو رپر مسلمان قرار دینے کے لیے ان ظاہری علامات ہی کا اعتبار کریں گے جو شریعت نے معین کی ہیں. کوئی شخص اللہ کی توحید اور محمد رسول اللہ کی رسالت کا اقرار کرتا ہو اور دیگر ارکانِ اسلام کی پابندی کرتا ہو یا کم از کم ان میں سے کسی کا منکر نہ ہو تو اسے قانوناً مسلمان سمجھا جائے گا‘ اس لیے کہ ہم کسی کے دل میں جھانک کر دیکھنے پر تو قادرنہیں ہیں. یہ نکتہ بہت اہم ہے اور ایمان کے ان دونوں درجوں کے فرق کو سمجھنا بہت ضروری ہے. ایک طرف یہ بات دو اور دوچار کی طرح واضح ہے کہ ایمان اور اطاعت لازم و ملزوم ہیں اور نبی اکرم نے اطاعت کے بغیر ایمان کی نفی فرمائی ہے. مثلاً حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی متفق علیہ روایت میں رسول اللہ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں: 

لَا یَزْنِی الزَّانِیْ حِیْنَ یَزْنِیْ وَھُوَ مُؤْمِنٌ ‘ وَلَا یَسْرِقُ السَّارِقُ حِیْنَ یَسْرِقُ وَھُوَ مُؤْمِنٌ‘ وَلَا یَشْرَبُ الْخَمْرَ حِیْنَ یَشْرَبُھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ (۱

یعنی کوئی زانی حالت ایمان میں زنا نہیں کرتا‘ کوئی چور حالت ایمان میں چوری نہیں کرتا اور کوئی شراب پینے والا حالت ایمان میں شراب نہیں پیتا. بعض احادیث میں آیا ہے کہ گناہ کا ارتکاب کرتے وقت ایسے شخص کا ایمان اس کے دل سے نکل جاتا ہے. اس طرح کی احادیث میں ایمان سے مراد حقیقی ایمان ہے. دوسری طرف اہل سنت کا متفق علیہ موقف یہ ہے کہ ہر فاسق و فاجر کلمہ گو کو بھی قانونی طو رپر مسلمان سمجھا جائے گا اور اس کے (۱) صحیح البخاری‘کتاب الاشربۃ. وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان نقصان الایمان بالمعاصی … واللفظ للمسلم. گناہگار ہونے کی بنا پر اس کے ایمان (قانونی) کی نفی نہیں کی جائے گی. امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ نے ’’الفقہ الاکبر‘‘ میں جو فقہ کے میدان میں ان کا اصل کارنامہ ہے اور جس میں ریاست اور قانون سے متعلق بنیادی معاملات و مسائل کو طے کیا گیا ہے‘ یہ اصول بیان کیا ہے کہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب بھی کافر نہیں ہے‘ اس کے قانونی ایمان کی نفی نہیں کی جائے گی. ان کا یہ اصول صد فی صد درست ہے. البتہ جیسا کہ عرض کیا گیا‘ حقیقی ایمان کے لیے اطاعت ناگزیر ہے. ایک حدیث کے مطابق‘ جسے امام نوویؒ نے صحیح قرار دیا ہے‘ رسول اللہ نے اصولی طور پر یہ طے فرما دیا ہے کہ:

لَا یُــؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَـکُوْنَ ھَوَاہُ تَبِعًا لِّمَا جِئْتُ بِہٖ (۱)
’’تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہش نفس اس (ہدایت) کے تابع نہ ہوجائے جو میں لے کر آیا ہوں.‘‘

یعنی ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ خواہش نفس میں انقیاد پیدا ہو جائے‘ خواہش نفس دین کے تابع ہو جائے اور اپنے آپ کو اطاعت کے سانچے میں ڈھال دے. کھانے کی طلب پیٹ کی طبعی خواہش ہے‘ لیکن یہ وہی کچھ مانگے جو حلال ہے. اسی طرح جنسی تسکین ایک جبلی خواہش ہے‘ لیکن اسے صرف اس جائز راستے سے پورا کیا جا رہا ہو جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے معین کر دیا گیا ہے. غرضیکہ جس کسی کو جو کچھ بھی دیا جائے وہ محض طبعی تقاضے یا طبعی محبت کے طور پر نہیں‘ بلکہ اللہ اور رسول کا معین کردہ حق سمجھ کر دیا جائے. اپنے نفس کو بھی محض اس کے طبعی تقاضے سے مجبور ہو کر کچھ نہ دیا جائے بلکہ اللہ کا معین کردہ حق سمجھ کر دیا جائے‘ جیسا کہ رسول اللہ نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہماسے ارشاد فرمایا تھا: 
فَاِنَّ لِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقًّا‘وَلِزَوْرِکَ عَلَیْکَ حَقًّا‘ وَلِـجَسَدِکَ عَلَیْکَ حَقًّا (۲’’یقینا تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے‘ تمہارے ملاقاتی کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے‘‘چنانچہ (۱الاربعون النوویۃ‘ ح:۴۱. مشکوٰۃ المصابیح‘ کتاب الایمان‘ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ‘ الفصل الثانی.
(۲) صحیح مسلم‘ کتاب الصیام‘ باب النھی عن صوم الدھر … 
والدین‘ بھائی بہنوں اور بیوی بچوں میں سے جس کسی کو بھی کچھ دیا جائے وہ اس کا حق سمجھ کر دیا جائے اور وہی کچھ دیا جائے جو اللہ نے معین کر دیا ہے. حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ آنحضور کا ارشادِ گرامی روایت کرتے ہیں: مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاَعْطٰی لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ (۱

’’جس نے کسی سے محبت کی تو اللہ کے لیے کی‘ کسی سے بغض رکھا تو اللہ کے لیے رکھا‘ کسی کو کچھ دیا تو اللہ کے لیے دیا اور کسی سے کچھ روکا تو اللہ کے لیے روکا تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا.‘‘

ایمان اور عمل صالح کا جس طرح چولی دامن کا ساتھ ہے اس کی صراحت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

مَا آمَنَ بِالْقُرْآنِ مَنِ اسْتَحَلَّ مَحَارِمَـہٗ (۲)
یعنی اس شخص کا قرآن پر کوئی ایمان نہیں جس نے اس کی حرام کردہ اشیاء کو اپنے لیے حلال کر لیا وہ قرآن کی لاکھ تعظیم کرے‘ اسے چومے چاٹے‘ سر پر اٹھائے‘ اسے اعلیٰ جزدان میں لپیٹے‘ لیکن اگر اس نے کسی ایسی چیز کو اپنے لیے حلال ٹھہرا لیا ہے جسے قرآن نے حرام ٹھہرایا ہے تو اس کا کوئی ایمان نہیں. یہ چند احادیث نمونہ مشتے از خروارے کا مصداق ہیں‘ ورنہ اس مضمون کی احادیث کا سلسلہ بہت طویل ہے. اسی بات کو سمجھنے کے لیے قرآن حکیم کی ایک آیت ملاحظہ کیجیے:

وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۹۷﴾ (آل عمران)
’’اللہ کا حق ہے لوگوں پر اُس کے گھر کا حج کرنا جو کوئی بھی اس کی طرف سفر کی مقدرت رکھتا ہو. اور جو کفر کرے تو اللہ بے پروا ہے جہان والوں سے.‘‘

یعنی جو مقدرت کے باوجود حج نہ کرے وہ اصل حقیقت کے اعتبار سے گویا کفر کر رہا ہے. (۱) سنن ابی داوٗد‘ کتاب السنۃ‘ باب الدلیل علـٰی زیادۃ الایمان ونقصانہ.

(۲) سنن الترمذی‘ کتاب فضائل القرآن عن رسول اللہ ‘ باب ما جاء فیمن قرأ حرفا من القرآن مالہ من الاجر. 
اسی طرح یہ مشہور حدیث آپ نے یقینا سنی ہو گی: 

مَنْ تَرَکَ الصَّلَاۃَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ کَفَرَ (۱)
’’جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑ دی اُس نے کفر کیا.‘‘

نماز اللہ کی طرف سے عائد کردہ ایک فریضہ ہے‘ جو کوئی اس کو چھوڑ رہا ہے وہ درحقیقت کفر کر رہا ہے ‘ اگرچہ قانونی طور پر اسے کافر قرار نہیں دیا جائے گا. تو معلوم ہوا کہ حقیقی کفر اور قانونی کفر میں بھی فرق ہے جس طرح حقیقی ایمان اور قانونی ایمان میں فرق ہے. ان چاروں چیزوں کو گڈمڈ کر دینے سے بہت سے فسادات پیدا ہوجاتے ہیں اور بہت سے فتنے کھڑے ہو جاتے ہیں‘ جیسا کہ خوارج اور معتزلہ جیسے فتنے اسی وجہ سے پیدا ہوئے.
اب اس ’’اطاعت‘‘ کے ضمن میں چند بنیادی باتیں مزید نوٹ کر لیجیے: