اطاعت اصلاً اللہ کی اور عملاً رسول کی ہے. رسولؐ کی اطاعت درحقیقت اللہ کے نمائندے کی حیثیت سے ہے‘ نہ کہ ان کی ذاتی حیثیت سے. اس معاملے میں بھی بڑے فرق و امتیاز کی ضرورت ہے. اس نکتے کی مزید وضاحت ابھی ہمارے سامنے آ جائے گی. سورۃ النساء میں فرمایاگیا:

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ (آیت ۶۴)
’’اور ہم نے نہیں بھیجا کسی رسول کو مگر اس لیے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے اِذن سے.‘‘

یعنی کسی رسولؐ کی اطاعت اس کی ذاتی اطاعت نہیں ہے‘ بلکہ اُس کی اطاعت اللہ کے رسول کی حیثیت سے کی جاتی ہے. رسول‘ اللہ کا نمائندہ ہے جو انسانوں تک اللہ کا حکم پہنچاتا ہے. چونکہ انسانوں تک اللہ کا حکم براہِ راست نازل نہیں ہوتا‘ لہذا 
’’اَطِیْعُوا اللّٰہَ‘‘ پر عمل ’’اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ‘‘ کی صورت ہی میں ہو سکتا ہے. تو معلوم ہوا کہ اطاعت اصل میں اللہ کی ہے اور رسول کی اطاعت بھی درحقیقت اللہ ہی کی اطاعت ہے‘ جیسا کہ فرمایا گیا: 
مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ ۚ (النساء:۸۰(۱) الجامع الصغیر للسیوطی‘ ح : ۸۵۸۷ . خلاصۃ الاحکام للنووی: ج۱‘ ص ۲۴۸. تخریج الاحیاء للعراقی‘ ج۱‘ ص ۲۰۱. التلخیص الحبیر لابن حجر: ج۲‘ ص’’جس نے رسول کی اطاعت کی تو اس نے درحقیقت اللہ کی اطاعت کی.‘‘

اسی طرح سورۃ الشعراء میں حضرت نوح‘ حضرت ہود‘ حضرت صالح‘ حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہم السلام میں سے ایک ایک رسول کا تذکرہ آیا ہے اور ہر رسول کی دعوت کے ضمن میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں: 
﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ ﴾ پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو!‘‘وہاں اللہ کے ساتھ لفظ اطاعت نہیں آیا‘ کیونکہ رسول کی اطاعت بھی حقیقت کے اعتبار سے اللہ کی اطاعت ہے. چنانچہ وہاں پر اطاعت کو رسول کے ساتھ مخصوص کر دیا گیا ہے اور اللہ کے ساتھ صرف لفظ ’’تقویٰ‘‘ لایا گیا ہے.

رسول  کی یہ اطاعت کس درجے مطلوب ہے اور ایمان حقیقی کے اعتبار سے اس کا معیار کیا ہے‘ اس کے لیے سورۃ النساء کی آیت ۶۵ ملاحظہ کیجیے: 

فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ بَیۡنَہُمۡ ثُمَّ لَا یَجِدُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیۡتَ وَ یُسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا ﴿۶۵
’’تو(اے محمد ) آپ کے ربّ کی قسم یہ ہرگز مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک کہ یہ ان تمام معاملات میں جو ان کے مابین اٹھ کھڑے ہوئے ہوں آپ کو حکم تسلیم نہ کریں اور پھر جو فیصلہ آپ کر دیں اس کے بارے میں دل میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور اسے خوشی سے قبول کریں.‘‘

رسول کے حکم کو ردّ کر دینا اور آپؐ کی نافرمانی کرنا تو بہت دور کی بات ہے‘ جو کھلم کھلا بغاوت ہے‘ لیکن طرزِ عمل اگر یہ ہو کہ رسولؐ کا حکم مان بھی لیا اور اس پر عمل بھی کر لیا لیکن طبیعت میں کسی انقباض‘ ناگواری اور تنگی کا احساس ہوا تو یہ کیفیت بھی ایمان کے منافی ہے. اس ضمن میں ایک بہت پیاری اور بڑی جامع حدیث صحیح بخاری میں آئی ہے. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 


کُلُّ اُمَّتِیْ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ اِلاَّ مَنْ اَبٰی
’’میری اُمت پوری کی پوری جنت میں جائے گی‘ سوائے اس کے جو خود انکار کردے!‘‘ 
قَالُوْا : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَنْ یَأْبٰی؟ صحابہؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول( ) ایسا کون ہے جو (جنت میں جانے سے) انکار کرے؟ 

قَالَ : مَنْ اَطَاعَنِیْ دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ اَبٰی (۱
فرمایا:’’جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو گا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے گویا (جنت میں جانے سے) خود انکار کر دیا.‘‘

تو معلوم ہوا کہ جنت میں داخلے کا شاہ درہ رسول  کی اطاعت ہے.

(۲) حدیث ِرسولؐ کا مقام : رسول کے حکم کے بارے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ رسولؐ کا حکم وحی جلی پر مبنی بھی ہو سکتا ہے اور وحی خفی پر بھی. وحی جلی قرآن ہے‘ جسے وحی متلو بھی کہا جاتا ہے ‘یعنی جس کی تلاوت کی جاتی ہے اور وحی خفی حدیث ِ رسولؐ کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے. چنانچہ رسولؐ کا حکم صرف وہی شمار نہیں کیا جائے گا جو قرآن میں ہو ‘ بلکہ رسولؐایسا حکم بھی دے سکتے ہیں جو وحی خفی پر مبنی ہو. یہ نکتہ اہل سنت اور منکرین سنت کے مابین حد فاصل ہے. اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ وحی جلی کی طرح وحی خفی کو ماننا بھی ضروری ہے اور رسولؐ کی اطاعت بھی بجائے خود مستقل اطاعت ہے. یہی وجہ ہے کہ سورۃ النساء کی آیت ۵۹ میں رسول کے لیے لفظ 
’’اَطِیْعُوْا‘‘ کی تکرار وارد ہوئی ہے : 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ 
’’اے ایمان والو‘ حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور اپنے میں سے والیانِ امر کا.‘‘

یہاں اللہ کے بعد رسولؐ کے ساتھ بھی 
’’اَطِیْعُوا‘‘ کے لفظ کو دہرایا گیا ہے‘ لیکن اولی الامر کے لیے لفظ ’’اَطِیْعُوْا‘‘ نہیں دہرایا گیا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کی اطاعت بھی اپنی جگہ مستقل بالذات اطاعت ہے اور ان کی ذمہ داری صرف اللہ کے حکم کو پہنچا دینا ہی نہیں ہے. 
انکارِ حدیث اس دور کا خاصا بڑا فتنہ ہے اور ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگ اس کا جلد شکار ہوجاتے ہیں‘ کیونکہ مغربی افکار کے زیر اثر اور مغربی تہذیب کے دلدادہ ہونے 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ‘ باب الاقتداء بسنن رسول اللہ کے باعث ان کے ذہن پہلے سے اس کے لیے تیار ہوتے ہیں. احادیث ِ رسولؐ کے بارے میں ان کا احساس یہ ہوتا ہے کہ یہ ہم پر کچھ زیادہ ہی قدغنیں عائد کرنے والی چیزیں ہیں. چنانچہ جدید تعلیم یافتہ طبقے میں احادیث ِ رسولؐ سے اِباء کا جذبہ عام طور پر پہلے سے موجود ہوتا ہے اور یہ لوگ ’’گوشِ حقیقت نیوش‘‘ سے منکرین حدیث کی باتوں کو سنتے ہیں اور اس سے فوری اثر قبول کرتے ہیں. اس ضمن میں ایک حدیث ملاحظہ کیجیے. حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 

اَلَا اِنِّیْ اُوْتِیْتُ الْکِتَابَ وَمِثْلَہٗ مَعَہٗ ‘ اَلَا یُوْشِکُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلٰی اَرِیْکَتِہٖ یَـقُوْلُ: عَلَیْکُمْ بِھٰذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَلَالٍ فَاَحِلُّوْہُ وَمَا وَجَدْتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوْہُ‘ … وفی روایۃ الترمذی: وَاِنَّمَا حَرَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ کَمَا حَرَّمَ اللّٰہُ (۱
’’لوگو آگاہ ہو جاؤ‘ مجھے قرآن بھی دیا گیا ہے اور اسی کی مانند ایک اور شے بھی! دیکھو ایسا نہ ہو کہ کوئی پیٹ بھرا شخص اپنی مسند پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو لوگوں سے کہہ رہا ہو کہ لوگو‘ تم پر بس اس قرآن کی پابندی لازم ہے‘ جو کچھ تم اس میں حلال پاؤ اسی کو حلال سمجھو اور جو کچھ اس میں حرام پائو اسی کو حرام سمجھو…‘‘

اور ترمذی کی روایت میں ہے: ’’ جان لو کہ جس طرح اللہ نے کچھ چیزیں حرام ٹھہرائی ہیں اسی طرح اللہ کے رسول نے بھی کچھ چیزیں حرام ٹھہرائی ہیں.‘‘

اس حدیث میں رسول اللہ سے مروی یہ الفاظ بہت اہم ہیں کہ 
’’اِنِّیْ اُوْتِیْتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَہٗ مَعَہٗ‘‘ یہ الفاظ اس حقیقت پر نص قطعی کا درجہ رکھتے ہیں کہ وحی جلی (قرآن) کے علاوہ محمد رسول اللہ کو ایک وحی خفی بھی عطا ہوئی ہے اور وہ اپنی قطعیت کے اعتبار سے قرآن کے مثل ہے. اسی طرح ’’اِنَّمَا حَرَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ کَمَا حَرَّمَ اللّٰہُ‘‘ کے الفاظ سے یہ صراحت ہوتی ہے کہ حدیث ِ رسول احکامِ شریعت کا اپنی جگہ پر ایک مستقل ذریعہ اور مستقل شعبہ ہے. اس اعتبار سے رسول  کی اطاعت‘ خواہ وہ (۱) سنن ابی داوٗد‘ کتاب السنۃ‘ باب فی لزوم السنۃ. ومسند احمد‘ ح:۱۶۵۴۶.وسنن الترمذی‘ کتاب العلم عن رسول اللہ ‘ باب ما نھی عنہ ان یقال عند حدیث النبی . وحی جلی پر مبنی ہو یا وحی خفی پر‘ بہرحال لازم ہے اور اس ضمن میں ان دونوں میں تفریق نہیں کی جائے گی. اسی طرح مسند احمد‘ سنن ابی داؤد‘ ابن ماجہ‘ ترمذی اور بیہقی میں حضرت ابورافع ؓ سے روایت ہے: 

لاَ اُلْـفِیَنَّ اَحَدَکُمْ مُتَّـکِئًا عَلٰی اَرِیْـکَتِہٖ یَاْتِیْہِ اَمْرٌ مِمَّا اَمَرْتُ بِہٖ اَو نَـھَیْتُُ عَنْہُ فَـیَقُوْلُ: لَا اَدْرِیْ‘ مَا وَجَدْناَ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ اتَّـبَعْنَاہُ (۱
’’ایسا نہ ہو کہ میں پاؤں تم میں سے کسی شخص کو کہ وہ اپنی آرام دہ نشست پر بیٹھا ہوا ہو اور اس کو میرا کوئی حکم پہنچے‘جو میں نے کوئی کام کرنے کو کہا ہو یا کسی شے سے روکا ہو تو وہ کہے : میں نہیں جانتا‘ ہم تو بس اُسی شے کی پیروی کریں گے جو ہم کتاب اللہ میں پاتے ہیں.‘‘

ان احادیث میں رسول اللہ نے ایسے لوگوں کو خبردار کیا ہے جو بڑے مرفہ الحال اور بڑے خوشحال ہوں گے‘ بڑے اچھے حالات میں بیٹھے ہوئے ہوں گے اور وحی جلی اور وحی خفی کے مابین تفریق کر کے حدیث ِ رسولؐ کا استخفاف کریں گے. یہ طرزِ عمل بوریا نشینوں کا نہیں ہو گا‘ بلکہ اونچی سطح کے لوگ ہی اس گمراہی میں مبتلا ہوں گے.