یہاں اللہ کے بعد رسولؐ کے ساتھ بھی ’’اَطِیْعُوا‘‘ کے لفظ کو دہرایا گیا ہے‘ لیکن اولی الامر کے لیے لفظ ’’اَطِیْعُوْا‘‘ نہیں دہرایا گیا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کی اطاعت بھی اپنی جگہ مستقل بالذات اطاعت ہے اور ان کی ذمہ داری صرف اللہ کے حکم کو پہنچا دینا ہی نہیں ہے.
انکارِ حدیث اس دور کا خاصا بڑا فتنہ ہے اور ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگ اس کا جلد شکار ہوجاتے ہیں‘ کیونکہ مغربی افکار کے زیر اثر اور مغربی تہذیب کے دلدادہ ہونے (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ‘ باب الاقتداء بسنن رسول اللہﷺ کے باعث ان کے ذہن پہلے سے اس کے لیے تیار ہوتے ہیں. احادیث ِ رسولؐ کے بارے میں ان کا احساس یہ ہوتا ہے کہ یہ ہم پر کچھ زیادہ ہی قدغنیں عائد کرنے والی چیزیں ہیں. چنانچہ جدید تعلیم یافتہ طبقے میں احادیث ِ رسولؐ سے اِباء کا جذبہ عام طور پر پہلے سے موجود ہوتا ہے اور یہ لوگ ’’گوشِ حقیقت نیوش‘‘ سے منکرین حدیث کی باتوں کو سنتے ہیں اور اس سے فوری اثر قبول کرتے ہیں. اس ضمن میں ایک حدیث ملاحظہ کیجیے. حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
اَلَا اِنِّیْ اُوْتِیْتُ الْکِتَابَ وَمِثْلَہٗ مَعَہٗ ‘ اَلَا یُوْشِکُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلٰی اَرِیْکَتِہٖ یَـقُوْلُ: عَلَیْکُمْ بِھٰذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَلَالٍ فَاَحِلُّوْہُ وَمَا وَجَدْتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوْہُ‘ … وفی روایۃ الترمذی: وَاِنَّمَا حَرَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ کَمَا حَرَّمَ اللّٰہُ (۱)
’’لوگو آگاہ ہو جاؤ‘ مجھے قرآن بھی دیا گیا ہے اور اسی کی مانند ایک اور شے بھی! دیکھو ایسا نہ ہو کہ کوئی پیٹ بھرا شخص اپنی مسند پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو لوگوں سے کہہ رہا ہو کہ لوگو‘ تم پر بس اس قرآن کی پابندی لازم ہے‘ جو کچھ تم اس میں حلال پاؤ اسی کو حلال سمجھو اور جو کچھ اس میں حرام پائو اسی کو حرام سمجھو…‘‘
اور ترمذی کی روایت میں ہے: ’’ جان لو کہ جس طرح اللہ نے کچھ چیزیں حرام ٹھہرائی ہیں اسی طرح اللہ کے رسول نے بھی کچھ چیزیں حرام ٹھہرائی ہیں.‘‘
اس حدیث میں رسول اللہﷺ سے مروی یہ الفاظ بہت اہم ہیں کہ ’’اِنِّیْ اُوْتِیْتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَہٗ مَعَہٗ‘‘ یہ الفاظ اس حقیقت پر نص قطعی کا درجہ رکھتے ہیں کہ وحی جلی (قرآن) کے علاوہ محمد رسول اللہﷺ کو ایک وحی خفی بھی عطا ہوئی ہے اور وہ اپنی قطعیت کے اعتبار سے قرآن کے مثل ہے. اسی طرح ’’اِنَّمَا حَرَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ کَمَا حَرَّمَ اللّٰہُ‘‘ کے الفاظ سے یہ صراحت ہوتی ہے کہ حدیث ِ رسولﷺ احکامِ شریعت کا اپنی جگہ پر ایک مستقل ذریعہ اور مستقل شعبہ ہے. اس اعتبار سے رسول ﷺ کی اطاعت‘ خواہ وہ (۱) سنن ابی داوٗد‘ کتاب السنۃ‘ باب فی لزوم السنۃ. ومسند احمد‘ ح:۱۶۵۴۶.وسنن الترمذی‘ کتاب العلم عن رسول اللہﷺ ‘ باب ما نھی عنہ ان یقال عند حدیث النبیﷺ . وحی جلی پر مبنی ہو یا وحی خفی پر‘ بہرحال لازم ہے اور اس ضمن میں ان دونوں میں تفریق نہیں کی جائے گی. اسی طرح مسند احمد‘ سنن ابی داؤد‘ ابن ماجہ‘ ترمذی اور بیہقی میں حضرت ابورافع ؓ سے روایت ہے:
لاَ اُلْـفِیَنَّ اَحَدَکُمْ مُتَّـکِئًا عَلٰی اَرِیْـکَتِہٖ یَاْتِیْہِ اَمْرٌ مِمَّا اَمَرْتُ بِہٖ اَو نَـھَیْتُُ عَنْہُ فَـیَقُوْلُ: لَا اَدْرِیْ‘ مَا وَجَدْناَ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ اتَّـبَعْنَاہُ (۱)
’’ایسا نہ ہو کہ میں پاؤں تم میں سے کسی شخص کو کہ وہ اپنی آرام دہ نشست پر بیٹھا ہوا ہو اور اس کو میرا کوئی حکم پہنچے‘جو میں نے کوئی کام کرنے کو کہا ہو یا کسی شے سے روکا ہو تو وہ کہے : میں نہیں جانتا‘ ہم تو بس اُسی شے کی پیروی کریں گے جو ہم کتاب اللہ میں پاتے ہیں.‘‘
ان احادیث میں رسول اللہﷺ نے ایسے لوگوں کو خبردار کیا ہے جو بڑے مرفہ الحال اور بڑے خوشحال ہوں گے‘ بڑے اچھے حالات میں بیٹھے ہوئے ہوں گے اور وحی جلی اور وحی خفی کے مابین تفریق کر کے حدیث ِ رسولؐ کا استخفاف کریں گے. یہ طرزِ عمل بوریا نشینوں کا نہیں ہو گا‘ بلکہ اونچی سطح کے لوگ ہی اس گمراہی میں مبتلا ہوں گے.