اس ضمن میں تیسری اہم بات یہ ہے کہ رسولؐ کے بھی حکم‘ مشورہ اور رائے میں فرق ہوتا ہے.اس اعتبار سے یہ بہت مشکل مسئلہ ہے کہ اس فرق کا تعین کس طرح کیا جائے. یہ مسئلہ رسول اللہ کے زمانے میں مشکل نہیں تھا‘ لیکن آپؐ کے بعد اس اشکال کے حل کے لیے اُمت کے بہترین دماغوں نے سوچ بچار کی ہے. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہ سہولت حاصل تھی کہ وہ آپؐ سے دریافت کر لیتے تھے کہ حضورؐ یہ آپ کا حکم ہے یا مشورہ؟ یہ بات جو آپؐ فرما رہے ہیں آیا یہ اللہ کا حکم ہے جو وحی کے ذریعے آیا ہے یا یہ آپؐ کی ذاتی رائے ہے؟ آیا ہمیں اس کے بارے میں کچھ کہنے کا حق حاصل ہے یا نہیں؟ چنانچہ غزوۂ بدر کے موقع پر بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپؐ (۱) سنن الترمذی‘ کتاب العلم عن رسول اللہ ‘ باب ما نھی عنہ ان یقال عند حدیث النبی . وسنن ابی داوٗد‘ کتاب السنۃ‘ باب فی لزوم السنۃ. وسنن ابن ماجہ‘ المقدمۃ‘ باب تعظیم حدیث رسول اللہ  … سے عرض کیا کہ اس جگہ جو آپؐ نے فوجی پڑائو لگایا ہے اگر تو یہ ازروئے وحی ہے تو سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا لیکن اگر یہ آپؐ کی ذاتی رائے ہے تو ہمیں اجازت دیجیے کہ ہم اس کے بارے میں اپنی رائے پیش کر سکیں. لیکن بعد کے ادوار میں اس اشکال کے حل کے لیے فقہائے کرام کو بہت محنت کرنا پڑی ہے.

یہاں ہم حضور کی حیاتِ طیبہ کے بعض واقعات کی روشنی میں اس مسئلہ کو اصولی طو رپر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں. حدیث ’’تابیر نخل‘‘ بہت مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ جب مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے دیکھا کہ اہل مدینہ کھجور کے ضمن میں مصنوعی زرپاشی (artificial pollination) کا اہتمام کرتے تھے‘ یعنی مذکر کھجور کے گابھے کو مونث کھجور کے گابھے کے نزدیک لے آیا جاتا تاکہ زرپاشی کا عمل زیادہ ہو اور اس طرح زیادہ پھل حاصل کیا جا سکے. یہ چیز ان کے تجربے میں تھی. رسول اللہ نے انہیں یہ عمل کرتے دیکھا تو فرمایا کہ اگر تم یہ نہ کرتے تو شاید بہتر ہوتا. اس پر صحابہ کرامؓ نے اُس سال مصنوعی افزائش نسل کا یہ عمل نہیں کیا‘ لیکن اس کے نتیجے میں فصل کم ہو گئی. چنانچہ صحابہ کرامؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیاکہ حضورؐ ہم اپنے تجربے کی بنا پر یہ عمل کیا کرتے تھے‘ مگر اس بار آپؐ کے فرمانے سے ہم نے ایسا نہیں کیا‘ لیکن اس سے فصل کم ہوئی ہے. اس پر رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 

اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ‘ اِذَا اَمَرْتُـکُمْ بِشَیْئٍ مِّنْ دِیْنِکُمْ فَخُذُوْا بِہٖ‘ وَاِذَا اَمَرْتُکُمْ بِشَیْئٍ مِن رَأْیٍ فَاِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ (۱
’’بلاشبہ میں ایک انسان ہوں. جب میں تمہیں تمہارے دین کے بارے میں کوئی حکم دوں تو اسے مضبوطی سے تھامو اور اگر تم سے میں کوئی بات اپنی رائے کی بنا پر کہوں تو میں بھی ایک انسان ہوں.‘‘

یہ حدیث اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ اس سے دینی معاملات اور سائنسی ترقی سے متعلق معاملات کی نوعیت میں فرق واضح ہوجاتا ہے. نبی اکرم سائنس 
(۱) صحیح مسلم‘ کتاب الفضائل‘ باب وجوب امتثال ما قالہ شرعا دون ما ذکرہ من معایش. راوی : نافع بن خدیج ؓ . پڑھانے آئے تھے نہ زراعت کے طور طریقے سکھانے‘ بلکہ ان کا اصل موضوع انفرادی اور اجتماعی سطح پر انسانوں کی نظری اور عملی ہدایت تھا. چنانچہ جو چیز آپ کی طرف سے اس ضمن میں دی جائے اس کو لے لینا اور مضبوطی سے تھامنا لازم ہے ‘ لیکن جن معاملات کا تعلق امورِ دینیہ سے نہیں بلکہ امورِ طبیعیہ سے ہے ان کے ضمن میں نبی اگر اپنی ذاتی رائے پیش کریں تو اس کا تسلیم کرنا بھی واجب نہیں‘ کجا یہ کہ اس پر عمل کرنا واجب ہو. مثلاً یہ کہ بارش کیسے ہوتی ہے؟ زلزلے کیسے آتے ہیں؟ دن اور رات کیسے نکلتے ہیں؟ سورج اور چاند کا کیا نظام ہے؟ظاہر بات ہے کہ ان چیزوں کا تعلق امورِتکوینیہ اور امورِ طبیعیہ سے ہے‘ نہ کہ امورِ دینیہ اور امورِ تشریعیہ سے.ایسے امور کی جو توجیہہ بھی رسول اللہ نے اپنے عہد میں فرمائی وہ اس وقت کی علمی سطح کے مطابق تھی اور اُس وقت اس سے زیادہ کوئی بات بتانا ممکن بھی نہیں تھا. اس لیے کہ انسانی ذہن ابھی اس سطح پر نہیں پہنچا تھا کہ ان حقائق کا ادراک کر سکتا. اس کے لیے تو اگر پہلے فزکس‘ کیمسٹری‘ جیالوجی اور اسٹرانومی جیسے علوم پڑھائے جاتے تب کہیں جا کر وہ چیزیں لوگوںکے ذہن کی گرفت میں آتیں جو سائنسی ترقی کی وجہ سے آج ہمارے علم میں ہیں اور اللہ کے رسولؐ اس کے لیے نہیں بھیجے گئے تھے . چنانچہ نبی مکرم نے اُس دور کی علمی سطح کے مطابق لوگوں کو سمجھانے کے لیے ان معاملات سے متعلق جو کچھ فرمایا‘ ہمار ے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہی تعبیرات ہم بھی اختیار کریں. البتہ جہاں تک احکام کا تعلق ہے کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو‘ یہ حلال ہے یہ حرام ہے‘ یہ جائز ہے یہ ناجائز ہے‘ یہ واجب ہے‘ یہ فرض ہے‘ تو اس ضمن میں حضور کا ہر فرمان ہمارے لیے ہمیشہ واجب التعمیل رہے گا‘ اِلا یہ کہ یہ بات معلوم ہو جائے کہ یہ حضور کی ذاتی رائے یا مشورہ تھا‘ مستقل حکم نہیں.

رسول اللہ کی حیاتِ طیبہ کے بعض واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپؐ نے صحابہ کرام اور صحابیات 
(رضوان اللّٰہ علیہم وعلیھن اجمعین) کو جو تربیت دی تھی اس میں کس درجے گہرائی تھی اور ان میں سے نہ صرف وہ جو چوٹی کے لوگ تھے بلکہ نچلے طبقات سے تعلق رکھنے والے صحابہ و صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی کتنا گہرا فہم و شعور پیدا ہو چکا تھا. یہ بات حضرت بریرہ رضی اللہ عنہااور حضرت مغیث رضی اللہ عنہ کے معاملے میں واضح طور پر سامنے آتی ہے. حضرت بریرہؓ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی کنیز تھیں اور حضرت مغیث ؓ بھی ایک غلام تھے. دونوں کے آقاؤں کی اجازت سے ان دونوں کے مابین نکاح کا رشتہ قائم ہوا تھا. حضرت بریرہؓ کو حضرت عائشہؓ نے آزاد کر دیا تو ان کی معاشرتی حیثیت حضرت مغیثؓ سے برتر ہو گئی. آزاد ہونے کے بعد عورت کو یہ اختیار حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے اس نکاح کو جو اُس وقت ہوا تھا جب کہ وہ کنیز تھی‘ چاہے تو برقرار رکھے اور چاہے تو اس سے آزادی حاصل کر لے. حضرت بریرہؓ نے اپنے اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے حضرت مغیثؓ کے نکاح میں نہ رہنے کا فیصلہ کر لیا. حضرت مغیثؓ کو ان سے بہت محبت تھی. انہوں نے پہلے تو براہِ راست بریرہؓ کی خوشامد کی کہ وہ یہ تعلق نہ توڑیں‘ لیکن جب بات نہ بنی تو حضور کی خدمت میں آ کر فریاد کی. حضورؐ نے حضرت بریرہ کو بلا کر فرمایا کہ اے بریرہ کیا حرج ہے اگر تم مغیث ہی کے گھر میں رہو !اس پر حضرت بریرہؓ نے فوراً جو سوال کیا وہ یہ تھا کہ حضورؐ یہ آپ کا حکم ہے یا مشورہ؟ اور جب حضور نے فرمایاکہ یہ میرا حکم نہیں بلکہ مشورہ ہے تو بریرہؓ نے عرض کیا کہ حضورؐ میں اس مشورے پر عمل نہیں کر سکتی! تو یہ ہے وہ باریک اور نازک سا فرق جو رسول اللہ کے حکم اور آپؐ کے مشورے کے مابین حضرت بریرہؓ نے روا رکھا‘ جو ایک ادنی ٰ کنیز تھیں اور اگر یہ واقعہ احادیث میں نہ آیا ہوتا تو شاید ہم میں سے کسی نے ان کا نام بھی نہ سنا ہوتا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کوئی بریرہ ؓ نامی کنیز بھی تھی‘ لیکن یہ واقعہ ایسا ہے اور اس میں مسلمانوں کے لیے ایسی ابدی رہنمائی ہے کہ اب اس کے حوالے سے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہاکا نام ہمیشہ باقی رہے گا.
تو اطاعت کے ضمن میں میں نے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگرچہ اطاعت اصلاً اللہ کی ہے لیکن عملاً رسولؐ کی ہے. پھر یہ کہ اللہ کے رسول کی یہ اطاعت ہر حکم میں واجب ہے‘ وہ حکم وحی جلی پر مبنی بھی ہو سکتا ہے اور وحی خفی پر بھی. البتہ رسول کے حکم اور ان کے مشورے اور رائے میں فرق کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا.