رسول اللہ کے بعد یہ معاملہ اس اعتبار سے بہت کٹھن بن گیا ہے کہ اب قرآن بھی ہمارے سامنے صرف ایک متن کی صورت میں موجود ہے‘ اللہ ہمارے سامنے بنفس نفیس نہیں ہے‘ وہ نہ ہمیں براہِ راست حکم دے رہا ہے اور نہ براہِ راست اپنے حکم کی تاویل و توضیح کر رہا ہے. رسول اللہ اپنے زمانے میں اللہ کے احکام کی تاویل بھی فرماتے اور اس کی توضیح بھی فرماتے‘ جو ہر لحاظ سے مستند ہوتی. انہیں اس کا اختیار حاصل تھا. اسی طرح حضور خود اپنے حکم کے بارے میں بھی وضاحت فرما دیتے تھے کہ میری اس بات کی حیثیت واجب التعمیل حکم کی ہے اور میری یہ بات صرف مشورے کے درجے میں ہے. چنانچہ معاملہ بہت سادہ تھا. لیکن اس کے بعد یہ متعین کرنا آسان نہیں رہا کہ قرآن حکیم کے اوامرمیں سے کون سے واقعتا واجب التعمیل ہیں اور کون سے صرف مستحب کے درجے میں ہیں‘ مثلاً سورۃ الجمعہ میں جو یہ فرمایا گیا کہ جب جمعہ کی نماز ہوجائے تو زمین میں منتشر ہوجاؤ ﴿فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ﴾ (الجمعۃ:۱۰تو کیا یہ وجوب کے لیے ہے؟ عام اصول تو یہی ہے کہ ’’الامر للوجوب‘‘ لیکن جمعہ کی نماز کے بعد زمین میں پھیل جانا اور کاروبارِ دنیا میں مصروف ہو جانا لازم تو نہیں ہے. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود قرآن حکیم کے بعض اوامر ایسے ہیں جو لازم نہیں ہیں‘ بلکہ ان سے استحباب یا اجازت کا مفہوم نکلتا ہے.

رسول اللہ کے اقوال کے ضمن میں یہ معاملہ اور زیادہ مشکل ہوجاتا ہے. ہر حدیث کے بارے میں یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ یہ آپ کا فرمان ہے بھی یا نہیں؟ اگر ہے تو اس کی سند کیا ہے؟ سند قوی ہے یا ضعیف ؟ پھر یہ کہ اس کی حیثیت کیا ہے؟ آیا یہ 
آپ کا حکم تھا‘ مشورہ تھا‘ ذاتی رائے تھی یا اجتہاد تھا؟اصل میں یہی وہ دِقت تھی جس کے حل کے لیے حضور کے انتقال کے بعد سو دو سو برس تک اُمت کے بہترین دماغ انہی چیزوں پر سوچ بچار کرتے رہے. وقت کی اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ نے فقہاء کی ایک کونسل بنائی. ان کایہ عمل (معاذ اللہ) کوئی مشغلے کے طو رپر نہ تھا. ان کا مقام اس سے بہت بلند ہے کہ وہ محض شغل کے طور پر ان کاموں میں لگے رہتے. انہیں اس ضرور ت کا شدید احساس تھا کہ احکامِ شریعت کی درجہ بندی کی جائے تاکہ معلوم ہو جائے کہ کونسی شے فرض ہے‘ کونسی واجب‘ کونسی سنت مؤکدہ ہے اور کونسی مستحب کے درجے میں ہے. پھر ان احکام کے تعین کے لیے اصول و ضوابط معین کیے گئے. اصولِ فقہ‘ اصولِ تفسیر اور اصولِ حدیث مقرر ہوئے. مختلف فقہی مسالک کے مابین جو اختلافات سامنے آئے وہ ایک فطری بات ہے. ظاہر بات ہے کہ جہاں انسانی ذہن کام کرتا ہے وہاں اختلاف کی گنجائش پیدا ہوتی ہے. تو اس اعتبا رسے یہ بات سمجھ لیجیے کہ اصل میں یہ وہ مشکل ہے کہ جسے حل کرنے کے لیے اسلاف کے بہترین دماغوں نے ایک طویل عرصہ صرف کیا ہے اور اس کا امکان نہیں ہے کہ اب ہم ان حدود سے آگے بڑھ سکیں. اب ہمارے پاس کوئی مزید نئی احادیث تو نہیں آ سکتیں‘ احادیث کا پورا ذخیرہ ان کے سامنے موجود تھا. آج ہم بیٹہ کر کوئی نیا ’’اسماء الرجال‘‘ بھی گھڑ نہیں سکتے‘ بلکہ اسلاف نے راویوں کے بارے میں تحقیق و تفتیش کے بعد ان پر جو جرح و تعدیل کی اس پر آج ہمیں اعتماد کرنا ہو گا. ہمارا یہ علمی ورثہ جس کا اس قدر وسیع و عریض اثاثہ ہمارے پاس موجودہے یہ بے بنیاد نہیں ہے‘ اس کی پشت پر کوئی خواہ مخواہ کی موشگافی کا جذبہ یا شوق کارفرمانہیں تھا‘ یہ سب کچھ محض مشغلے کے طور پر نہیں کیا گیا‘ بلکہ یہ دین کی ایک اہم بنیادی اور واقعی ضرورت تھی جس کو ان ائمہ دین نے پورا کیا. یہی وجہ ہے کہ ان ائمہ کو مجددین میں شمار کیا گیا ہے.