رہا یہ سوال کہ رسول اللہ کے بعد اطاعت کا یہ نظام عملاً کیسے چلے گا‘ تو عملی طور پر اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں اگر تو اسلامی نظامِ حکومت قائم ہے تو اس کا والی ٔامر‘ جسے آپ خلیفہ کہیں یا سلطان‘ اس کی اطاعت لازم ہے. اس اطاعت کے ضمن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خلیفہ کی اپنی رائے میں بھی تو غلطی ہو سکتی ہے. اب یہ کون طے کرے گا کہ خلیفہ کی رائے درست ہے یا نہیں؟ سورۃ النساء کی آیت ۵۹ میں اللہ‘ رسولؐ اور اولی الامر کی اطاعت کے حکم کے بعد اصولی طو رپر تو یہ طے کر دیا گیا کہ ﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ﴾ کہ اگر کسی معاملے میں تمہارے مابین تنازعہ ہوجائے تواس معاملے کو اللہ اور رسولؐ کی طرف لوٹا دو‘لیکن عملاً اس کا نظام کیا ہو گا؟ والی ٔامر اگر اپنی کسی رائے کے بارے میں کہہ رہا ہو کہ یہ چیز شریعت کے دائرے کے اندر ہے‘ لیکن کوئی صاحب ِعلم یہ کہے کہ نہیں‘ اس سے شریعت کا فلاں حکم ٹوٹ رہا ہے تو اس کے فیصلے کے لیے کوئی ادارہ‘ کوئی انسٹیٹیوشن ہونا چاہیے.

عہد ِحاضر میں خلافت کا نظام جب بھی قائم ہو گا اس میں اہم ترین مسئلہ یہ ہو گا کہ اس اختلاف کا فیصلہ کون کرے؟ اوّل تو یہ کہ اولی الامر کیسے وجود میں آئیں؟ قرآن مجید نے ہمیں اس کا کوئی نظام نہیں دیا اور اس معاملے کو کھلا رکھا ہے ‘ اس لیے کہ نزولِ قرآن کے وقت معاشرتی ارتقاء (social evolution) کاعمل ابھی جاری تھا اور اس میں انسان کو ابھی درجہ بدرجہ ترقی کرنا تھی. محمد رسول اللہ پر نبوت کا سلسلہ منقطع ہو چکا. اب کوئی والی ٔامر نبی نہیں ہو گا‘ لہذا معصوم نہیں ہو گا.البتہ وہ مسلمانوں میں سے ہو گا اور اس کا تقرر ’’عن مشورۃِ المُسلمین‘‘ (مسلمانوں کے باہمی مشورے سے)عمل میں آئے گا. اس کے بعد اب یہ سوال پیدا ہوگا کہ اگر صاحب ِ امر ایک بات کہے اور کچھ اہل علم یہ محسوس کریں کہ یہ ازروئے قرآن وحدیث غلط ہے تو اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ معاشرتی ارتقاء کا عمل آج جس مقام تک پہنچا ہے اس میں ریاست کے تین بنیادی اعضاء (basic organs) معین کیے گئے ہیں‘ یعنی مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ. اور یہ فرضِ منصبی عدلیہ یعنی اعلیٰ عدالتوں (higher judiciary) کے ذمے عائد ہو گا کہ وہ اس معاملے کو طے کریں. خطا کا امکان اگرچہ وہاں بھی ہے‘ لیکن بہرحال صاحب امر (خلیفہ) اور دستور ساز اسمبلی‘ جسے مجلس ملّی‘ مجلس شوریٰ‘ مجلس مقننہ‘ مجلس اجتہاد‘ کانگریس یا پارلیمنٹ‘ جو نام بھی دیا جائے ‘ ان دونوں کے مابین بھی اگر نزاع پیدا ہو جائے تو اسے عدلیہ ہی کو طے کرنا ہوگا. اسی طرح قوم کا کوئی فرد اگر یہ سمجھتا ہے کہ مجلس ملی یا مجلس شوریٰ نے یہ جو فیصلہ کیا ہے یہ شریعت کے منافی ہے‘ یا وہ خلیفہ کے کسی فیصلے کے خلاف استغاثہ کرنا چاہتا ہے تو وہ بھی عدلیہ ہی سے رجوع کرے گا.

عملی اعتبار سے دوسری صورت یہ ہے کہ دین کا نظام ہی قائم نہیں ہے. ایسی صورت میں اسے قائم کرنے کی جدوجہد اور محنت کرنا ہو گی‘ اس کے لیے جہاد کرنا ہو گا‘ اور اس جدوجہد کے لیے جماعت بنانا ہو گی. ایسی جماعت کا جو امیر ہو گا اس کی حیثیت اولی الامر کی ہوگی. اب اس صورت میں بھی جماعت کے اندر کوئی تنازعہ اٹھ سکتا ہے‘ کسی کو امیر جماعت کی کسی رائے سے اختلاف ہو سکتا ہے.

یہ اختلاف اگر اس درجے میں ہو کہ بس رائے کا اختلاف ہے تو بات اور ہے‘ اختلافِ رائے کے علی الرغم امیر کا حکم ماننا پڑے گا ‘لیکن اختلاف کی نوعیت اگر یہ ہو کہ کوئی سمجھے کہ جس بات کا حکم دیا جا رہا ہے وہ بات شریعت کی رو سے جائز نہیں ہے‘ اس میں حدودِ شریعت سے تجاوز ہو گیا ہے تو اس صورت میں ظاہر بات ہے کہ آخری فیصلہ اس شخص کا اپنا ضمیر ہی کرے گا. یہاں کوئی عدالت فیصلہ نہیں کر سکتی‘ کیونکہ یہ ایک جماعتی معاملہ ہے. جماعت کی اپنی کوئی علاقائی حدود (territorial jurisdiction) نہیں ہیں‘ کسی علاقے پر اس کا حکم نہیں چل رہا ہے‘ چنانچہ اس کے اندر کسی عدلیہ کا معاملہ نہیں ہو گا‘ بلکہ اختلاف کرنے والے شخص کا اپنا فیصلہ ہی حتمی ہو گا‘ جیسا کہ حضور نے فرمایا: اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ … وَلَوْ اَفْتَاکَ النَّاسُ وَأَفْـتُـوْکَ (۱کہ اپنے دل سے فتویٰ لے لیا کرو… اگرچہ لوگ تمہیں اس کے حق میں فتویٰ دے بھی دیں. گویا اصل مفتی تمہارا قلب ہے. قلب کا تعلق اللہ کے ساتھ ہوتا ہے. اگر تمہارا ضمیر مطمئن ہے کہ تم نے اس وجہ سے امیر کا فیصلہ تسلیم نہیں کیا یا جماعت (۱) الاربعون النوویۃ‘ ح۲۷. قال النووی:حدیث حسن رویناہ فی مسندی الامامین احمد بن حنبل والدارمی باسناد حسن. ہی سے علیحدگی اختیار کر لی کہ تمہارے نزدیک صاحب ِامر (امیر) نے شریعت کی حدود سے تجاوز کیا ہے تو اللہ کے ساتھ تمہارا معاملہ صاف رہے گا. اور اگر اصل سبب کچھ اور ہے‘ کوئی تکبر ‘ حسد‘ طبیعت کا کوئی نشوز پائوں کی بیڑی بن گیا ہے‘ یا راستے کی سختیاں ساتھ دینے میں آڑے آ رہی ہیں‘ آگے چلنے کی ہمت نہیں ہے اور صرف بہانہ بنایا جا رہا ہے تو یہ اللہ کے علم سے باہر نہیں‘ اس کے ہاں اس پر پکڑ ہو گی اور انسان کو اس کی جواب دہی کرنا ہوگی. لیکن دنیا میں اس کا فیصلہ کوئی دوسرا انسان نہیں کر سکتا. یہ بندے اور رب کے مابین راز رہے گا. یہ چند باتیں تھیں جو اس آیہ ٔمبارکہ کے ذیل میں ہمارے سامنے آ گئیں: 

وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ فَاِنَّمَا عَلٰی رَسُوۡلِنَا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۲﴾ (التغابن)