پہلی بات یہ کہ ’’سمع و طاعت‘‘ قرآن حکیم کی ایک اہم اصطلاح ہے. چنانچہ قرآن حکیم میں آیت زیر درس کے علاوہ چار مقامات پر یہ جوڑا اسی طرح آیا ہے:

(۱) سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیات کے بارے میں روایت ہے کہ یہ رسول اللہ کو شب ِ معراج میں عطا ہوئی ہیں. سورۃ البقرۃ اگرچہ پوری کی پوری مدنی سورت ہے‘ لیکن اس کی آخری دو آیات اس اعتبار سے مکی شمار ہوں گی کہ واقعہ ٔمعراج مکی دور میں پیش آیا جس کے دوران اُمت کے لیے تحفے کے طور پر یہ دو آیتیں دی گئیں. ان میں سے پہلی آیت (آیت ۲۸۵) جس کا آغاز 
’’اٰمَنَ الرَّسُوْلُ‘‘کے الفاظ سے ہوتا ہے‘ کے آخری الفاظ ہیں: 

وَ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ٭۫ غُفۡرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیۡکَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۲۸۵﴾ 
’’اور وہ کہہ اٹھے کہ ہم نے سنا اور ہم نے تسلیم کیا‘ ہم تیری مغفرت چاہتے ہیں اے ہمارے ربّ‘ اور تیری ہی طرف ہمیں لوٹنا ہے.‘‘

سورۃ البقرۃ کے بارے میں یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ یہ شریعت ِ اسلامی کا نقطہ ٔآغاز ہے.

(۲) شریعت اسلامی کا نقطہ ٔتکمیل یا نقطہ ٔعروج سورۃ المائدۃ ہے. اس کی آیت ۷ میں فرمایا گیا: 

وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ مِیۡثَاقَہُ الَّذِیۡ وَاثَقَکُمۡ بِہٖۤ ۙ اِذۡ قُلۡتُمۡ سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ۫ ’’اور یاد رکھنا اللہ کی نعمت کو جو(شریعت کے حوالے سے) تم پر ہوئی ہے اور اس کا عہد (بھی یاد رکھنا) جس میں اللہ نے تم کو باندھ لیا ہے جبکہ تم نے کہا تھا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی!‘‘

(۳) سورۃ النور کی آیت ۵۱ میں فرمایا گیا: 

اِنَّمَا کَانَ قَوۡلَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذَا دُعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَہُمۡ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ؕ ’’یقینا ایمان والوں کی بات تو یہی ہے کہ جب بلایا جائے ان کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف تاکہ وہ فیصلہ کرے ان کے مابین تو کہیں کہ ہم نے سن لیا ہے اور حکم مان لیا ہے.‘‘

(۴) اسی طرح سورۃ النساء کی آیت ۴۶ میں یہود کے طرزِ عمل کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: 
وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا وَ اسۡمَعۡ وَ انۡظُرۡنَا لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ وَ اَقۡوَمَ ۙ … 
’’اور اگر وہ کہتے کہ ہم نے سنا اور مانا اور (اے نبی ) سنیے اور ہم پر نظر کیجیے تو یہ ان کے حق میں بہتر اور درست ہوتا…‘‘

تو یہ چار مقامات ہیں جہاں 
’’سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘‘ کے الفاظ ایک جوڑے کی شکل میں آئے ہیں.
اب ذرا اس کا منفی پہلو بھی ملاحظہ کر لیجیے. کفار کی ایک روش تو یہ تھی کہ سننے ہی سے انکاری تھے‘ جیسا کہ سورۂ حٰم السجدۃ کی آیت ۲۶ میں الفاظ آئے ہیں: 


وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَا تَسۡمَعُوۡا لِہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ وَ الۡغَوۡا فِیۡہِ لَعَلَّکُمۡ تَغۡلِبُوۡنَ ﴿۲۶﴾ 
’’اور کافر (ایک دوسرے سے ) کہنے لگے کہ اس قرآن کو مت سنو اور (جب محمد اسے پڑھ کر سنا رہے ہوں تو) اس میں شور وغل کرو‘ شاید کہ (اس تدبیر سے) تم غالب ہو جاؤ!‘‘

اس صورت میں تو ’’سمع‘‘ ہی کی نفی ہو گئی‘ جبکہ ایک طرزِ عمل وہ تھا جو یہود نے اختیار کر رکھا تھا اور جس کا ذکر قرآن حکیم میں دوبار 
’’سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا‘‘ کے الفاظ میں آیا ہے‘ یعنی یعنی ’’ہم نے سنا اور ہم نے نافرمانی کی‘‘. یہود کے یہ الفاظ سورۃ البقرۃ کی آیت ۹۳ میں بھی نقل ہوئے ہیں اور سورۃ النساء کی آیت ۴۶ میں بھی. مؤخر الذکر آیت کا دوسرا ٹکڑا اوپر بیان ہوا ہے.آیت کے پہلے حصے میں یہود کا طرزِ عمل بیان کرتے ہوئے یہ الفاظ آئے ہیں کہ یہ کہتے ہیں : ’’سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا‘‘ حالانکہ انہیں کہنا چاہیے تھا ’’سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘‘ . تو ’’سمع و طاعت‘‘ درحقیقت قرآن حکیم کی ایک اہم اصطلاح ہے.