’’سمع و طاعت‘‘ کا ایک اہم تقاضا فوری تعمیل


دوسری بات یہ نوٹ کیجیے کہ اس اصطلاح اور اس اسلوب سے پیش نظر کیا ہے! 
’’وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا‘‘ (سنو اور اطاعت کرو!) کے الفاظ میں درحقیقت فوری اطاعت کا حکم ہے‘ یعنی سنتے ہی اطاعت کا لازم ہو جانا. ایک درمیانی طرزِ عمل یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی بات سن تو لی جائے‘ لیکن اگر اپنی سمجھ میں آئے تو مان لی جائے ورنہ رد کر دی جائے‘ اس طرح ’’سننے‘‘ اور ’’ماننے‘‘ کے درمیان ’’اپنی سمجھ‘‘ حائل ہو جاتی ہے. اس طرزِ عمل کا تجزیہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ گویا آپ اس حکم کو نہیں مان رہے بلکہ اپنی سمجھ کی اطاعت کر رہے ہیں‘ کیونکہ آپ نے صرف اس حکم کو مانا ہے جو آپ کی سمجھ میں آ گیا. گویا اصل مطاع تو آپ کی سمجھ ہوئی. یہ اسی طرح کا طرزِ عمل ہے جیسا یہ کہ اگر اللہ کا کوئی حکم آپ کے نفس کو بھی پسند آیا اور آپ اس پر عمل پیرا ہو گئے تو آپ نے اطاعت‘ اللہ کی نہیں بلکہ اپنے نفس کی کی ہے.

اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت تو بلااستثناء ہونی چاہیے‘ خواہ سمجھ میں آئے خواہ نہ آئے. تو 
’’وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا‘‘ ایک ایسا اسلوب ہے جس میں فی الفوراطاعت کا تقاضا ہے‘ یعنی سنتے ہی اس پر عمل کرو. اپنی سمجھ میں آنے یا نہ آنے کا سوال ہی درمیان سے نکل جانا چاہیے. میٹرک کے زمانے میں ہم نے ایک نظم ’’Charge of the Light Brigade‘‘ پڑھی تھی. اس میں نقشہ کھینچا گیا ہے کہ چھ سو سواروں پر مشتمل فوج کے رسالے کو حملہ کرنے کا حکم دیا گیا . اب ان میں سے ہر شخص کو معلوم تھا کہ کسی نے غلط حکم دیا ہے : Someone had blundered 

کیونکہ صورت حال اس طرح کی تھی کہ ان کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے توپیں لگی ہوئی تھیں:

Cannon to right of them
Cannon to left of them
Cannon in front of them
Volleyed and thundered 

اور حملے کی صورت میں ان چھ سو سواروں کی ہلاکت یقینی تھی لیکن 

Theirs not to make reply
Theirs not to reason why
Theirs but to do and die


ان کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ اس وقت اس حکم کی حکمت دریافت کریں اور اپنے دلائل پیش کریں کہ یہ حکم غلط دیا گیا ہے‘ بلکہ آرمی ڈسپلن اس طرزِ عمل کا نام ہے کہ جو حکم دیا گیا ہے اس کی فوری تعمیل کرو اور اس میں موت آتی ہے تو آئے! تو یہ ہے درحقیقت وہ طرزِ عمل کہ جو ’’وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا‘‘ کے جواب میں مطلوب ہے.