صحابہ کرامؓ کی بیعت کے الفاظ اور ان کی تشریح

اس ’’سمع و طاعت‘‘ کے لیے رسول اللہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے جو بیعت لی وہ اس حدیث میں مذکور ہے: 

عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِؓ قَالَ: بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا وَعَلٰی اَنْ لاَّ نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ … (۲(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الایمان‘ باب بنی الاسلام علی خمس.وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان ارکان اسلام ودعائمہ العظام.عن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما.

(۲) صحیح البخاری‘کتاب الاحکام‘ باب کیف یبایع الامام الناس‘ وکتاب الفتن‘ باب قول النبی  سترون بعدی امورا تنکرونھا. وصحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ … واللفظ للمسلم. 
حضرت عبادہ بن صامت ( رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ :’’ہم نے بیعت کی تھی اللہ کے رسول  سے ‘‘ … بَاعَ . یَبِیْعُ بیچنے کو کہا جاتا ہے اور بیعت ‘ اہل ایمان کی اللہ کے ساتھ بیع و شراء ہے‘ جیسا کہ سورۃ التوبہ میں ارشاد فرمایا گیا: ﴿اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ ؕ ﴾ (آیت ۱۱۱’’اللہ نے اہل ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے عوض خرید لیے ہیں‘‘ لیکن چونکہ اللہ سامنے نہیں ہے لہذا یہ بیع و شراء اللہ کے رسول کے ہاتھ پرہو رہی ہے. اور عرب کا دستور یہ تھا کہ کوئی سودا جب مکمل ہوجاتا تھا تو مصافحہ (shake hand) کیا جاتا تھا اور یہ مصافحہ بیعت میں بھی ہے.صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی رسول اللہ سے یہ بیعت کس چیز کی تھی؟ اس کے لیے الفاظ آئے ہیں: عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ ’’اس پر کہ سنیں گے اور مانیں گے!‘‘یہی دراصل وہ جوڑا ہے (سمع وطاعت) جس کے حوالے سے یہ ساری گفتگو ہو رہی ہے اور جس کا حکم آیہ ٔزیر ِدرس میں ہے : فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا. 

اس حدیث میں سمع و طاعت کی تین کیفیات بیان ہوئی ہیں. اوّل یہ کہ ’’فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ‘‘ یعنی ’’چاہے تنگی ہو یا آسانی ہو‘‘…یہ نہیں کہ بس آسانی ہی کے اندر اطاعت کریں گے. بلکہ چاہے تنگی ہو ‘ مشکل ہو‘ ہمارے لیے اپنا گزر مشکل ہوا ہو‘لیکن بہرحال جب نبی مکرم کا حکم آئے گا تو بلاچون و چرا مانیں گے. دوم یہ کہ ’’وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ‘‘ یعنی ’’چاہے ہماری طبیعت میں آمادگی ہو ‘ نشاط ہو اور چاہے ہمیں اپنی طبیعتوں کو مجبو ر کرنا پڑے‘‘ اطاعت کی بحث میں میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ اطاعت اصلاً تو طوعِ خاطر سے اور بطیب خاطر ہی مطلوب ہے‘ لیکن جماعتی زندگی میں بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی محسوس کرتا ہے کہ ’’someone has blundered‘‘ آپ کا یہ خیال ہو سکتا ہے کہ میرا امیر غلطی کر رہاہے‘ لیکن اگر وہ معصیت کا حکم نہیں دے رہا‘ اللہ اور اس کے رسول کے کسی صریح حکم کے خلاف حکم نہیں دے رہا‘ تو اگرچہ یہ حکم آپ کی رائے کے خلاف ہو لیکن آپ کو ماننا ہو گا. اس میں ظاہر ہے کہ آپ کو اپنی رائے کو دبانا ہو گا‘ اپنے نفس کو گھونٹنا ہو گا‘ لیکن اطاعت بہرحال لازم ہو گی. سوم یہ کہ ’’وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا‘‘ یعنی ’’اور چاہے ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے‘‘. جماعتی نظام میں یہ مرحلہ لازماً آجاتا ہے.کسی شخص کے دل میں یہ خیال آ سکتا ہے‘ جو وسوسہ بھی ہو سکتا ہے اور کسی کی واقعی رائے بھی ہو سکتی ہے‘ کہ میں اس منصب کا زیادہ اہل ہوں‘ میرے اندر اس کی صلاحیت زیادہ ہے. یا یہ کہ میری standing بہت ہے‘ میں بہت عرصے سے جماعت کے اندر ہوں‘ لیکن ایک شخص جو بالکل نووارد تھا اسے امیر بنا دیا گیا ہے. ایسے معاملات رسول اللہ کی موجودگی میں بھی پیش آئے ہیں. غزوۂ موتہ کے موقع پر جب رسول اللہ نے حضرت زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کو امیر بنادیا تو کئی لوگوں نے اعتراضات کیے اور کہا گیا کہ جعفربن ابی طالبؓ جیسے لوگ ایک آزاد کردہ غلام کی کمان میں دیے جا رہے ہیں! حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ واقعتا بڑے جلیل القدر صحابی تھے‘ حضورؐ کے چچا زاد بھائی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی تھے. پھر حضور نے اپنے مرضِ وفات میں حضر ت زیدؓکے بیٹے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہماکو امیر بنایا تو اس پر بھی اعتراضات ہوئے. اُس وقت حضور نے بڑے غصے سے یہ الفاظ ادا فرمائے تھے کہ اگر آج تم لوگ اسامہ کی امارت پر اعتراض کر رہے ہو تو تم نے اس کے باپ کی امارت پر بھی اعتراض کیا تھا.

انسانی معاملات میں یہ ساری چیزیں پیش آ سکتی ہیں‘ پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں. لہٰذا حضور نے جب بیعت لی تو 
’’وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا‘‘ کے الفاظ سے اہل بیعت کو گویا باندھ لیا‘ کیونکہ یہ فیصلہ اور اختیار صاحب امر کا ہوتا ہے کہ وہ کس کے حوالے کوئی ذمہ داری کرتا ہے. چنانچہ بیعت میں یہ شرط بھی شامل ہو گئی کہ چاہے ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے ہم اطاعت کریں گے.

اب جماعتی نظام میں ماتحت امراء کا ایک نظام ناگزیر ہے. رسول اللہ کے زمانے میں بھی ماتحت امراء تھے. آپؐ کوئی جیش بھیجتے تو اس کا کسی کو سپہ سالار مقرر فرماتے. پھر کسی ایک ہی لشکر میں مختلف دستوں کے مختلف امراء ہوتے تھے‘میمنہ کا امیر کوئی اور‘ میسرہ کا کوئی اور‘ قلب پر کوئی اور ‘ اور ہراول دستے کا امیرکوئی اور ہوتا .غزوئہ احد میں درّے پر جو پچاس تیر انداز مقرر کیے گئے ان پر بھی ایک امیر مقرر کیا گیا. چنانچہ 

یہ بیعت بھی لی گئی کہ ’’وَعَلٰی اَنْ لاَّ نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ‘‘ یعنی جو بھی صاحب امر ہوں گے‘ ماتحت امراء ہوں گے‘ ان سے ہم امر کے معاملے میں جھگڑیں گے نہیں‘ وہ جو حکم دیں گے اسے بھی مانیں گے. اس میں وہ استثناء بہرحال موجود رہے گا کہ وہ معصیت کا حکم نہیں دے سکتے. اس بارے میں ہم تفصیل سے گفتگو کر چکے ہیں کہ ماتحت امراء کا معاملہ‘ چاہے وہ حضور کے زمانے میں تھا‘اور حضور کے انتقال کے بعد چاہے مسلمانوں کا کوئی خلیفہ ہو اور چاہے کسی جماعت کا امیر ہو‘ سب کی اطاعت اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے. ان کی اطاعت اللہ اور رسول کے احکام کے دائرے کے اندر اندر ہو گی اور یہ اس سے باہر نہیں جا سکتے‘ اللہ اور رسولؐ کے حکم کے خلاف حکم نہیں دے سکتے.

اس حدیث میں آگے الفاظ آئے ہیں: 
’’اِلاَّ اَنْ تَرَوْا کُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَکُمْ فِیْہِ مِنَ اللّٰہِ بُرْھَانٌ‘‘. نوٹ کیجیے کہ یہاں صیغہ تبدیل ہوگیا ہے. اس سے پہلے تک کے الفاظ بیعت کرنے والوں کی طرف سے‘ جمع متکلم کے صیغہ میں ہیں‘ لیکن اس ٹکڑے میں جمع مخاطب کا صیغہ آیا ہے. معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ان الفاظ کا اضافہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’اِلاَّ اَنْ تَرَوْا کُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَکُمْ فِیْہِ مِنَ اللّٰہِ بُرْھَانٌ‘‘.سوائے اس کے کہ تم دیکھو کوئی کھلا کفر جس کے لیے تمہارے پاس اللہ کی طرف سے دلیل موجود ہو‘‘. یعنی تمہیں ثابت کرنا ہو گا کہ یہ بات کتاب و سنت کے منافی ہے‘ یہ اللہ کے حکم کے خلاف ہے‘ یہ کفر ہے‘ اس لیے میں نہیں مانوں گا! جیسے کہ وہ معاملہ ہوا کہ امیر نے خود کشی کا حکم دیا کہ آگ کے گڑھے میں کود جاؤ‘ لیکن مامورین نے اسے ماننے سے انکار کر دیااور رسول اللہ نے ان کی تصویب فرمائی اور فرمایا کہ اگر کہیں وہ اس آگ میں کود گئے ہوتے تو کبھی اس سے نکلنا نصیب نہ ہوتا.

اس بیعت میں آخری بات یہ ہے کہ 
’’وَعَلٰی اَنْ نَّـقُوْلَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا‘‘ یعنی ’’اور یہ کہ ہم حق بات کہیں گے جہاں کہیں بھی ہوں گے‘‘. حق بات کہنا اور صحیح مشورہ دینا اپنی جگہ پر بہت اہم ہے. کسی بھی ہیئت اجتماعی میں اس کا ایک نظام موجود ہونا ناگزیر ہے اور اس کے بغیر کوئی جماعتی زندگی صحیح اور صالح نہیں رہ سکتی. امیر کا انداز تحکمانہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے باہمی مشورے سے معاملات طے کرنے چاہئیں. چنانچہ بیعت کی بنیاد پر بننے والی تنظیم میں بھی مشورہ کا نظام لازمی ہے. ’’لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَــوْمَۃَ لَائِمٍ‘‘ یعنی ’’ہم اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے‘‘. کوئی شخص یہ سمجھتے ہوئے کہ میری حیثیت ہی کیا ہے اور میں کچھ کہوں گا تو لوگ اس پر ہنس پڑیں گے‘ خاموش رہے تو یہ بات درست نہیں ہے. اسے کسی سے ڈرنا نہیں چاہیے بلکہ اس کی جو رائے ہے وہ دیانت داری کے ساتھ پیش کر دینی چاہیے. البتہ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اسلام کے نظم جماعت میں فیصلہ ووٹوں کی گنتی سے نہیں ہوتا ؏ ’’کہ از مغز دو صد خر فکر انسانے نمی آید!‘‘یعنی دو سو گدھوں کے دماغوں سے ایک انسان کا ذہن وجود میں نہیں آتا! اقبال نے اس شعر میں بڑی سیدھی سی بات بیان کر دی ہے. مصرعہ ٔاولیٰ ہے ؏ ’’گریز از طرزِ جمہوری غلامِ پختہ کارے شو!‘‘یعنی یہ جو مغرب کا تصورِ جمہوریت ہے کہ ووٹوں کی گنتی سے معاملات طے کیے جائیں اس سے بچو! اسلامی نظم جماعت میں باہمی مشورے کے بعد فیصلے کا اختیار صاحب امر کو حاصل ہوتا ہے.