نقیب کے معنی ہیں خبرگیری کرنے والا‘ دیکھ بھال کرنے والا‘ نگرانی کرنے والا. تو حضورﷺ نے بہتر (۷۲)میں سے بارہ افراد کو نقیب مقرر کر دیا‘ گویا ہر نقیب کے حوالے پانچ پانچ مسلمانوں کو کر دیا کہ وہ ان کے حالات کی خبرگیری کرے‘ ان کی نگرانی اور رہنمائی کرے. اب ظاہر بات ہے کہ ان بہتر افراد کا حضورﷺ سے براہِ راست رابطہ نہیں تھا. وہ تو اگلے سال حج ہی کے موقع پر آئیں گے تو ملاقات ہو گی. گویا یہ بیعت درحقیقت ایک ایسے نظم جماعت میں لی گئی جس میں کچھ درمیانی امراء اور عہدیدار بھی ہوں اور ہر صاحب ایمان کا براہِ راست حضورﷺ کے ساتھ رابطہ نہ ہو. چنانچہ ہم نے بھی اسی حدیث کو تنظیم اسلامی کے لیے بیعت کی بنیاد بنایا ہے.
اور میرا یہ دعویٰ ہے کہ نظم جماعت کے لیے صرف ایک اس حدیث کے اندر مکمل دستور موجود ہے. ہم نے اگرچہ تشریح و توضیح کے لیے اس کا ایک تنظیمی ڈھانچہ بھی بنایاہے‘ اس کے قواعد و ضوابط بھی طے کیے ہیں اور نظام العمل بھی ترتیب دیا ہے‘ لیکن اس سب کا دارو مدار درحقیقت اسی پر ہے. اسی حدیث سے استنباط اور استدلال کرتے ہوئے ہم نے اپناجماعتی نظام تشکیل دیا ہے. اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے کہ ’’وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا‘‘ اور ’’آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ: بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘‘ اور پھر اس سمع و طاعت کے لیے یہ مسنون بیعت سمع و طاعت‘ جو متفق علیہ احادیث سے ثابت ہے‘ ہم ان سب تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں. آمین!!
OO بَارَکَ اللّٰہُ لِیْ وَلَـکُمْ فِی الْـقُرْآنِ الْعَظِیْمِ‘ وَنَفَعْنِیْ واِیَّـاکُمْ بِالْآیَاتِ وَالذِّکْرِ الْحَکِیْمِ OO