اس بیعت سمع و طاعت کے بارے میں ایک اہم بات یہ نوٹ کرنے کی ہے کہ رسول اللہ نے یہ بیعت مکہ میں نہیں لی. یہ بیعت اگرچہ مکی دور میں ہی ہوئی ہے‘ لیکن سمجھ لیجیے کہ یہ کس مرحلے پر ہوئی ہے. مکہ میں رسول اللہ کی دعوت پر ایمان لانے والے تعداد میں بہت کم تھے. پھر چونکہ سب مسلمان ایک ہی شہر میں تھے لہذا سب کا واسطہ و تعلق حضور کے ساتھ براہِ راست تھا. آپؐ کا ہر حکم ہر ایک کو براہِ راست پہنچتا تھا‘ یا زیادہ سے زیادہ کسی پیغام رساں کی ضرورت ہوتی تھی. حضرت خباب بن ارت اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما جیسے حضرات دارِ اَرقم ؓ میں حضور کے پاس ہمہ وقت موجود رہتے تھے اور جونہی کوئی وحی نازل ہوتی یہ مکہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے گھروں میں پہنچ کر تازہ نازل ہونے والی قرآنی آیات کی تعلیم دیتے. اس کے علاوہ اور کسی درمیانی نظم کی ضرورت نہیں تھی‘ لہذا کوئی ماتحت امراء نہیں تھے.

یہی وجہ ہے کہ حضور نے مکہ میں ایمان لانے والے صحابہ سے بیعت نہیں لی. لیکن جب یثرب سے لوگ آپ کی دعوت پر ایمان لانے لگے اور ایک سال میں چھ افراد ایمان لائے‘ دوسرے سال وہ بارہ ہو گئے اور تیسرے سال میں جب بہتر (۷۲) افراد حلقہ بگوش اسلام ہوگئے تب آپؐ نے ان سے مذکورہ بالا الفاظ میں بیعت لی اور ان میں سے بارہ حضرات کو ان پر نقیب مقرر کر دیا. ہم نے تنظیم اسلامی کے ماتحت نظم میں ’’نقیب‘‘ کا لفظ وہیں سے لیا ہے. نیز قرآن مجید میں بھی مذکور ہے کہ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں پر بارہ نقباء مقرر تھے‘ یعنی ہر قبیلے پر ایک نقیب تھا.

نقیب کے معنی ہیں خبرگیری کرنے والا‘ دیکھ بھال کرنے والا‘ نگرانی کرنے والا. تو حضور نے بہتر (۷۲)میں سے بارہ افراد کو نقیب مقرر کر دیا‘ گویا ہر نقیب کے حوالے پانچ پانچ مسلمانوں کو کر دیا کہ وہ ان کے حالات کی خبرگیری کرے‘ ان کی نگرانی اور رہنمائی کرے. اب ظاہر بات ہے کہ ان بہتر افراد کا حضور سے براہِ راست رابطہ نہیں تھا. وہ تو اگلے سال حج ہی کے موقع پر آئیں گے تو ملاقات ہو گی. گویا یہ بیعت درحقیقت ایک ایسے نظم جماعت میں لی گئی جس میں کچھ درمیانی امراء اور عہدیدار بھی ہوں اور ہر صاحب ایمان کا براہِ راست حضور کے ساتھ رابطہ نہ ہو. چنانچہ ہم نے بھی اسی حدیث کو تنظیم اسلامی کے لیے بیعت کی بنیاد بنایا ہے.

اور میرا یہ دعویٰ ہے کہ نظم جماعت کے لیے صرف ایک اس حدیث کے اندر مکمل دستور موجود ہے. ہم نے اگرچہ تشریح و توضیح کے لیے اس کا ایک تنظیمی ڈھانچہ بھی بنایاہے‘ اس کے قواعد و ضوابط بھی طے کیے ہیں اور نظام العمل بھی ترتیب دیا ہے‘ لیکن اس سب کا دارو مدار درحقیقت اسی پر ہے. اسی حدیث سے استنباط اور استدلال کرتے ہوئے ہم نے اپناجماعتی نظام تشکیل دیا ہے. اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے کہ ’’وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا‘‘ اور ’’آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ: بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘‘ اور پھر اس سمع و طاعت کے لیے یہ مسنون بیعت سمع و طاعت‘ جو متفق علیہ احادیث سے ثابت ہے‘ ہم ان سب تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں. آمین!! 

OO بَارَکَ اللّٰہُ لِیْ وَلَـکُمْ فِی الْـقُرْآنِ الْعَظِیْمِ‘ وَنَفَعْنِیْ واِیَّـاکُمْ بِالْآیَاتِ وَالذِّکْرِ الْحَکِیْمِ OO