معز ز حاضرین و محترم خواتین!
آج ہم اللہ کے نام سے اور اس کی نصرت و تائید کے بھروسہ پردورۂ ترجمۂ قرآن کا آغاز کررہے ہیں.اس کا طریق کاریہ ہوگا کہ چار رکعات تراویح میں قرآن حکیم کا جتنا حصہ پڑھا جانا ہوگا‘ ہم قرآن مجید سامنے رکھ کر پہلے اس کا اس طور پر مطالعہ کریں گے کہ مَیں متن کے ساتھ ساتھ ترجمہ کروں گا اور جہاں ضرورت ہوگی وہاں مختصر تشریح و توضیح بھی کرتا رہوں گا. اس طرح ہر چار رکعاتِ تراویح میں قرآن مجید کے تلاوت کئے جانے والے حصے کا ترجمہ اور مختصر تشریح ہمارے سامنے آتی رہے گی. اس کا بہت مفید اور نہایت افادیت والا پہلو یہ ہے کہ قیام میں قرآن کا جتنا حصہ پڑھا جائے گا‘ اس کے اکثر و بیشتر ترجمے اور مفاہیم سے سا معین کی ذہنی مناسبت قائم رہے گی اور اس طور پر ان شاء اللہ یہ تراویح کی نماز ہمارے لئے نورٌعلٰی نور کا مصداق بن جائے گی.
پچھلے دو سالوں میں ہم لاہور میں قرآن اکیڈمی کی مسجد جامع القرآن میں اسی طور پر دورۂ ترجمۂ قرآن کرچکے ہیں اور الحمدللہ یہ تجربہ بہت کامیاب رہا ہے. لوگوں نے ہماری توقعات سے بڑھ چڑھ کر بڑے ذوق و شوق کے ساتھ اس میں شرکت کی. شہر کے بعض معروف فزیشن ‘ سرجن‘ پروفیسر‘ وکلاء اور تاجر حضرات کے علاوہ عام پڑھے لکھے لوگوں کی ایک بڑی تعداد غایت درجے کے دلی اشتیاق اور پابندی کے ساتھ اس میں مستقل طور پر شریک رہی. اور اکثر ایساہوتا تھا ‘خاص طور پر آخری عشرے میں ‘کہ بلا مبالغہ جامع القرآن کے وسیع و عریض ہال میں اور پھر صحن میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی اور کچھ حضرات کو واپس جانے پر مجبور ہونا پڑتا تھا.ہماری معلوما ت کی حد تک اس طرح ہر چار رکعاتِ تراویح سے قبل ان رکعتوں میں پڑھے جانے والے قرآن کے مکمل حصے کے ترجمے کا مختصر تشریح و تو ضیح کے ساتھ بیان‘ برصغیر پاک و ہند میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا اور اس کی سعادت قسامِ ازل نے مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے نصیب میں رکھی تھی. حقیقت یہ ہے کہ اس فضل و احسان پر ہم اللہ تعالیٰ کا کماحقہ شکر ادا کرنے سے قاصر ہیں.
اس سال کے رمضان المبارک میں دورۂ ترجمۂ قرآن کے لئے کراچی کے احباب کا اصرار تھا کہ اسے کراچی میں رکھا جائے . خود میری بھی خواہش تھی کہ اس کام کو اہل کراچی سے متعارف کرایا جائے . اس ضمن میں فاران کلب کے ارباب حل و عقدنے جگہ اور دوسرے انتظامات کی پیش کش کی تھی ‘ لیکن جگہ و سعت کے لحاظ سے ناکافی سمجھی گئی. اس کے بعد اس جامع مسجد ناظم آباد نمبر۵ کے منتظمین اور محترم خطیب صاحب سے رجوع کیا گیا. اللہ تعالیٰ ان حضرات کو جزائے خیر سے نواز ے کہ انہوں نے بڑی خوشی سے مسجد کا اوپر وا لا ہال جس میں ہم اس وقت بیٹھے ہیں‘ اس کام کے لئے عنایت فرما دیا اور دیگر ضروریات فراہم کرنے کے سلسلہ میں بھر پور تعاون کیا .اللہ تعالیٰ ان حضرات کے اس بیش بہادینی تعاون کو قبول فرمائے!دورۂ ترجمۂ قرآن کے آغاز سے قبل یہ بہت مناسب موقع ہے کہ ہم رمضان المبارک کے استقبال کے لئے آج وقت صرف کریں‘ تاکہ اس ماہ کی برکات سے صحیح طور پر مستفید ہونے کے لئے ہماری کچھ ذہنی تیاری ہوجائے .
آپ چشم تصور سے یہ دیکھئے کہ آج سے چودہ سو برس قبل مسجد نبویؐ میں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جمع ہیں اور ان کے سامنے رمضان المبارک کے بیان کے لئے نبی اکرم‘ﷺ یہ خطبہ ارشاد فرمارہے ہیں.اما م بیہقی روایت کرتے ہیں: عن سلمان الفارسیؓ قال:خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فِیْ آخِرِ یَوْمٍ مِنْ شَعْبَانَ فَقَال ’’حضرت سلمان فارسی ؓ سے روایت ہے کہ ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ‘ﷺ نے ہمیں ایک خطبہ دیا ‘ اس میں ارشاد فرمایا‘‘ یٰاَ یُّہَا النَّاسُ قَدْ اَظَلَّکُمْ شَھْرٌ عَظِیْمٌ… ’’اے لوگو!تم پر ایک عظمت والا مہینہ سا یہ فگن ہورہا ہے‘‘.ظِل ’’سایہ‘‘کو کہتے ہیں. گویا رمضان کا سایہ شعبان کی آخری تاریخ سے پڑنا شروع ہو جاتا ہے. شَھْرٌ مُبَارَ کٌ ’’یہ مہینہ بڑا بابرکت ہے‘‘… شَھْرٌ فِیْہِ لَیْلَۃٌ خَیْرٌ مِنْ اَلْفِ شَھْرٍ ’’اس (مبارک) مہینہ میں ایک رات (شب قدر)ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘‘.حدیث شریف کے اس ٹکڑے میں قرآن مجید کی سورۃ القدر کی طرف اشارہ ہوگیاکہ اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ ۚ﴿ۖ۱﴾وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ؕ﴿۲﴾لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ۬ۙ خَیۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَہۡرٍ ؕ﴿ؔ۳﴾ ’’ہم نے اس (قرآن)کو شب قدر میں نا زل کیا ہے. اور (اے نبی)!آپ کیا سمجھتے کہ شب قدر کیا چیز ہے(!یہ) شب قدر(خیروبرکت میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘‘.خطبہ میں حضور‘ﷺ نے آگے ارشاد فرمایا: جَعَلَ اللّٰہُ صِیَا مَہٗ فَرِیْضَۃً وَ قِیَامَ لَیْلِہٖ تَطَوُّعًا ’’اللہ نے اس مہینہ کا روزہ رکھنا فرض ٹھہرایاہے اور رات میں قیام کرنے (یعنی تراویح) کو نفل قرار دیا ہے‘‘.اس بات کو میں آگے چل کر وضاحت سے بیان کروں گا کہ نماز تراویح کی کیا اہمیت ہے‘ اس کا کیا مقام و مرتبہ ہے ‘ اور پھر یہ کہ رمضان المبارک کی راتوں کے قیا م کی اصل روح کیا ہے‘ اس کا قرآن مجید کے ساتھ ربط و تعلق اور اس کی عظیم ترین افادیت کیا ہے !!البتہ اس وقت پھر نوٹ کر لیجئے کہ حضور ‘ﷺ کے اس خطبہ میں الفاظ ہیں : جَعَلَ اللّٰہُ صِیَا مَہٗ فَرِیْضَۃً وَ قِیَا مَ لَیْلِہٖ تَطَوُّعًا ظاہر بات ہے کہ قیام اللیل تو ہر شب میں نفل ہے اور اس کی بڑی فضلیت ہے‘ لیکن حضور ‘ﷺ کے ان الفاظ مبارکہ سے صاف متبادر ہوتا ہے کہ رمضان المبارک میں قیام اللیل کی خصوصی اہمیت و فضلیت ہے .اگرچہ فرضیت نہیں ہے‘ لیکن اللہ کی طرف سے اس کا تطو ّع اور اس کی مجعولیت ثابت ہے‘ کیونکہ دونوں کے ساتھ فعل ’’جَعَلَ اللّٰہُ‘‘ آیا ہے.
آگے فرمایا: مَنْ تَقَرَّبَ فِیْہِ بِخَصْلَۃٍ مِنَ الْخَیْرِ کَانَ کَمَنْ اَدّٰی فَرِیْضَۃً فِیْمَا سِوَاہُ ’’جو کوئی بھی اس مہینہ میں نیکی کا کوئی کام کرکے اللہ کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنا چاہے گا تو اسے اس کا اجرو ثواب اتنا ملے گا جیسے دوسرے دنوں میں کسی فرض کے ادا کرنے پر ملے گا‘‘یعنی مسنون و نفلی نیکی اس ماہِ مبارک میں اجرو ثواب کے اعتبار سے عام دنوں کی فرض عبادت کی ادائیگی کے مساوی ہو جائے گی.ا ور: وَمَنْ اَدّٰی فَرِیْضَۃً فِیْہِ کَانَ کَمَنْ اَدّٰی سَبْعِیْنَ فَرِیْضَۃً فِیْمَا سِوَاہُ ’’اور جو کوئی اس مہینہ میں فرض ادا کرتا ہے تو اس کو دوسرے زمانہ کے ستر فرض ادا کرنے کے برابر ثواب ملے گا‘‘.گویا اگرہم اس ماہِ مبارک میں ایک فرض نماز ادا کرتے ہیں تو غیر رمضان کی ستر فرض نمازیں ادا کرنے کے برابر ثواب پانے کے مستحق ہوجاتے ہیں.آگے فرمایا: وَ ھُوَشَھْرُ الصَّبْرِ وَالصَّبْرُ ثَوَابُہُ الْجَنَّۃُ ’’اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کااجرو ثواب جنت ہے‘‘. اس مہینہ میں ایک بندۂ مؤمن بھوک پیاس برداشت کرتاہے ‘ جائز طریقہ سے اپنے جنسی جذبہ کی تسکین سے بھی اجتنا ب کرتاہے ‘ لوگوں کی کڑوی کسیلی اور ناخوشگوار باتوں پر خاموشی اختیار کرتاہے‘ غیبت و زُور سے بچتاہے.
یہ تمام کام اور اسی نوع کے نواہی سے بچنا سب صبر کے مفہوم میں شامل ہیں ‘ او ر اس صبر کا بدلہ جنت ہے . حدیث شریف کے اس ٹکڑے میں جہاں بشارت ہے وہاں بڑی فصاحت و بلاغت ہے.آگے فرمایا: وَشَھْرُ الْـمُوَاسَـــاۃِ ’’اور یہ آپس کی ہمدردی اور دم سازی کا مہینہ ہے‘‘.اس لئے کہ جس کسی کو کبھی بھوک پیاس کا تجربہ نہیں ہوتا تو اسے اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ کسی بھوکے پیاسے انسان پر کیا بیتتی ہے. اس مہینہ میں اسے بھی اندازہ ہوجاتاہے کہ بھوک کسے کہتے ہیں اور پیاس کیا ہوتی ہے!اس طرح یقینا دل میں انسانی ہمدردی کا ایک جذبہ بیدار ہوتاہے.آگے فرمایا: وَ شَھْرٌ یُزَادُفِیْہِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ ’’اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مؤمن کے رزق میں اضافہ ہوتاہے ‘‘.اس میں برکت ہوتی ہے.
آگے ارشاد ہوا: مَنْ فَطَّرَفِیْہِ صَائِمًا کَا نَ لَہٗ مَغْفِرَۃٌ لِذُنُوبِہٖ وَ عِتْقُ رَ قَبَتِہٖ مِنَ النَّارِ ’’جو کوئی اس مہینہ میں کسی روزہ دار کا روزہ (اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لئے)افطار کرائے گا‘ اس کے لئے اس کے گناہوں کی مغفرت بھی ہوگی اور اس کی گردن کا آتشِ دوزخ سے چھٹکارا پالینابھی ہوگا.‘‘آگے فرمایا : وَکَانَ لَہٗ مِثْلُ اَجْرِہٖ ’’اور اسے اس روزہ دار کے برابر اجرو ثواب بھی ملے گا‘‘ مِنْ غَیْرِ اَنْ یُنْتَقَصَ مِنْ اَجْرِہٖ شَیْ ءٌ ’’بغیر اس کے کہ اس(افطار کرنے والے روزے دار )کے اجر میں سے کوئی بھی کمی کی جائے‘‘.آپ حضرات کو معلوم ہوگا کہ حضرت سلمان فارسی ؓ ان فقراء صحابہ کرام ؓ میں سے تھے جن کے پاس اموال و اسبابِ دُ نیوی نہ ہونے کے برابر تھے اور جن پر عام دنوں میں بھی فاقے پڑتے تھے .ان اصحابؓ کو اتنی مقدرت کہاں حاصل تھی کہ وہ کسی روزہ دار کو افطار کراسکتے . چنانچہ اسی حدیث شریف میں آگے آتا ہے کہ: قُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لَیْسَ کُلُّنَا یَجِدُ مَا یُفَطِّرُ بِہِ الصَّائِمَ ’’ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ !ہم میں سے ہر ایک کو تور وزہ دار کا روزہ افطار کرانے کی استطاعت نہیں ہے(تو کیاہم اس اجر و ثواب سے محروم رہیں گے)؟‘‘ حضرت سلمان فارسیؓ کی اس بات پر حضور ﷺ نے جو جواب ارشاد فرمایا اسے حضرت سلمان فارسیؓ آگے بیان کرتے ہیں کہ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : یُعْطِی اللّٰہُ ھٰذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلیٰ مَذْقَۃِ لَبَنٍ اَوْ شُرْبَۃٍ مِنْ مَاء ’’تو رسول اللہﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’یہ ثواب اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی عطا فرمائے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی پر یا صرف پانی کے ایک گھونٹ ہی پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے گا‘‘.
یہاں یہ بات سمجھ لیجئے کہ ہمارے یہاں اس دَور میں کھانے پینے کی اشیاء کی جوافراط ہے اُس وقت اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا.اُس وقت اگر فقراء صحابہ کرام ؓ میں سے کسی کو افطارکے لئے کہیں سے کچھ دودھ مل جاتاتھا تو وہ اس میں پانی ملا کر لسّی بنالیا کرتے تھے . اور کوئی رفیق ایسا بھی ہو جسے یہ بھی میسر نہیں تو اگر وہ اسے اس لسّی میں شریک کرلے تو اُس وقت کے حالات میں یہ بھی بہت بڑا ایثار تھا . ہم کو آج کھانے پینے کی جو فراوانی ہے اس کے پیش نظر ہم حضورﷺ کے اس ارشاد ِمبارک کی حکمت کو صحیح طور پر سمجھ ہی نہیں سکتے . یہ اُس دَور کی بات ہے جب کہ اُن فقراء صحابہ کرام ؓ پر کئی کئی دن کے فاقے پڑتے تھے . حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میرا یہ حال ہوتا تھا کہ کئی کئی دن کے فاقے سے مجھ پر غشی طاری ہو جاتی تھی ‘ لوگ یہ سمجھتے تھے شایدمجھ پر مرگی کا دورہ پڑا ہے او ر آکر اپنے پاؤں سے میری گردن دباتے تھے.شاید اُس دَور میں یہ بھی مرگی کا علاج سمجھا جاتا ہو.پھر یہ کہ وہاں پانی کے بھی لالے تھے ‘ پانی بھی بڑی قیمتی شے تھا. بڑی دُور سے اسے کنوؤں سے کھینچ کر لانا پڑتا تھا. ماحول کے اس تناظر میں سمجھئے کہ حضورﷺ کے ارشاد مبارک کا اصل منشاء و مدعا کس نوع کے ایثار و قربانی کے جذبے کو پیدا کرنے کی طرف تھا کہ لوگ اپنی ذات اور اپنی ضروریات کے مقابلے میں اپنے کمزور بھائیوں کی ذات اور ان کی ضروریات کا زیادہ خیال رکھیں. یہ بالکل سمجھ میں آنے والی بات ہے. یہاں ایک ضمنی بات یہ سمجھ لیجئے کہ جدید دَور کی عربی میں لبن دہی کو اور حلیب دودھ کو کہا جاتاہے. آگے چلئے‘ حضورﷺ کے ارشاد کا سلسلہ جاری ہے. حضورﷺ فرماتے ہیں: وَمَنْ اَشْبَعَ صَائِمًا سَقَاہُ اللّٰہُ مِنْ حَوْضِی شُرْ بَۃً لَا یَظْمَأُ حَتّٰی یَدْ خُلَ الْجَنَّۃَ ’’اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے گا اسے اللہ تعالیٰ میرے حوض (یعنی حو ضِ کوثر)سے ایسا سیراب فرمائے گا کہ (میدانِ حشر کے مرحلہ سے لے کر بقیہ تمام مراحل میں) اس کو پیاس ہی نہیں لگے گی تا آنکہ وہ جنت میں داخل ہوجائے گا‘‘.
آگے چلئے ‘ ابھی نبی ٔرحمت‘ﷺ کا ارشاد مبارک جاری ہے. غور سے سنئے اور پڑھئے .حضور‘ﷺ نے فرمایا: وَھُوَ شَھْرٌ اَوَّ لُہٗ رَحْمَۃٌ ’’اور یہ مہینہ وہ ہے کہ اس کا ابتدائی حصہ (یعنی پہلا عشرہ) اللہ کی رحمت کا ظہور ہے‘‘ وَاَوْ سَطُہٗ مَغْفِــــرَۃٌ ’’اور اس کا درمیانی حصہ (یعنی دوسرا عشرہ )مغفرتِ خداوندی کا مظہر ہے‘‘ وَ اٰخِرُہٗ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ ’’اور اس کا آخری حصہ (یعنی تیسرا عشرہ )تو گردنوں کو آتشِ دوزخ سے چھٹرا لینے کی بشارت اور نوید سے معمور ہے‘‘ وَمَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوْکِہٖ فِیْہِ غَفَرَاللّٰہُ لَہٗ وَ اَعْتَقَہٗ مِنَ النَّارِ ’’اور جو کوئی اس مہینہ میں غلام و خادم اور زیردستوں کی مشقت میں تخفیف اور کمی کردے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے گا اور اسے آتشِ دوزخ سے آزادی عطا فرمائے گا‘‘.
حضرت سلمان فارسی ؓ کی روایت کردہ اس حدیث شریف کی رو سے یہ وہ خطبۂ مبارکہ ہے جو نبی اکرم‘ﷺ نے شعبان کی آخری تاریخ کو ارشاد فرمایا . اس سے آپ حضرات کو بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضور‘ﷺ نے کس طرح یہ چاہا کہ لوگ اس عظمت والے اور برکت والے مہینہ سے مستفیض و مستفید ہونے کے لئے ذہناًتیار ہوجائیں . اس لئے کہ جب تک کسی شخص کو کسی چیز کی حقیقی قدرو قیمت کاشعور نہ ہو‘ اس وقت تک انسان اس سے صحیح طور پر اور بھر پور استفادہ کرہی نہیں سکتا. اب آئیے سورۃ البقرۃ کے تیئیسویں (۲۳)رکوع کی طرف جو چھ آیات پر مشتمل ہے.میں چاہتا ہوں کہ اختصار کے ساتھ ان آیات ِمبارکہ کے بارے میں کچھ عرض کروں. سب سے پہلی بات یہ سمجھ لیجئے کہ روزے کے ساتھ یہ خصوصی معاملہ ہے کہ اس سے متعلقہ مضامین ‘ تمام احکام اور اس کی ساری حکمتیں قرآن مجید میں اس مقام پر یکجا ہو کر آگئی ہیں . اس کا اوّلین حکم کیا تھا؟ابتدائی رعایتیں کیا تھیں؟آخری حکم کیا آیا؟کتنی رعایتیں برقرار ہیں اورکو ن سی رعایت ساقط ہوگئی ؟روزے کے تفصیلی احکام کیا ہیں؟ روزے کی حکمت کیا ہے؟ روزے کا دُعا سے کیا ربط و تعلق ہے؟ روزے کی عبادت رزق ِ حلال سے کس طور پر مربوط و متعلق ہے؟ روزے کی عبادت کے لئے ماہ رمضان المبارک کا انتخاب کیوں ہوا؟ پھر اس رمضان المبارک کی مناسبت سے صوم کے ساتھ اضافی پروگرام کیا ہے ؟ اور اس طرح جو دو آتشہ اور نورٌ علیٰ نور پروگرام بنتاہے اس کا حاصل کیاہے ؟ یہ تمام مضامین اور موضوعات اس مقام پر چھ آیا ت میں آگئے ہیں.روزے کی حکمت اور احکام
آپ کے علم میں ہے کہ نماز جو ارکانِ اسلام کی رکنِ رکین ہے‘ جسے حضور‘ﷺ نے عمادُ الدّین اور قُــرَّۃُ عَینی فرمایا ہے‘ اس کا یہ معاملہ نہیں ہے. آپ کو نماز کا ذکر قرآن مجید میں متفرق مقامات پر منتشر ملے گا. ارکانِ نماز قیام ‘رکوع ‘سجدے کا ذکر بھی ترتیب سے کسی ایک جگہ نہیں ملے گا. بلکہ بعض جگہوں میں بھی فرق ہو گا. پھر وضو اور تیمم کا ذکر کہیں اور ہو گا. اوقات نماز کا بیان متعدد اسالیب سے مختلف سورتوں اور آیتوں میں اشارات و کنایات میں ملے گا. صلوٰۃ ِخوف کا ذکر کہیں اور ملے گا. الغرض نماز کے متعلق ساری باتیں آپ کو کہیں ایک جگہ نہیں ملیں گی. پھر صلوٰۃ کے ساتھ ایتائے زکوٰۃ کا ذکر آپ کو قرآن مجید میں کثرت سے مختلف مقامات پر نظر آئے گا. لیکن زکوٰۃ کا نصاب‘مقادیر کا تعین اور ادائیگی ٔمدت کا ذکر پورے قرآن مجید میں کہیں نہیں ہے. اس کے جملہ تفصیلی احکام ہمیں سنت و حدیث شریف میں ملیں گے. اسی طرح حج کا معاملہ ہے. سورۃ البقرۃ کے دو ‘رکوع اور سورۃ الحج کے دو ‘رکوع تو وہ ہیں جن میں قدرے تفصیل سے مناسکِ حج کا ذکر ہے . پھر سورۂ آل عمران میں حج کی فرضیت بیان ہوئی ہے. سورۃ البقرۃ کے انیسویں (۱۹) رکوع میں سعی بین الصفا والمروۃ کا ذکر ہے. تو حج کا ذکر بھی قرآن مجید میں آپ کو کم از کم چار جگہ ملے گا . لیکن صوم یعنی روزے کا معاملہ یہ ہے کہ اگر کوئی ہمت کر کے ان چھ آیات کو سمجھ لے تو گویا ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن یعنی صوم کے بارے میں جو کچھ قرآن حکیم میں آیا ہے‘ اس کا علم اسے حاصل ہو جائے گا. تو یہ ہے صوم کا خصوصی معاملہ. اس پر آپ اپنی توجہات کو مرتکز رکھیں گے تو ان شاء اﷲ العزیز آپ محسوس کریں گے کہ بہت بڑی دولت کا خزانہ ہاتھ آیا ہے.روزے کے ابتدائی احکام
ابتداء ہی میں یہ بات بھی جان لیجئے کہ ان آیات میں ایک بہت بڑاتفسیری اشکال ہے. یہ مقام مشکلات القرآن میں سے ہے اور اس ضمن میں مختلف تفسیری آراء ہیں. ان میں سے جس رائے پر میرا دل ٹھکا ہے‘ وہ سلف میں بھی موجود ہے اور خلف میں بھی موجود ہے‘ لیکن متداولہ اُردو تفاسیر میں عام طور پر اس کا ذکر نہیں ہے‘ لہٰذا وہ رائے نگاہوں سے اوجھل ہے. وہی بات اس وقت مَیں آپ کے سامنے رکھوں گا‘ لیکن اس کے لئے تمام دلائل دینا اس وقت ممکن نہیں ہو گا ‘چونکہ اس وقت ان آیات کا مفصّل درس پیشِ نظر نہیں ہے. وہ رائے یہ ہے کہ اس رکوع کی جو پہلی دو آیات ہیں یہ رمضان کے روزے کے متعلق نہیں ہیں‘بلکہ ابتداء میں جب نبی اکرمﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ؐ نے مسلمانوں کو ہر مہینے میں ایامِ بیض کے تین روزے رکھنے کی ہدایت فرمائی. ایامِ بیض سے مراد ہیں روشن راتوں والے دن‘ یعنی تیرہویں‘ چودہویں اور پندرہویں راتوں سے ملحق دن. ان تین دنوں کے روزوں سے متعلق ہدایت اﷲتعالیٰ کی طرف سے حکم کے طور پر ان دو آیات میں آ گئی. یہ ایک رائے ہے اور میں اسے ہی بیان کر رہا ہوں. جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اس کے علاوہ دوسری آراءبھی ہیں‘ لیکن میرا دل اسی پر مطمئن ہوا ہے.
اس موقع پر میں آپ کو بتاتا چلوں کہ جب میں میڈیکل کالج میں پڑھتا تھا اس وقت اﷲ تعالیٰ نے میرے دل میں قرآن مجید کے غور و تدبر کے ساتھ مطالعے کی رغبت پیدا فرمائی تو اسی مطالعہ اور غورو فکر کے نتیجہ میں ان دو آیات کے متعلق وجدانی طور پر میری یہ رائے بن گئی تھی کہ ان کا تعلق ایامِ بیض کے تین روزوں سے ہے‘ جن کا اہتمام دورِ نبویؐ سے تا حال نفلی روزوں کی حیثیت سے چلا آرہا ہے. لیکن اُس وقت جو بھی اردو تفاسیر میرے زیر مطالعہ رہتی تھیں‘ ان میں مجھے یہ رائے نہیں مل رہی تھی.اچانک ایک روز میری نظر سے ماہنامہ’’ زندگی‘‘ رامپور (بھارت) میں ( جو جماعت اسلامی ہند کا ترجمان تھا) ایک مضمون گزرا جس میں ایک صاحب نے مولانا انور شاہ کاشمیریؒ کی اس رائے پر تنقید کی تھی کہ سورۃ البقرۃ کی آیات ۱۸۳ اور۱۸۴ (یعنی تیئیسویں رکوع کی پہلی دو آیات) کا تعلق رمضان المبارک کے روزوں سے نہیں‘ بلکہ ایامِ بیض کے تین روزوں کی فرضیت سے ہے جو ماہِ رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد نفل کے طور پر رہ گئے ہیں. یہی رائے میری تھی. تو مجھے اس مضمون سے تقویت حاصل ہو گئی کہ مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ جن کو بیہقی ٔ وقت کہا گیا ہے‘ کی بھی یہی رائے ہےامام بیہقی ؒ کا شمار اپنے دَور کے ائمۂ محدثین میں ہوتا ہے.
لہذا میرے لئے ’’متفق گردید رائے بو علی بارائے من ‘‘ والا معاملہ ہو گیا. اس طرح بڑی مضبوط دلیل میرے ہاتھ آگئی. اگرچہ مضمون نگار نے حضرت شاہ صاحب ؒ کی رائے پر تنقید کی تھی کہ بڑی بودی ‘ کچی اور بے بنیاد بات ہے جو شاہ صاحبؒ نے کہہ دی‘ لیکن جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا کہ مجھے اپنی وجدانی رائے کی تائید میں حضرت شاہ صاحبؒ کے حوالہ سے ایک دلیل مل گئی. اس کے کافی عرصہ کے بعد جب میں نے امام فخر الدین رازی ؒ کی تفسیر ’’تفسیر کبیر‘‘ کا مطالعہ کیا تو دیکھا کہ انہوں نے بہت سے ان تابعین ـ کے ناموں کے حوالے سے جو مفسرینِ قرآن کی حیثیت سے مشہور ہیں‘ اسی رائے کا اظہار کیا ہے کہ ان دو آیات(۱۸۳ ‘۱۸۴) کا تعلق ان تین دن کے روزوں کی فرضیت کے حکم سے ہے جو اَب ایامِ بیض کے نفلی روزے کہلاتے ہیں. لہذا معلوم ہوا کہ یہ رائے سلف میں بھی موجود تھی اور ہمارے اس دَور میں حضرت انور شاہ کاشمیریؒ جیسے جیّد عالم‘ محدث‘ مفسر اور فقیہہ کی بھی یہی رائے ہے. چنانچہ مجھے اس رائے کو بیان کرنے میں اب کوئی باک نہیں رہا اور اب میں اسے اعتماد کے ساتھ پیش کر رہا ہوں.
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ان آیات کا تعلق ماہ ِرمضان کے روزوں سے نہیں‘ بلکہ ان تین دن کے روزوں سے ہے جن کی ہدایت نبی اکرم‘ﷺ نے دی تھی. اس میں چند رعایتیں بھی رکھی گئی تھیں. ایک یہ کہ اگر ان تین دنوں میں بیمار ہو تو کوئی سے اور تین دنوں میں رکھ لو. اگر تم سفر پر ہو‘ تو بعد میں ان کی قضا ادا کر سکتے ہو . ایک رعایت مزید تھی‘ اور اس کا تعلق اسلام کی حکمت تشریعی سے ہے کہ لوگوں کو تدریجاً خوگر بنایا گیا ہے .اور چونکہ اہلِ عرب روزے سے واقف ہی نہیں تھے‘ وہ صوم کی عبادت جانتے ہی نہیں تھے‘ حضرت ابراہیم ؑ کی طرف منسوب کر کے وہ جن روایات کی پابندی کرتے تھے اور جسے وہ دینِ حنیف کہتے تھے‘ اس میں روزہ نہیں تھا‘ لہٰذا اس روزہ سے مانوس کرنے کے لئے ابتداء میں یہ رعایت بھی رکھی گئی کہ اگر تم صحت مند ہونے کے باوجود اور مقیم ہونے کے باوصف روزہ نہ رکھو تو ایک مسکین کو کھانا کھلادو‘ یہ اس کا فدیہ بن جائے گا. اس کے بعد جب رمضان کے روزے والی آیت(آیت نمبر۱۸۵)نازل ہوئی تو پہلی دو رعایتیں توعلیٰ حالہٖ برقرار رہیں کہ اگر کبھی بیمار ہو یا مسافر ہو تو قضا کر سکتے ہو‘ تعدادبعد میں پوری کر لو‘لیکن وہ جو تیسری مزید رعایت فدیہ ادا کرنے کی تھی‘وہ ساقط ہو گئی.
اس کے بارے میں امام رازیؒ نے یوں لکھا ہے: یہ فقہی اصطلاحات ہیں کہ پہلے روزے کا وجوب ’’علی الــتخییــر‘‘ تھا کہ تمہیں اختیار ہے کہ روزہ رکھو یا اس کے فدیہ کے طور پر ایک مسکین کو کھانا کھلا دو. اب ’’ علی التعیین ‘‘ ہو گیا کہ معین روزہ لازم ہے‘ فرض ہے جو ہر مسلمان کو رکھنا ہو گا. یہ ہے اصل میں تین آیات (آیات ۱۸۳‘۱۸۴‘۱۸۵) میں ربط کی ایک شکل‘ جس کے متعلق میں نے عرض کیا کہ سلف میں بھی یہ رائے موجود ہے اور ہمارے دَور میں حضرت انور شاہ کاشمیریؒ کی بھی یہی رائے ہے.
اب ہم ان آیات ِمبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں. ارشاد فرمایا: یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ ’’اے ایمان والو!تم پر روزہ فرض کیا گیا ‘‘. یہاں یہ بات بھی سمجھ لیجئے کہ عام طور پر ’’صیام‘‘ کا ترجمہ ’’ روزے‘‘ کر دیا جاتا ہے ‘یعنی جمع کے صیغہ میں ‘جو درست نہیں ہے. صیام دراصل صوم کی جمع نہیں ہے‘ بلکہ مصدر ہے. صَامَ‘ یَصُومُ‘ صَوْمًا و صِیَامًاصوم اور صیام دونوں مصدر ہیں. جیسے قَامَ‘ یَقُوْمُ ‘قِیَاماً میں قیام مصدر ہے.