دوسری بات یہ سمجھائی گئی کہ تمہیں اس مشقت و تکلیف میں ڈال کر اﷲ تعالیٰ کو کوئی مسرت حاصل نہیں ہوتی‘ معاذ اﷲ! اس میں تمہارے لئے مصلحت ہے. اور وہ کیا ہے! 
لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ’’تا کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو جائے‘‘. گویا روزے کی مصلحت ہے تقویٰ. تقویٰ کے معنی اور مفہوم کو جان لینے سے یہ مصلحت اور حکم بڑی آسانی سے سمجھ میں آجائے گا. ’’تقویٰ‘‘ کے معنی ہیں ’’بچنا‘‘. قرآن مجید نے اس میں اصطلاحی مفاہیم پیدا کئے ‘یعنی اﷲ کے احکام کو توڑنے سے بچنا‘ حرام سے بچنا‘ معصیت سے بچنا‘ یہ تقویٰ ہے. آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے نفس کے بہت سے تقاضے ہیں. مثلاً پیٹ کھانے کو مانگتا ہے.

فرض کیجئے کہ کوئی حلال چیز کھانے کو نہیں ہے تو اگر کوئی مسلمان اس بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو جائے تو حرام میں مُنہ مار بیٹھے گا. لہذا اس میں یہ عادت ڈالی جائے کہ آخری حد تک بھوک پر قابو پانے میں کامیاب رہے. اسی طرح پیاس کو کنٹرول میں لائے‘ شہوت کو کنٹرول میں رکھے. ساتھ ہی نفس کی اُن خواہشات پر قابو پانے کی مشق حاصل ہو جو دین کے منافی ہوں. لہذا طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک کھانے پینے اور تعلقِ زن و شو سے کنارہ کش ہونے کی جو مشق کرائی جاتی ہے اس کامقصد ہے ضبطِ نفس‘ تاکہ ایک بندۂ مؤمن کو اپنے نفس کے مُنہ زور گھوڑے کے تقاضوں پر قابو پانے اور کنٹرول میں رکھنے کی مشق ہو جائے اور عادت پیدا ہو جائے. یہ ساری گفتگو خاص طور پر پورے رمضان المبارک سے متعلق ہے.

آپ کو معلوم ہے کہ ہماری تقویم قمری ہے جس کے نویں مہینے کو رمضان کہا جاتا ہے. ہر برس قمری اور شمسی سال میں دس گیارہ دن کا فرق واقع ہوتا رہتا ہے. چنانچہ قمری مہینوں اور شمسی مہینوں کے موسموں میں مطابقت نہیں ہو تی. لہذا قمری تقویم کے مطابق گھوم پھر کر رمضان کا مہینہ سال کے ہر موسم میں آتا رہتا ہے. مئی سے جولائی تک ہمارے ملک کے اکثر و بیشتر علاقوں میں شدید گرمی پڑتی رہتی ہے. ایسے گرم موسم میں پیاس سے حلق میں جو کانٹے چبھتے ہیں اس کا عملی تجربہ خاص طور پر روزہ رکھنے کے بعد ہوتا ہے.لیکن چاہے سامنے بہترین مشروبات موجود ہوں‘ اگر آپ روزے سے ہیں تو ان کو پی نہیں سکتے ‘اس لئے کہ اﷲکی اجازت نہیں ہے. کھانے کی مرغوب چیزیں موجود ہیں لیکن بھوک اور نقاہت کے باوجود نہیں کھا سکتے.

کیوں؟ اس لئے کہ اﷲکا حکم نہیں ہے. اسی طریقہ سے بیوی موجود ہے. دن میں اپنی شہوت کوجائز طور پر پورا کیا جا سکتا ہے‘ لیکن نہیں کرتے. کیوں؟ اس لئے کہ اﷲنے ممانعت کر رکھی ہے. اب سوچئے کہ ایک مقررہ وقت سے لے کردوسرے مقررہ وقت تک آپ اگر اﷲ کی حلال کردہ چیزیں پورے تیس دن اس لئے استعمال نہیں کر رہے کہ اﷲ نے اس کی اجازت نہیں دی ‘تو اس سے آپ کے اندر ایک مضبوط قوتِ ارادی کے ساتھ یہ استطاعت اور استعداد پیدا ہو نی چاہئے کہ بقیہ گیارہ مہینوں میں بھی تقویٰ کی روش پر مستقیم رہیں. لہذا پورے رمضان کے روزے دراصل تقویٰ کی مشق ہے. صوم کی فرضیت کے ساتھ ’’لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘ ایک چھوٹا سا فقرہ ہے‘لیکن غور و تدبّر کیا جائے تو یہ دو لفظی جملہ بڑا ہی پیارا‘نہایت عجیب اور بڑی جامعیت کا حامل ہے. اس کے اندر روزے کی ساری ظاہری و باطنی اور انفرادی و اجتماعی فضیلتیں آ گئیں. اور یہ بات روز ِروشن کی طرح مبرہن ہو گئی کہ روزے کا مقصود حصولِ تقویٰ ہے‘ بالخصوص نفس کا تقویٰ یعنی اﷲکی محبت کے شوق اور اﷲکی نا فرمانی کی سزا کے خوف سے اﷲکے اوامرونواہی پر استقلال کے ساتھ مستقیم رہنے کے لئے اپنے نفسِ امّارہ کو قابو میں رکھنے کی تربیت اور ٹریننگ حاصل کرنا. اس کے لئے ہمارے دین کی معروف و جامع اصطلاح ہے ’’ تزکیہ ‘‘.