بات سمجھانے کے لئے اگر دَور جدید کے مشہور ماہر نفسیات فرائڈ کی اصطلاحات استعمال کروں تو وہ یوں ہو گا کہ اپنی 
’id‘ یا ’libido‘ کو کنٹرول میں رکھنے کی مشق. فرائڈ نے کہاہے کہ انسانی شخصیت کی تین سطحیں ہیں . سب سے نچلی سطح کے لئے وہ ’id‘ یا ’libido‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے . یعنی شہوانی‘ نفسانی اور حیوانی تقاضے اور داعیات دوسرے ’ego‘ یعنی مَیں‘انا‘ انانیت یا خودی تیسرے’super ego‘ یعنی انائے کبیر‘اس سے مراد اعلیٰ اخلاقی اقدار ہیں. اگر خودی کمزور ہے تو گویا انسان اپنے حیوانی نفس کا تابع ہے اور اگر خودی مضبوط ہے تو یہ ضبطِ نفس کا کام کرے گی. اس کی بہترین مثال یہ ہے کہ اگر آپ گھوڑے پر سوار ہیں اور باگیں کمزور ہیں تو گھوڑا آپ پر حاوی ہے‘ وہ جب چاہے گا آپ کو پٹخ دے گا یا آپ کو اپنی مرضی سے جدھر چاہے گا لے جائے گا.

اور اگر آپ قوی ہیں اور گھوڑے پر قابو یافتہ ہیں تو یہ گھوڑا آپ کا مطیع ہے‘ آپ جدھر جانا چاہیں گے وہ آپ کو لے جائے گا. تو جس طریقہ سے راکب اور مرکب کا معاملہ ہے‘ یعنی انسان جو گھوڑے پر سوار ہے اور گھوڑا جو انسان کی سواری ہے‘ اسی طرح ہماری خودی اور ہمارے نفس کا معاملہ ہے. ہماری خودی راکب ہے اور نفس اس کا مرکب. خودی کمزور ہو گی تو نفس کے بس میں آجائے گی ‘ نفس جو چاہے گا حکم دے گا اور پورا کرائے گا. گویا ہم اس کے تابع ہیں اور اس کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے ہیں.اگر خودی مضبوط ہے‘ انا مضبوط ہے اور نفس پر قابو یافتہ ہے تو یہ نفس انسان کے لئے نیکیاں‘ بھلائیاں اور خیر کمانے کا ذریعہ بن جاتا ہے اب یہاں ایک بات کا اور اضافہ کر لیجئے کہ غیبت ‘ جھوٹ‘فحش باتیں‘ بد زبانی اور دل آزاری وغیرہ قسم کے گناہوں سے بچنے کی قرآن و حدیث میں بڑی تاکید آئی ہے. لیکن حدیث شریف میں خاص طور پر روزے کی حالت میں ان گناہوں سے بچنے کی مزید تاکید آئی ہے کہ اگر روزے دار نے ان گناہوں سے اجتناب نہیں کیا تو اس روزے سے فاقے اور رات کے قیام میں محض رت جگے کے سوا اس کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اس ضمن میں چند احادیثِ شریفہ میں ان شاء اﷲ آگے بیان کروں گا.اب پھر متن کی طرف رجوع کیجئے . پہلی آیت واضح ہو گئی:

یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ
’’ اے اہل ایمان! تم پر روزہ فرض کیا گیا جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں(اُمتوں) پرفرض کیا گیاتھا ‘تا کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو جائے (تم متقی بن جاؤ).‘‘