اب اگلی آیت اسی کے ساتھ ہے. گویااسی کا ضمیمہ یا اسی کی تشریح ہے. اس میں تمہید ہے کہ گھبراتے کیوںہو؟ گنتی کے چند دن ہی تو ہیں! میں نے ترجمہ میں جو انداز اختیار کیا ہے‘ وہ اس لیے کہ یہاں جو لفظ ’’معدودات‘‘ آیا ہے‘ تو اس وزن پر جمع قلت آتی ہے اور جمع قلت کا اطلاق نو سے کم پر ہوتا ہے. اس سے بھی یہ دلیل ملتی ہے کہ یہ یقینا ایّامِ بیض کے تین روزوں سے متعلق ابتدائی حکم ہے. انتیس یا تیس دن کے روزے تو ’’ایام معدودات‘‘ شمار نہیں ہو سکتے. ان کو گنتی کے دن تو نہیں کہا جاسکتا. چنانچہ یہ بھی درحقیقت اس بات کی دلیل ہے کہ وہی رائے قوی ہے کہ ابتدا میں جو تین دن کے روزے فرض کئے گئے تو وہ انسان کے نفس پر اتنے بھاری گزرنے والے نہیں تھے‘ لہذا ہمت دلانے‘ ڈھارس بندھانے اور تسلی دینے کے لئے فرمایا: اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ ’’گنتی کے چند دن ہی تو ہیں.‘‘
پھر اس میں مزید رعایت بیان فرمائی: فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ ’’پھر جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ تعداد پوری کر لے دوسرے دنوں میں.‘‘ آگے فرمایا: وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ ؕ ’’اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں (پھر نہ رکھیں) تو ان کے ذمہ (ایک روزہ کا) فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے. ‘‘ اس رعایت کا تعلق بھی ایامِ بیض کے روزوں سے تھا. آگے تشویق دلائی: فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ ؕ ’’پھر جو اپنی خوشی سے زیادہ نیکی کمائے تو یہ اس کے حق میں بہتر ہے. ‘‘ اس کے معنی یہ ہوئے کہ روزہ بھی رکھو اور ایک مسکین کو کھانا بھی کھلاؤ تو کیا کہنے! یہ نورٌعلٰی نور والا معاملہ ہو گا. آگے ارشاد ہوا: وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۸۴﴾ ’’اور اگر تم روزہ رکھو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم سمجھ سے کام لو ‘‘.
اس سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ یہ رعایت خصوصی ہے ‘ورنہ پسندیدہ یہی ہے کہ ایک مسکین کو روزے کے فدیہ کے طور پر کھانا کھلانے کی بجائے خود روزہ رکھو. چنانچہ فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے تم کو رعایت تو دی ہے ‘لیکن اگر تم سمجھ سے کام لو تو تم خود جان لو گے کہ روزے میں کتنی حکمت ہے‘ کتنی مصلحت ہے‘ کتنی برکت ہے. اس کی کیا عظمت ہے اور اس کے کیا فائدے ہیں. تو اگر تم یہ سب سمجھ لو گے تو یقیناتم روزہ ہی رکھو گے میرا جو کچھ بھی تھوڑا بہت مطالعہ اور غورو فکر کا معاملہ ہے تو میرے نزدیک ان حضرات کی رائے قوی ہے جو اِن دو آیات کو ابتدائی طور پر فرض ہونے والے ایامِ بیض کے تین روزوں سے متعلق قرار دیتے ہیں. ان آیات میں صومِ رمضان کا حکم نہیں ہے. رمضان کے روزوں کی فرضیت کا حکم بعد میں آیا ہے‘ جس کے بعد ایامِ بیض کے روزے نفل کے درجے میں رہ گئے.
اب آگے اس نوع کی تیسری آیت آتی ہے جو کچھ عرصہ بعد نازل ہوئی‘ لیکن مضمون کی مناسبت سے اس کو اور بقیہ تین آیات کو اسی مقام پر شامل کر دیا گیا. جیسے سورۃ المزمل کے متعلق قرآن مجید کا ہر قاری جانتا ہے کہ یہ مکی سورت ہے‘ لیکن اس کا دوسرا رکوع جو صرف ایک آیت پر مشتمل ہے‘ وہ بعد میں مدنی دَور میں نازل ہوا ہے. اور مضمون کی مناسبت سے یہ آخری آیت سورۃ المزمّل کے ساتھ رکھ دی گئی ہے. اسی طریقے سے یہاں زمانی اعتبار سے اگلی آیت اور پچھلی دو آیات میں بُعد ہے‘ لیکن جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا کہ موضوع کی مناسبت سے اسے پہلے حکم کے ساتھ شامل کر دیا گیا ہے.
اب اگلی آیت کے مطالعہ کی طرف توجہات کو مبذول فرمائیے. ارشاد ہو تا ہے: شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا.‘‘ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ ۚ ’’جو انسانوں کے لئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘.یعنی لوگوں کے لئے ہدایت و رہنمائی بنا کر اور یہ ہدایت و رہنمائی بھی گنجلک‘ مبہم یا پہیلیوں کے انداز میں نہیں‘ بلکہ بڑی روشن اور بہت واضح‘ اور حق و باطل میں تمیز کردینے والے کھلے اور مضبوط دلائل کے ساتھ. یہ ہیں قرآن حکیم کی متعدد شانوں میں سے تین اہم ترین شانیں جو یہاں بیان ہوئیں کہ یہ صحیح راہ کی طرف راہنمائی کرنے والی کتا ب ہے‘ یہ الھدیٰ ہے‘ یہ بیّنات پر مشتمل ہے اور یہ الفرقان ہے‘ حق و باطل میں امتیاز کرنے والی کتاب ہے.
آگے فرمایا: فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ؕ ’’پس جو کوئی بھی تم میں سے اُس مہینہ میں موجود ہواُس پر لازم ہے کہ وہ اس ماہ کے روزہ رکھے.‘‘ یہاں کلمہ ’’ف ‘‘ دونوں جگہ فرضیت کا فائدہ دے رہا ہے. اب یہ صوم رمضان کا ذکر ہو رہا ہے. اس آیت مبارکہ میں ’’ شُھودُ الشّھر‘‘ کے الفاظ نہایت قابل توجہ ہیں‘ یعنی رمضان کے مہینے کا پا لینا. یہاں یہ بات جان لیجئے کہ کرۂ ارض پر ایسے منطقے بھی ہیں جہاں چاند شروعِ مہینہ میں ظاہر ہی نہیں ہوتا‘ جس طرح ایسے خطے بھی ہیں جہاں سورج ہی طلوع نہیں ہوتا یا برائے نام طلوع ہوتا ہے اور وہاں پر گھڑی کے حساب سے نماز ادا کی جاتی ہے. لہذا وہاں تقویم (جنتری) سے حساب کر کے رمضان کے مہینے کے روزے رکھنے فرض ہوں گے. ’’ شُھودُ الشّھر‘‘ میں یہ بات شامل ہے. یہ اعجازِ قرآنی ہے کہ یہ ایسے الفاظ لاتا ہے جن سے استدلال کر کے ہر منطقے اور خطے کے مسائل کے لئے حل نکالے جا سکتے ہیں.
اب ایک اور اہم بات پر غور کیجئے کہ روزوں کے لئے کوئی سا بھی مہینہ چنا جا سکتا تھا. روزے جس مہینے میں بھی رکھے جاتے‘ ضبطِ نفس کی مشق کا مقصد پورا ہو سکتا تھا. ان روزوں کے لئے ماہِ رمضان کا انتخاب کیوں ہوا! اس کا جواب شروع ہی میں دے دیا گیا شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرَاٰنُ یہ نزولِ قرآن کا مہینہ ہے ‘ جس میں دن کے روزے کے ساتھ نبی اکرم‘ﷺ نے قیام اللیل کو تطوّع اور مجعول من اﷲ قرار دیا ہے‘ جیسا کہ ہم حضرت سلمان فارسیؓ ‘ کی روایت میں پڑھ آئے ہیں. اب ذرا قیام اللیل کی اہمیت کو جاننے کے لئے اُمت کے دو جلیل القدر ائمۂ حدیث امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اﷲ کی وہ حدیث بھی سن لیجئے جو اِن دونوں اماموں ؒ نے صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے. کتب احادیث میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم کا جو مرتبہ و مقام ہے‘ مجھے اسے بیان کرنے کی حاجت نہیں ہے‘ چونکہ ہر وہ شخص اس سے ناواقف اور لاعلم نہیں رہ سکتا جو دین سے تھوڑا بہت بھی شغف رکھتا ہو.