حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّ احْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ وَمَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّ احْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ (رواہ البخاری ومسلم) ’’
جس نے روزے رکھے رمضان میں ایمان و احتساب کے ساتھ‘ بخش دئیے گئے اس کے تمام سابقہ گناہ‘ اور جس نے (راتوں کو ) قیام کیا رمضان میں ایمان و احتساب کے ساتھ‘ بخش دئیے گئے اس کے جملہ سابقہ گناہ. ‘‘
آپ نے دیکھا کہ صحیحین کی اس حدیث کی رو سے صیام اور قیام بالکل ہم وزن اور متوازی و مساوی ہو گئے! اس حدیث میں ’’قَامَ‘‘ کا جو لفظ آیا ہے اس کا ترجمہ میں نے ’’ راتوں کو قیام‘‘ کیا ہے.
روزہ اورقرآن کی شفاعت
حضرت عبداﷲبن عمرو بن العاص رضی اﷲتعالیٰ عنہما کی حدیث ملاحظہ فرمائیں! اس حدیث کو امام بیہقی رحمۃ اﷲعلیہ نے’’ شعب الایمان‘‘ میں روایت کیا ہے. حضرت عبداللہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اَلصِّیَامُ وَالْقُرْآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ ‘ یَقُوْلُ الصِّیَامُ اَیْ رَبِّ اِنِّی مَنَعْتُہُ الطَّعَامَ وَالشَّھَوَاتِ بِالنَّہَارِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ وَیَقُوْلُ الْقُرْآنُ مَنَعْتُہُ النَّوْمَ بِاللَّیْلِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ فَیُشَفَّعَانِ
’’روزہ اور قرآن دونوں بندے کی سفارش کریں گے (یعنی اس بندے کی جو دن میں روزے رکھے گا اور رات میں اﷲ کے حضور میں کھڑے ہو کر اُس کا پاک کلام قرآن مجید پڑھے گا یا سنے گا). روزہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پوری کرنے سے روکے رکھا تھا‘ آج میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما (اور اس کے ساتھ مغفرت و رحمت کا معاملہ فرما) ! اور قرآن کہے گا : میں نے اس کو رات کے سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا‘ خدا وند آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما ( اور اس کے ساتھ بخشش اور عنایت کا معاملہ فرما) !چنانچہ روزہ اور قرآن دونوں کی سفارش اس بندہ کے حق میں قبول فرمائی جائے گی (اور اس کے لئے جنت اور مغفرت کا فیصلہ فرما دیا جائے گا اور خاص مراحم خسروانہ سے اسے نوازا جائے گا)‘‘
اس حدیث شریفہ سے بات بالکل منقّح اور مبر ہن ہو گئی کہ حضرت سلمان فارسیؓ کی حدیث میں جس قیام کا ذکر ہے‘ اس سے اصل مراد اور اس کا اصل مدّعا و منشاء یہ ہے کہ رمضان کی راتیں یا ان کا زیادہ سے زیادہ حصہ قرآن مجید کے ساتھ بسر کیا جائے. یقینا اب آپ لوگ سمجھ لیں گے کہ میری اس رائے کی بنیاد کیا ہے کہ پوری رات قرآن کے ساتھ بسر ہونی چاہئے. اس حدیث سے نہ صرف یہ متر شح ہوتا ہے کہ افضل عمل یہ ہے کہ رمضان کی پوری رات قرآن مجید کے ساتھ گزرے‘ بلکہ اس حدیث کی رو سے یہ بات وجوب کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے. میں آپ حضرات کو دعوت دیتا ہوں کہ اس حدیثِ شریفہ کے الفاظ پر غور کیجئے. صیام و قیام کا ہم وزن اور متوازی معاملہ ہے کہ نہیں؟
روزے میں آپ کتنا وقت گزارتے ہیں‘ اس نقطۂ نظر سے صیام و قیام کے متوازی الفاظ پر پھر غور کیجئے. کیا الفاظ کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ جس طرح دن روزے کی حالت میں گزرا ہے ‘ اُسی طرح رات قرآن کے ساتھ گزاری جائے قرآن کی تلاوت قیام یعنی صلوٰۃ کے ساتھ افضل ترین ہے اور بیٹہ کر اس کا مطالعہ بھی بہت با برکت ہے. یہی معاملہ متفق علیہ روایت کا بھی ہے جو میں اس حدیث سے قبل آپ کو سنا چکا ہوں جس میں ایمان و احتساب کے ساتھ صیام و قیام پر نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے تمام پہلے گناہوں کی مغفرت کی بشارت دی ہے. پس ان احادیث سے دین کی روح یہ معلوم ہوتی ہے کہ اگر واقعتاً اس ماہ مبارک کی برکتوں اور عظمتوں سے استفادہ کا عزم اور ارادہ ہے تو اس کا حق یہ ہے کہ دن کا روزہ ہو اور پوری پوری رات قرآن کے ساتھ بسر ہو. البتہ اﷲ تعالیٰ نے یہ نرمی رکھی ہے کہ اسے فرض نہیں کیا.
شاید آپ کو بھی یہ بات معلوم ہو کہ ہمارے یہاں یہ روایت جاری رہی ہے. حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمۃ اﷲ علیہ کی خانقاہ کے متعلق میرے علم میں یہ ہے کہ ان کی حیات میں وہاں پورے رمضان المبارک کے دوران تراویح میں دو دو اور تین تین ہزار آدمی شریک ہوتے تھے. معلوم نہیں ہو سکا کہ اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے یا نہیں. وہاں کا معمول یہ نہیں تھا‘ جس سے ہم واقف اور جس کے ہم عادی ہیں کہ گھنٹہ سوا گھنٹہ میں بیس تراویح اور بعد کے تین وتر پڑھے اور فارغ ہو گئے. بلکہ خانقاہ میں معمول یہ تھا کہ ہر چار رکعات تراویح کے بعد آدھا آدھا گھنٹہ ‘ پون پون گھنٹہ وقفہ ہوتا تھا‘ جس میں لوگ مختلف اشغال میں مصروف ہو جاتے تھے. کچھ لوگ اذکار واوراد میں لگ جاتے تھے‘ کچھ علیحدہ علیحدہ ٹکڑیوں میں بٹ جاتے تھے جن میں وعظ و نصیحت ہوتی تھی‘ کچھ لوگ قرآن مجید سے جو اگلی چار رکعتوں میں پڑھایا جاناہوتا تھا‘اس متن کی تلاوت کر رہے ہوتے‘ اس کے بعد پھر کھڑے ہو کر اگلی چار رکعتیں پڑھی جاتیں. ہر تراویح کے دوران پورے رمضان میں یہ دستور رہتا تھا .اس طرح ساری رات قرآن مجید اور ذکر و وِرد میں گزرتی تھی. یہ اس نقشہ پر عمل کی ایک صورت ہے جو ان دو احادیث کے مطالعہ سے سامنے آتا ہے. اگر خلوص و اخلاص اورللہیت کے ساتھ یہ عمل ہو تو جو لوگ یہ کام کریں ‘ شاید وہ ان بشارتوں کے مستحق بن جائیں جو اِن دو حدیثوں میں ہمارے سامنے آتی ہیں. اﷲ تعالیٰ ہمیں بھی ان خوش بختوں میں شامل فرمائے جن کا ذکر ان احادیث میں ہے!